رام لیلا میدان
ریحان کوثر
تعارف:
تعارف:
کامٹی، ناگپور سے ریحان کوثر اردو کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرنے والے سنجیدہ ادیب ہیں۔ آپ نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ڈرامے، بچوں کی کہانیاں، تحقیقی و تنقیدی مضامین اور افسانچے بھی کثیر تعداد میں لکھے ہیں۔ 'سو لفظوں کی کہانی' کے سلسلے سے ان کی شناخت مستحکم ہوچکی ہے۔ اردو صحافت میں بھی آپ نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ موصوف کی تحریریں اور تخلیقات ہندوستان بھر کے متعدد رسالوں اور اخباروں میں شایع ہوتی ہیں۔ جن میں بچوں کی دنیا، امنگ، ایوان اردو، قرطاس، اردو میلہ روزنامہ انقلاب، روزنامہ ممبئی اردو نیوز، روزنامہ کشمیر عظمی اور روزنامہ قومی تنظیم وغیرہ قابل ذکر ہے۔ اسی طرح آپ کی متنوع موضوعات پر مختلف نوعیت کی کل 9 کتابیں منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
ریحان کوثر مشہور علمی و ادبی رسالہ 'الفاظ ہند' (جو واقعی پابندی سے نکلتا ہے۔ ) کے مدیر ہیں۔ نیز الفاظ پبلی کیشن اینڈ ودربھ ہندی اردو پریس کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔پیشے سے آپ مدرس ہیں اور ربانی آئی ٹی آئی اور جونیئر کالج، کامٹی کے پرنسپال ہیں۔
انعام و اعزاز:- مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ
- اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ برائے تصنیف، کتاب ڈاٹ کام
- صحافتی ایوارڈ (انجمن محبان ِمعیارِ ادب، ناگپور)
- صحافتی ایوارڈ ( ہفتہ روزہ تاج، کامٹی)
وسیم عقیل شاہ
٭٭٭
آج اتوار کا دن تھا لیکن آم گاؤں کا رام لیلا میدان بالکل خالی تھا۔ چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ گھروں میں اپنی اپنی کاہلی اور سستی کے غلاف میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور کچھ لوگ نیند کے قید خانے میں مقید تھے۔
سردی کی خوبصورت صبح اور میدان میں کوئی نہیں ؟ بڑا عجیب معلوم ہو رہا تھا۔نرم و ملائم دھوپ میدان کے چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ دوسرے گاؤں سے الگ یہاں کا رام لیلا میدان، نہایت ہی سر سبز و شاداب تھا۔ اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔
دراصل یہ کھیل کود کا میدان تھا، ایک چھوٹا گارڈن بھی اور ساتھ ہی رام لیلا کا میدان بھی۔ یہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں، اسی لیے یہ جگہ گاؤں کی مسلم آبادی میں عید گاہ کے طور پر مشہور تھی۔ میدان کے تینوں طرف کی دیواریں بالکل سالم تھیں، صرف پیچھے کی ایک دیوار تھوڑی سی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے مین گیٹ کے علاوہ ایک اور راستہ وجود میں آچکا تھا۔
عبدل کے کبوتر خانے کے تقریباً سبھی دروازے کھل چکے تھے۔ میدان میں ایک طرف جہاں جہاں عبدل نے دانے اور پانی کی کٹوریاں رکھی تھی وہاں گٹرگوں کا کیرتن کرتے ہوئے سبھی کبوتر اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مگن تھے۔ برجو کی مرغیاں بھی میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گشت کر رہی تھیں۔ برجوا کا مرغاصبح کی اذان کا فریضہ ادا کر کے ٹہل رہا تھا۔ بانو بی کی بکریاں اپنے میمنوں کے ہمراہ میدان کی دوسری جانب اپنی خوراک کی تلاش میں مصروف تھیں۔
ادھر میدان کے سب سے قریبی مکان کی چھت پر شویتا ابھی ابھی چارپائی پر چادر بچھا کر چاول اور مونگ دال کے پاپڑ ڈال کر صبح کا ناشتہ بنانے اندر جا چکی تھیں۔ اسی طرف رام پرساد اپنی چھت پر لگے ڈش ٹی وی کے تاروں کو جوڑنے کی تگ و دو میں صبح سے پریشان تھے۔ یہاں سے دیکھنے پر ہر چھت پر ڈش ہی ڈش اور باقی جگہوں پر الیکٹرک اور کیبل کے تاروں کا جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بڑے بڑے بینر ہورڈنگ اور موبائل ٹاورز بھی چاروں طرف نظر آتے ہیں۔
گاؤں تو بس نام ہی کا تھا۔ شکل و صورت سے کسی مصروف شہر سے کم نہ تھا۔ آس پاس رام پرساد کا وہ واحد مکان تھا جہاں سے سارا میدان دکھائی دیتا ہے۔ پڑوس کی سلمیٰ ابھی ابھی اپنی چھت پر لگی رسیوں پر گیلے کپڑے ڈال کر نیچے اتری تھی۔ ایک تو دن چھوٹا اس پر صرف تین سے چار گھنٹے ہی دھوپ سلمیٰ کی چھت کو میسر تھی۔ باقی دھوپ سورج کے زاویے بدلتے ہی سامنے والے رام پرساد کی دو منزلہ عمارت کھا جایا کرتی تھی۔ یہ تمام مکان میدان کے ایک طرف تھے اور میدان کے باقی تینوں جانب سڑکیں تھیں جہاں مسلسل کار، موٹر سائیکل اور اسکوٹی پر لوگ آتے جاتے نظر آرہے تھے۔
صبح کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں اور آنے جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی تھی۔ میدان کے سامنے کی رِنگ روڈ پر اب بڑے بڑے ٹرک اور بسیں تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی دوڑ رہی تھیں۔ لیکن اب تک میدان بالکل خالی تھا۔ دور دور تک مرغیوں، کبوتروں اور بکریوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔۔۔!
تبھی گیٹ پر رام کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ ایک ہاتھ سے مسلسل گیٹ کے ایک حصے کو آگے پیچھے کر رہا تھا۔۔۔ دروازے سے نکلنے والی چوں چوں کی آوازیں شاید اس کے کانوں کے پردے تک تو پہنچ رہیں تھیں لیکن اس کی سوچ و فکر میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ اس نے دور تک پھیلے ہوئے میدان پر ایک نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے آ گے بڑھنے لگا۔
رام کے ہاتھ میں کرکٹ کے بلے جیسا کچھ نظر آ رہا تھا مگر اس کی لمبائی کرکٹ کے بلے سے کچھ کم تھی۔ وہ بلا نہیں تھا،وہ تو کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہونے والی پیٹنی تھی۔
لیکن اس پیٹنی کا میدان میں کیا کام؟ آخر رام اس پیٹنی کے ساتھ یہاں اس میدان میں کیا کر رہا تھا؟ مالی اعتبار سے رام کا تعلق اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اور وہ ایک عمدہ قسم کا بلا تو خرید ہی سکتا تھا۔اگر خرید بھی لیتا تو کرکٹ آ خر کس کے ساتھ کھیلتا؟ اس کے علاوہ میدان میں تو کوئی اور تھا ہی نہیں۔ رام اب بالکل وہاں کھڑا تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ رام چاروں طرف دیکھنے لگا کہ کوئی آئے تو کرکٹ کا کھیل شروع کیا جائے۔ یہ تو اس کھیل کی ریت ہے کہ بلے بازی کرنے کے لیے گیند باز کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ وہ بے چین نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور یہ بھی سوچتا رہا کہ آخر دنیا میں وہ کون کون سے کھیل ہیں جو بغیر مخالفین کے کھیلے جاتے ہیں۔
’’کاش کوئی آئے۔۔۔ اور وہ گیند بازی کے لیے بھی تیار ہو جائے۔۔۔ تو بڑا مزا آئے۔۔۔‘‘
رام بڑبڑاتا ہوا دوبارہ چاروں طرف دیکھنے لگا، لیکن اب تک وہ میدان میں تنہا ہی کھڑا تھا۔
تبھی پیچھے ٹوٹی دیوار والے راستے سے رحیم بھی میدان میں داخل ہوا۔ رام نے جیسے ہی رحیم کو دیکھا، مسکرا اٹھا۔۔۔
