ثالث: اعتراف کی معراج
مبصر: ریحان کوثر
میں رمضان المبارک کی آمد کا منتظر تھا۔ مجھے سارے زیر التواء کام مکمل کرنے کی دھن سوار تھی۔ کورونا وائرس کی وبا کی متعدد لہروں کے بعد اب لاک ڈاؤن اور مختلف پابندی کو پوری طرح اٹھا لیا گیا تھا۔ زندگی تیز بہت تیز دوڑ رہی تھی۔ میرا رمضان کا معمول ہے کہ میں مطالعے کے لیے چند ایک کتابوں کا انتخاب پہلے ہی کر لیا کرتا ہوں۔ ان میں زیادہ تر دینی علوم اور تاریخِ اسلام سے متعلق کتابیں ہوا کرتی ہیں۔ اسی تگ و دو میں مصروف تھا کہ پوسٹ مین کتابی سلسلہ ثالث تھما کر چلا گیا...
ہمارے دوست نعیم یاد کا ڈیزائن کیا ہوا، زعفرانی، زرد اور سبز رنگوں کے دلکش امتزاج کے سبب سرورق تو دیدہ زیب تھا لیکن پشت پر نگاہ ڈالی تو دل اداس اور غمگین ہو گیا۔ حسین الحق صاحب کی تصویر کے نیچے ’آمد‘ اور ’رفت‘ کی تاریخوں کے درمیان دل و دماغ ’پینڈولم‘ بن کر رہ گیا.... حسین الحق صاحب سے وابستہ یادیں آنکھوں میں رقص کر رہی تھیں۔ میرے ناتواں کاندھوں اور کمزور پشت پر ثالث کا پشت کسی وزن کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ وہ وزن جسے رکھنے کی مجھے کہیں بھی مناسب جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایسے کئی بوجھ انسان اپنی ذات کے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ابھی تو ساہتیہ اکادمی کا میمنٹو بھی مناسب جگہ پر رکھا نہ گیا تھا۔ افسوس نے باطن میں سرگوشی کی،
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
لیکن ثالث کے مشمولات دل و جاں کے اس بوجھ کو کچھ حد تک کم کرنے میں کامیاب ضرور نظر آئے۔ ثالث کا خصوصی گوشہ خراجِ عقیدت دیکھ کر دل کو سکون حاصل ہوا۔ زخم پر مرہم کی طرح محسوس ہوا۔ اس شمارے میں مرغوب اثر فاطمی نے ’الوداع حسین الحق‘ کے تحت خوبصورت اور دلپزیر منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے،
”تم روٹھ گئے ہو تو جاؤ
ہم تمہاری تخلیقات کے سوز و گداز میں
تمہیں ڈھونڈ لیں گے، ڈھونڈ ہی لیں گے
اثر کو یہ یقین کامل ہے
تمہارے کارنامے تمہیں زندہ رکھیں گے
ادب کو تم پر ناز تھا ، ہے اور ر ہے گا
الوداع حسین الحق ، الوداع الوداع“
پروفیسر عین تابش نے ’میرے ہمراز جنوں، شام الم کے دمساز‘ کے ذریعے حسین الحق کے قیام پٹنہ کے زمانے کے عظیم آباد کی علمی اور ادبی شخصیات اور اُس عہد کی ادبی زندگی کا خوبصورت منظر نامہ پیش کیا ہے۔
فیکٹ کو فکشن بنانے والے جادوگر حسین الحق دراصل میرے سیاسی پس منظر پر تحریر کردہ افسانوں کا محرک اور استاد تھے۔ آپ نے سیاسی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی معاملات پر بہترین افسانے اور افسانوی کرداروں کی فوج تخلیق کی ہے۔ ایک مشہور جج کی مرڈرمسٹری کو آپ نے کچھ ہوں افسانہ بنایا ہے کہ ساری حقیقت عیاں کر دی ہے۔ جب بھی میں فیکٹ کو فکشن بنانے کی کوشش کرتا ہوں آپ کے افسانوں کو کسی فارمولے کی طرح استعمال کرتا ہوں۔ آپ نے سیاسی اور سماجی حالات پر تخلیق کیے گئے افسانوں میں قوم و ملت کے درد و الم کو عمدہ جزیات نگاری کے ذریعے پیش کیا ہے۔ جی ہاں! آپ نے ملت اسلامیہ کے حالات کو پیش کرنے کے لیے جزیات نگاری کا سہارا لیا ہے جو کہ افسانہ نگاری میں مشکل ترین کام ہے۔ جبکہ بیشتر یہ کام اپنے بیانیے یا کرداروں کے مکالمے سے لیا کرتے ہیں۔ میں نے سیاسی پس منظر پر جب جب لکھا یا لکھنا چاہا تو میں نے آپ کو کئی کئی بار پڑھا ہے اور ان کی تحاریر میں فیکٹ کو فکشن بنانے کی تدابیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
