Ticker

6/recent/ticker-posts

اللہ کےراستےمیں خرچ کرنا/ انفاق فی سبیل اللہ ✍️ خواجہ کوثر حیات

اللہ کے راستے میں خرچ کرنا/ انفاق فی سبیل اللہ
✍️ خواجہ کوثر حیات
اورنگ آباد۔دکن
kauserhayat.deccan@gmail.com

اللہ رب العزت کی ذات نہایت عظیم اور بزرگی والی ہے ۔ اسی کے ساتھ ارحم الراحمین بھی ہے اور عفو و درگزر کرنے والی صفات سے بھی متصف ہے ۔ ہم اسی ایک اللہ کی وحدانیت کو ماننے والے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل آوری کے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔
بیشک اللہ تعالیٰ کو اس کی راہ میں خرچ کرنے والے بندے محبوب ہے وہ لوگ جو خرچ کریں تنگدستی میں بھی اور خوشحالی میں بھی۔چاہے وہ کم ہویا زیادہ۔
 اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جسے انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ، اللہ کا راستہ۔ ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا۔
 قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اﷲ کا حکم دیا گیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو۔نیکوکاروں کے لیےنماز قائم کرنا اور اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنا لازم وملزوم ہیں​. اسی ضمن میں ایک آیت آتی ہے۔
وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾
اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو افراط و تفریط کا شکار ہیں۔مصیبت زدہ ہیں، پریشان حال ہیں بھوک سے ، بیماری سے تو کبھی زندگی کے روزمرہ مسائل سے۔ کیا ان کے لیے اپنا دامن وسیع کرنا ضروری نہیں ہے ؟
عموماً آج جو مال میں سے اگر خرچ کر بھی رہے ہیں تو انکا اپنا طریقہ کار مختص ہے وہ مخصوص معاملات پر ہی خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ میں کیا گیا خرچ سمجھتے ہیں ۔ اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں ان ضرورت مند لوگوں کا بھی حصہ ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو بھی اللہ کی خوشنودی میں شامل کیا ہے اور اسے ثواب و اجر کا باعث بھی قرار دیا ہے۔ایک طرح سے امت ایک فتنہ میں گرفتار ہے کہ میری کمائی صرف میرے لیے۔ جب کہ فرض میں زکوٰۃ کے علاوہ نفل صدقات بھی اتنے ہی ضروری و لازم ہیں جو بیمار ، قرابت داروں ، مسکین ،یتیم ، ضرورت مند اور مسافر پر حسب ضرورت و حسب استطاعت جو خرچ کیے جانے چاہیے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ اللهُ : أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَيْکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
بیشک مومن اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کنجوسی سے بچتا ہے کیونکہ مومن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کا دیا ہوتا ہے۔ سب چلے جانے والے ہیں باقی صرف نیک اعمال رہ جائے گے۔کیونکہ مال کا دیا جانا بھی ایک آزمائش ہے ۔اللہ کی دی ہوئی نعمت کو ضائع کرنا بہت بڑی ناشکری ہے۔ اور وہ بھی ایسا بے جا خرچ جو ہم صرف نمود و نمائش کے لیے کرتے ہیں یا شوق میں کرتے ہیں ۔ جو ہوسکتا ہے کئ لوگوں کی دل آزاری کا بھی سبب بن جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو زمین و آسمان کی میراث کا مالک قرار دے کر بڑے عمدہ انداز میں انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔‘‘ ،الحديد، 57 : 10
جب اللہ کی راہ میں خرچ کی بات نکلتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ خرچ کہاں اور کن پر کیا جاے تو اس کے متعلق مالک دوجہاں کی قرآن میں اپنے بندوں کو لیے بہترین رہنمائی کی گئی ہے۔
سورة التوبة کی آیت نمبر 60میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیم ۔
صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے.
اچھی عادتیں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں اس لیے بچوں کے سامنے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت بتاتے ہوے خرچ کرے تو بچے بھی عملی طور پر اس کے لئے آمادہ رہے گے ۔
اللہ تعالیٰ نے نہ اسراف کو پسند کیا اور نہ ہی بخل کو بلکہ میانہ روی کی تلقین کی گئی ہے۔
اللہ کی راہ میں فرض زکوة اور نفل صدقات دونوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔فرض میں زکوٰۃ آے گا اور نفل صدقات میں جو آپ سال بھر کرتے رہتے ہیں۔صدقات گناہوں سے معافی کا بہترین ذریعہ ہے۔
اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے
 سخت تنبیہ کی اور ہدایت بھی کہ قرآن میں سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر 35​ میں ذکر آیا ہے 
اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ نہ کر کے اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو​
وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے۔
رب کائنات سے دعاگو ہوں کہ وہ ہم تمام کو بخل کی لعنت سے بچائے اور صحیح طریقے سے خرچ کی توفیق عطا فرمائے اور ان احادیث و آیات قرآنی پر عمل پیرا ہونے کے قابل بنائیں۔

Post a Comment

1 Comments

  1. مضمون کی اشاعت پر عالی جناب ریحان کوثر صاحب کی مشکور و ممنون ہوں ۔
    خواجہ کوثر حیات

    ReplyDelete