Ticker

6/recent/ticker-posts

چراغ دلّی ✍️ارشاد احمد ارشادؔ دہلوی

چراغ دلّی

✍️ارشاد احمد ارشادؔ دہلوی


"اَماں کرخندار چلو گے نئیں، اب تو ظہر بھی پڑھ لی، زادہ دیر ہوگئی تو فر سواری ملنی مشکل ہوجائے گی اور فِر وہاں بھیڑ بھی بہت زادہ ہوجائے گی " کلّو نے کارخانے میں گھستے ہی کہا۔ کرخندار بولے ابے یار میں نے نصرو کو افطاری کا سامان لانے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ سب سامان تو لے آیا مگر کھجوریں اور مسالا بھول آیا۔ اب وہ لینے گیا ہے۔ ابھی آتا ہی ہوگا۔

" ابے چاند تو کہاں تھا۔ تجھے نئیں چلنا کیا " تو تو ابھی تک تیار بھی نئیں ہوا۔ یار ایک ایک کی راہ دیکھوں گا تو بہت اویر ہوجائے گی پھر سواری بھی ملنا مشکل ہوجائے گی۔ " کرخندار نے چاند کو لیٹے ہوئے دیکھا تو اسے ٹوکا "اَماں کرخندار بس ابھی پانچ منٹ میں تیار ہو کے آیا ۔ " چاند یہ کہتا ہوا یہ جا وہ جا۔ نصرو کار خانے میں داخل ہوتے ہوئے بولا لو کرخندار میں کھجوریں اور مسالا بھی لے آیا۔ چلو اب جلدی سے سامان اٹھاؤ اور نکلو۔ ساجد کارخانے میں داخل ہوا تو کرخندار نے پوچھا ابے ساجد تو نئیں چل لیا ۔ یار کیا ایک ایک کے آگے جھیکنا پڑے گا مجھے " "کہاں چلنا ہے کرخندار ۔ "ساجد بولا " ابے کیا بھول گیا۔ آج چراغ دلّی روزہ کھولنے جانا ہے۔ آج سترہواں روزہ ہے " کرخندار نے ساجد سے کہا۔ " اچھا میں تو بھول ہی گیا تھا بس ابھی کپڑے بدل کے آیا " یہ کہہ کر ساجد بھی کپڑے بدلنے چلا گیا۔ یہ تھی حضرت خواجہ سید نصیرالدین محمود چراغ دلّی کے عرس کی تیاریاں جس کے لیے سب بڑی شدومد کے ساتھ خواجہ سید نصیرالدین محمود چراغ دلّی کی درگاہ روزہ کھولنے( افطار کرنے) کے لیے جا رہے تھے۔ سب کاریگروں نے اپنے اپنے حصے کا سامان اٹھایا آگے آگے کرخندار اور پیچھے پیچھے سب کاریگر، یوں اس ٹولی نے چراغ دلّی تک کے لیے ایک تانگہ ٹھیک کیا سب سامان سیٹوں کے نیچے درست کیا اور اپنی اپنی جگہ پر براجمان ہوگئے اس طرح یہ ٹولی عصر سے کچھ ہی پہلے درگاہ چراغ دلّی پہنچی۔ درگاہ پہنچ کر پہلے عصر کی نماز ادا کی گئی پھر اس کے بعد ایک مناسب جگہ تلاش کی گئی کہ جہاں یہ ٹولی اپنی چاندنی بچھا کر بیٹھ سکے ۔ چاروں طرف ایک جمِ غفیر ہر طرف صرف سر ہی سر نظر آرہے ہیں۔ جگہ جگہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کسی نے چٹائی بچھا رکھی ہے کسی نے دری بچھا رکھی ہے کوئی چاندنی بچھائے بیٹھا ہے چھوٹی بڑی ٹولیوں میں لوگ بیٹھے ہیں سامنے دستر خوان سجا ہوا ہے۔ پھل نکال کر کچالو بنائے جا رہے ہیں ۔ کچھ بچے بنتے ہوئے کچالو میں چنگل چلاتے ہیں تو مائیں ڈانٹتی ہیں کہ ابھی روزہ کھلے گا پھر کھانا بچے کہتے اے بی ہمیں بھوک لگ رہی ہے۔ کچالوؤں کے علاوہ دستر خوان پر انواع واقسام کے کھانے چنے ہوئے ہیں آلو پالک کی پکوڑیاں ہیں پیاز کی پکوڑیاں ہیں آلو کے سموسے، قیمے کے سموسے، اس کے علاوہ ٹھنڈا ٹھنڈا شربت ، شربت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے درگاہ میں داخلے سے پہلے ہی درگاہ کے باہر سے برف خرید لی گئی تھی کیونکہ اندر آکر دوبارہ باہر جانا مشکل تھا۔