نثار احمد صدیقی کا مکالمہ ’ حسین الحق سے فکشن پر مکالمہ‘ فکشن کے ہر طالب علم کو ایک مرتبہ ضرور پڑھنا چاہیے، ایک سوال کے جواب میں افسانوی تنقید کے حوالے سے حسین الحق فرماتے ہیں،
”تقریظ تو جدید دور کیا کسی دور کے کام آنے والا اظہار ہی نہیں ہے، یہ ایک قسم کا فریب ہے جو تقریظ نگار مصنف کو دیتا ہے اور خودفریبی ہے جو تقر یظ لکھوانے والا خود اپنے لئے روا رکھتا ہے۔ رہی بات تاثرات کی ۔ تاثر ظاہر کر نے والا اگر باعلم ہے اور ’تحریر متاثہ‘ کے متن اور منطقے کو اس نے پالیا ہے تو یہ تاثر یقیناً متن کی تفہیم میں مددگار ہوگا۔ اس کے باوجود تاثر بنیادی طور پر ذاتی پسند و نا پسند کا اشاریہ ہے اور علمی گفتگو میں ذاتی پسند و ناپسند کہ’میں ایسا سمجھتا ہوں‘ کی کوئی حیثیت علمی اہمیت نہیں ہے۔ ہر فن پارے کو سمجھنے کا ایک ’مقررہ ادبی اور ہمعصر معیار‘ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور تاثر ظاہر کر نے والے کواس معیار سے واقف بھی ہونا چاہئے اور اس معیار پر فائز بھی ہونا چاہئے۔ اگر وہ ان نام عصر ادبی معیاروں سے واقف نہیں ہے یا خود اس معیار کا قاری نہیں ہے تو اس کے لئے خموش رہنا افضل ہے۔۔۔“
اس کے بعد اقبال حسن آزاد نے اپنے مضمون ”حسین الحق...... کچھ یادیں، کچھ باتیں “ میں آپ کے آخری ایام کا ذکر کچھ یوں کیا ہے،
”وہ فیس بک پر بھی ایکٹیو تھے اور میری تحریروں پر خاص نظر رکھتے تھے۔ اکثر میرے کسی افسانے کو پڑھ کر مجھے فون کرتے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔ گزشتہ سال میں نے ’’ثالث ادبی فورم‘‘ کے تحت فیس بک پر ایک افسانوی نشست رکھی تھی اور جس کی صدارت کے لیے میری نظرِ انتخاب، حسین صاحب پر پڑی۔ انہوں نے بخوشی اس ذمہ داری کو قبول کیا اور نہایت حسن و خوبی کے ساتھ صدارت کے فرائض انجام دیے۔ اس وقت تک مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک موذی مرض کے شکار ہو گئے ہیں۔کورونا قہر کے دوران جب ایک ایک کر کے ادبی شخصیتیں رخصت ہونے لگیں تو ان کے لہجے میں مایوسی در آئی تھی۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ بغرض علاج دلی لے جائے گئے ہیں۔ جب وہ دلی سے واپس آئے تو میں نے ان کی خیریت دریافت کر نے کے لیے فون کیا۔ ان کا لہجہ ٹوٹا ہوا اور مایوس کن تھا۔ میں نے مناسب و موزوں الفاظ میں انہیں تسلی دی تو وہ خوش ہو گئے۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بہت جلد اپنے چاہنے والوں کو غم کے اتھاہ سمندر میں چھوڑ جائیں۔“
ثالث ادبی فورم کا میں بھی ایک ادنیٰ سا رکن ہوں۔ ”ثالث افسانوی نشست 2021“ کے خطبہ ء صدارت جو انھوں 26 جولائی 2021ء کو پیش کیا تھا، اس خطبے کے آخر میں فرماتے ہیں کہ
”بس دم آخر اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ہر پہلو سے تنوع صائب ہے مگر کوشش کی جانی چاہئے کہ معیار کے محاذ پر سب سپہ سالار ہی رہیں، پیدل کوئی نہ رہے (گو کہ شاید یہ ممکن نہیں ہے ، پھر بھی اپنی جانب سے کوشش یہی ہونی چاہئے)“
اس نشست میں میرے افسانے ’ریختہ‘ پر آپ نے مختصر لیکن جامع تبصرہ کیا تھا جس کا لفظ لفظ میرے نزدیک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے پرسنل پر بھی خوب دعاؤں اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازا تھا۔
اس کے بعد محمد الیاس انصاری کا مختصر لیکن جامع مضمون ’جہانِ فکشن کا ایک معتبر نام پروفیسر حسین الحق‘ بھی قابلِ قدر اور قابلِ مطالعہ مضمون ہے۔ موصوف نے نہایت جامع انداز میں آپ کے فکشن کا احاطہ کیا ہے آپ لکھتے ہیں،
”پروفیسر حسین الحق ایک ایسے فن کار تھے جنھوں نے سماج کے ہر طبقے سے کردار کا انتخاب کیا ہے اور زمانے وحالات کی بہتر عکاسی کی ہے۔سچا فن کار وہی ہوتا ہے جس کی کہانیوں میں زمانہ بولتا ہے اور زمانہ کے اعتبار سے کردار ہمارے سامنے آتے ہیں۔“
اس طرح ثالث نے حسین الحق صاحب کے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پراثر اور جذبات واحساسات سے بھرپور حقیقی خراج عقیدت پیش کی ہے۔ یہ صرف ایک یادگار ہی نہیں بلکہ یہ تاریخی دستاویز سے کم نہیں! جبکہ ثالث شمارہ نمبر 14 میں آپ پر ایک یادگار گوشہ بھی شائع کر چکا ہے۔
اقبال حسن آزاد صاحب نے اپنے اداریے میں اسی بے باکی اور دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہے جس کے لیے وہ سوشل میڈیا پر مشہور ہیں، آپ نے اپنے سینے کے چھالوں کو کچھ یوں پھوڑا ہے، آپ فرماتے ہیں،
” یونیورسٹیوں میں اساتذہ ریسرچ اسکالرز کو ایسے موضوعات دیتے ہیں جن پر پہلے ہی سے وافر مواد دستیاب ہوتا ہے نتیجہ یہ کہ کاٹو ساٹو کی ترکیب سے مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے۔“
انھوں نے آگے اس کی منطقی مثال بھی دی ہے،
”منٹو کو تو اس قدر تختہ مشق بنایا گیا کہ اس بے چارے کی شکل پہچاننا مشکل ہوگئی ہے۔ کم وبیش یہی حال دوسرے قلم کاروں کا بھی ہے اور اس طرح بار بار کے اگلے ہوئے نوالے ہی سامنے آتے ہیں جن سے کراہیت محسوس ہوتی ہے۔“
میں اس بات کا شاہد ہوں۔ سلام بن رزاق صاحب کا معروف واٹس ایپ گروپ ’بزم افسانہ‘ میں میں نے منٹو کے افسانے ’پھندنے‘ پر چوبیس پچیس صفحات پر مشتمل تبصرہ اور تجزیہ پیش کیا۔ در حقیقت میں بھی اقبال حسن آزاد کے اس قول کا حامی ہوں کہ
”جب تک فن پارے میں کوئی نیا پہلو نظر نہیں آئے تب تک اس پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔“
میں نے پھندنے کی کردار نگاری کا مفصل تجزیہ کیا۔ وہاں بزم میں خوب پذیرائی بھی ہوئی لیکن میں نے طنز کیا کہ مجھے ڈر ہے کہ اسے کوئی شائع نہیں کرے گا۔ یہ پڑھتے ہی اسرار گاندھی صاحب نے فون کیا اور کہا کہ آپ یہ تبصرہ اقبال حسن آزاد صاحب کو بھیج دیجیئے ان شاءاللہ ضرور شائع ہوگا۔ بہرحال اسی دوران بزم میں پروفیسر بیگ احساس صاحب نے اعلان کیا کہ ریحان بے فکر ہو جائیں، پھندنے پر یہ تبصرہ ’سب رس‘ میں میں شائع کروں گا۔ افسوس اعلان کے دو ہفتے بعد ہی بیگ احساس صاحب بھی ہم سے روٹھ کر چلے گئے....
اقبال حسن آزاد صاحب کو میں نے وہ تبصرہ تو نہیں لیکن اپنا افسانہ ’ریختہ‘ بھیج دیا۔ یہ افسانہ انھوں نے نہ صرف ثالث ادبی فورم پر پیش کیا بلکہ آپ ہر منفی تاثرات پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے۔ انھوں نے میری خوب حوصلہ افزائی کی!
