والدین کے حقوق
دنیا دار فانی ہے۔ یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، چاہے وقت کا بادشاہ ہو، چاہے فقیر ہو سب فنا ہو جائیں گیں۔ دنیا کے ہر جاندار کو موت آنی ہے، اور موت ایک حقیقت ہے۔ انسان زندگی جس طرح بھی گزاریں، اسے ہر لمحہ کا حساب الله تبارک و تعالیٰ کو دینا ہے۔باقی رہنے والی چیز نیک اعمال ہیں، یہی نیک اعمال قبر کے اندر حفاظت کریں گے۔ پل صراط پر، میدان حشر میں انسان کے ساتھ ساتھ ہونگے۔ یہ نیک اعمال حقوق کی ادائیگی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک الله کا حق دوسرا بندوں کا حق۔ بندوں کے حقوق یہ ہے کہ پڑوسی کا حق ادا کریں، اولاد کا حق ادا کریں، اور والدین کی خدمات کر کے ان کا حق ادا کریں۔
الله تعالیٰ کے حق کے بعد انسان پا سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے، ماں باپ کے حق کی اہمیت و عظمت کو قرآن شریف میں کئی جگہ الله تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔
ترجمہ :"اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم الله کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو"
حضرت عبدالله ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ "میں نے حضور سے پوچھا کہ کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" حضور ؐ نے فرمایا "وہ نماز جو وقت پر پڑھی جائے " میں نے پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا "ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک " میں نے پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا "خدا کی راہ میں جہاد کرنا "
ایک اور حدیث میں حضرت امامہ ؓ فرماتے ہیں، ایک شخص نے حضور سے پوچھا "یا رسول الله ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ " حضور ؐنے ارشاد فرمایا "ماں باپ ہی تمھاری جنت ہے اور ماں باپ ہی دوزخ۔"
یعنی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کر کے جنت کے مستحق بنوگے اور ان کے حقوق پامال کر جہنم کا اندھن بنیں گے۔ والدین کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ شکر گزاری کے ساتھ رہیں۔ والدین کی خدمات کا صلہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ملتا ہے۔کیونکہ ہمارے والدین ہمارے دنیا میں آنے کا سبب ہے اور ہم ان کی نگرانی میں پرورش پاتے ہیں۔ او ر ہماری پرورش میں والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون قربان ہوتا ہے۔ ہماری پرورش میں جانی مالی قربانیاں دی جاتی ہے۔ہمارے والدین بڑھاپے کی حالت میں ہماری خدمات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ الله کے نبی ؐ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ "وہ آدمی ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو " لوگوں نے پوچھا اے الله کے نبی ؐ "کون آدمی ؟" آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ "وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، دونوں کو پایا، یا کسی ایک کو، پھر ان کی خدمات کر کے جنت میں داخل نہ ہوا " ایک اور حدیث جس میں حضرت عبدالله ؓ کا بیان ہے کہ "ایک آدمی اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر نبی کریم ؐ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا، تو بنی کریم ؐ نے فرمایا، جاؤ اپنے ماں باپ کے پاس واپس جاؤ اور ان کو اسی طرح خوش کر کے آؤ، جس طرح تم ان کو رلا کے آ ئے ہو۔"
ماں کی خدمات کا خصوصی خیال رکھئے:
عورت کو الله تعالیٰ نے طبعاً کمزور اور حساس بنایا ہے۔ خصوصا ً ماں کو اور بھی زیادہ حساس بنایا ہے۔ وہ آپ کی خدمت کی نسبتاً زیادہ مستحق ہے۔ کیونکہ ماں کے احساس اور قربانیاں باپ کے مقابلے کہیں زیادہ ہے، اس لیے دین میں ماں کا حق زیادہ بتایا ہے، اور ماں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ قرآن شریف میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
(الاحقاف آیت ١٥ )
