Ticker

6/recent/ticker-posts

حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ | از: ڈاکٹر محمد اظہر حیات

حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ
از: ڈاکٹر محمد اظہر حیات

ناگپور میں اردو زبان و ادب کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے ہی ہمیں ایسے نام مل جائیں گے جن کے علم و فضل کی بنیاد پر ہندوستان میں ناگپور کو پہچانا جاتا ہے ۔ ان چند ہستیوں میں حافظ محمد ولایت اﷲ کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔
حافظ صاحب ہندوستان کے سابق نائب صدر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہدایت اﷲ صاحب کے والد بزرگوار تھے ۔ ان کے آباواجداد کا وطن بنارس تھا۔ حافظ صاحب کے والد کا نام محمد قدرت اﷲ تھا۔ وہ زود گو شاعر کثیرالتصانیف بزرگ اور بااثرشخصیت کے مالک تھے ۔ غدر کے زمانے میں قومی و ملکی افرتفری کے سبب انہوں نے ہجرت کر کے بھوپال کے پاس سیہور نامی شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے قدرت اﷲ ریاست بھوپال میں کئی اہم منصب پر فائز ہوئے ۔ ان کے چار بیٹے تھے ۔ محمد ولایت اﷲان کے دوسرے نمبر کے فرزند تھے۔
محمد ولایت اﷲ ۴/ ستمبر ۱۸۷۳ء کو سیہور میں پیدا ہوئے ۔ صرف نو سال کی عمر میں انھوں نے قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ اس سے ان کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سیہور میں حاصل کی بعد ازاں جبلپور سے انٹرنس کے امتحان میں نمایاں کامیابی کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے محمڈن اینگلو اور ینٹل کالج علی گڈھ میں داخلہ لیا۔ ۱۸۹۵؁ء میں بی۔اے ۔ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
ایم۔اے ۔ او کالج میں حافظ صاحب کا زمانہ طالب علمی بڑا یادگاررہا۔ ایک طرف مولانا محمدعلی جوہرؔ، مولانا شوکت علی، بابائے اردو مولوی عبدالحق وغیرہم جیسے با کمال حضرات ان کے ہم مکتب تھے تو دوسری طرف سر سید احمد خاں ، مولانا الطاف حسین حالی، محسن الملک اور مولانا شبلی نعمانی جیسی قد آور شخصیات ابھی بقید حیات تھیں ۔ جن کے افکار و خیالات سے پوری قوم متاثر ہورہی تھی۔ حافظ ولایت اﷲ کو بھی ان بزرگوں کی صحبت نصیب ہوئی۔ جس سے ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہوئی اور فطری صلاحیتوں کو جِلا ملی۔
۱۸۹۰ء میں بی۔ اے ۔ پاس کرنے کے بعد حافظ صاحب اپنے وطن لوٹ آئے ۔ اور روزگار کی تلاش میں ۱۸۹۷ء میں ممالک متوسط و برار کی طرف رخ کیا۔ یہاں پہلی تقرری چاندہ میں تحصیلدار کی حیثیت سے ہوئی۔ بعد ازاں ایڈیشنل کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ۱۹۲۹ء میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے ریٹائر ڈ ہوئے ۔ اورناگپور کو ہمیشہ کے لیے جائے مسکن بنا لیا۔
حافظ صاحب نے سرکاری ملازمت کے فرائض نہایت حسن و خوبی کے ساتھ انجام دئیے جس کے صلے میں حکومت نے انہیں خان بہادر ’قیصر ہند، آئی ایس او اور بیج آف سینٹ جونس ایمبولبنس جیسے گراں قدر خطابات سے سرفراز کیا۔
حافظ صاحب خوش مزاج ظریف طبیعت اور بزلہ سنج تھے ۔ بے تکلّف دوستوں کی محفل میں ان کی گلفشانیِ گفتار سننے کے قابل ہوتی۔ ان کی ظریفانہ طبیعت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے راوی مرحوم پروفیسرڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک شام حافظ صاحب دوستوں کے ساتھ اپنے مکان کے سامنے باغ میں بیٹھے تھے ۔ ایک شادی شدہ جوڑا سامنے کی سڑک پر سے گذر رہا تھا ایک دوست نے حافظ صاحب کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور کہا حافظ صاحب آپ کو بھی اسی طرح جوڑے کے ساتھ گھومنا چاہئے ۔ حافظ صاحب کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی انھوں نے برجستہ کہا ’’لوگ کہیں گے کیا اس لیے ایسی صورت کو چالیس سال تک پردے میں رکھا تھا۔‘‘
