Ticker

6/recent/ticker-posts

اجتماعی درد کا سلسلہ: ’ایک ایسا بھی دور‘ ✍️ ریحان کوثر

 اجتماعی درد کا سلسلہ: ’ایک ایسا بھی دور‘


کتاب کا نام: ’ایک ایسا بھی دور‘

مصنفہ: ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

مبصر: ریحان کوثر

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہم مقامی، قومی اور عالمی خبروں پر ہر ممکن نظر باآسانی رکھ سکتے ہیں۔ دنیا جہاں کی آگاہی اور شعور کے کئی ذرائع سے ہم وابستہ ہیں۔ لیکن آج یہ آگاہی اور شعور ایک عذاب بھی بن گیا ہے۔ بطور خاص امت مسلمہ پر دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی قسم کی زیادتی بطور مسلمان ہم بالکل برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ کسی بھی سانحے کے بعد رونما ہونے والے المیے کے بارے میں ہم فکرمند ہو جاتے ہیں اور اپنے سینے میں درد محسوس کرتے ہیں۔ بطور خاص اس کورونا وائرس کی وبائی دور نے ہمارے شعور و آگہی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سب کچھ دیکھنے سننے اور پڑھنے کے بعد بھی ہم بے بس اور لاچار ہیں۔ . زیادہ سے زیادہ لوگوں کے بیمار ہونے اور ان کی سماجی یا طبی خدمات تک رسائی نہ ہونے، کثیر تعداد میں اموات اور اموات کے بعد دو گز زمین یا آخری رسومات کے لیے لکڑیاں بھی میسر نہ ہونے کی خبروں سے ہمیں جو تجربہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو درد محسوس ہوتا ہے اسے ’اجتماعی درد‘ کہا جاتا ہے۔ اس وبائی بیماری کے نتیجے میں انفرادی درد بھی ہوتا ہے۔ قریبی دوستوں اور رشتے داروں کا نقصان، ان کی ملازمتوں اور کاروبار کا نقصان، ہمارے معمولات کا نقصان، ہماری سماجی زندگیوں کا نقصان، وغیرہ۔ 

اجتماعی درد ایک وسیع اصطلاح ہے جو اجتماعی غم، اجتماعی صدمے اور اجتماعی اضطراب کے سبب رونما ہوتا ہے۔ یہ ہم کسی بھی طرح کے بحران کے وقت انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر محسوس کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کی زیر نظر کتاب ’ایک ایسا بھی دور‘ مجموعی طور پر اسی اجتماعی درد کا مجموعہ ہے۔ یہ سلسلہ ایودھیا کا فیصلہ، طلاقِ ثلاثہ، کشمیر کی تقسیم اور سی اے اے قانون کے نافذ ہونے سے شروع ہوتا ہے اور اس وبائی دور کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے۔ درد کی شدت یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔۔۔!!

کتاب میں پوشیدہ اس اجتماعی درد کی شدت کو محسوس کرنے کے لیے اس کے پس منظر کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ معروف واٹس ایپ گروپ ’افسانہ نگار‘ میں نئے ایونٹ کا آغاز ہوا چاہتا تھا، اکثر مشورے کے ذریعے کم از کم یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ایونٹ کا آغاز کس کی تخلیق سے کیا جائے۔ اس مرتبہ میری کہانی سے ایونٹ کا آغاز ہونا طے تھا کہ ایونٹ کے منتظم انور مرزا کا فون آیا اور انھوں نے کہا،

”میں نے آپ کو کچھ ان باکس کیا ہے، دراصل یہ تحریر نعیمہ جعفری نے بس ابھی ابھی ارسال کی ہے۔ آپ ایک مرتبہ پڑھیں اور پڑھ کر مجھ سے فون پر گفتگو کریں۔“

انور مرزا نے نعیمہ جعفری کا افسانہ ’مکافات عمل‘ مجھے بھیجا تھا، جو کتاب ’ایک ایسا بھی دور‘ کے صفحہ نمبر 55 پر موجود ہے، وہ افسانچہ کچھ یوں تھا،