ترجمہ :اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لیئے لیئے پھری۔ اور تکلیف ہی سے جانا۔پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ تکلیف وہ مدت تیس مہینے ہے " قرآن پاک نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے خصوصیات کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے کٹیھنائیاں جھیلنے کا نقشہ بڑے ہی اثر انداز میں کھنچا ہے، اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جاں نثار ماں، باپ کے مقابلے میں تمھاری خدمت و سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ اور پھر اسی حقیقت کو الله کے نبی ؐ نے بھی کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں۔ایک شخص نبی کریم ؐ کی خدمت میں آیا اور پوچھا :"اے الله کے نبی ؐ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟" آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے پوچھا، پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے پوچھا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے کہا پھر کون؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیرا باپ " اس حدیث میں الله کے نبی ؐ نے ماں کی اہمیت کو تین مرتبہ بیان فرمایا، اس میں بہت ساری حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ماں تین تکلیفوں کو برداشت کرتی ہے۔ (١) حمل کے زمانے کی تکلیف۔ (٢) پیدائش کے وقت کی تکلیف۔ (٣) دودھ پلانے کی تکلیف۔ ان تکلیف کی وجہ سے ماں کی اہمیت زیادہ ہے۔
حضرت اویس قرنی ؒ، بنیؐ کریم کے دور میں موجود تھے۔ مگر آپ ؐ کی ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ ان کی ایک بوڑھی ماں تھیں۔ دن رات انہی کی خدمت میں لگے رہتے، نبی کریم ؐ کے دیدار کی بڑی آرزو تھی اور اس تمنا کے پوری ہونے کے لیے تڑپتے رہتے۔ چنانچہ حضرت اویسؒ نے آنا بھی چاہا، لیکن نبی کریم ؐ نے منع فرمایا۔ فریضہ حج ادا کرنے کی بھی ان کے دل میں بڑی آرزو تھی لیکن جب تک ان کی والدہ زندہ رہیں، ان کی تنہائی کے خیال سے حج نہیں کیا۔ اور ان کے وفات کے بعد ہی یہ آرزو پوری ہوئی۔ والدہ کی خدمات کا ان کو یہ صلہ ملا کہ الله کے نبی ؐنے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ حضرت اویس ؒ سے ملاقات ہو تو ان سے گلے ملنا، مصافحہ کرنا اور ان سے دعا کرانا۔
باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا :
باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہنا چاہیئے۔ ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ ان کو اپنے مشوروں میں اپنے بزرگوں کی طرح شریک رکھنا چاہیئے۔ ان کی رائے اور مشوروں کی تعظیم کریں۔ ایک موقع پر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا۔ "سب سے زیادہ نیک سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ بھلائی کرے "
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والد کے دوستوں سے ملاقات کر لیتے ہیں، اور انتقال ہو جائے تو جنازے میں شریک ہو جاتے ہیں، لیکن والدہ کی سہیلیوں کی ہم خبر گیری نہیں کرتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ والدہ کی سہیلیاں کتنی ہے۔ اور ہم کبھی معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں۔ہم اپنی والدہ کو ان کی سہیلیوں سے ملاقات کرانے لے جائیں۔ والدہ کو ان سے فون پر بات کرا دیں۔ والدہ کی سہیلیوں کے خوشی اور غم میں شریک ہو جائیں۔ اور الله نے ہم کو صاحب استطاعت بنایا ہے تو ان کی مدد کریں۔
لڑکے اور لڑکیوں کے لیے خصوصی ہدایات :
o والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آئیں۔
o والدین کی دل و جان سے اطاعت کریں۔
o ماں باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں۔
o رضاعی ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں۔
o والدین کی وصیت کو پورا کریں۔
o والدین کے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
o والدین کے لیےبرابر دعا کرتے رہیں۔
o والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اور ان کے لیے صدقہ جاریہ والا کوئی کام کریں، مثلا کنواں کھدوا دیں، مسجد اور فلاحی کام میں ان کے نام سے پیسہ خرچ کریں۔
والدین کے حقوق میں اگر کوتاہی ہو جائے تو مایوس نہ ہوں :
اگر خدانخواستہ والدین کے حقوق میں کوتاہی ہو جائے تو الله تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ مرنے کے بعد ان کے حق میں برابر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیئے۔ قوقع یہ ہے کہ الله تعالیٰ آپ کی کوتاہیوں کو درگزر فرما کر نیک بندوں میں آپ کو شامل کر لیں۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا : "اگر کوئی بندہ زندگی میں ماں باپ کا نافرمان اور والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا انتقال ہو گیا تو اب اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے والدین کے لیے برابر دعا کرتا رہے۔ یہاں تک الله تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے نیک لوگوں میں لکھ دے "
