بادلوں کا فیصلہ
شجاع الدین شاہد
جب بادلوں نے محسوس کیا کہ جنگلات ختم ہو رہے ہیں،ہزاروں درخت روز کاٹے جا رہے ہیں، ندی،نالوں پر باندھ باندھ کر انھیں روک دیا گیا ہے۔ پہاڑ کاٹ کر بستیاں آباد کی جارہی ہیں، بستیوں کے قریب زرخیز زمین پر فصلیں نہیں بلکہ بلند بالا عمارتیں اُگ رہی ہیں۔ انسانوں کے یہ سب کرتوت دیکھ کربادلوں نے اعلان کیا کہ وہ انسانوں کو سبق سکھانے کے لیے آئندہ پانچ برسوں تک زمین پر نہیں برسیں گے۔
بادلوں کا یہ فیصلہ سن کر سارے کسان پریشان ہو گئے۔ اللہ کی مرضی، کہہ کر اپنے اپنے گھروں میں ہاتھوں پہ ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئے۔
مگر ایک کسان نے اپنی بیوی سے کہا،
’’اللہ تعالیٰ رحیم ہے وہ ساری مخلوق پر رحم کرے گا۔ہمیشہ کی طرح ہمیں اپنی زمین کی صاف صفائی اور کاشتکاری کرنی ہے۔“
پھر وہ ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ، بیوی،بچوں کو لے کر اپنے کھیت میں کام کرنے لگا۔ کھیت میں کھاد ڈالتا رہا۔ چونکہ اس کا کھیت ندی کنارے تھا اس لیے اس نے اپنے کھیت کی منڈیروں پر درختوں کے بیج ڈالے جو اُپجنے لگے۔ جب زمین میں بیج ڈالنے کا وقت آیا تو وہ اپنی بیوی اور بچّوں کے ساتھ زمین میں بیج ڈالنے لگا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔
سارے کسان اس کی اس کاوش اور محنت کی ہنسی اڑانے لگے۔ اسے پاگل تک کہا گیا مگر وہ ہمیشہ کی طرح اپنی دُھن میں مگن رہا۔جب اس نے بیوی اوربچوں کے ساتھ مل کر زمین میں بیج ڈال دئے، چونکہ زمین میں ہلکی سی نمی باقی تھی اس لیے اگلے روز اس کی زمین سے کونپلیں (انکور) پھوٹنے لگیں۔
اگلے دن ... بادلوں کا وہاں سے گذر ہوا۔ انھوں نے ایک کسان کو اپنے کھیت میں کام کرتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔
بادلوں نے قریب آکر کسان سے پوچھا’’اے کسان!ہم نے تو عہد کیا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں تک نہیں برسیں گے... تو تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟‘‘
کسان نے کہا’’بادلو! تم اپنا کام کرو... میَں اپنا کام کرتا ہوں ...مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے۔ وہ پتھروں کے اندر بھی موجود کیڑے مکوڑوں کو رزق پہونچا تا ہے کیونکہ وہ رزّاق ہے۔ زمین سے اُگی ہوئی یہ ننھی کونپلیں آسمان کی طرف منھ کرکے اس کی رحمت کی منتظر ہیں۔“
بادلوں نے جو یہ سُنا تو ایک دوسرے کا منھ تاکنے لگے۔انھیں احساس ہوا کہ وہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ اُن کا کام برسنا ہے... پھر یوں ہوا کہ بادل برسنے لگے... ساری زمین جل تھل کرگئے۔ چند دنوں بعد اس کسان کی فصلیں لہلہانے لگیں۔ دوسرے سارے کسان دیکھتے رہ گئے۔ اگلی صبح سارے کسان اپنے اپنے کھیتوں کی طرف جاتے نظر آئے۔
بادلوں کا یہ فیصلہ سن کر سارے کسان پریشان ہو گئے۔ اللہ کی مرضی، کہہ کر اپنے اپنے گھروں میں ہاتھوں پہ ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئے۔
مگر ایک کسان نے اپنی بیوی سے کہا،