بہر کیف! اداریے میں اقبال حسن آزاد صاحب نے ثالث کا اگلا پچھلا سارا نقشہ قاری کے سامنے کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ میں تو حیران اور پریشان ہوں کہ اداریے کی کون کون سی بات کا ذکر کروں!
اس شمارے میں حمد (از:ضیاء فاروقی) و نعت (از:ڈاکٹر ذکی طارق) کے بعد ضیاء فاروقی ، ڈاکٹر ذکی طارق، جمال اویسی ، اسحاق وردگ، شمسہ نجم، نوشاد احمد کریمی اور اصغر شمیم کی غزلیں اور افتخار حیدر، امین کنجاہی کی نظمیں شاملِ اشاعت ہیں۔ یہ تمام معیاری اور عمدہ ہے۔ اس کے بعد خراج عقیدت کے تحت اول الذکر پانچ مضامین شامل ہیں۔
پروفیسر غضنفر علی صاحب سے انٹرویو ”بات کر کے دیکھتے ہیں“ ادب کے طالب علموں کے لیے کسی سوغات سے کم نہیں! یہ انٹرویو ذہین اور نوجوان ریسرچ اسکالر اور ادیبہ ڈاکٹر رمیشا قمر نے لیا ہے۔ مکالمہ دلچسپ، معلوماتی اور پر مغز ہے۔ سوال بھی خوب اور جواب بھی خوبصورت ہے۔
غضنفر سر سے میں نے منٹوں نہیں بلکہ گھنٹوں ٹیلی فونک گفتگو کی ہے۔ کئی آن لائن نشست میں بھی ان کے ساتھ رہا۔ آپ لفظوں کے جادوگر ہیں۔ بات سے بات بنانا اور بات کو انجام تک پہنچانے میں آپ ماہر ہیں۔ لیکن اس دلچسپ انٹرویو میں ایک جواب پر میری فکر و نظر کی سوئی اٹک سی گئی، غضنفر سر مثبت اور تعمیری باتیں کرنے میں ’سردار‘ اور اثر دار ہیں، اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں آپ کا جواب ملاحظہ فرمائیں،
”میری رائے اچھی نہیں ہے مجھے اس زبان کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا جبکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اردو کے قمقمے کثرت سے دکھائی دیتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ قمقمے نہیں جگنو ہیں جو ذرا دیر کے لیے جھلملاتے ہیں اور فضا پر جیوں کے تیوں اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ وجہ صاف ہے اسکولوں سے اردو کی تعلیم ختم ہوتی جارہی ہے اردو والوں کے بچے ہی اردو نہیں پڑھتے جو اردو سے جڑے ہوئے ہیں یا جن کے بچے اردو اسکولوں میں پڑھتے ہیں انھیں ترچھی نظر سے دیکھا جا تا ہے جن کی یہ مادری زبان رہی ہے ان کے گھروں سے بھی اب یہ بے دخل ہورہی ہے کسی بھی جانب سے اس کی بقا کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جار ہا ہے جذباتی رشتہ بھی اب کسی کا اس کے ساتھ نہیں رہ گیا ہے ایسے میں یہ سوچنا کہ اس کا مستقبل تابناک ہوگا ایک خوبصورت خواب کے علاؤہ کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔“
غضنفر صاحب نے آگے اُردو کی طاقت اور اس کے راستے کے روڑے کا بھی ذکر کیا ہے باوجود اس کے مجھے شک یا گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ جواب نامکمل ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ رہ گیا ہے....