دعا ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ لکھنے والے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق دے۔
وماتوفیقی الا باللہ العظیم
٭٭٭
الله تعالیٰ کے حق کے بعد انسان پا سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے، ماں باپ کے حق کی اہمیت و عظمت کو قرآن شریف میں کئی جگہ الله تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔
ترجمہ :"اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم الله کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو"
حضرت عبدالله ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ "میں نے حضور سے پوچھا کہ کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" حضور ؐ نے فرمایا "وہ نماز جو وقت پر پڑھی جائے " میں نے پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا "ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک " میں نے پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا "خدا کی راہ میں جہاد کرنا "
ایک اور حدیث میں حضرت امامہ ؓ فرماتے ہیں، ایک شخص نے حضور سے پوچھا "یا رسول الله ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ " حضور ؐنے ارشاد فرمایا "ماں باپ ہی تمھاری جنت ہے اور ماں باپ ہی دوزخ۔"
یعنی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کر کے جنت کے مستحق بنوگے اور ان کے حقوق پامال کر جہنم کا اندھن بنیں گے۔ والدین کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ شکر گزاری کے ساتھ رہیں۔ والدین کی خدمات کا صلہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ملتا ہے۔کیونکہ ہمارے والدین ہمارے دنیا میں آنے کا سبب ہے اور ہم ان کی نگرانی میں پرورش پاتے ہیں۔ او ر ہماری پرورش میں والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون قربان ہوتا ہے۔ ہماری پرورش میں جانی مالی قربانیاں دی جاتی ہے۔ہمارے والدین بڑھاپے کی حالت میں ہماری خدمات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ الله کے نبی ؐ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ "وہ آدمی ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو " لوگوں نے پوچھا اے الله کے نبی ؐ "کون آدمی ؟" آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ "وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، دونوں کو پایا، یا کسی ایک کو، پھر ان کی خدمات کر کے جنت میں داخل نہ ہوا " ایک اور حدیث جس میں حضرت عبدالله ؓ کا بیان ہے کہ "ایک آدمی اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر نبی کریم ؐ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا، تو بنی کریم ؐ نے فرمایا، جاؤ اپنے ماں باپ کے پاس واپس جاؤ اور ان کو اسی طرح خوش کر کے آؤ، جس طرح تم ان کو رلا کے آ ئے ہو۔"
ماں کی خدمات کا خصوصی خیال رکھئے:
عورت کو الله تعالیٰ نے طبعاً کمزور اور حساس بنایا ہے۔ خصوصا ً ماں کو اور بھی زیادہ حساس بنایا ہے۔ وہ آپ کی خدمت کی نسبتاً زیادہ مستحق ہے۔ کیونکہ ماں کے احساس اور قربانیاں باپ کے مقابلے کہیں زیادہ ہے، اس لیے دین میں ماں کا حق زیادہ بتایا ہے، اور ماں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ قرآن شریف میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
(الاحقاف آیت ١٥ )
ترجمہ :اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لیئے لیئے پھری۔ اور تکلیف ہی سے جانا۔پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ تکلیف وہ مدت تیس مہینے ہے " قرآن پاک نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے خصوصیات کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے کٹیھنائیاں جھیلنے کا نقشہ بڑے ہی اثر انداز میں کھنچا ہے، اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جاں نثار ماں، باپ کے مقابلے میں تمھاری خدمت و سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ اور پھر اسی حقیقت کو الله کے نبی ؐ نے بھی کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں۔