طبیعت کی شگفتگی اور بذلہ سنجی کا اثرکلام میں بھی نمایاں نظرآتا ہے ۔
’’سوز و گداز‘‘ کے نام سے ۱۹۴۱؁ء میں ایک مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ۳۳۰ صفحات پر محیط اس مجموعہ میں غزلیں ، نظمیں ، قصائد اور قطعات شامل ہیں ۔ حافظ صاحب کی دوسری تصنیف ’’تعمیرِ حیات‘‘ اگست ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی یہ ایک طویل نظم ہے جس میں اصلاحی پہلو غالب ہے ۔
حافظ صاحب کا مخصوص میدان یوں تو نظم گوئی تھا۔ اس میں وہ مزاحیہ نظموں کے بادشاہ کہے جا سکتے ہیں ۔ لیکن اردو کے بیشتر شعراء کی طرح انہوں نے بھی شعرگوئی کی ابتداء غزل سے ہی کی تھی۔ ’’سوزوگداز‘‘ میں غزلیات کے تحت ۵۳ غزلیں شامل ہیں ۔سادگی، سلاست، ندرت خیال اور جدّت تخّیل ان کی غزلوں کے نمایاں اوصاف ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھئیے :
عشق کہتا ہے میرے نالوں سے
دل یہ کہتا ہے بار بار مرا
غیر کی اتنی کہاں ہمّت کہ وہ آئے یہاں
ناصح کو نہ سمجھا تھا کہ کم ظرف ہے ایسا
دل لگی تھی جو دل لگا بیٹھے
کوئی کرتا ہے انتظار مرا
کس طرح ہم کو یقیں ہو آپکا ایمانہ تھا
کیا دھوم مچائی ہے جو تھوڑی سی پلادی
دنیا کی بے ثباتی اور شہر خموشاں کی ویرانی پر کیا ہی بلیغ تبصرہ ہے ؂
ہزاروں نامور آکر بسے شہر خموشاں میں
مگر اس سر زمیں کی پھر بھی ویرانی نہیں جاتی
حیات بعد الممات کی گتھی کس طرح سلجھاتے ہیں ؂
مرنا جسے کہتے ہیں وہ ہے زیست کا آغاز
ملتی ہے بقا سب کو اسی راہ فنا میں
حافظ صاحب نے سہل ممتنع میں بڑی کامیاب غزلیں کہی ہیں ۔ چند اشعار ملاخطہ فرمائیے :
راہ پر مڑ کے کیوں مجھے دیکھا
نہیں پہلو میں جب قیام و قرار
کی محبت کی ابتداء تونے
اے خدا کیوں یہ دل دیا تونے
اس بحر میں ایک حمدیہ غزل کے یہ اشعار بھی دیکھیے :
مجھ کوپیدا کیا خدا تونے
دور پھیکا نہ بعد مردن بھی
اور سب کچھ عطا کیا تونے
پاس اپنے بلا لیا تونے
حافظ ولایت اﷲ حافظ کا اصلی جوہر تو میدانِ ظرافت میں کھلتا ہے ۔ اکبر الہ آبادی کے رنگ میں انھوں نے خوب کہا ہے ۔ اکبر کا تتبع اور تقلید انھوں نے کچھ اس طرح کیا کہ لوگ انہیں اکبر ثانی کہنے لگے ۔ سوزوگداز میں مزاحیات کا الگ عنوان قائم کیا گیا ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت ۸۶ نظمیں شامل ہیں ۔ اکبر کی طرح وہ بھی مسلمانوں کی زبوں حالی، اخلاقی پستی اور اسلامی اقدار سے بیزاری پر کڑھتے ہیں ۔ مولویوں اور علماء کی بے حسی پر جا بجا طنز کرتے ہیں ۔
اکبر نے جن موضوعات پر اشعار کہے ہیں کم و بیش وہی موضوعات ہمیں حافظ صاحب کے کلام میں بھی نظر آتے ہیں ۔ مثلاً پردہ، حالات حاضرہ، زبان، مسلمانوں کی زبوں حالی فیشن پرستی اور قوم و وطن کی محبت کے موضوعات دونوں کے یہاں مشترک نظر آتے ہیں ۔
پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی کے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بی بیاں
پوچھا جو ان سے آپکا پردہ وہ کیا ہوا
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
حافظ صاحب کے یہ اشعار دیکھیے
ایک دن وہ تھا کہ ہر جانب یہ ہوتی تھی پکار