کیا بہار آرہی ہے چاروں طرف روزے دار دستر خوان سجائے بیٹھے دعائیں مانگ رہے ہیں روزہ کھلنے کا انتظار ہے۔ جگہ جگہ کھانے کی چیزیں بٹ رہی ہیں کہیں بریانی بٹ رہی ہے کہیں شربت بٹ رہا ہے کہیں قورمہ روٹی بٹ رہا ہے کوئی کچالو باٹ رہا ہے غرض یہ کہ اگر کوئی شخص کھانے کی چیز نہیں لایا ہے یا بھول گیا ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں افطار اور کھانے کا سامان بہت ہے۔ یہاں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔ ہر طرف قورمہ بریانی کی خوشبو، کٹتے ہوئے پھلوں کی خوشبو، مختلف شربتوں کی خوشبو، اوپر سے درگاہ انتظامیہ کی طرف سے عرقِ گلاب پاشی بھی کی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے جگہ جگہ لوگ کھڑے ہیں۔ روزہ داروں میں یہ کھانا جو تقسیم کیا جاتا ہے اس کا انتظام بھی دہلی کے اشرافیہ اور مالدار افراد کی طرف سے ہوتا تھا ۔ اس میں تمام اہلِ دہلی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ خود قورمہ، بریانی کی دیگیں باورچیوں سے پکوا کر تقسیم کرنے کے لیے لے جاتے تھے ۔ یہ کھانا اتنا ہوتا تھا کہ لوگ وہاں کھا بھی لیتے تھے اور گھر بھی لے آتے تھے۔ کچھ سحری کے لیے رک جاتے تھے تو وہ اگلے دن سحری اسی کھانے سے کر کے دوسرے دن روزہ رکھ کر واپس آتے تھے۔

دلّی والے بہت سیلانی ہیں ۔ وہ ہر طرح اپنی تفریح کے مواقع تلاش کر لیتے ہیں رمضان المبارک خالص عبادت کا مہینہ ہے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس ماہِ مبارک میں تفریح کی جاسکتی ہے آفرین ہے ان زندہ دلانِ اہلِ دہلی پر اس خالص عبادت کے مہینے میں بھی عرس کے نام پر تفریح کا موقع تلاش کر ہی لیا۔ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ کو حضرت خواجہ سید نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کا عرس منایا جاتا تھا اور اب بھی منایا جاتا ہے۔ دہلی کی تمام برادریاں، تمام کرخندار ، ہر پیشہ و حرفت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس عرس میں شامل ہوا کرتے تھے گو اب کرخنداری روایت دم توڑ گئی ، اشرافیہ میں بھی دل چسپی کم ہوگئی مگر اس کے نقوش اب بھی خال خال باقی ہیں ۔ یہاں تک کہ غیر مسلم حضرات بھی چراغ دہلوی سے عقیدت کی بنا پر عرس میں شامل ہوتے ہیں۔ بڑی رونق ہوا کرتی ہے۔

چراغ دہلوی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ تھے۔ آپ کا اصل نام سید نصیرالدین محمود اور لقب چراغ دہلی تھا۔ آپ کے والد کا نام سید یحییٰ اور دادا کا نام سید عبداللطیف یزدی تھا۔ آپ کے جد امجد خراسان سے ہجرت کر کے لاہور آئے اور پھر لاہور سے(اودھ) فیض آباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی پیدائش فیض آباد میں ہوئی ۔ نو سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کیں۔ انھوں نے پہلے علوم دینی مولانا عبد الکریم شیروانی سے حاصل کیے ان کے انتقال کے بعد مولانا سید افتخار الدین گیلانی سے علم کی تکمیل فرمائی۔ چالیس سال کی عمر میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے بیعت ہوئے۔