ہمیشہ کی طرح اس شمارے میں اردو دنیا کا منفرد اور ممتاز کالم ’اعتراف‘ بھی شامل ہے۔ اس کالم کے تحت ان ادیبوں اور شاعروں پر مضامیں شائع کیے جاتے ہیں جو حیات ہیں اور اچھا لکھ رہے ہیں۔ ان میں معروف و غیر معروف دونوں قسم کے قلم کار شامل ہیں۔
اس شمارے میں مرغوب اثر فاطمی کی غزل گوئی... ایک مختصر جائزہ (پروفیسر حسین الحق)، جنسی ترجیحات کا تخلیقی بیانیہ: اسرار گاندھی کے افسانے (شافع قدوائی)، شعیب نظام شخص اور شاعر (صغیر افراہیم) خالی فریم بھرنے کی کاوش (مشتاق احمد نوری)، اقبال حسن آزاد کی افسانہ نگاری (پروفیسر اسلم جمشید پوری)، طارق چھتاری کے افسانوں کا فکری و فنی نظام (صدام حسین) ڈاکٹر منصور خوشتر کا ادبی شعور (ڈاکٹر وصیہ عرفانہ)، حقانی القاسمی: ایک تخلیقی نقاد (ڈاکٹر قسیم اختر) اور ڈاکٹر اجے مالوی: شخصیت اور فکر و فن کی روشنی میں (ڈاکٹر صالحہ صدیقی) شامل ہیں۔
ثالث کا مستقل کالم ’اعتراف‘ صرف ایک کالم نہیں بلکہ نئے اور اچھا لکھنے والوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے آئندہ صدیوں میں اس کالم کو یاد کیا جائے گا۔
اس شمارے میں اودھ کی چند معروف خواتین قلم کار (ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، مظہر امام شخصیت اور شاعری(ڈاکٹر احسان عالم)، ادبی مجلہ’’ثالث‘‘ کے اداریے (ڈاکٹر جگ موہن سنگھ)، صفدر امام قادری کاسفرنامہ بنگلادیش ایک تجزیاتی مطالعہ (شبنم پروین)، دشت وحشت کا شاعر : ذوالفقار نقوی (پروفیسر قدوس جاوید)، شاہ نجم الدین آبرو کی غزل اور اس کی خصوصیت (ڈاکٹر سیفی سرونجی)، مجسم کیف: کیفی اعظمی (وسیم فرحت(علیگ)، آفتاب اقبال شمیم کے کلام میں انسانیت کا پیغام (راتھر سلطان روحی) اور انور سجاد انہدام اور تعمیر نو کا مسافر (عرفان رشید) کل نو تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان تمام میں ایک بات یکساں طور پر نظر آتی ہے کہ تمام مقالات میں شخصیت اور فن پر مختلف زاویوں اور نکتہ نظر سے گفتگو کی گئی ہے اور یہ عصری تقاضوں کے آئینہ دار ہیں۔
افسانوں کی بات کریں تو اس کالم میں ’کٹوا‘ پہلا افسانہ ہے جو معروف و مقبول افسانہ نگار شموئل احمد کے مشاق قلم کا نتیجہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار روندر تیاگی ایک براہمن ہے جو جنسی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ختنہ کروا بیٹھتا ہے اور ملک کے منافرت سے لبریز اور زہر آلود تالاب میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اس کے جسم پر لپٹی اس کی جنیو بھی کوئی کام نہیں آتی۔ ختنہ کے بعد روندر کے سامنے جو حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ تمام واقعات کی شاندار منظر نگاری کی گئی ہے۔ ایک ایک منظر اور ہر منظر کا پس منظر آنکھوں میں رقص کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ افسانے میں ختنہ کے عمل سے اکثریت کے جسم میں اقلیت کی روح منتقل کر دی گئی ہے۔ اقلیت کے درد و الم کو پر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اختتام مثبت اور تعمیری ہے۔ اس افسانے پر تفصیلی گفتگو کی جانی چاہیے۔ جنسی پلاٹ کے باوجود دور حاضر کے کئی مسائل اور اس کے حل کی خاطر افسانے کو تخلیق کیا گیا ہے۔
رینو بہل کا افسانہ ’مجازی خدا‘ فیس بک اور سوشل میڈیا کا ڈراؤنا خواب اور گھناؤنا کھیل ہے۔ فیس بک کے ذریعے ادھیڑ عمر کے مردوں کو مجازی خدا بنا کر بیوقوف بنانے کی ایک عمدہ کہانی بنائی گئی ہے۔ کردار نگاری اور جزیات نگاری کے ساتھ ساتھ منظر نگاری اور مکالمے بھی مناسب اور متوازن ہے۔