دبیرِ فلک عطارد ، جو کچھ لمحوں کے لئے غنودگی کی کیفیت میں بے خبر ہوگیا تھا ، چونک کر اُٹھا ۔اُس کے سامنے کرہِ ٔارض سے آئی ہوئی رپورٹوں کے دفتر کے دفتر جمع تھے۔ اپنی لا پروائی پر لرزاں ، اُس نے اوراق پلٹتے شروع کیے تو انگشت بدنداں رہ گیا۔ اتنی نافرمانیاں! اتنی بد اعمالیاں! خدائی کے دعوے! مظلوموں کا استحصال! مذہب کے نام پر سیاست کا ننگا ناچ! شریفوں کی بے حرمتی اور رذیلوں کا عروج! یہ ابنِ آدم تو فرعون بے سامان ہوگیا ہے! اف! کہیں اپنے تساہل پہ موردِ سزا نہ ٹھہرایا جاؤں۔! فرض کی ادائیگی بھی ضروری تھی۔منتظر فرشتے کے ہاتھ رپورٹ بھیجی ہی تھی کہ ’کن‘ کے ساز کی آواز تیز ہوگئی لیکن اس میں تعمیر کا نہیں بلکہ تخریب کا پہلو نمایاں تھا، غیظ وغضب تھا، حکم عدولی پر ناراضگی تھی،سزا کا اشاریہ تھا۔

عرش معلی پر ہلچل مچ گئی۔عبادت میں مشغول جبرئیل کے ہاتھ سے تسبیح گر گئی، اسرافیل پریشان ہوگئے، کیا صور پھونکنے کا وقت آگیا! عزرائیل اپنے معاونین کو خبردار کرنے لگے، میکائیل مستعد ہوگئے۔

احکامات جاری ہونے شروع ہوگئے۔ 

خورشید خاور کو حکم ہوا اپنی شعاؤں کو سم آلود کرے ،مغینۂ فلک زہرہ کو حکم ملا، حسن وعشق کے نغمے بند کرے اور خوف و تباہی کا ساز چھیڑے ۔ مخربِ فلک زحل کو حکم ہوا بلاؤں اور وباؤں کا رخ کرہِ ارض کی طرف موڑ دے۔ سعدِ فلک مشتری کو تاکید ہوئی کچھ دن کے لئے اپنے فرائض کو موقوف کرے ، رقیبِ فلک مریخ ، جسے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی تھی کہ اسے خورشید کا مقرب بناکر زندگی سے محروم کردیا گیا ہے اور جس کا ابلیس سے یارانہ تھا، اس نے ان امکانات کا مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا گیا اور دوست کے ساتھ تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہوگیا۔میکائیل کو حکم ہوا سیلاب، قحط اور زلزلوں کی رفتار تیز کردیں۔ عزرائیل حیران تھے۔ طوفان نوح کے بعد سے کرہِ ٔارض کی صدیوں کی تاریخ میں بارہا مختلف علاقوں میں انھیں جنگوں ،وباؤں اور قدرتی حوادث میں ہزاروں انسانوں کی روح قبض کرنے کے احکامات ملے لیکن یہ کیسا حکم تھا جو بہ یک وقت پورے کرہِ ارض پر محیط تھا۔

عرش پر ایک ہنگامہ بپا تھا اور دنیا میں لاک ڈاؤن ہوگیا تھا۔

اس پورے کے پورے افسانچے کو یہاں نقل کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اپنا موقف پیش کر سکوں۔ اور وہ یہ ہے کہ ’ایک ایسا بھی دور‘ میں بیان کیے گئے سات دنوں کا مختصر دور ہی درد کا سلسلہ نہیں! سات دن کی یہ کہانی، یہ فسانہ، یہ روداد، یہ رپورتاژ یا یہ جو کچھ بھی ہے صرف سات دنوں کے درد و الم پر محیط نہیں! اور نہ ہی یہ درد مصنفہ کا انفرادی ہے۔ دراصل کتاب’ایک ایسا بھی دور‘ میں تین ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا دور مصنفہ کی اینجیو پلاسٹی، دوسرا کرونا وائرس وبائی مرض اور اس کے بعد آنکھوں کا آپریشن شامل ہیں، ساتھ ہی اس دور کے قوسین کے پہلی قوس آپ کے شریک حیات کی رحلت اور دوسری قوس آپ کے برادرِ خورد کی رحلت ہے۔ 

دراصل اول الذکر افسانچے پر دوران گفتگو انور مرزا نے کہا تھا،

”افسانچہ‌ پڑھ کر میں تو حیران رہ گیا تھا۔۔۔ یہ افسانچہ کیسے وجود میں آیا ہوگا۔۔۔ یہ راز شاید نعیمہ‌ جی کے اس جملے میں ہے۔۔۔ جو انہوں نے افسانچے کے نیچے لکھا ہے۔۔۔