’’ارے واہ یہ رحیم تو بڑے وقت پر آیا ہے۔ آج پھر سے اسے ہی راضی کرتا ہوں گیند بازی کے لیے۔۔۔‘‘
وہ رحیم کو پیٹنی دکھاتے ہوئے زور سے چلایا،
’’اوے رحیم چل آجا کرکٹ کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
رحیم زور سے چلایا،’’ارے واہ ‘‘
اور دوڑتے ہوئے رام کے قریب میدان کے درمیان پہنچ گیا۔ رام بلائے اور رحیم نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔!! آخر دونوں کی دوستی کے قصے سارے گاؤں میں یوں ہی مشہور نہ تھے۔
’’چل لا بیٹ دے رام‘‘ رحیم نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نا منا نا۔۔۔ آج تو ہم بلے بازی کریں گے اور تم گیند بازی کرنا۔‘‘
’’لیکن گیند ہے کہاں ؟‘‘ رحیم نے حیرت سے پوچھا۔
’’ارے ہاں گیند تو ہے ہی نہیں، رکو میں ابھی لاتا ہوں۔۔۔‘‘ رام نے بیٹ بغل میں دباتے ہوئے کہا۔
’’ارے بیوقوف اب گیند لانے اپنے گھر جاؤ گے؟ ایک کام کرتے ہیں وہ دیکھو جھاڑ پر پتنگ اور مانجھا نظر آ رہا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر رحیم نے کچھ دیر کی مشقت کے بعدمانجھا حاصل کر لیا۔ تب رام نے آس پاس سے بہت سارے کاغذ اور کپڑوں کے ٹکڑے ڈھونڈھ کر جمع کر لیے۔ میدان کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے رحیم نے ایک اینٹ نکال کر اسے زور سے زمین پر پٹکا۔ اس کے ردعمل سے حاصل شدہ اینٹ کے چند ٹکڑوں کو کاغذ اور کپڑے میں لپیٹ کر دونوں پتنگ کے مانجھے اس پر لپٹنے لگے۔ سارا مانجھا ختم ہونے پر اب رحیم کے ہاتھوں میں ایک اچھی خاصی گیند موجود تھی۔
میدان کے درمیان جہاں گھانس نہیں تھی وہاں لکڑی کی مدد سے پچ کا نقشہ کریدنے لگے تھوڑی ہی دیر میں میدان کے درمیان ایک پچ موجود تھی۔ اب اسٹمپ کی ضرورت تھی۔ اسٹمپ کا انتظام کچھ دشوار نہ تھا میدان کے دو طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔ دونوں نے بڑی پھرتی سے بالکل سیدھی سیدھی چھ لکڑیاں توڑ کر جمع کر لیں اور خوشی خوشی دونوں تین تین لکڑیاں پچ کے دونوں طرف گاڑنے لگے۔
اب دونوں بالکل تیار تھے۔ مقابلہ شروع ہونے والا تھا۔ رام نے بیٹ اور رحیم نے گیند سنبھال لی۔ رام اب کریز پر بیٹ لیے ڈٹ گیا۔ ادھر رحیم نے گیند پھینکنے کے لیے جیسے ہی دوڑ شروع کی رام نے چیخ کر کہا،’’ارے یار! فیلڈر تو ایک بھی نہیں ؟ میں گیند ادھر اْدھر جہاں کہیں بھی ماروں تو اسے لائے گا کون؟‘‘
’’ہاں یار بات تو بالکل ٹھیک کہی تم نے اور ہمیں ایک وکٹ کیپر بھی درکار ہے۔۔۔‘‘ رحیم نے کہا۔
اب دونوں پچ کے درمیان سر کھجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ میدان کے چاروں طرف نظریں گھمائیں کہ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نظر آئے تو اس سے منت سماجت کرکے اسے فیلڈنگ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ کافی دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد رام نے زور دار طریقے سے قہقہے لگاتے ہوئے بانو بی کی بکروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’وہ رہے ہمارے فیلڈر!‘‘
رحیم نے کبوتر اور مرغیوں کی سمت دوڑتے ہوئے کہا، ’’انھیں میں پکڑتا ہوں یہ بھی آج فیلڈنگ کریں گے۔۔۔‘‘
اور دونوں ہی ان بے زبان جانوروں کو پکڑنے لگے۔۔۔
ان دونوں کے قہقہوں اور بکریوں، مرغیوں اور کبوتروں کے شور سے سارا میدان گونج اٹھا۔۔۔ ایسا شور برپا ہوا کہ چھت پر ڈش کی تار جوڑنے میں مصروف رام پرساد دوڑتا ہوا چھت کی منڈیر پر آ پہنچا۔۔۔ اور زور زور سے چلانے لگا،
’’پکڑو پکڑو۔۔۔ دیکھو رام اور رحیم کو پھر سے دورے شروع ہوگئے۔۔ پکڑو۔۔ روکو!‘‘
رام پرساد کی آوازیں سن کر سلمیٰ اور شویتا دونوں ہی اپنی اپنی چھتوں پر آ گئیں اور وہ دونوں بھی زور زور سے چلانے لگیں۔۔۔!بیچ بیچ میں دونوں اپنے اپنے شوہروں کو یعنی سلمیٰ آصف کو اور شویتا روہت کو پکارنے لگیں۔
تھوڑی ہی دیر میں سارا محلہ میدان میں اکھٹا ہو گیا۔ رام کو روہت نے اور رحیم کو آصف نے دبوچ لیا۔
روہت رام کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چلایا،
’’پاپا یہ کیا بچپنا ہے؟‘‘
رام بالکل سہم گیا۔ رام اپنے بیٹے روہت کی آنکھوں میں غصہ اور میدان میں موجود تماشائیوں کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر سہم گیا اور بولا،’’ بیٹا ہم لوگ ان کو بھی اپنے ساتھ کھلا رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے فیلڈنگ کریں گے۔‘‘
تبھی مجمع میں سے کسی نے کہا، ’’ اور امپائرنگ کرنے کے لیے جنگل سے شیر کو بلوا لیں کیا چاچا؟‘‘سارے لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے۔۔۔
’’ آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟ آپ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آپ کے پوتے پوتیوں پر کیا اثرات ہوں گے ان حرکتوں کے۔۔۔؟ روہت نے شرمندگی سے کہا۔
ادھر آصف نے رحیم کے ہاتھوں سے کبوتروں کو آزاد کیا اور بولا، ’’ابو بس کرو۔۔۔ بند کرو یہ پاگل پن آپ کو آپ کے پوتے پوتیوں کی قسم۔۔۔ آپ کو اپنی عمر کا اب بالکل لحاظ نہیں ؟‘‘
رام پرساد نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا،
’’سنو روہت اور آصف اب وقت آ گیا ہے کہ ان دونوں کو دوبارہ پاگل خانے بھیج دیا جائے۔۔۔ ورنہ ایسے تو یہ پتہ نہیں، کل کو اور کون سا کارنامہ انجام دے دیں؟‘‘
بانو بی نے اپنی ساڑھی کا پلو کمر میں کھونستے ہوئے کہا،
’’وہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں۔۔۔ آج ان بے زبان جانوروں کو پکڑ رہے ہیں کل کو اگر ہمارے بچوں کو پکڑ کر کچھ الٹا سیدھا کر دیا تو پھر کیا کروگے۔۔۔؟‘‘
تبھی رام چیخ کر بول اٹھا،
’’نہیں بہن بچے تو ہماری جان ہے۔۔۔ یہ بچے تو ہماری آنکھوں کا نور ہے۔۔۔ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘
’’بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے سارے بچے موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ سب مصروف ہیں۔۔۔ سب مصروف ہیں !‘‘ یہ سب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں۔
سلمیٰ نے کہا، ’’ اب یہ دونوں برداشت کے باہر ہو چکے ہیں۔۔۔ آپ لوگ ابھی کے ابھی فون لگاؤ اور پاگل خانے کی گاڑی بلاؤ۔۔۔ ورنہ میں تو چلی مائیکے۔۔۔‘‘
’’میں بھی ایک سیکنڈ اب یہاں نہیں رک سکتی۔۔۔ میں بھی چلی مائکے۔۔۔‘‘ شویتا نے سلمیٰ کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
فون کرتے ہی تھوڑی دیر میں پاگل خانے کی گاڑی رام لیلا میدان کے بالکل درمیان میں کھڑی تھی۔ رام اور رحیم کو کسی طرح رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ گاڑی آتے ہی انھیں گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا۔ اب گاڑی کی جالیوں سے چار پتھرائی ہوئی آنکھیں باہر جھانک رہی تھی۔
گاؤں کے تمام ہی بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اس منظر کو اپنے اپنے موبائل میں قید کرتے رہے جب تک کہ پاگل خانے کی یہ گاڑی رام لیلا میدان کے گیٹ کو پار نہ کر گئی۔۔۔!!