پھر یہ دیکھا لوگ کہتے تھے بہ آواز بلند
مرد اب رہتے ہیں پیچھے بیبیاں ہیں پیش پیش
عام جلسوں میں صفِ اوّل میں ہے ان کی نشست
شکل جس کی نہ ہو اچھی وہ رکھے پوشیدہ
بیبیاں پردہ میں ہو جائیں کہ مرد آتے ہیں یاں
مرد کرلیں اس طرف منہ آرہی ہیں بیبیاں
اور سب ان کے لیے کرتے ہیں خالی کُرسیاں
بیوی لکچر دیتی ہیں خاموش بیٹھے ہیں میاں
اچھی صورت کے لیے حاجتِ پردہ کیا ہے
شیخ واعظ، مولوی پنڈت کی ظاہرداری و ریاکاری اکبر کا محبوب موضوع تھا۔ حافظ صاحب نے بھی اس موضوع پر خوب شعر کہے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے : ؂
شیخ کی عادت ہوئی اتنی خراب
شیخ صاحب برسر منبر بہت آساں ہے وعظ
آپ نے اپنا بنارکھا ہے دستور العمل
ان کو زمزم بھی کشیدہ چاہئیے
پستئی اخلاق کی حالت مگر کیسے بنے
دعوتیں کھائیں لیا نذرانہ اور چلتے بنے
اکبر کے یہاں سماجی برائی چندہ اور غیر ضروری کمیٹیاں اس موضوع پر بھی اشعار ملتے ہیں ۔ اکبر کی طرح حافظ صاحب کی گلفشانی دیکھئیے : ؂
چلتے ہیں سارے کام چندوں سے
لسٹ چندوں کی چند روزہ ہے
نقد تحویل کے امین بنے
سخت مشکل حساب میں یہ ہے
صرف ان کا حساب ہے غائب
بعد میں وہ کتاب ہے غائب
اب جو پوچھو جواب ہے غائب
کہ وہاں بے حساب ہے غائب
ایک طویل نظم ’’تذکیرو تانیث بُزبان اردو‘‘ کے منتخب چند اشعار ملاحظہ کیجئے : ؂
بہت پر لطف گو اردو زباں ہے
حجاب و پردہ گھونگھٹ اور برقع
مونث ہے جناب شیخ کی ریش
مذکر ہو گیا گیسوئے جاناں
دُوپٹّہ عورتوں کا ہے مذکر
فراق و وصل ہیں دونوں مذکر
ہوئیں جب مونچھ اور داڑھی مونث
مذکر اورمونّث کی ہے دقّت
مذکر ہے یہ کل سامانِ عورت
ہو کچھ بھی اس کی مقدار و طوالت
ہوئی اس کی طوالت کی یہ عزّت
مونث کیوں ہے دستارِ فضیلت
مونث ہے مگر واعظ کی صحبت
تو پھر کرنا پڑا دونوں کو رخصت
حافظ صاحب ہندی اور انگریزی کے الفاظ بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے تھے ایک طویل طنزیہ نظم ’’نوجوانوں سے خطاب‘‘ کا مطلع بھی دیکھئے :
نوجواں تجھ کو سزاوار ہو یورپ کا چلن
یہ دعا ہے کہ مبارک ہو تجھے یہ فیشن
اس نظم میں ڈائمن،مینشن، سیمی کولن، کٹھن، آرگن، رشین، لوشن، انجن، جرمن، لندن ، لیٹن، کچن، ٹفن، سمّن، رن، وغیرہ انگریزی قوافی کا استعمال بڑی خوبی سے کیا گیا ہے ۔ ۷۲ اشعار کی اس نظم میں ۶۰ مقامات پر انگریزی لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے ۔
حافظ صاحب کے ہاں طنز و مزاح ایک خاص رنگ و آہنگ کا حامل ہے ۔ وہ مزاج کے ساتھ طنز کی آمیزش اس طرح کرتے کہ قاری زیر لب مسکراتا اور پھر سنجیدہ بھی ہو جاتا۔ آخر میں شاعر کے جذبہ خلوص کا قائل ہو جاتا۔ در حقیقت حافظ صاحب کے کلام کی یہی خوبی انہیں وسط ہندکا اکبر ثانی بناتی ہے ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ناگپور میں حافظؔ صاحب طنز و ظرافت کے نقشِ اوّل ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ اب تک ان کا کوئی ثانی نہیں ہے تو شاید غلط بھی نہ ہو۔
حافظؔ صاحب نے پیرانہ سالی کے سبب ۱۲/ نومبر ۱۹۴۹ء کو رحلت فرمائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۶/ برس تھی۔ زری پٹکا قبرستان ، ناگپور میں تدفین عمل میں آئی۔ بیدل ؔنے تاریخ وفات نکالی :
ہے مرگ حضرت حافظ گراں بار
ہوئے بے چین سب اپنے پرائے
بزرگوں کی گئی آخر نشانی
ادب کی محفلیں تھیں ان کے دم سے
جدائی ہے بزرگِ محترم سے
جہاں خالی ہوا اہلِ قلم سے
دعا بیدل ؔکی ہے یہ بہتر تاریخ
الٰہی بخش دے ان کوکر م سے

Post a Comment

0 Comments