آپ کے لقب کے متعلق بھی الگ الگ روایتیں مشہور ہیں ایک روایت کے مطابق ایک دن چند درویش حضرت نظام الدین اولیاء چشتیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے۔ اسی دوران حضرت خواجہ نصیرالدینؒ تشریف لائے اور کھڑے ہو گئے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے ان سے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ نے کہا کہ درویش بیٹھے ہیں پشت ہوگی۔ اس پر حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے عرض کیا کہ چراغ کے لیے پشت اور منہ نہیں ہوتا ۔ آپ حضرت کا حکم پاکر بیٹھ گئے۔ اُسی دن سے آپ کا لقب چراغ دلّی ہوگیا۔

ایک اور روایت یہ مشہور ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ کا تعمیری کام چل رہا تھا مزدور بادشاہ کے نوکر تھے دن میں بادشاہ کے ہاں کام کرتے اور رات کو حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ کی تعمیر کرتے جب بادشاہِ وقت کو معلوم ہوا تو اس نے بازار سے سارا تیل ضبط کرالیا تاکہ آپ کی درگاہ کا کام رک جائے حضرت سید نصیرالدین محمودؒ کو جب معلوم ہوا تو آپ نے تمام چراغ پانی سے روشن کر دیئے اُسی دن سے آپ کا لقب چراغ دلّی ہوگیا۔