٭٭٭
تجزیے اور تبصرے
(واٹس ایپ گروپ بزم افسانہ میں پیش کئے گئے تبصرے اور تجزیے)
ڈاکٹر ریاض توحیدی، کشمیر:
افسانہ ”رام لیلا کا میدان“ اپنے عنوان سے تو ایک مخصوص تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا ہے یعنی وہ میدان جہاں پر ہندو رام لیلا کا جشن یا میلہ سجاتے ہیں، تاہم افسانہ نگار نے اسے مخصوص تہذیب و ثقافت تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ بڑی ہنری مندی سے اسے بین المذاہب یا بین الثقافت کی مشترکہ علامت کے بطور کہانی میں پیش کیا ہے:
”اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔“
کہانی کا بیشتر حصہ بستی میں موجود ہندو اورمسلمانوں کے رہن سہن اور میل ملاپ کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔خصوصاً افسانے کے ابتدائی حصے میں گاوں کی منظر کشی دلچسپ انداز سے کی گئی ہے۔لیکن سوال اٹھتا ہے اور جس پر افسانے کی بنیادی ساخت بھی قائم ہے کہ تاریخی حیثیت کا حامل یہ میدان کیوں خاموش نظر آتا ہے۔یہ تو ہمیشہ گہماگہمی کا گہوارہ ہوتا تھا تو اس کی وجہ فکرانگیز انداز سے افسانے کے آخری حصہ میں یوں بیان ہوئی ہے:
’بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے سارے بچے موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ سب مصروف ہیں۔۔۔ سب مصروف ہیں!“ یہ سب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں۔“
افسانے کے دو اہم کردار رام اور رحیم ہیں اور دونوں اپنی کردار نگاری میں کامیاب نظرآتے ہیں۔تاہم اتنے اچھے موضوع اور ماہرانہ اسلوب کا حامل یہ افسانہ ظاہری ساخت(Surface Structure) پر ٹھیک ٹھاک لگ رہا ہے لیکن داخلی ساخت (inter۔Structure)پر اس کا اختتامیہ کوئی دیر پا متاثرکن تاثر چھوڑنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ کیونکہ جس ماہرانہ بنت کے تحت بنیادی موضوع یعنی رام لیلا کے میدان کاخالی پن‘جوکہ صرف کھیل تماشے تک ہی محدود نہیں بلکہ مذہبی اور ثقافتی رسم رواج کی انجام دہی کا ایک سماجی مرکز بھی تھا‘ کوآخر پر صرف بچوں کے کھیل تماشے کے موضوع تک ہی محدود رکھنا‘افسانے کے وسعت پزیر اختتامیہ پر سوال کھڑا کررہا ہے۔
افسانے کا اختتام ہندوستان کی موجودہ اندوہناک سیاسی و سماجی صورتحال کے منطقی انجام پر اچھے ڈھنگ سے کیا جاسکتا تھا۔وہ یوں کہ رام اور رحیم دو مذاہب کی علامت بن کر اس تاریخی میدان کی ثقافتی اور بھائی چارے کے مٹتے نقوش کی بازیابی کے لیے سامنے آتے اور اپنے بچوں کو یہاں کے بھائی چارے کی یاد دلاتے جس کی گمشدگی کی وجہ سے میدان ویران ہوچکا ہے‘جس کی وجہ سے افسانے کا بیانیہ ایک تاریخی نوعیت کی صورت بن سامنے آجاتا۔ویسے ہم میں بیشتر لوگ ابھی بیان اور بیانیہ(Narration and Narrative) ‘کہانی اور تھیم اور کہانی اور افسانے کے مابین فرق کو بھی واضح انداز سے سمجھ نہیں پائے ہیں اور پھر کوئی بھی تحریر سامنے اور جملوں اور کہانی کی تشریح شروع کردیتے ہیں۔افسانہ اور کہانی میں ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ افسانے میں کسی بھی صوتحال کو بیانیہ کے زیر اثر تخلیقی ڈسکورس بنایا جاتا ہے جب کہ کہانی میں کسی بھی واقع کو حکایتی انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔افسانے کا تھیم بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہم میں سے اکثر تھیم کو چھوڑکر کسی واقعہ یا کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔افسانے کا پلاٹ واقعاتی تسلسل پر استوار ہوتا ہے اور افسانہ نگار مخصوص اسلوب کے ذریعہ اس کی تخلیقی سٹنگ کرتا ہے۔اس میں اگر افسانوی لوزامات ہیں اور علت ومعلول(Cause and effect) کاخیال رکھا گیاتو ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو اس طرح سے کہانی کو بیان کرنا چاہئے تھا۔تاہم اگر فنی اور موضوعاتی پیش میں کوئی کمی پیشی نظر آئے تو مشورہ دے سکتے ہیں۔
ویسے بھی ابھی ہم افسانے کو کسی ایک واقعہ کا بیان ہی سمجھتے ہیں جو کہ فنی اور علمی بنیاد پر غلط ہے کیونکہ افسانہ صرف کسی ایک واقعہ کا بیان نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی بھی خطہ کے ماحول کی فنی عکاسی یا زندگی کے نشیب وفراز کا بیانیہ ہوتا ہے۔افسانہ چاہئے راست بیانیہ میں ہو یا علامتی اسلوب میں ہو‘پہلے وہ افسانہ ہونا چاہئے جس طرح غزل پہلے غزل کی ہیئت میں ہو تب تشریح وتفہیم کا کام شروع ہوجاتا ہے۔بہرحال‘ ایسے موضوعات ایک الگ مباحثہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
ریحان صاحب کا یہ افسانہ پڑھ کر اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر نہ صرف زبان و بیان پر اچھی دسترس حاصل ہے بلکہ افسانہ بننے کا ہنر بھی جانتے ہیں جوکہ ایک افسانہ لکھنے کے لیے بنیادی صلاحیت ہوتی ہے۔
(ردوقبول تسلیم کے ساتھ مسکراہٹ)
٭٭٭
انصاری مسعود عالم، مالیگاؤں:
افسانہ رام لیلا میدان قابل تعریف ہے۔ عمدہ کردار، زبردست منظرکشی اور بچوں کے لیے سبق آموز بھی۔ ٹیکنالوجی کے اس دور نے بچوں کو میدان سے کھینچ کر گھر میں قید کردیا ہے۔ مبارکباد قبول کیجیے سر جی۔
٭٭٭
پرویز انیس، کامٹی:
ریحان کوثر صاحب کے تبصروں کو پڑھ کر جو ان سے توقع تھی۔ یہ افسانہ ان پر نہ صرف کھرا اترا ہے بلکہ اس سے بھی بہت بہتر ہے۔ رام لیلا میدان کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ جتنے کردار ہیں سب کے ڈائیلاگ کروار کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ بیانیہ بہت شاندار ہے۔ سسپینس جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ افسانہ میں جو مدعا اٹھایا گیا ہے اس پر آج بڑے بڑے آرٹیکل لکھے جارہے ہیں۔ لیکن ریحان کوثر صاحب نے اسے ایک چھوٹے سے افسانہ میں سمیٹ دیا۔ افسانہ کا اختتام شاندار ہے۔ اردو افسانوں میں اس طرح کے تجربات کم ہوئے ہیں۔ ریحان کوثر صاحب کا یہ تجربہ نہ صرف نیا ہے بلکہ کامیاب بھی لگتا ہے۔ افسانہ نگار ریحان کوثر صاحب کو ڈھیروں مبارکباد۔
٭٭٭
عمران جمیل، مالیگاؤں:
تاثرات
" بیٹا آصف اَب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے؟۔۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہوجاتی ہے سارے بچے موبائل کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں۔۔۔ اَب کوئی نہیں آتا۔۔ اَب کوئی نہیں آتا۔۔ سب مصروف ہیں۔۔ سب مصروف ہیں! یہبسب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔۔"
یہ اقتباس افسانہ رام لیلا کا مرکزی خیال ہے۔رام لیلا میدان کا نقشہ اور گاؤں کے نقشے کو حسن وخوبی سے کھینچا گیا ہے۔۔ پورا افسانہ نہایت نپی تلی سی محتاط و چست زبان و متاثر کن اُسلوب میں لکھا گیا ہے۔۔ رام اور رحیم کی کردار نگاری اتنی چابکدستی سے بیان کی گئی ہے کہ دونوں کردار ہمیں اپنے آس پاس کے کردار کی طرح زندہ جاوید نظر آتے ہیں۔۔ دراصل پورا افسانہ دوتہذیبوں کے بیچ بدلتی قدروں اور بدلتی ترجیحات کا افسانہ ہے۔۔
ایسے افسانے جب بھی نظروں سے گذرتے ہیں تو بے ساختہ سید اشرف صاحب کا ’’ آخری سواریاں‘‘ یاد آجاتا ہے۔ مٹتی تہذیبوں و دَم توڑتی قدروں پر مشتمل افسانے پڑھنے کے بعد اکثر میں بہت جذباتی ہوجایا کرتا ہوں۔ میرا مسئلہ یہی ہے کہ اپنی حساس طبیعیت کی بنا پر کرداروں کو میں خود پر اوڑھ لیتا ہوں۔۔۔
کیا رام ( ہندو طبقہ) اور کیا رحیم ( مسلم طبقہ) آج ہر طبقے کے بزرگ اپنی ہی اولادوں کی خود پر لادی گئی مصروفیات اور سستی تفریحات میں مگن رہنے کی وجہ بالکل الگ تھلگ پڑتے جارہے ہیں۔۔۔ چاہے جیسا گھرانہ ہو ہر گھر میں بزرگ الگ تھلگ پڑے اپنے ماضی کے قصوں میں ماضی کی زندگی سے بھرپور باتوں میں ہی گم ہوکر اُن خوبصورت واقعات سے زندگی سے بھرپور لمحوں کو کشید کررہے ہیں اور اپنی زندگی کی گاڑی کو چاروناچار آگے بڑھا رہے ہیں۔۔۔۔ کیا بچے کیا بڑے ہر کوئی ’’ڈیجیٹل گزٹ‘‘ میں اپنی خوشیوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔۔ اُنہیں اس کی فکر اور قدر نہیں ہے کہ اُن کے ہی گھر میں اُن کے بزرگ ماں باپ ہیں دادا دادی ہیں جن سے ڈھیر ساری باتیں کرکے جن کے ساتھ گپ شپ کرکے وہ ان عملی اسکولوں سے بہت کچھ ایسا سیکھ سکتے ہیں جو حقیقی و عملی زندگی کی دشواریوں میں ’’سنجیونی بیوٹی‘‘ کا کام کرے گی۔
افسانے کا آخری منظر بھی نہایت درد انگیز ہے۔۔۔۔ اور بےحس سماج کے چہرے پر زناٹے دار طمانچہ ہے یا پھر ایک ایسی کربناک چیخ ہے جسے حساس دل ہی سہار سکیں گے کہ۔
رام اور رحیم جو پاگل نہیں تھے۔۔۔ صرف اپنوں سے گفتگو کے لیے ترسے ہوئے لوگ تھے۔۔۔ جب انہیں بےحس، خود غرض گھر والوں کی وجہ سے پاگل خانے کی ایمبولینس لے کر جاتی ہے تب بھی یہی جذبات سے عاری بچے کمپیوٹر اور موبائل کی طرح مشینی سوچ والے بچے اپنے موبائل فون سے اُن کی بےبسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔۔۔ میں اُن جاتے ہوئے رام رحیم کو ’’آخری سواریاں‘‘ کے نکتہ نظر سے محسوس کرتا گیا کہ اَب یہ تہذیبوں اور قدروں کے امین تو جاچکے ہیں۔۔۔ اے نئی نسل اپنے مسائل پر اَب آپ کہاں فریاد کرسکوگے؟؟؟
ایک کڑوا سچ اسی نسل کا یہ بھی ہے کہ کوئی تسلیم کرے نہ کرے اکثر بزرگ ادیبوں کو تو عالمی قدرو منزلت و پذیرائی ملتے رہتی ہے لیکن ان ہی میں سے اکثر لوگ اپنے ہی گھر میں ناقدری و بے اعتنائی کا شکار ہوتے ہیں۔ وجہ یہی ہیکہ ان بزرگوں کی شخصی و علمی قدر کی بجائے ہر گھر میں ’’مشینی گزٹ‘‘ کی پوجا ہورہی ہے۔۔۔
بہرکیف محترم بھائی ریحان کوثر صاحب آپ نے اس بہترین افسانے میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔۔۔ اور سماج کو ایک اچھے اسلوب میں تحریر کردہ افسانے سے بہت ہی بلیغ و سوچنے لائق پیغام دیا ہے۔۔ بہترین منظر نگاری سے مزین، صالح قدروں کی تجدید کی فکر میں تخلیق کئے گئے اس متاثر کن و خوبصورت افسانے کی تخلیق پر دلی مبارکباد۔۔۔
٭٭٭
عارفہ خالد شیخ:
موصوف کو اپنی اس تخلیق پر دِل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں جنہوں نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کی ہے۔۔۔ پہلے پہل ہر جگہ ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔مگر آج کے پر فتن دور میں یہ دوستی نفرت میں بدل گئی۔
مصنف نےاپنے انداز میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ رام اور رحیم دو کردارجو آپس میں دوستی اور محبت رکھتے ہیں۔مگر ان کے گھر والوں کو یہ بات پسند نہیں۔نفرت اور حقارت کے چلتے گھروالے اپنے بڑوں کو پاگل قراردے کر پاگل خانے بھیج دیتے ہیں۔دوسرے آج کل کے نوجوان، کیا بچے سب نئی تکنیک کے دلدادہ۔۔۔ان کے پاس اپنے بڑوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا وقت کا زیاں محسوس ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال سے وہ اپنے کمروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔جسمانی کھیل کود، ورزش، لوگوں سے ملنا جلنا ان سب باتوں کا چلن بند ہو گیا ہے۔ ایسے میں گھر کے بزرگ تنہائی اور اکیلا پن محسوس کرتے ہیں۔
ریحان صاحب نے گاؤں کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ لا جواب ہے۔ موصوف نے درمیان میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اتوار ہونے کے باوجود آج میدان خالی ہے۔یہ میدان خالی کیوں ہے۔۔۔؟یہ واضح نہیں کیا۔ ہو سکتا ہےرام اور رحیم نامی دو پاگل گھوم رہیں ہیں ایسا لوگوں میں گشت کر رہا ہو۔جس کی وجہ سے ڈر کے مارے کوئی میدان میں نا آنا چاہتا ہو۔
بہر حال۔۔۔افسانہ کے ذریعے آج کے بگڑتے حالات کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے پر ریحان صاحب کو ڈھیروں مبارک باد۔
٭٭٭
ڈاکٹراظہر ابرار، ناگپور:
ریحان کوثر کا افسانہ" رام لیلا میدان" کے مطالعہ کے بعد قاری سوچ میں پڑ جاتا ہے اور جب وہ آخری پراگراف ختم کرتا ہے تو سہم جاتا ہے کیونکہ آج ہم جس دور میں جی رہی ہیں وہ ایسا وقت ہے جب لوگ رام رحیم کے نام کو بد نام کر رہے ہیں اور ہر طرف ماحول میں نفرتوں کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ہر انسان دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ایک طرح کا خوف ہر چہرے پر صاف نظر آرہا ہے۔اور اس میں صرف ایک مذہب کے لوگ شامل نہیں ہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔
افسانہ رام لیلا میدان دور حاضر کی سچائیوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔انسان سے انسان کی پہچان کرواتا ہے۔ مذہب کو ماننے سے پہلے اسے یہ درس دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب میں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ دوسروں کو تکلیف دی جائے، بے جا پریشان کیا جائے اور اسے جینے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔
ذرا ان سطور پر غور کیجئے۔
"آج ان بے زبان جانوروں کو پکڑ رہے ہیں کل کو اگر ہمارے بچوں کو پکڑ کر کچھ الٹا سیدھا کردیا تو پھر کیا کرو گے؟"
دراصل یہاں کسی ایک مذہب کی جانب اشارہ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ وہ تنگ ذہنیت ہے جو رام رحیم کو آپس میں ملنے سے روک رہی ہے۔
ریحان صاحب نے ایک بہت بڑے موضوع کا انتخاب کیا جس میں مشترکہ تہذیبوں کا ایک ایسا المیہ پیش کیا گیا ہے جو کئی صدیوں سے ساتھ رہنے کے باوجود چند شر پسند عناصر کی وجہ سے ایک دوسرے کو شک و شبہات کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔افسانہ نگار نے بڑے ہی موثر ڈھنگ سے آسان لفظوں کا سہارا لے کر مشترکہ تہذیب کے بہت بڑے خسارے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جب قاری افسانے کا آخری پیراگراف پڑھتا ہے تو ابتدا میں اسے جب کچھ تعجب سا ہوا تھا اختتام پر پہنچ کر وہ اپنی روح کو زخمی پاتا ہے گویا یہ پیریگراف اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، جب پاگل خانے سے آئی ہوئی گاڑی رام اور رحیم کو لے جاتی ہے اور بچے تصاویر کھینچنے میں مگن اور وہاں موجود باشعور افراد یہ دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو دو پاگل ہم میں سے کم ہو گئے۔
رام لیلا میدان افسانے کے ذریعے افسانہ نگار اپنی بات کہنے میں پوری طرح کامیاب ہوا ہے جس میں سوشل میڈیا پر بہت گہرا طنز ہے جو معصوم اذہان کو برباد کر رہا ہے۔اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ بڑے بزرگ لوگ جو اپنے بچوں کو اتفاق و اتحاد کا کبھی درس دیا کرتے تھے وہ بھی اس، نفرت، حسد اور انتقام کی آگ میں جل رہےہیں۔
میں اپنی جانب سے ریحان کوثر صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ماحول کی نزاکت کو سمجھ کر یہ افسانہ پیش کیا۔
٭٭٭
قیوم اثر، جلگاؤں:
ریحان کوثر کے قلم سے نکلا یہ افسانہ واقعی قابل تعریف ہے۔زبان و بیان کی بات کیجیے تو بہت صاف ستھرا پن ہے۔افسانہ کی بنت میں کہیں کوئی لوچ و لچک نہیں اور ہاں افسانہ طویل ہے پڑھتے جاؤ تب بھی کوئی راز ہے کہ کھل نہیں پاتا۔بالکل ابن صفی کے ناولوں کی طرح کہ جس پر الزام آنے تھے وہ سامنے ہوتا مگر پہچان کے در آخری حصے میں کھلتے تھے۔افسانے میں موصوف نے معاشرے کی وہ برائیاں بھی گنوائیں جن کا ذکر کرنا بھی عیب سمجھا جائے گا۔اس کہانی کے رام اور رحیم دو مرکزی کردار ہیں۔ابتدا میں دونوں کی ایسی حرکتوں کی نشاندہی تک نہ ہوئی کہ محلہ والوں کے لیے باعث تکلیف ہویا گھر والوں کے لیے درد سر۔
یہاں ابتدائی حصے میں رام لیلا میدان اور آم گاؤں کی منظر کشی عمدہ ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اسے کافی اہمیت حاصل تھی۔یہ الگ بات ہے کہ کھلے میدانوں میں کبھی کبھی بھیڑ نہیں ہوتی۔رام اور رحیم دونوں میں عمر کے اعتبار سے دوستانہ ہے۔کچھ کردار کہانی کی رونق بڑھانے کی خاطر افسانے میں لائے گئے ہیں۔ کبوتر والے عبدل چاچا،مرغیوں والے رامو کاکا اور بکریوں والی بانو بی ان کی انٹری بھی وقت آنے پر ہی کی گئی۔
دونوں بزرگ فطری اعتبار سے بہت چھوٹے بتائے گئے۔صبح صبح کے وقت کپڑے دھلائی کی پیٹنی کو بلہ سمجھ کر رام کرکٹ یاد کرتے ہیں۔بالر بھی تو ہو اس لیے رحیم کو لایا گیا۔منظر کچھ اس طرح بیان کیا گیا کہ گیند نہیں تھی تو درخت سے مانجھا،اینٹ کا ٹکڑا،کاغذ اور میدان میں ملے کپڑوں کے ٹکڑے جمع کرکے گیند بنائی گئی۔یہاں ایک قصور کا ذکر کیا گیا کہ فیلڈر ہونے تھے تو بکریوں، مرغیوں اور کبوتروں کو ساتھ لینا چاہیے۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ریحان نے راز کھلنے نہ دیا۔
اسی اثنا میں رام پرساد وہیلن کی طرح چینخا کہ اب برداشت کے باہر ہوگیا۔ رحیم کا بیٹا آصف اور رام کا بیٹا روہت میدان میں آگئے۔ساتھ دونوں کی بیویاں سلمی اور شویتا بھی آگئیں۔یہاں ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔بیٹوں نے احترام اور رشتوں کو داغدار نہ ہونے دیا۔روہت نےرام کو دبوچ کر کہا،
”پتا جی یہ کیا بچپنا ہے۔پوتے پوتیوں کا تو کچھ خیال کرو۔“
بہو کہتی ہے کہ برداشت کی حد ہوگئی۔انھیں پاگل خانہ بھیج دیا جائے ورنہ وہ مائکے چلی جائے گی۔آصف نے والد صاحب کو پکڑ لیا کہنے لگا،
”ابو بس کرو یہ پاگل پن۔تمھیں پوتے اورپوتیوں کی قسم۔“
تو بیوی سلمی کہتی ہے کہ فوراً گاڑی بلاؤ اور انھیں پاگل خانہ بھجوادو ورنہ وہ مائکے جارہی ہے۔یہاں ہے معاشرہ میں بدامنی اور جنگ۔بیٹے باپ کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں تو بہوئیں نفرت کے بیج بو رہی ہیں۔
ریحان کوثر درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی صورت میں جب مرکزی کرداروں نےکہا کہ بچے میدان میں نہیں آتے ٹی وی،کمپیوٹر اور موبائل میں لگے ہوئے ہیں تو یہاں افسانہ نگار نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ آہستہ آہستہ بچے میدانی کھیلوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو اچھی بات نہیں۔آخر کار کوثر نے حقیقتوں سے پردے اٹھائے۔بھیڑ سے فون ہوا اور پاگل خانہ کی گاڑی آتی ہے۔رام رحیم کو رسیوں سے باندھا گیا تھا جب انھیں گاڑی میں بٹھایا جاتا ہے تو بچوں نے اس منظر کو اپنے موبائل میں قید کرلیا۔
یہاں بزرگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو تارتار کیا گیا سوچ کی دھجیاں اڑائی گئی۔رام رحیم سے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی پھر بھی وہ خطرناک پاگل ٹہرائے گئے۔بیٹے دیکھتے رہ گئے۔ ان کی بیویوں کے چہروں پر نمودار ہونے والی مسکراہٹوں کا بیان نہیں کیا گیا۔ایسا شاید دانستاً کیا گیا ورنہ بہوئیں سفاکی کے الزام سے بچ نہ پاتیں۔
کہانی میں کہانی پن ہے۔ بنت کا سلیقہ بھی۔ہر جملہ دوسرے سے کسا ہوا۔ دلچسپی اتنی کہ افسانہ طویل ہونے کے باوجود آخر تک پڑھا جائے گا۔جیسا تعارف ویسا افسانہ۔کبھی کبھی ہوجاتے ہیں۔قلب کی گہرائی سے مبارک باد۔
٭٭٭
وسیم ظفر:
ریحان کوثر کا افسانہ۔۔رام لیلا میدان مذہب سے پرے ہٹ کر انسانیت کا درس دیتا ہے۔۔۔۔افسانے میں بہت ہی خوبصورت انداز میں گنگا جمنی تہذیب کی منظر کشی کی گئی ہے۔۔۔۔
افسانہ نگار کو اور ایڈمین پینل کو مبارک باد۔
٭٭٭
ڈاکٹرشہروز خاور، مالیگاؤں:
کردار اور مغالطہ:
رام اور رحیم کے افعال تجسس پیدا کرتے ہیں۔ یہی تجسس قاری کو پڑھتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ دونوں بچے ہیں۔ لیکن دونوں کرداروں کی عمر کا اندازہ ہوتے ہی پتہ چلتا ہے کہ افسانہ نگار نے جان بوجھ کر مغالطے میں رکھا تھا۔اگر راوی کہہ رہا ہے۔
’’عبدل چاچا کے کبوتر خانے کے سبھی دروازے کھل گئے تھے۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ راوی نوجوان ہے۔ اس لیے جو احترام عبدل کے لیے ہے وہی احترام رام اور رحیم کے لیے بھی لازم آتا ہے۔
ہاں۔۔۔ اگر عبدل کے ساتھ لگا ہوا چاچا نکال دیا جائے تو رام اور رحیم کی بزرگی کا سوال ختم ہوجائے گا اور افسانے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،
یعنی مغالطے کا اعتراض ختم ہونا ضروری ہے۔
اور اگر۔۔۔ صاف طور سے یہ بیان کر دیا جائے کہ دو بوڑھے ایسی حرکت کر رہے ہیں تو ممکن ہے بہت عجیب لگے۔۔۔ شاید اسی لیے افسانہ نگار نے رام اور رحیم کی عمر چھپائی۔۔۔
لیکن میں سمجھتا ہوں،دو بوڑھوں کی ایسی حرکات کا بیان بھی تجسس سے خالی نہیں ہوگا۔۔۔ جس کی وجہ سے موجودہ تجسس کا تصنع بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔
موضوع:
افسانہ نگار کے لیے چیلینج اور قاری کے لیے اہم چیز افسانے کا موضوع ہے جو آج کل اکثر محفلوں میں زیر بحث ہوتا ہے۔۔۔۔۔ چونکہ موضوع کا مسئلہ نہ صرف ایک علاقے کا ہے اور نا ہی کسی ایک مذہب کا۔۔۔۔ بلکہ 1990ء کے بعد سے انسانی معاشرے کے ہر شعبے میں ہونے والی مسلسل تبدیلی کی وجہ ہر خطے اور زمین کے ہر ٹکڑے پر اس کے اثرات (کم زیادہ) دیکھے جاسکتے ہیں۔۔۔۔
موضوع اس لیے چیلینج ہے کہ موضوع کے مسئلے کا کوئی حل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔۔۔۔ ( اور امکان بھی نہیں ہے۔۔۔)
اس موضوع پر بات کرنے والے بھی خود شکار ہیں۔۔۔ اس صورت میں افسانہ نگار نے جو کہانی پیش کی ہے وہ موضوع کی ترسیل کے لیے بہت مناسب ہے۔۔۔۔
کہانی کی خوبی یہ ہے کہ ایک میدان میں پورے ہندوستان کے سامنے عملی طور سے ایک اہم مسئلہ پیش کیا گیا ہے۔۔۔۔
افسانے کی خوبی یہ ہے کہ رام اور رحیم کے کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔
افسانہ نگار کا قلم سچا ہے۔۔۔۔ جو چیز جیسی دکھائی دیتی ہے ویسی ہی لکھ دی گئی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میدان اور بستی کا منظر اجنبی نہیں معلوم ہوتے۔۔۔۔
کلائمکس بالکل سیدھا اور اچھا ہے:
حالانکہ صرف ایک واقعہ سے دو بوڑھوں کے خلاف کی گئی کاروائی کچھ غیر فطری معلوم ہوتی ہے۔۔۔ جب کہ اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ دونوں اکثر ایسا کرتے ہیں۔۔۔ لیکن اشارے میں وہ شدت نہیں ہے کہ قاری مطمئن ہوسکے کہ ہاں واقعی محلے والے ان دونوں کی حرکتوں سے عاجز آ چکے ہیں۔۔۔
اس کے باوجود کلائمکس، کہانی کے مطابق ہے اور خاص بات یہ ہے کہ سماج کی بے حسی پر گہری چوٹ کرتا ہے۔۔۔۔
نئے موضوع پر کہانی لکھنے پر افسانہ نگار کو بہت بہت مبارکباد ۔
٭٭٭
پروفیسر غضنفر:
محسوسات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریحان کوثر کی کہانی’’رام لیلا میدان‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ دوستوں نے کہانی، کہانی کے فن،تھیم، زبان و بیان وغیرہ پر بھی کچھ بنیادی باتیں کیں۔میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں میں اپنے محسوسات آپ سے شیئر کروں:
کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی۔کہانی سوز بھی ہوتی ہے اور ساز بھی۔ کہانی رمز بھی ہوتی ہے اور غماز بھی۔نبض بھی ہوتی ہے اور نباض بھی۔
کہانی وہ بھی کہتی ہے جو کہا نہیں گیا۔وہ بھی سناتی ہے جو سنا نہیں گیا۔وہ بھی دکھاتی ہے جو دیکھا نہیں گیا۔
اور
یہ سب کرشماتی کام اس لیے کر پاتی ہے کہ اس کے خالق کے پاس لفظ کی جادو گری ہوتی ہے۔
لفظ کی جادو گری یہ ہے کہ لفظ تصویر میں بدل جائے۔
لفظ سر میں ڈھل جائے۔
لفظ رنگ بن جائے۔ لفظ خوشبو ہو جائے۔ لفظ روشنی نظر آئے۔
مگر
کہانی کار کو لفظ کا جادو یوں ہی نہیں ملتا۔ اس کے لیے حیات و کائنات اور صوت و صدا کے نکات کو جاننا پڑتا ہے۔ جاننے کے لیے جاگنا پڑتا ہے۔
مگر جاگنا سہل نہیں ہے۔ جاگنا کٹھن اور دکھ دائی ہے۔اس کریا میں نین جلتے ہیں۔پتلی میں چبھن ہوتی ہے۔پلکیں دکھتی ہیں۔لیکن اس عمل سے جو گزرتا ہے کہانیاں اس کے ہاتھ لگتی ہیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر فریدہ بیگم:
زیر نظر افسانہ ’’رام لیلا میدان‘‘ دراصل ہندوستان ہی ہے جو تہذیب و ثقافت کا مظہر ہے۔یعنی جہاں گنگا جمنی تہذیب میں یہ تہوار برائیوں پر اچھائی کی جیت ہے۔ اس افسانہ میں '"رام اور رحیم" کو ملنے یا ساتھ رہنے پر لوگوں کو اعتراض ہے اور خاص کر اس میدان میں آنے اسے "آباد" رکھنے کی بات ہے۔اس زمین کے دو حصے ہیں۔آدھا ہندو تہوار کے لیے اور آدھا مسلم عید کے لیے۔اس کے پس پردہ جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے۔۔ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کی ہے۔ دونوں مذاہب میں جو محبت، بھائی چارہ، اخوت،جو اتحاد تھا اسے اب توڑنے کی سازش کی جارہی ہے۔۔اگر کوئی اس محبت کو پھر سے ظاہر کرئے گا قائم کرے گا تو اس پر پاگل کا الزام لگے گا۔۔ تو رام و رحیم کی طرح زبردستی پاگل خانہ میں ڈالا جائے گا۔ یعنی اس کے ساتھ استحصال کیا جائے گا۔ یہ دراصل سیاست کی سب سے بڑی سازش کی طرف اشارہ ہے کہ انھیں اور ان کی قوم کو موبائل، انٹرنیٹ میں بزی رکھا جائےاور خود سیاسی رام لیلا رچائی جائے۔
اور ہمارے ہندوستانی قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بچہ سے لےکر بزرگ تک اس انٹر نیٹ کی بھول بھولیاں کے جال میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔انھیں حقائق پر غور وفکر کرنے کی فرصت نہیں۔۔کبھی رام لیلا کا میدان بلا تعصب اپنے رنگ میں رنگا ہوتا تھا۔۔ایک طرف راون کا خاتمہ تو دوسری طرف محبت کا عظیم درس گلے مل کر اس محبت کو مضبوط کیا جاتا تھا۔۔اب یہ میدان خالی ہے دور دور تک کوئی نہیں،
"بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا اب ہم کش کو پکڑیں۔۔۔۔کوئی بچہ نہیں آتا یہاں۔صبح سے شام ہوجاتی ہے سارے بچے موبائیل کمپوٹر میں لگے رہتے ہیں۔۔اب کوئی نہیں اتا۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔سب مصروف ہیں۔۔سب مصروف ہیں"۔۔
دراصل ایسی لیلا اور ایسے میدان ہمارے معاشرے میں ہر ریاست، ہر شہر،ہر گاوں میں موجود ہے۔اور عوام کے ذہنوں سے کھیلنے والے رام پرساد ہر جگہ مل جاتے ہیں۔بانو بی کو فکر ہے
"وہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں۔۔۔آج ان بے زبان جانور کو پکڑ رہے ہیں۔کل کو ہمارے بچوں کو پکڑ کر الٹا سیدھا کیا تو پھر کیا کروگے"۔۔۔؟؟؟
یہی غلط طریقہ سے عوام کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر گھولا جارہا ہے اور لوگ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔کیونکہ لوگ ان کے شکنجے میں پوری طور پر پھنس چکے ہیں۔۔اور معصوم عوام اس کا شکار ہے۔
کلائمکس میں۔۔۔
موبائل نے اس قوم کو انھیں اپنی اصل خوشیوں سے محروم کردیا ہے۔۔ان کے رام لیلا تہوار اور عید جہاں یہ میدان خوشیوں کا گہوارہ تھا آج ویران پڑا ہے اسے آباد کرنے والا کوئی نہیں۔۔سب تماشائی ہیں۔۔رام اور رحیم کا انجام دیکھ رہے ہیں
اس افسانہ میں بیانیہ اسلوب ہے کردار اور مکالمہ خوب ہیں۔۔گاوں کی منظر نگاری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔۔مگر تجسس اس قدر موثر نہیں۔۔دیر پا اثر نہیں چھوڑ تا۔۔ کلائمکس سوچنے پر مجبور کرتاہے کہ آخر رام اور رحیم کا قصور کیا تھا جو انھیں زبردستی پاگل خانہ بھجوایا گیا۔۔
یہاں مزید احساس دلایا جاتا اور لوگوں کے دلوں میں پھر سے محبت بھائی چارے کی اہمیت سجھائی جاتی تو مزید جان آجاتی۔۔یہ بہت پر اثر ہوتا۔۔
کہانی اپنا پیغام دینے میں کامیاب ہے۔ خیر اس کامیاب کہانی پر جو ایک درس لیے ہوئے ہے افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ خلوص کے ساتھ!
٭٭٭
محمد رافع شاد اعظمی ندوی:
کہانی کا موضوع اچھوتا ہے، دو مختلف تہذیبوں اور دھرم سے تعلق رکھنے والے دو بوڑھے پوری طرح بچوں کی سی میل محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان میں نکل کر زمانے کے بدلتے ماحول سے بے پروا ہوکر کھیل کود کرتے ہوئے پرانے وقتوں کو زندہ کرتے ہیں، نئے زمانے میں نئی نسل کے پاس نہ وقت ہے اور نہ اس گنگا جمنی تہذیب کا سرمایہ۔
افسانہ نگار کو کہانی کہنے کا ہنر آتا ہے، اسے قاری کو باندھے رکھنے کا سلیقہ حاصل ہے، جزئیات نگاری کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں، مشاہدہ گہرا ہے، کہانی کی فضا جاندار ہے، اتنی ساری خوبیاں کسی بھی قلم کار اور افسانہ نگار کو مقام دلانے کے لیے کافی ہیں۔
زبان صاف اور رواں دواں ہے، کہیں کہیں ٹھٹھکنا پڑا جیسے۔
(شکل و صورت سے) کسی مصروف شہر سے کم نہ تھا۔
میدان کے سامنے کی رِنگ روڈ پر اب بڑے بڑے ٹرک اور بسیں تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی( دوڑ رہی تھیں)۔
(سوچ وفکر) وغیرہ۔
عنوان ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن کہانی اسی عنوان کو متعین بالکل نہیں کرتی،
دوسرے عنوان بھی ہوسکتے تھے، عنوان کا سرا ڈھونڈنے میں قاری پوری کہانی پڑھ جاتا ہے لیکن اسے وہ سرا نہیں ملتا اور کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
کہانی بدلتے وقت اور رجحانات، میل محبت کی کمی، آپسی دوری، کمزور ہوتی گنگا جمنی تہذیب اور نئی نسل کی بدلتی ترجیحات پر روشنی ڈالتی ہے، کہانی پڑھ کر طبیعت بے چین ہوجاتی ہے اور کوئی بہت قیمتی سرمایہ کھودینے جیسا احساس ہوتا ہے، بہت دیر تک قاری کہانی کے ماحول سے خود کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
اس خوبصورت افسانے کے لیے جناب ریحان کوثر صاحب کو ڈھیروں مبارکباد۔ ( ردو قبول تسلیم)
٭٭٭
ہارون اختر، مالیگاؤں :
افسانہ نگار کو اس شاندار تحریر پر بہت بہت مبارکباد رام اور رحیم صرف دو کردار ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ ایک سچ ہے ۔کس کو تکلیف پہنچانا انسانیت کے خلاف ہے ۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ قلم کار نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ کہہ بغیر بھی کہاجاسکتا تھا۔ رام لیلا کی منظر کشی بھی عمدہ ہے۔
نیک خواہشات اور دعائیں۔
٭٭٭