’’اللہ تعالیٰ رحیم ہے وہ ساری مخلوق پر رحم کرے گا۔ہمیشہ کی طرح ہمیں اپنی زمین کی صاف صفائی اور کاشتکاری کرنی ہے۔“
پھر وہ ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ، بیوی،بچوں کو لے کر اپنے کھیت میں کام کرنے لگا۔ کھیت میں کھاد ڈالتا رہا۔ چونکہ اس کا کھیت ندی کنارے تھا اس لیے اس نے اپنے کھیت کی منڈیروں پر درختوں کے بیج ڈالے جو اُپجنے لگے۔ جب زمین میں بیج ڈالنے کا وقت آیا تو وہ اپنی بیوی اور بچّوں کے ساتھ زمین میں بیج ڈالنے لگا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔
سارے کسان اس کی اس کاوش اور محنت کی ہنسی اڑانے لگے۔ اسے پاگل تک کہا گیا مگر وہ ہمیشہ کی طرح اپنی دُھن میں مگن رہا۔جب اس نے بیوی اوربچوں کے ساتھ مل کر زمین میں بیج ڈال دئے، چونکہ زمین میں ہلکی سی نمی باقی تھی اس لیے اگلے روز اس کی زمین سے کونپلیں (انکور) پھوٹنے لگیں۔
اگلے دن ... بادلوں کا وہاں سے گذر ہوا۔ انھوں نے ایک کسان کو اپنے کھیت میں کام کرتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔
بادلوں نے قریب آکر کسان سے پوچھا’’اے کسان!ہم نے تو عہد کیا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں تک نہیں برسیں گے... تو تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟‘‘
کسان نے کہا’’بادلو! تم اپنا کام کرو... میَں اپنا کام کرتا ہوں ...مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے۔ وہ پتھروں کے اندر بھی موجود کیڑے مکوڑوں کو رزق پہونچا تا ہے کیونکہ وہ رزّاق ہے۔ زمین سے اُگی ہوئی یہ ننھی کونپلیں آسمان کی طرف منھ کرکے اس کی رحمت کی منتظر ہیں۔“
بادلوں نے جو یہ سُنا تو ایک دوسرے کا منھ تاکنے لگے۔انھیں احساس ہوا کہ وہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ اُن کا کام برسنا ہے... پھر یوں ہوا کہ بادل برسنے لگے... ساری زمین جل تھل کرگئے۔ چند دنوں بعد اس کسان کی فصلیں لہلہانے لگیں۔ دوسرے سارے کسان دیکھتے رہ گئے۔ اگلی صبح سارے کسان اپنے اپنے کھیتوں کی طرف جاتے نظر آئے۔
ریل گاڑی اور نانی کا گاؤں
شجاع الدین شاہد
سورج نکل رہا ہے یا شام ڈھل رہی ہے
وہ دُورکیوں دُھواں ہے، کیا آگ جل رہی ہے
یہ پیڑ چل رہے ہیں یا ریل چل رہی ہے
لمبا سفر ہے کتنا یہ بات کھل رہی ہے
اِک جگہ بیٹھے بیٹھے، چھی بابا، پک گیا ہوں
کھیلا نہیں ہوں ابّو! پھر بھی میَں تھک گیا ہوں
کچھ لوگ جا رہے ہیں، کچھ لوگ آرہے ہیں
یہ شور کیوں ہے اتنا، کیوں غُل مچا رہے ہیں
یہ برتھ پر جو اپنی بستر لگا رہے ہیں
کیا یہ بھی اپنی نانی کے گاؤں جارہے ہیں
ابّو بتایئے نا، جو گھر مجھے دیا ہے
کیوں اس سے دُور میری نانی کا گھر لیا ہے
نانی کے رشتے میں کیا ہوتی ہیں میری امّی
کیوں اُن کو یاد کرکے روتی ہیں میری امّی
راتوں میں بھی نہیں کیوں سوتی ہیں میری امّی
چہرے کو آنسوؤں سے دھوتی ہیں میری امّی
امّی سے پوچھا، بولیں میَں ان کا جسم وجاں ہوں
بیٹا وہ میری ماں ہیں، جیسے میَں تیری ماں ہوں
0 Comments