Ticker

6/recent/ticker-posts

اساتذہ کا ادب و احترام ✍️سہیل اختر

اساتذہ کا ادب و احترام
✍️سہیل اختر

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ٥ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ٥ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٥ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے، بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے علم سکھایا قلم سے سکھایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔ 
(معروف القرآن)

یہ قرآن کریم کی پہلی وحی ہے۔ پہلی آیت ہے اس سے تعلیم و تعلّم یعنی پڑھنا پڑھانا واضح ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے کائنات کا نظام صحیح رخ پر چلانے کے لئے اپنے بندوں کو ایک عالم گیر دستور دیا۔ یعنی اپنے بندوں کو علم عطا فرمایا۔ اور یرہ دستور انبیاء کرام کے واسطے بندوں تک پہنچتا رہا۔ تمام انبیاء و رسل کی دعوت کا خلاصہ اور نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ کی دعوت کے خلاصے سے دو چیزیں نکلتی ہیں۔ ایک تعلیم دوسری تربیت یعنی استاد سے علم بھی حاصل ہوتا ہے اور تربیت بھی حاصل ہوتی ہے گویا استاد روحانی باب ہوتا ہے۔
علم اور استاد کے بارے میں حضرت علی  کا ارشاد ہے کہ 
"میں اس شخص کا غلام ہوں، جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اگر چاہے تو آزاد کر دے یا اپنا غلام رکھے " اور حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ "اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کے مانند ہوتے، کیونکہ تعلیم اور علم کے ہی ذریعہ حد بہمیت سے نکل کر حد انسانیت کی طرف ائے "
(تحفہ متعلمین)
ہمارے اسلاف نے علم میں جو مقام حاصل کیا ہے وہ استادوں کے ادب و احترام سے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا چند واقعات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے ایک بنگھی سے دریافت کیا کہ کتّا کب بالغ ہوتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ جب ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگے۔ اس کے بعد امام صاحب کا یہ حال ہو گیا تھا کہ جب اس بھنگی کو دیکھتے ادب سے کھڑے ہو جاتے اور فرماتے کہ ایک بات کا علم مجھے اس بھنگی سے ہوا۔ اندازہ لگاؤ کہ جب بھنگی کے ساتھ یہ حسن ادب ہے تو اپنے استادوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ابو عبیدہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی عالم کے دروازے پر جا کر دستک نہیں دی بلکہ اس کا انتظار کیا کہ جب وہ خود ہی تشریف لائیں گے اس وقت ملاقات کر لونگا۔حضرت تھانوی ؒ استاد کی اہمیت کو واضح کر کے تحریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ باپ کا ہے، بعد کو استاد ظاہری کا، پھر پیر کا باپ موجد مادہ ہے۔ استاد مادّےکی ترتیب دینے والا اور پیر ماده مرتبہ کا نقشہ بھرنے والا یعنی باپ دنیا میں آنے کا سبب ہے استاد کے ذریعے تربیت ہوتی ہے اور پیر کے ذریعے مرتبہ طے ہوتا ہے، جب استاد ہماری تربیت کر رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے استاد کے لئے دعاء مغفرت کریں۔ چنا نچہ امام ابو حنیفہؒ اپنے استاد حماد بن مسلم کو فی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب بھی میں نے نماز پڑھی اور اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کی تو ساتھ ہی میں نے اپنے استاد کو ضرور یاد کیا اور میرا یہ معمول ھیکہ جس سے بھی کچھ پڑھا ہے ان کے لئے دعاءو استغفار کرتا ہوں۔
(اخلاق العلماء)
جب ہم اپنے اصناف کے کارناموں پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں پتہ چلیگا کہ انھوں نے علم کس طرح حاصل کیا۔ لہٰذا استاد کے ساتھ بے ادبی سے پیش ہونے والا اور ان کی شان میں گستاخی کرنے والا کبھی حقیقی علم کی دولت سے بہرا ور نہیں ہو سکتا یا نو علم سے محروم ہو جاتا ہے۔ یا اس علم نفع بخش نہیں ہوتا۔ عام طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتا ہے جو اپنے استادوں کا قدر نہ کریں۔ لہٰذا ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو دینی و دنیاوی علم حاصل کریں اور اپنے استادوں کا ادب و احترام کریں
الله تبارک و تعالیٰ لکھنے والے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق دیں۔ آمین
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments