🎤علمی و شخصی انٹرویو🎤
معروف ادیب و افسانچہ
نگار ادیب الاطفال سراج عظیم صاحب
سے کوثر روز کی گفتگو
سوال1۔ آپ کا پورا نام اور قلمی نام کیا ہے۔
جواب۔ محمد سراج عظیم
میرا یہ نام تاریخ اسلامی کے اعداد کے مطابق میرے والد نے رکھا تھا۔ اس نام سے میری اسلامی ہجری سال نکلتی ہے۔ میرا گھر کا نام میرے دادا نے نجمی رکھا تھا۔ میں نے کچھ جگہوں پر تخلص کے طور پر نجمی استعمال کیا ہے۔ ویسے میں نے اپنے اصل نام کو ہی قلمی نام کے طور پر استعمال کیا ہے۔
سوال 2۔ آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟
جواب۔ میں سائنس کا طالب علم تھا۔ اس لئے بی ایس سی ڈاکٹر ذاکر حسین کالج اجمیری گیٹ دہلی سے کیا۔ (یہ وہی کالج ہے جسمیں غالب کو مدرسی ملی تھی۔ پالکی میں سوار ہوکر آئے تھے۔ گیٹ کے باہر پالکی اتروادی اور انتظار کرنے لگے کہ پرنسپل ان کے استقبال کے لئے آئے گا۔ جب پرنسپل نہیں آیا تو پالکی یہ کہہ کر اٹھوا دی،کہ جو لوگ مہمان نواز نہ ہوں۔ وہاں کیسی چاکری) ۔ اس کے بعد اردو میں ایم اے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے کیا۔
سوال 3۔آپ کا تعلق کس شہر سے ہے ؟
جواب۔ میرا تعلق یوپی میں اپنے زمانے کے علم و ثقافت اردو تہزیب کے خوبصورت مرکز روہیلکھنڈ ریاست کے دار الخلافہ بریلی شہر سے ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کا بگل بجانے والی فوج کے فوجی کمانڈر جنرل بخت خاں تھے۔ یہاں کے محلہ بانس منڈی میں میری پیدائش ہوئی۔
سوال 4۔ آپ کا ذریعۂ معاش یعنی آپ سروس کرتے ہیں یا کاروبار کیا ہے؟
جواب۔ میرے دادا کا چمڑے کا کاروبار تھا بس میرے ذہن میں بھی اس سے متعلق کام آیا اور لیدر گارمینٹس کا کاروبار اختیار کیا اس طرح میں لیدر ایکسپورٹ کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے میں یوروپ اور یو۔ اے ۔ ای وغیرہ کے اسفار کر چکا ہوں۔
سوال 5۔ آپ کو لکھنے کا ذوق کب سے ہے؟
جواب۔ میرا خانوادہ علمی و تجارتی تھا۔ میرے بچپن سے ہی، میرے یہاں بڑے بڑے مشاعرے اور علمی محافل ہوا کرتی تھیں۔ والد پروفیسر حنیف کیفی صاحب شاعر اور ادیب تھے۔ان اردو ادب کے سارے مشہور ومعروف لوگ جانتے تھے۔ جتنے مشہور شاعر ہیں سب میرے گھر آتے تھے اور مشاعروں میں شامل ہوتے تھے۔ بس ان کی علمی سرپرستی میں یہ شوق پنپا۔ یعنی بچپن سے۔
سوال۔6۔ آپ کو کس صنف سے زیادہ دلچسپی ہے؟
جواب۔ مجھے نثر سے زیادہ دلچسپی ہے اس میں ہی کچھ بہتر کرلیتا ہوں۔ورنہ میں کیا میری بساط کیا۔ ویسے میں بچوں کے ادب سے زیادہ شغف رکھتا ہوں، بلکہ میرا اوڑھنا بچھونا، ادب اطفال ہے۔ مجھے اس کے علاوہ کسی اور میدان میں مزہ نہیں آتا۔ میری زیادہ تر فکر ادب اطفال کے لئے ہی وقف ہے۔ کبھی کبھی افسانہ اور افسانچہ بھی لکھتا ہوں۔
سوال 7۔ آپ کو کس ادیب یا افسانہ نگارسے لکھنے کی تحریک ملی۔؟
جواب۔ یہ سوال زرا ٹیڑھا ہے۔ میں نے سارے کلاسیکی ادیبوں اور شاعروں کو پڑھا ہے۔ تو کوئی خاص شخصیت کی جانب اشارہ نہیں کرسکتا۔ کہا جائے کہ مجھے گئے زمانے کے تمام ادبأ و شعرأ نے متاثر کیا ہے۔
سوال 8۔ آپ کی پہلی تحریر کب اور کہاں شایع ہوئی؟
