Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو اور اسلام | ریحان کوثر

اردو اور اسلام
ریحان کوثر

زبان خیالات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ بولتے ہوئے ہم لفظوں اور جملوں کو ضرور ادا کرتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اِن کے وسیلے سے ہم اپنے خیالات و نظریات کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ زبان کی مدد سے کسی خاص معاشرے، علاقے یا ملک کے لوگ ایک دوسرے سے اپنے باطنی علوم کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر شخص بچپن سے اپنی مادری زبان یا ملک کی زبان سے واقف ہوتا ہے۔ انسانی معاشرے کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی یکساں طور پر ترقی کی ہے۔ زبان اظہار کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ ہونے کے سبب یہ ہمارے معاشرے کی تعمیر، ترقی، شناخت، سماجی اور ثقافتی شناخت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ انسان زبان کے بغیر نامکمل ہے اور اپنی تاریخ اور روایت سے غافل رہ سکتا ہے۔ زبان اور رسم الخط کا اظہار شخصیت کے دو لازمی پہلو ہیں۔
انسان کو مہذب اور قابل بنانے کے لیے تعلیم ضروری ہے اور زبان ہر قسم کی اکتساب تعلیم کا ذریعہ ہے۔ زبان کی اہمیت ابتداء سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک تمام شعبوں جیسے ادب، سائنس، معاشیات وغیرہ میں ہر سطح پر واضح ہے۔ نصابی تعلیم ہو یا عملی تعلیم زندگی کے تمام شعبوں میں زبان کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سائنس سے لے کر لسانیات تک، دنیا میں تمام شعبوں میں نئی نئی ​​تحقیق ہو رہی ہے۔ ان میں مطالعے اور تحقیقی تحریر کے لیے نئے الفاظ وجود میں آرہے ہیں۔ ان الفاظ کا جمع ہونا زبان کے ذریعے سماجی و سائنسی ترقی کا شاہد و ناظر ہے۔
زبان کے بغیر کسی بھی قسم کے ادب کا وجود ممکن نہیں۔ ہمارے مذہبی علوم زبان کی وجہ سے ہی آج تک محفوظ ہے اور آج بھی ہمیں مطالعے کی ترغیب دیتا ہے۔ لکھنے والے ایسی زبان کو بنیاد بناتے ہیں جو ان کے پڑھنے اور سننے والوں کی حسیات میں ضم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ آج بھی ملک کے زیادہ تر مسلمان جس زبان کے ذریعے اپنے مذہبی علوم کو حاصل کرتے ہیں وہ بلاشبہ اردو زبان ہی ہے۔

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے ایک مرتبہ نہایت سنجیدہ ہو کر فرمایا تھا کہ:
جوشخص اردو کی بقاء کے لیے کام کرتا ہے وہ گویا اس ملک میں اسلام کی بقاء کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ جملہ اضطراری نہیں بلکہ ایک فتوے سے کم نہیں۔ مولانا کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ”عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اردوزبان میں ہے۔‘‘ یہ بات شماریات کے پیش کرنے کی نہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ہے کہ اردو کے اس علم میں روزانہ اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔

(ص 7 بدلتی دنیا اور پیاسا تعلیمی عمل، مصنف: انیس چشتی)
یہاں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اُردو کی بقاء کے لیے کام کرنے کا ذکر کیا ہے اور اسے کارِ خیر کی طرح پیش کیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ہم ہندوستان میں دیگر چھوٹی بڑی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کاموں کو بے انتہا ادب و احترام کی نظر سے دیکھتے اور کرتے ہیں، کیا اردو کی بقاء کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ہم ویسی ہی عزت و احترام سے پیش آتے ہیں؟کیا جو سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیں اردو کے لیے کسی بھی سطح پر کام کر رہی ہیں ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے؟ ہمارا برتاؤ دوستانہ ہے یا ہم ان کے خلاف ذاتی دشمنی نکال کر اردو کی بقاء کی امید رکھتے ہیں۔ کیا ہمارے اس برتاؤ یا سلوک میں ملک ہندوستان میں اسلام کی بقاء اور استحکام کی فکر شامل ہے؟

Post a Comment

0 Comments