شاکر انور کا افسانہ ”محبت..... ایک عام سا واقعہ“ عمدہ اور ’خاص‘ سا واقعہ ہے۔ عنوان تا اختتام لاجواب اور شاندار ہے۔ دبئی کی خوبصورت منظر نگاری اور جذبی اور سیما کا بڑا ہی معصوم لیکن حساس کردار پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ افسانے میں پاکستانی ڈرامائی انداز در آیا ہے جو مجھے ذاتی طور پر بے حد پسند ہے۔
شاہین کاظمی کا افسانہ ’چنبے دی بوٹی‘ پنچابی مٹی سے گوندھا گیا سوندھا سا نہایت خوبصورت افسانہ ہے۔ راوی کا کردار دلچسپ ہے اور منفرد ہے۔ احمد دین اور راوی کی گفتگو دلچسپ اور عمدہ ہے۔ اس پر تو فلم بنائی جانی چاہیے۔ بلکہ یہ کسی ناول کا پلاٹ معلوم ہوتا ہے۔ ایک کمال یہ ہے کہ پنجابی مکالمے کہیں پر بھی بوجھ معلوم نہیں ہوتے اور نہ ہی کہانی میں کسی قسم کا خلل پیدا کرتے ہیں۔ کلاسیکی طرزِ تحریر کی خوشبوؤں سے مہکتا ہوا عمدہ افسانہ ہے۔ اختتام بھی بہت خوبصورت ہے۔ بھرپور افسانوی فضا کے سبب افسانہ مکمل اور متوازن نظر آتا ہے۔ یہ ایک کھرا افسانہ ہے۔
افسانہ ’حکایت در حکایت‘ افسانہ نگار اقبال حسن آزاد کا ایک کامیاب تجربہ معلوم ہوتا ہے جو ہر اعتبار سے کامیاب اور مکمل ہے۔ بچوں، بیوی اور والدین کے متعلق تین حکایت بڑے ہی دلچسپ انداز میں اس کہانی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور اس کے بعد زندگی کی بدلتی ہوئی صورتحال کو حکایت کے دھاگوں سے پرویا گیا ہے۔ فلسفیانہ اور نفسیاتی طرزِ تحریر نے افسانے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ افسانے میں راوی نے کئی عمدہ اور قابل ذکر مکالمے ادا کیے جو علم نفسیات کے آئینے میں ڈی کوڈ کیا جانا چاہیے۔
بارگاہ خداوند (قرب عباس)، دھوبی گھاٹ (ڈاکٹر مریم عرفان)، میلی عورت (ڈاکٹر شکیل احمد خاں) اور خلا (نوشابہ خاتون) چار مزید افسانے بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
نرمل ورما کی کہانی دہلیز کا ترجمہ صابر رضا رہبر نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ اس کے بعد ناول کا آخری باب ’راج سنگھ لاہور یا‘ (اقبال حسن خان) شامل ہے۔
آخری حصے میں، دیکھ لی دنیا ہم نے (مبصر: علی رفادفتیحی) ، چراغاں سر خواب (مبصر سلیم سرفراز), معروف و غیر معروف افسانہ نگار....، اردو میں دلت افسانہ....... نیا حمام ، دربھنگہ ٹائمز (مبصر اقبال حسن آزاد) منتخب تبصرے اور جائزے شامل کیے گئے ہیں۔
مشتاق احمد نوری، سلیم انصاری، ڈاکٹر شاہد جمیل، ڈاکٹر احسان عالم ، ڈاکٹر شاذیہ کمال، اصغر شمیم ،ڈاکٹر جگ موہن سنگھ، وسیم احمد فدا، ناہید طاہر،ڈاکٹر گلاب سنگھ، شموئل احمد، ضیاء فاروقی، شعیب نظام، ابرار رحمانی، عشرت ظہیر، ڈاکٹر ذکی طارق، وسیم فرحت(علیگ)، جمال اویسی، ڈاکٹر احمد علی جوہر،ابو محمد، نہاں ،دانش اثری اور تسنیمہ پروین وغیرہ مشاہیر ادب کے ثالث پر تبصرے اور مکتوبات آخری کالم میں پیش کیے گئے ہیں۔
سہ ماہی ثالث ، شمارہ نمبر 20 کا حاصلِ مطالعہ درج ذیل ہیں۔
• شمارہ میں مضامین اور مقالات کے انتخاب کے دوران طوالت کے بجائے مواد پر زور دیا گیا ہے۔ کاپی پیسٹ اور بار بار دہرائے جانے والے مقالات سے پرہیز صاف نظر آتا۔
• مختصر لیکن جامع مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔
• شمارہ عصری تقاضوں پر کھرا اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
• حالات حاضرہ پر مشتمل مواد کو ترجیح دی گئی ہے۔
• نئے اور اچھا لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہر کالم میں کئی گئی ہے۔
• افسانوں اور نظموں کے انتخاب میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
• شعری و نثری توازن برقرار رکھا گیا ہے۔
بیشک اس عمدہ شمارے کی اشاعت کے لیے ٹیم ثالث بے انتہا داد و تحسین کی مستحق ہے۔
0 Comments