ایک شخص نبی کریم ؐ کی خدمت میں آیا اور پوچھا :"اے الله کے نبی ؐ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟" آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے پوچھا، پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے پوچھا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیری ماں " اس نے کہا پھر کون؟ آپ ؐ نے فرمایا "تیرا باپ " اس حدیث میں الله کے نبی ؐ نے ماں کی اہمیت کو تین مرتبہ بیان فرمایا، اس میں بہت ساری حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ماں تین تکلیفوں کو برداشت کرتی ہے۔ (١) حمل کے زمانے کی تکلیف۔ (٢) پیدائش کے وقت کی تکلیف۔ (٣) دودھ پلانے کی تکلیف۔ ان تکلیف کی وجہ سے ماں کی اہمیت زیادہ ہے۔
حضرت اویس قرنی ؒ، بنیؐ کریم کے دور میں موجود تھے۔ مگر آپ ؐ کی ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ ان کی ایک بوڑھی ماں تھیں۔ دن رات انہی کی خدمت میں لگے رہتے، نبی کریم ؐ کے دیدار کی بڑی آرزو تھی اور اس تمنا کے پوری ہونے کے لیے تڑپتے رہتے۔ چنانچہ حضرت اویسؒ نے آنا بھی چاہا، لیکن نبی کریم ؐ نے منع فرمایا۔ فریضہ حج ادا کرنے کی بھی ان کے دل میں بڑی آرزو تھی لیکن جب تک ان کی والدہ زندہ رہیں، ان کی تنہائی کے خیال سے حج نہیں کیا۔ اور ان کے وفات کے بعد ہی یہ آرزو پوری ہوئی۔ والدہ کی خدمات کا ان کو یہ صلہ ملا کہ الله کے نبی ؐنے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ حضرت اویس ؒ سے ملاقات ہو تو ان سے گلے ملنا، مصافحہ کرنا اور ان سے دعا کرانا۔
باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا :
باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہنا چاہیئے۔ ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ ان کو اپنے مشوروں میں اپنے بزرگوں کی طرح شریک رکھنا چاہیئے۔ ان کی رائے اور مشوروں کی تعظیم کریں۔ ایک موقع پر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا۔ "سب سے زیادہ نیک سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ بھلائی کرے "
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والد کے دوستوں سے ملاقات کر لیتے ہیں، اور انتقال ہو جائے تو جنازے میں شریک ہو جاتے ہیں، لیکن والدہ کی سہیلیوں کی ہم خبر گیری نہیں کرتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ والدہ کی سہیلیاں کتنی ہے۔ اور ہم کبھی معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں۔ہم اپنی والدہ کو ان کی سہیلیوں سے ملاقات کرانے لے جائیں۔ والدہ کو ان سے فون پر بات کرا دیں۔ والدہ کی سہیلیوں کے خوشی اور غم میں شریک ہو جائیں۔ اور الله نے ہم کو صاحب استطاعت بنایا ہے تو ان کی مدد کریں۔
لڑکے اور لڑکیوں کے لیے خصوصی ہدایات :
o والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آئیں۔
o والدین کی دل و جان سے اطاعت کریں۔
o ماں باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں۔
o رضاعی ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں۔
o والدین کی وصیت کو پورا کریں۔
o والدین کے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
o والدین کے لیےبرابر دعا کرتے رہیں۔
o والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اور ان کے لیے صدقہ جاریہ والا کوئی کام کریں، مثلا کنواں کھدوا دیں، مسجد اور فلاحی کام میں ان کے نام سے پیسہ خرچ کریں۔
والدین کے حقوق میں اگر کوتاہی ہو جائے تو مایوس نہ ہوں :
اگر خدانخواستہ والدین کے حقوق میں کوتاہی ہو جائے تو الله تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ مرنے کے بعد ان کے حق میں برابر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیئے۔ قوقع یہ ہے کہ الله تعالیٰ آپ کی کوتاہیوں کو درگزر فرما کر نیک بندوں میں آپ کو شامل کر لیں۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا : "اگر کوئی بندہ زندگی میں ماں باپ کا نافرمان اور والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا انتقال ہو گیا تو اب اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے والدین کے لیے برابر دعا کرتا رہے۔ یہاں تک الله تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے نیک لوگوں میں لکھ دے "
دعا ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ لکھنے والے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق دے۔
وماتوفیقی الا باللہ العظیم
٭٭٭
0 Comments