"اسپتال کے بستر پر دل سے جنگ کرتے ہوے، ایک افسانچہ ہوگیا ۔"

یہ افسانچہ شاید آپ نے اینجیو پلاسٹی کے دوران ہسپتال میں لکھا تھا۔ موصوفہ جب دوسری مرتبہ اسپتال میں داخل ہوئی تو اجتماعی درد و الم کے ساتھ داخل ہوئی۔ اجتماعی درد کا یہ سلسلہ ان سطور میں پوشیدہ ہے۔ دراصل کتاب کی روح اسی اقتباس میں قید ہے، ملاحظہ فرمائیں،

”اتنی نافرمانیاں! اتنی بد اعمالیاں! خدائی کے دعوے! مظلوموں کا استحصال! مذہب کے نام پر سیاست کا ننگا ناچ! شریفوں کی بے حرمتی اور رذیلوں کا عروج! یہ ابنِ آدم تو فرعون بے سامان ہوگیا ہے....“

مصنفہ جس روز ہسپتال میں داخل ہوئی اس سے ایک روز قبل سیاست کا ننگا ناچ بس ختم ہی ہوا تھا۔ بنگال میں ’دیدی او دیدی‘ کے گھٹیا، بے تکے اور بازارو نعروں کی گونج اب سست پڑ چکی تھی۔ ملک میں کورونا وائرس وبا کی دوسری لہر کے دوران جب لاکھوں پھیپھڑے آکسیجن کے لیے ترس رہے تھے ملک کا بادشاہ، بنگال فتح کے لیے چھچھورے پن کی ساری حدیں پار کر چکا تھا۔ گنگا میں لاشوں کا ڈھیر تھا، گنگا کے کناروں پر سڑتی ہوئی لاشوں کو اور انتخابات کے دوران ہندوستان کی جمہوریت، دونوں کو کتے نوچنے میں مگن تھے۔ ارتھیوں کی کئی کئی کلومیٹر لمبی قطاریں شمشان میں داخل ہوا چاہتی تھیں۔ ایسے ماحول میں موصوفہ نے ہسپتال میں قدم رکھا۔

پہلا دن اور پہلی رات جیسے قیامت کی نشانیاں بن گئی۔ ان سات دنوں کے دور کا یہ سب سے مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا۔ یہ حصہ پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس حصے میں مصنفہ نے اپنے انفرادی اور اجتماعی درد کو جیسے خون سے لکھ کر بیان کر دیا ہے۔ ایسے ایسے جملے کہ سیدھے روح میں اتر جائے، سانسیں تھم جائے، سینہ چھلنی ہو جائے۔ لیکن اس حصے کا اختتام لاجواب ہے اور اس اختتام نے اس پہلے حصے کو افسانہ بنا دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں،

”میں نے اپنے تھکے ہوئے ، پسینے میں نہائے ہوئے ، ریزہ ریزہ وجود کومجتمع کر کے پاؤں بیڈ سے نیچے اتارے تو مہربان زمین نے اوپر اٹھ کر میرے قدموں کو تھام لیا۔“

مہربان زمین! اس ترکیب پر سینکڑوں صفحات رنگے جا سکتے ہیں۔ اسی ترکیب نے اس حصے کو مکمل اور بھرپور افسانہ بنا دیا ہے۔ بنے بھی کیوں نہ کہ مریضہ کوئی معمولی خاتون نہیں صفِ اول کی افسانہ نگار ہیں۔ ایسی مضبوط اور مستحکم قلم کار کے قدموں کو مہربان زمین کا اوپر اٹھ کر تھام لینا لازمی اور فطری عمل ہے۔ پروفیسر صادق کے نزدیک سات دنوں کی یہ روداد ایک تجربہ ہے، یعنی یہ مشاہدات کے ساتھ ساتھ اس طرح پر اثر انداز میں تحریر کرنا ایک منفرد تجربہ ہے۔ بقول پروفیسر صادق،

”یہ تجربہ زیست و مرگ کے درمیان اپنے عزیز واقارب کے اپنی دنیا کے حیات و مرگ کے اور خود اپنے بارے میں ذہن میں آنے والے خیالات کو فنکارانہ انداز میں پیش کر دینے کا ایک غیر معمولی تجر بہ ہے جو ممتاز شیریں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔“