چراغ دہلوی کا عرس یقیناً ان کے وصال کے بعد سے ہی منایا جاتا رہا ہوگا جو آج بھی جون کا توں منایا جاتا ہے۔ مگر زمانے کے بدلاؤ نے اس کی صورت و ماہیت بدل ڈالی ہے۔ میرے بچپن تک دہلی کے عوام بڑے ذوق وشوق کے ساتھ رمضان المبارک کے سترہویں روزے کو چراغ دہلی روزہ افطار کرنے جایا کرتے تھے۔ مجھے بھی کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ آخری مرتبہ میں سن 1980 یا 81 میں اپنی ایک چچی کے ساتھ گیا تھا۔ آج بھی مجھے درگاہ کے وہ مناظر یاد ہیں۔ ہم چچی کے ساتھ جامع مسجد سے بس کے ذریعے چراغ دہلی گئے تھے۔ جب تک بسوں کی فراوانی نہیں تھی اس وقت تک دہلی والے تانگوں کے ذریعے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم اپنے نانا کے ساتھ بذریعہ تانگہ قطب بھی گئے تھے۔ خیر بات ہو رہی تھی چراغ دہلی کی جب بسوں کی سواری عام ہوئی تو چراغ دہلی آنا جانا بھی آسان ہوگیا تھا۔ اس عرس کے لیے حکومت بھی مخصوص بسوں کا انتظام کیا کرتی تھی اور آج بھی کرتی ہے۔ اس زمانے میں پندرہ پیسے بچوں کا اور تیس پیسے بڑوں کا بس کا کرایہ ہوا کرتا تھا۔ گھر سے ظہر کی نماز کے بعد تمام تیاری مکمل کر کے تین بجے کے آس پاس جامع مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔ تاکہ بس میں آسانی سے سیٹ مل جائے اور بنا کسی پریشانی کے چراغ دہلی پہنچ جائیں۔ چراغ دہلی پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت ہو جاتا تھا۔ ہم تو بچے تھے بس بڑوں کا یہ حکم تھا کہ یہیں بیٹھے رہو کہیں ادھر اُدھر گئے تو کھو جاؤ گے اس کھونے کے ڈر سے ہم اپنی جگہ سے ہلتے نہ تھے۔ آج کا بچہ اتنی فرماں برداری نہیں کرتا۔ ہم مگر اتنے سعادت آثار واقع ہوئے تھے کہ بڑوں نے ایک بار گھڑک دیا تو دم نکل جاتا تھا۔ درگاہ میں داخل ہو کر چچی نے پہلے مناسب جگہ تلاش کی۔ وہ اپنے ساتھ ایک بڑی سی چادر بچھانے کے لیے لے گئی تھیں۔نکال کر بچھائی گئی۔اس کے بعد دستر خوان سجایا گیا ۔ اب نظر دوڑا کر یہ دیکھا گیا کہ کہاں کیا بٹ رہا ہے۔ کہیں بریانی تقسیم ہو رہی تھی تو کہیں پلاؤ تقسیم ہو رہا تھا۔ چچا اٹھ کر بریانی لینے چلے گئے۔ ہم چچی کے ساتھ بیٹھے رہے کبھی کبھی تقسیم کرنے والا ہم تک بھی پہنچ جاتا تھا تو چیز باآسانی بیٹھے بٹھائے مل جاتی تھی ۔ غرض انواع و اقسام کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں ۔ ہمارے پاس بھی کھانے کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔ آس پاس کے ہوشیار بچے دوڑ کر جاتے اور تقسیم کار سے بھڑ جاتے اور کسی نہ کسی طرح مطلوبہ شے حاصل کر لیتے تھے۔ تقسیم کی اس لوٹ مار میں بہت مزہ آتا تھا۔ غرض افطار کا وقت ہونے پر گولہ داغا گیا۔ روزہ افطار کے بعد مغرب کی اذان ہوئی۔ اتنے میں تقسیم سے حاصل کی ہوئی چیزیں خوب مزے سے کھائی گئیں۔ افطار سے فارغ ہوکر مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد گھر واپسی کی تیاری ہوئی ۔ تمام سامان سمیٹ کر چچی نے تھیلوں میں بھرا ایک تھیلا ہمیں بھی پکڑا گیا۔ درگاہ کے باہر کمہار مٹی کے برتن بیچا کرتے تھے۔ لوگ ان سے صراحی مٹکے، دوتئی ( چھوٹی صراحی) وغیرہ خریدتے تھے ۔ کہا جاتا تھا کہ چراغ دلّی کے آس پاس کے کمہار مٹی کے اچھے برتن بناتے ہیں اس لیے دہلی والے ان سے برتن خرید کر لایا کرتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ سواری کا مناسب انتظام نہ ہونے اور روزے کی تھکان کے باوجود بھی اتنا وزن ڈھویا جاتا تھا۔ ہماری چچی نے ایک چھوٹا سا مٹکا خرید لیا جو انھوں نے خود ہی اٹھایا۔ عجیب بات ہے کہ مجھے اپنے بچپن کی بہت سی باتیں یاد ہیں مگر میں آج کی بات بھول جاتا ہوں۔ مضمون لکھتے وقت آج مجھے وہ چچی بھی بہت یاد آئیں گو وہ آج دنیا میں نہیں ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین مگر ان کی محبت آج بھی یاد آتی ہے وہ لاولد تھیں۔انھوں نے ایک لڑکا گود لے کر پالا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سب بچوں سے بہت محبت کیا کرتی تھیں جب بھی چراغ دلّی کا ذکر آتا ہے مجھے آج بھی چچی رئیسہ یاد آجاتی ہیں ان کا یہی نام تھا۔ واپسی پر وہ بھیڑ میں ہمارا ہاتھ پکڑے بس اسٹاپ تک لائیں۔ چچا نے اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ یوں ہم انھیں بسوں کے ذریعے گھر واپسی آئے تھے۔

آج زمانے کی تبدیلی نے بہت کچھ بدل دیا ہے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے حتیٰ کہ بس کا کرایہ بھی ناقابل برداشت ہو گیا ہے لوگ ضرورت کے تحت ہی کہیں آنا جانا پسند کرتے ہیں۔ سیر وتفریح تو دور کی بات ہے آج پیٹ بھرنا دو بھر ہو رہا ہے۔ چراغ دہلوی کا عرس اب بھی منایا جاتا ہے نئی نسل تو ان تمام چیزوں سے منحرف سی ہو گئی ہے مگر اب بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو بڑے جوش و خروش کے ساتھ چراغ دلّی جاتے ہیں یہی لوگ اس روایت کو اب بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ارشاد احمد ارشادؔ دہلوی

Post a Comment

0 Comments