جواب۔ یوں تو میری پہلی تحریر پیام تعلیم کے مدیر حسین حسان صاحب پر تھی ۔جس کا عنوان تھا۔ "اور جب دیر ہوگئ تو۔۔۔۔" یہ سن 78میں لکھی تھی،لیکن شائع ہونے کے لئے کہیں نہیں بھیجا اس کے بعد میں نے ایک انگریزی کلاسک کہانی Anancy and the Spider Man کا اردو میں ترجمہ کیا، جو کافی طویل تھی۔ اس وقت میں غالباً دسویں کا طالب علم اور اردو میڈیم سے تھا،لیکن بچپن سے والد صاحب نے انگریزی پڑھائی تھی، بس وہ اور ذاتی شوق کام آیا،اور کلاسک کہانی کا ترجمہ کیا، جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ جو پیام تعلیم میں سن 1982کے اپریل کے شمارہ میں شائع ہوئ تھی۔ اس کے بعد مئ 1984 کے امنگ کے شمارہ میں میری کہانی' لوسی ' شائع ہوئ۔ جو میں نے ولیم ورڈزورتھ کی نظم The Lucy Gray کے خیال سے ماخوذ ایک لوک کہانی کی شکل میں لکھی تھی،میں نے اس کہانی کو جس انداز میں تحریر کیا ، لوگوں نے بہت پسند کی تھی۔ یہ کہانی اس قدر مشہور ہوئ کہ مجھے خود نہیں معلوم، کہاں کہاں شائع ہوئ۔ اس کہانی کے بارے میں مزید تفصیل سے بات کرنا چاہتا تھا۔مگر طوالت کی وجہ سے اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔اس طرح کی انگریزی کے شاعروں کی نظموں کے خیالات سے ماخوذ بہت سی کہانیاں لکھیں، جو مقبول بھی ہوئیں اور پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھی گئیں۔ یہ ادب اطفال میں میرا ایک منفرد کام ہے۔ آج تک اس طرح کا کام ادب اطفال میں کسی نے نہیں کیاہے۔ سوائے علامہ اقبال کے، انھوں نے انگریزی کے شاعروں کی نظموں کو اردو میں، اس طرح سے منظوم کیا ہےکہ طبع زاد نظمیں لگتی ہیں۔ یہ بات صرف وہی لوگ جانتے ہیں ، جنھوں نے کلاسیکل انگریزی شاعری پڑھی ہےاور اقبال کو پڑھا ہے۔
سوال 9۔آپ کے پسند یدہ ادیب و شاعرکون ہیں؟
جواب۔ میں نے کبھی غور نہیں کیا۔ لیکن شاعر مشرق علامہ اقبال، اپنے والد پروفیسر حنیف کیفی، اور تمام کلاسک شاعروں کو پسند کرتا ہوں۔ ادیبوں کی بھی فہرست لمبی ہے۔ غرض میں نے کسی خاص شخصیت کا اثر قبول نہیں کیا۔
سوال 10۔ آپ کی پسندیدہ شخصیت کون ہیں ؟
جواب۔ سب سے پہلے تو میری پسندیدہ شخصیت میرے نبی ﷺ ہیں۔ اس کے بعد سائنسداں نیوٹن جس کے افکار سے میں بہت متاثر ہوں۔ پھر نیپولین، اس کے بعد مولانا علی میاں۔ ویسے میرا سب سے بڑا ہیرو نیل آرم اسٹرانگ ، چاند پر پہلا قدم رکھنے والا انسان، جانتے ہیں کیوں؟جس وقت نیل چاند پر اترنے والا تھا ،میں دس سال کا تھا اور میں اپنے دادا کے ساتھ،چاند پر، چاند گاڑی کے اترنے کی رننگ کمینٹری سن رہا تھا۔ نیل آرم اسٹرانگ نے چاند کی زمین پر ہندوستانی وقت کے مطابق رات میں دو بجکر چھیالیس منٹ پر قدم رکھا تھا۔ یہ مجھے آج تک یاد ہے۔
سوال 11۔ آپ کی کوئی کتاب عمل میں آئ ہے ؟
جواب۔ جی اب تک میری صرف چار کتابیں شائع ہوئ ہیں۔
1۔ دادا بیتی۔۔۔ اردو اکیڈمی دہلی اور مغربی بنگال سے اول نمبر ایوارڈ یافتہ سن 2000
2۔ دنیا کے ممالک کی لوک کہانیاں۔۔۔ سن 2010
3۔ شیطان کی دکان۔۔۔۔ سن 2011
4۔ دنیا کے رنگ ہزار۔۔۔۔ مغربی بنگال سے انعام یافتہ سن 2018
اس کے علاوہ اس سال کئی کتابیں منظر عام پر آنے والی ہیں۔ جن میں دو اہم کتابیں 'عید کا تحفہ' یہ ادب اطفال میں پچھلے سو سال میں پہلا موضوعاتی کام ہے۔ جس میں آٹھ ممالک کے ادباء و شعراء اور پورے ہندوستان سے سو ادیب شامل ہیں جس کی ضخامت تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسری کتاب بھی اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ یہ میرے بچپن گروپ پر ادب اطفال کی مقتدر شخصیات سے علمی ادبی واہٹس ایپ پر لئے گئے چیٹ انٹرویوز ہیں۔ اس میں ادب اطفال کی ہر صنف پر کام کرنے والے ادباء شعراء کے انٹرویوز شامل ہیں جن کی حیثیت دستاویزی ہے۔
سوال 12۔ اردو کی بقا کے لیے آپ کیا کرنا چاہینگے ؟۔
جواب۔ میں آپ کے اس سوال کو بہت اہم سمجھتا ہوں۔ دیکھئے میرا ماننا ہے کہ آپ نسل نو کو خاص طور سے اردو اور اردو ادب سے واقف کرانا چاہئے۔ میں ایسا مانتا ہوں۔وہ سماج یا قوم جس کا اردو سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔ ان کے بچے چاہے، جس میڈیم سے اسکول کی تعلیم حاصل کریں، ان کو سبجیکٹ کے طور پر اردو شروع سے ہی پڑھانا پڑے گی۔ دوسرے بچوں کو شروع سے ، یعنی جب وہ پہلی کلاس میں ہوں، تب سے ادب اطفال کی جانب دلچسپی کے رجحان کو جلا دینا پڑے گی۔ یہ یاد رکھئے کسی بھی شئے کا، زبان و ادب، ثقافت و تہذیب کی بقا کا انحصار، اس بات پر ہوتا ہے کہ بنیاد کتنی مضبوط ہے۔ یعنی اردو کی بقا نسل نو کو اردو زبان سے آراستہ کرنے پر ہی ممکن ہے۔ اس کے لئے ہی میں بنیادی طور پر آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی اور بچپن واہٹس ایپ گروپ کے ذریعے ، ادب اطفال کو مقبول عام کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ہمیں اس میں کامیابی بھی ملی ہے اور ان شاءاللہ ہم آگے بھی اسی نہج پر کام کرتے رہیں گے۔
سوال13۔ اردو کے مستقبل پر کچھ روشنی ڈالیں ؟
جواب۔ جہاں تک اردو زبان کے تعلق سے بات ہے۔ وہ میری نظر میں روشن ہے۔ مگر اردو ادب کے تعلق سے میں معیار کو لیکر مایوس ہوں۔
سوال 14۔ آج کل جو افسانے لکھے جارہے ہیں ان کی مقبولیت میں کمی ہورہی ہے یا اضافہ؟
جواب۔ دیکھئے بات وہیں آکر رک جاتی ہے۔ معیار ۔ مجھے بتائیں، کتنے لوگ معیاری لکھ رہے ہیں۔ نئ ایجاد افسانچہ کتنا لکھا جارہا ہے۔لوگوں کو پتہ ہی نہیں افسانچہ افسانہ لکھنے سے زیادہ مشکل ہے۔ مگر لوگ لکھ رہے ہیں۔ کوئی چٹکلے لکھ رہا ہے تو کوئی عام زندگی میں رائج باتیں تو کوئی اختصار کے نام پر پتہ نہیں کیسی مبہم تحریریں۔ ایسے ہی قاری بھی ماشاء اللّٰہ،تعریفوں کے قلابے ملا رہے ہیں۔ اب یہ حال ہے۔سوشل میڈیا نے تو بالکل ہی چوپٹ کر دیاہے۔ واہٹس ایپ یونیورسٹی سے فارغ تحصیل عالموں نے تو اردو کی وہ درگت بنائی ہے کہ الامان۔فیصلہ آپ خود کر لیجئے۔ یہ مقبولیت میں اضافہ ہے یا تنزل۔
سوال15۔ تعلیم نسواں پرکچھ روشنی ڈالیں؟
جواب۔ میرے خیال میں اب اکیسویں صدی میں تعلیم نسواں پر سوال کرنا، مناسب نہیں۔ اب تو صنف نازک خلاء پر کمند شوق پھینک رہی ہے۔ آج عورت کس معاملہ میں پچھڑی ہوئ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم دور دراز کا وہ علاقہ جہاں ابھی بھی جدید تہزیب کے پہنچنے کی رفتار سست ہو۔ مگر اس موبائل کی ڈبیہ نے دور دراز کے علاقوں میں عورتوں کو دنیا کی ہر شئے سے باخبر کر دیا ہے تو میرے نزدیک یہ سوال آج کے تناظر میں Irrelevent ہے۔ تعلیم نسواں کو الگ زمرے میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ آج تعلیم زندگی کی ضرورت ہے۔ جسکا حصول مرد و زن کے لئے ایک اشیائے ضروری بن گئ ہے۔
سوال16۔ تعریف اچھی لگتی ہے یاتنقید؟
جواب۔ بشر ہونے کے ناطے جب ستائش ہوتی ہے۔ طبیعت مسرور تو ہوتی ہے۔ مگر دماغ پر نہیں چڑھتی کہ تکبر میں مبتلا ہو جائیں۔ ٹھیک ہے۔ اپنے قدم ہمیشہ زمین پر رکھے۔ تنقید مثبت ہو اور تنقید کرنے والے کی نیت میں کھوٹ نہ ہو، تنقید اس مقصد سے ہو کہ اصلاح یا بہتری ہے تو خیرمقدم کرتا ہوں۔ اگر تنقید ذاتیات پر اور بغض کے تحت ہو تو اگر مناسب سمجھتا ہوں تو خوبصورت پیرائے میں جواب دیتا ہوں اگر اس کے بعد بھی حدود سے تجاوز ہوتا ہے تو میں خاموش ہوجاتا ہوں اور اس شخص سے تعلق صرف علیک سلیک تک محدود کر لیتا ہوں۔
سوال 17۔ آپ بچوں کے معروف ادیب ہیں۔ ادب اطفال عصر حاضر میں کیا مقبول ہے؟
جواب۔ جی ادب اطفال خصوصاََ اردو کے حوالے سے بہت دگرگوں حالت میں ہے۔ حالانکہ ادب اطفال کی اس دور میں کتابیں بہت زیادہ اور خوبصورت شائع ہورہی ہیں۔ لکھنے والے بھی بہت ہیں،مگر معصوم قاری اسکرین زدہ ہوگیا ہے۔ کتب بینی سے دور ہوگیا۔ اس لئے ادب اطفال کو معصوم قاری تک پہنچانا ہے۔ جو ندارد ہے۔ اس کے لئے کوشش کرنا چاہئے
سوال۔ 18۔ تو آپ یہ بتائیں کہ جب بچہ اسکرین پر توجہ دے رہا ہے کیا اردو ادب اطفال بچوں کو اسکرین پر فراہم نہیں کرایا جا سکتا۔؟
جواب۔ بالکل کرایا جانا چاہئے میں تو اپنے بہت سے پروگراموں اور انٹرویوز میں برابر کہتا آرہا ہوں کہ ہمیں ادب اطفال ڈیجیٹیلائز کرنا چاہئے۔ اینیمیشن، کارٹون، کہانیوں کے آڈیوز۔ اگر ہم جدید ٹیکنالوجی کے ہم رکاب نہیں ہوں گے۔ تو آنے والے وقت میں اردو میں بچوں کا ادب مفقود ہوجائے گا۔ اگر نسل نو اردو میں دلچسپی نہیں لے گی تو اردو کو نہ تو سرکاروں کو اور نہ ہی اردو مخالف تنظیموں کو اردو مٹانے کی ضرورت ہوگی اس کا ہم لوگ ہی خود گلا گھونٹ دیں گے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ بچوں کا ادب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ ورنہ میر، غالب، اقبال وغیرہ کو ڈھونے والے بھی نہیں ملیں گے
سوال18۔ آپ کا کوئی پسندیدہ شعر لکھیں۔
مجھے اپنے والد محترم پروفیسر حنیف کیفی کا یہ شعر بہت پسند ہے۔
حرف حق، حرف غلط، کرنے کو آئے پتھر
میں نے ہر دور میں، سچ بول کے کھائے پتھر
سوال 19۔ چلتے چلتے اردو والو ں کے نام کوئی پیغام دیتے جائیں
جواب۔ میں کیا میری بساط کیا کہ میں اردو والوں کو کوئی پیغام دے سکتا ہوں۔ بس ایک بات کہتا ہوں۔ اردو اگر بالواسطہ یا بلاواسطہ ہماری مادری زبان ہے۔ تو نیک اولاد کی طرح ماں کی قدر کریں نہ کہ اس کے جسم کو چچوڑ چچوڑ کر اس کی حالت قابل رحم کردیں۔ آج اردو اسی دور سے گذر رہی ہے۔
سراج عظیم صاحب میں آپکی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری درخواست پر اس انٹرویو کے لئے اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکالا اور ہمارے سوالات کا تفصیلی جواب دیا۔ ہمیں امید ہے اردو داں طبقہ میں آپ کے اردو کے سلسلے میں خیالات اور اقدام کو پذیرائی حاصل ہوگی۔
بہت شکریہ کوثر روز صاحبہ کہ آپ نے خاکسار کو اس قابل جانا۔ شکریہ۔ ﷲ حافظ۔
2 Comments
بہت عمدہ
ReplyDeleteبہت خوب جناب
ReplyDelete