بیشک یہ غیر معمولی اور قابلِ قدر تجربہ ہے جو نعیمہ جعفری جیسی قلم کار ہی کر سکتی تھیں۔ پہلے دن کی روداد کو اگر عنوان دینا ہوگا تو میں اسے ’مہربان زمین‘ دینا چاہوں گا۔ اسی طرح دوسرے حصے کا عنوان ’نیند کی دیوی‘ ہونا چاہیے۔ نیند اسپتال کی چار دیواری میں کس طرح آنکھ مچولی کھیلتی ہے یہاں بیان کیا گیا ہے۔ نیند کے تعلق سے اس قدر شاندار تحریر اب تک میری نظر سے نہیں گزری! آج کل نثری ادب میں ایک ادبی فیشن عام ہوا جا رہا ہے۔ دراصل میرے نزدیک یہ فیشن کم اور ادبی بدعت زیادہ ہے، اسے جو نہیں جانتا وہ بھی اور جو جانتا ہے وہ بھی ’مائیکروف‘ کہتا ہے۔ میری نگاہ میں یہ دوسرا حصہ ایک مکمل اور معیاری مائیکروف کی عمدہ مثال ہے۔ 

اسپتال، مرض، مریضہ، نرس، ڈاکٹر، آکسیجن سیلینڈر، سیلینڈر ٹرالی، سیرنج وغیرہ یعنی اسپتال کا اصل قصہ اسی حصے یعنی تیسرا دن، تیسری رات میں بیان کیا گیا ہے لیکن مصنفہ کی نیند سے دشمنی اور درد سے دوستی یہاں بھی برقرار ہے، ثبوت ملاحظہ فرمائیں،

درد ہی درد ہے اور درد کی تفسیر یہ ہے 

درد بیداری بھی ہے، خواب بھی ، تعبیر بھی ہے

اب باری ہے چوتھے دن اور رمضان المبارک کی ممکنہ مبارکباد رات یعنی شب قدر کی! چوتھی رات دراصل شب قدر تلاش کرنے کی رات تھی۔ یہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات تھی، شاید غنودگی کے عالم میں مصنفہ نے اس رات کا تذکرہ کرتے ہوئے ستائیسویں شب لکھ دیا ہے لیکن یہ اس کے پہلے کی طاق عدد والی رات ہے۔ بہرحال! شب قدر پر یہ ایک منفرد اور دلکش یادیں اور باتیں ہیں۔ روحانی اور اخلاقی مثال بھی اس تحریر میں پوشیدہ ہے، صاف و شفاف فائیو اسٹار اسپتال میں دھول کہاں؟ مٹی کہاں؟ غبار کہاں؟ تیمم کا اہتمام کہاں! لیکن یہاں بھی مصنفہ نے گنجائش نکال ہی لی،

”بہت سوچنے کے بعد دماغ کے کسی گوشے سے کسی شیطان یا مہربان نے یاد دلایا کہ میرے پرس میں گرمی دانوں پر لگانے والے موٹے ، دردرے پاؤڈر کا ایک چھوٹا سا ڈبہ پڑا ہے۔

رات کی شکم پوری اور دواؤں کے لامتناہی سلسلے کے بعد جب پڑوس کی لڑکی نے لائٹ بند کروا دی تو میں کہنیاں ٹیک ٹیک کر سرہانے کی دیوار تک پہنچی، ریتیلا پاؤڈر دیوار پر چھڑکا اور اس پر ہاتھ مار کر صرف اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے تیمم اور مسح کیا۔ نہ جانے پاکی ہوئی یا نا پاکی لیکن کوئی چارہ نہیں تھا اور میں نے تکیوں پرسرٹکا کر آنکھیں بند کر لیں کہ زبان ہلا نا دشوار تھا۔“

پانچواں دن یوم مادر تھا۔ یوم مادر پر آپ نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ میری تحریر ہے کیوں کہ اس یوم کے تعلق سے جو مدلل اور مفصل گفتگو کی گئی ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے دراصل میرا بھی وہی موقف ہے۔ آزادانہ طور پر یہ حصہ یوم مادر پر ایک عمدہ اور لاجواب مضمون ہے۔ یوم مادر یا کسی کے دن کو صرف ایک دن منانے پر جو اعتراض کرتے ہیں انھیں یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ 

پانچویں رات اور چھٹے دن اور اس کے بعد چھٹی رات اور ساتواں دن میں ڈسچارج کی باتوں کے ساتھ ساتھ دو حقیقی کرداروں کو بھی متعارف کروایا گیا ہے ساتھ ہی ان دونوں کی دو کہانیاں بھی بیان کی گئی ہے۔ ایسی ہزاروں کہانیاں مختلف پبلک پلیس پر رینگتی رہتی ہیں۔ وہ کہانی کار ہی کیا جو ایسے مقامات پر کوئی کہانی اپنی گرفت میں نہ لیں۔۔۔!!

پہلی کہانی کا کردار دراصل بے حسی اور بوکھلاہٹ کی علامت ہے۔ ایک تیس بتیس سال کی لڑکی جسے آس پاس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جو اپنے موبائل اور ہیڈ فون میں مست ہے۔ لگاتار موبائل فون سے چپکے رہنا اس کی عادت ہے۔ اس کو جب خبر ملتی ہے کہ وہ ڈسچارج ہونے والی ہے تو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھنے لائق ہے لیکن دوسرے دن جب ڈسچارج منسوخ کر دیا جاتا ہے تو اس کے رویے میں تبدیلی حیران کن نظر آتی ہے۔ 

اسی طرح دوسرا کردار جو ہندوستانی انگریز خاتون کا ہے وہ دلچسپ اور عجیب ہے۔ بیڈ شیٹ پر لگے ایک ہلکے سے نیلے دھبے کے سبب سارا اسپتال سر پر اٹھا لیتی ہے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ہسپتال میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اسے اس کے گھر والوں نے زبردستی داخل کروایا ہے۔ 

اسپتال کا آخری دن اور روداد کا آخری حصہ بھی افسانوی رنگوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اختتام بھی خوبصورت ہے،

”شام کے دھندلکے میں ایک وہیل چیئر کھڑ کھڑاتی ہوئی اسپتال کے باہر نکل آئی جہاں میرا بیٹا میرا انتظار کر رہا تھا۔

الحمدلله“

اس طرح اس کامیاب تجربے کو نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کورونا کی ڈائری کا سات دنوں پر محیط ’ایک ایسا بھی دور‘ الحمدللہ کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔

اس بیان میں مصنفہ کا پہلا کمال یہ ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی انھوں نے اپنی قلم اور ادب کا دامن نہیں چھوڑا۔ بیشک! اس وبائی دور میں ہم ادیبوں اور فنکاروں کے لیے ادب ہر درد کی دوا بن کر سامنے آیا ہے۔ کسی طرح ادب کی چھاؤں میں ہم لوگوں نے اس درد کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے....

کتاب کے دوسرے حصے میں پیش لفظ ’دو باتیں‘ کے ساتھ چالیس سے زائد افسانچے شامل ہیں۔ تکمیل کائنات، مٹی کی خوشبو، مکافات عمل، ” مجھے کیا برا تھا مرنا اگر....“، فرار، ہوم کورنٹائن، خراج عقیدت، پابندِ شریعہ، شیشے کی دیوار، ہپی ٹیچرس ڈے، ناممکنات کا امکان، دوسرا کنس، بصیرت، انسانیت کی جستجو، اندھیر نگری، گاندھی گیری، گرود کشتا، میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں، یہ وفا کی سخت را ہیں، امر بیل، مس فٹ، پتھر کے صنم، دو وقت کی روٹی، ایماندار، ہمارے اپنے، سبق، گٹھلیوں کے دام، تضاد، تحفہ، لاجواب، امکانات، وفادار، سر کٹا، اوقات، عزت دار، احتیاط، جال، میں رؤں یا ہنسوں، آخری عدالت، مانو یا نہ مانو، اور آنکھوں کی مہکتی خوشبو شامل ہیں۔

یہاں بھی سارے کے سارے افسانچوں کا نام پیش کرنے کی ایک سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے ہی منتخب افسانچے ہیں اور کوئی بھی افسانچہ اوسط یا اس کے نیچے کا بالکل نہیں! تمام افسانچے معیاری ہے اور مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔ افسانچہ نگار نے قاری پر چھوڑ دیا ہے کہ ان افسانچوں کو مختصر افسانے یا مائکرو فکشن جو چاہیں نام دیں لیکن میرے نزدیک یہ تمام ہی افسانچے ہیں۔

بات اجتماعی درد (Collective Pain) سے شروع ہوئی تھی تو میں ایک بات بڑی ہی ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مجموعے میں شامل تمام افسانچے ’اجتماعی درد‘ کی عمدہ مثال ہے اور قاری پر فرض ہے کہ ان کی قرآت کے بعد اس درد کو محسوس بھی کریں.... کیوں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انقلاب شعور و آگہی کے بعد ہی آتا ہے۔


✍️ ریحان کوثر

کامٹی (ضلع ناگپور) مہاراشٹر

Post a Comment

0 Comments