فریدہ نثار احمد انصاری، دوحہ(قطر):
وطن عزیز کی گنگا جمنی تہذیب کی شان تاریخ نے دہرائی ہے۔
افسانہ نویس نے اسی بات پر دو کرداروں پر ایک خاکہ کھینچا اور رام لیلا میدان کو ہندوستان بنا کر پیش کیا جہاں خصوصی طور پر دو مذاہب کے لوگوں کو پیش کیا۔ دونوں مل جل کر ہمیشہ کی طرح رہنا چاہتے تھے، اپنی پرانی روایات، قدروں کو جانتے مانتے تھے لیکن دور حاضرکے تقسیم شدہ لوگ ان سے ان کی یہی سماعت اور گویائی صلب کرنے کے درپے ہو گئے اور انھیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کیا بلکہ وہ جگہ جہاں دونوں چین کی بنسی بجاتے تھے اس سے بھی دور کر دیا گیا۔
افسانے نے آج کی سیاست پر کاری ضرب لگائی۔
قلم کار نے منظر نگاری کے گل بوٹوں سے خوب سجایا اور گاؤں جو کہ شہر بن چکا ہے، اس کو اس طرح بیان کیا گویا پردہء سیمیں پر کردار رقص کر رہے ہوں۔
اختتام میں کچھ تشنگی باقی رہی۔اگر دونوں کردار کی باہمی تڑپ اور میدان سے دوری پر بھی کام کیا ہوتا تو تحریر مزید شاندار ہوتی۔ایسا میرا خیال ہے اختلاف ممکن ہے۔
٭٭٭
مشتاق احمد نوری، پٹنہ:
ریحان کوثر نے رام لیلا میدان میں ایک ایسے کرب کو بیان کیا ہٕے جو آج ہم سب کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ کسی کے پاس کسی کے لیے کوئی وقت نہیں ہرنفس موبائیل یا سوشل میڈیا کا یوں قیدی ہوگیا ہے کہ اسے اپنے آس پاس کی خبر نہیں ہوتی وہ بس اپنی دنیا میں محدود ہوگئے ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان گھر کے بوڑھے ہیں جو آج کی مصنوعی دنیا میں ان فٹ ہیں۔بیٹا بہو اور بچے سب اسی مصنوعی دنیا کے قیدی ہیں کوئی بات کرنے یا سنے والا نہیں۔اب یہ بوڑھے کہاں جائیں کیا کریں یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ جس کا کوئی حل اس سماج کے پاس نہیں ہے ان حالات میں اگر رام رحیم اپنے طور پر وقت گزاری کی کوئی ترکیب کریں تو پاگل کہلائیں۔ ریحان کوثر نے آج کے اس مسئلے کو بہت خوبصورتی سے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
رحیم رضا، جلگاؤں:
ریحان کوثر صاحب آپ نے رام لیلہ میدان اس کہانی کے ذریعہ جہاں ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور سماجی یگانگت کا نقشہ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا وہیں رام پرساد کے کردار کے ذریعے ایک الگ سوچ رکھنے والوں کی نشاندہی بھی کی۔
سلمیٰ کی چھت پر دوچار گھنٹہ دھوپ اور پھر سورج کا زاویہ بدلتے ہی رام پرساد کی بلڈنگ کا دھوپ کو کھا جانا متوسط طبقہ اور سرمایہ کاروں کے درمیان امتیاز کو ظاہر کرنے والی علامت ہے دنیاوی مال ودولت ہی نہیں قدرتی وسائل پر بھی اعلیٰ طبقہ کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
موضوع کے ساتھ مکمل انصاف، کرداروں کے انتخاب، وقت کے ساتھ بدلتی اقدار اور سماج کے نظریات قلم کی روانی ایسی کہ قاری شروع سے آخر تک کہانی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔اس پر دونوں بزرگوں کو رسیوں سے جکڑ کر گاڑیوں کی روانگی کا دل دوز منظر بظاہر اختتام لیکن قاری کے ذہن کے کسی کونے میں کسی ان کہی کہانی کا آغاز ۔واہ! دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد
٭٭٭
شبیر احمد کولکاتہ:
واہ واہ واہ۔۔۔ کیا ہی خوبصورت افسانہ ہے۔ رام رحیم جیسے بزرگوں کا کیا خوب ٹھکانہ ہے۔ بیٹے بہوئیں پاگل قرار دے کر پاگل خانے پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں اور پوتے پوتیاں اس مسرت آمیز منظر کو اپنے اپنے موبائل میں قید کرتے ہیں۔ اور یہ کمبخت چار پتھرائی ہوئی آنکھیں گاڑی کی جالیوں سے انھیں دیکھتی ہیں جنھیں خوش و خرم دیکھنے کی خاطر کیسے کیسے سپنے سجائے تھے۔ اپنا سب کچھ ارپن کردیا۔ ساری زندگی گنوا دی۔ جنریشن گیپ کی اتنی دل خراش تصویر اور سائنسی ترقی کے ایسے منفی اثرات افسانوی دنیا میں کم کم ہی نظر آتے ہیں اور وہ بھی ایسی فن کاری اور سحربیانی کے ساتھ۔
منظر کشی بھی غضب کی ہے۔ ریحان کوثر صاحب کو ڈھیروں داد۔
نوٹ: 'سستی کے غلاف میں'، 'ذمہ داریوں کی زنجیروں میں'۔۔۔ نیند کے قید خانے میں مقید۔۔۔' جیسی بندشوں کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے تصنع کا احساس ہوتا اور کہانی کا فطری بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔ مگر چلئے ٹھیک ہے ہر قلم کار کی اپنی روش ہوتی ہے۔ ایک بار پھر ریحان کوثر صاحب کو بہت بہت مبارک باد۔
٭٭٭
محمد سراج عظیم، دہلی:
ریحان کوثر کا رام لیلا میدان اپنی وسعت پر بیشمار واقعات لیے ہوئے ہے۔ اگر اس کو بغور پرھا جائے تو افسانہ نگار نے اپنے افسانے کی بنت میں الفاظ کو اس چابکدستی سے استعمال کیاہے اور منظر نگاری کے ذریعہ بین السطور میں پوری ایک تاریخ بیان کی ہے۔
کچھ کی طرف بطور خاص اشارہ کرتا ہوں۔ اب بلے کی جگہ پیٹنی کا استعمال ایک خاص علامت ہے جو اپنے ایک خاص سوچ اور عمل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ میدان میں مین گیٹ کے علاوہ دیوار کا ٹوٹنا اور راستہ بن جانا ایک بہت اہم بات اور قوموں کے زوال اور ان کی حیثیت کی علامت ہے کہ جہان انھیں اپنے وجود کی بقا کے لیے ان تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے جو اس کا شیوہ نہیں تھا ۔ جو کل تک بہت تزک و احتشام کے ساتھ سربلند مین گیٹ سے داخل ہوتے تھے بات یہیں ختم نہیں ہوئی کرکٹ کے کھیل کا استعارہ استعمال کرکے فاضل افسانہ نگار نے عصر حاضر میں طبقاتی چپقلش کے واضح نقوش وا کئے ہیں۔ یہ ہر کوئی جانتا ہئےکرکٹ میں پہلے بلے بازی کرنا برتری کی علامت ہے۔ پہلے گیند باز کی تلاش ایک خاص سوچ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ کھیل کو دلچسپ بنانے کے لیے تمام تر محنت پسینہ بھاگ دوڑ ایک خاص طبقہ کا وصف اور اس پر بھرپور شاٹ لگا کر کامیابی اور برتری حاصل کرلینا۔ پیٹنی کا کمال اس میں بھی بین اسطور میں دیکھیں یہ کہنا بیٹنگ تو پہلے ہم ہی کریں گے۔ پھر فیلڈرز کی تلاش میں بلے کو بغل میں دبانا اور بکریوں کو جو ایک خاص طبقے کی علامت ہیں ان کو پکڑنے کے لیے دوڑنا۔ یہ افسانہ نگار نے ایسے واضح ثبوت اور نشانیاں بتائی ہیں کہ ایک پورے نظام رونما ہونے والے تاریخ میں بدلتے منظر نامے ایک طبقہ خاص کی ملکی حیثیت اس کے حقوق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ان سب کے باوجود باہمی روابط رواداری محبت و اخلاص افسانہ نگار نے رام رحیم کے کردار سے دکھائے لیکن کرداروں کی نام سازی افسانہ نگار نے پھر کہوں گا ایک خاص سوچ خاص نظام کی نشاندہی اور عصر حاضر میں انتشار کردار کے ہی نام سے مماثلت کے ذریعہ دکھایا گیا ہے۔ اور آخر میں ایک خاص کلچر کی علامت کو ختم کرنے کے لیے پورے پورے جبر و استبداد کے ساتھ مسلط کیا گیا ہے۔ جس کو سب نپنسک بنے ہوئے خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال افسانے میں کہنے کے لیے ابھی بہت کچھ باقی ہے کچھ باتیں تھیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ریحان نے بہت سوچ سمجھ کر ایک کامیاب افسانے کی بنت کی ہے۔ منظر نگاری واقعات الفاظ کا استعمال بہت خوبی اور کمال ہوشیاری سے کیا گیا ہے۔
میں اس کامیاب افسانہ پر ریحان کوثر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
٭٭٭
شاہد اختر، کانپور:
فرقہ وارانہ فسادات اور جنسیات دو ایسے موضوعات ہیں جن پر قلم اٹھانا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ریحان کوثر نے بہرحال کوشش کی ہے۔ راوی نے آم گاؤں کو گاؤں تسلیم کیا ہے لیکن منظر نامہ شہر کا ہے۔ کسی وجہ سے اسے گاؤں کہا جاتا ہےتو اس کی وضاحت ضروری تھی۔ ہر سوال کا جواب افسانے میں ہی تلاش کیا جائےگا۔ مجھے کئی جگہ ڈرامائیت نظر آئی۔ رام اور رحیم کے کردار براہ راست ان ناموں کے ساتھ آ گئےچونکہ ان ناموں کی افسانے میں بڑی اہمیت اور معنویت ہے اس لیےکچھ وضاحت اور ہونی چاہیے۔ رام ایک خوشحال کنبہ سے تعلق رکھتا ہے تو وہ لوگ اُس وقت کہاں تھے جب پاگل خانے کی گاڑی اسے اتنے آرام سے لے کر چلی جاتی ہے۔
افسانے میں وقت کے جبر اور تبدیلی کے تعلق سے بھی مزید بیان درکار تھا۔ ایسے میدان جہاں رام لیلا ہوتی تھی اور عیدین کی نمازیں بھی ہوتی تھیں اور آج جو عصبیت اور نفرت کا ماحول ہے یہ90 کے بعد سے شروع ہوا۔ 30 برس کے وقت کو افسانے میں بیان سے گریز کیا گیا جس کی وجہ سے ماحول سازی کمزور ہوئی۔ رام اور رحیم اگر پاگل ہیں تو یہ بات ان دونوں کے علاوہ راوی کو ہی معلوم ہے۔
کرکٹ کے حوالے سے جو باتیں لکھی گیؑں مثلاً گیند بنانے کی ترکیب، فیلڈرس، وکٹ کیپر وغیرہ تو یہ فطری نہیں لگتا۔ اختتام سے پہلے کہیں سے اشارہ نہیں ملتا کہ محلّے کے لوگ ان دونوں کے بارے میں اتنی منفی رائےرکھتے ہیں۔ایک فون پر پاگل خانے کی گاڈی کا آ جانا اور رام رحیم کا بیٹھ کر جانا۔لوگوں کا موبائل سے رکارڈ کرنا یہ سب کسی فلم کے منظر سا ہے۔ دونوں ہی فرقے سے متعلق ہیں۔ پاگل ہیں۔۔۔ اور محلّے میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ان کے لیے ہمدردی دکھائے۔ یہ اتنے برے کیوں تھے؟ افسانے میں اس کا سراغ نہیں ملتا۔ نثر عمدہ ہے۔۔۔۔ لیکن اتنے نازک موضوع پر جتنی محنت کی گئی تھوڑی اور زیادہ کی ضرورت تھی۔ مجموعی طور سے میں ریحان کوثر سے مایوس نہیں ہوں لیکن اور بہتر کی توقہ کے ساتھ مبارک باد اور دعائیں۔
٭٭٭
ذکیہ مشہدی:
شاہد اختر صاحب یہ اور جوڑ دیجیے کہ ایسا انتظام کہیں نہیں ہے کہ فون کیجیے اور پاگل خانے کی گاڑی آکر انہیں لے جائے۔ جنہیں اپنے پاگل قرار دے دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کے دور مین پاگل اور پاگل خانہ جیسے الفاظ استعمال کرنا ممنوع ہے۔ اس کی جگہ دماغی ہسپتال (مینٹل ہاسپٹل) اور دماغی مریض ( مینٹل پیشنٹ، مینٹلی چیلنجڈ) استعمال ہوتے ہیں۔ کسی کو دماغی ہسپتال مین داخل کرانے کے لیے ایک خاصے طویل لایحۂ عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان مین دماغی امراض کے ہسپتال بہت کم ہیں۔
افسانہ ایک اچھی شروعات کے بعد غیر فطری واقعات کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اگر ان باتوں کا دھیان نہ دلایا جاے گا تو ہمارے جونیر وہیں کے وہیں رہ جائیں گے۔
٭٭٭
ایم۔ مبین، بھیونڈی:
افسانہ رام لیلا کا میدان اس افسانے میں افسانہ نگار ریحان کوثر نے ایک ایسے نفسیاتی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کی آج کے دور کا ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔
آج سے پچاس ساٹھ سال قبل جدیدیت کے علمبرداروں نے ادب میں اس نظریہ کو پیش کیا تھا اور جس نظریے کے تحت اپنا ادب تخلیق کیا تھا کتنی حیرت کی بات ہے آج اس دور کو نہ ہم صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اس دور میں جی رہے ہیں۔
انسانی ذات اور اس کی ذات سے وابستہ اس کے مسائل کو پیش کرنا ایک طرح سے جدیدیت کہ منشور تھا۔
اس نئے دور میں ہمیں رام اور رحیم جیسے افراد دیے ہیں جو جدیدیت کے دور کی زندہ مثال ہے۔تنہائی کاکرب۔اپنی ذات کا کرب۔ترسیل کا قرب۔جیسے نفسیاتی نکتوں اور مسئلوں کو ریحان کوثر نے اس افسانے میں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اور اس تلخ حقیقت کو آشکارا کیا ہے کے ہمنے ہماری اجتماعیت کھو دی ہے۔
آج کے دور میں کو ئی بھی اس کی کمی کا اظہار کرے گا اس کہ مقام رام رحیم سا پاگل خانہ ہے۔
ہم لاکھ دوش دیتے رہے کے موبائل ٹی وی نے بچوں کے ہاتھ سے کتابیں اُن کی ساری سرگرمیاں چھین لی ہیں۔لیکن ہم آج بھی اس کا کوئی حل نہیں نکال پا رہے ہیں جس پر ہمیں سخت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا ریحان کوثر جیسے قلمکار اس موضوع پر قلم اٹھا کر اپنا حق ادا کرتے رہن گے۔
٭٭٭
ڈاکٹر محمداظہر حیات، ناگپور:
جناب ریحان کوثر علاقۂ ودربھ میں اردو کے جانباز سپاہی کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ نثر و نظم دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ خصوصاً نثر کی مختلف اصناف پر وہ بے تکان لکھ رہے ہیں۔ بہت کم عرصے میں اب تک ان کی نو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ماہنامہ الفاظ ہند کے مدیر بھی ہیں۔ فی الحال یہ رسالہ علاقۂ ودربھ کا اکلوتا ماہنامہ ہے۔ اس سے ان کی گوناگوں صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ریحان کوثر کی شعوری کوششوں سے اردو شعر و ادب کا ذوق و شوق ناگپور و کامٹی میں پروان چڑھ رہا ہے۔ جہاں کہیں اردو کا مسئلہ ہوتا موصوف طمطراق سے سامنے آجاتے ہیں۔ ہماری بزم کے بھی وہ فعال رکن ہیں۔ آج ان کا افسانہ ’رام لیلا میدان‘ تبصرہ کے لئے ہمارے پیش نظر ہے۔
میں سب سے پہلے ان کی خدمت میں خوبصورت اور معنی خیز افسانے کی تخلیق پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بھارت قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کا ملک ہے۔ یہاں ہندو مسلمان ایک ملک کے رہنے والے ہیں۔ سب کے مفادات اسی ملک سے وابستہ ہیں۔ کثرت میں وحدت کی جھلکیاں ہمیں اسی ملک میں دیکھنے ملتی ہیں۔
ہمارے گاؤں دیہات ہندو مسلم کے باہمی پریم بھاؤ کی بے شمار مثالوں سے بھرے ہیں لیکن افسوس صد افسوس گذشتہ کچھ برسوں میں ہماری تہذیب و ثقافت کی قدروں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
زیرنظر افسانہ رام لیلا میدان کا مرکزی خیال دراصل اسی تہذیب اور ثقافت پر ایک تازیانہ ہے۔ افسانہ نگار ریحان کوثر نے علامتوں کا استعمال خوب کیا ہے۔ عام فہم سلیس اور رواں دواں زبان میں انہوں نے کہانی بنی ہے۔ جس میں بے ساختگی اور برجستگی نظر آتی ہے۔ منظر کشی ایسی گویا ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ آج کی نسل موبائل انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسی ملوث ہے کہ اسے اپنی تہذیب کا ہوش ہے نہ اخلاق کا احساس۔ صحت اور وقت کی بربادی کا بھی کچھ خیال نہیں ہے۔
65 ۔70 سال کی عمر کے لوگوں کو اپنے اپنے ہی گھر میں بیگانگی کا احساس ہونے لگا ہے۔ وقت گزاری کے لیے اگر وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو انھیں وہاں بھی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔
رام لیلا میدان میں رام کو کھیلنے کے لئے کوئی ساتھی نہیں ملتا ہے اس بات کو افسانہ نگار نے کس طرح موثر انداز میں قلم بند کیا ہے ملاحظہ ہو، وہ بے چین نظروں سے۔۔
گویا رام کو کھیلنے کے لئے کوئی ساتھی بھی میسر نہیں تھا۔ کافی دیر بعد جب رحیم نظر آتا ہے تو وہ بے ساختہ اسے آواز لگاتا ہے اور ساتھ کھیلنے کی دعوت دیتا ہے۔ رحیم بھی ایسے خلوص سے دوڑتے ہوئے آتا ہے کہ اس کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں۔
گیند نہ ہونے کی صورت میں اینٹ کے ٹکڑوں پر کپڑا اور کاغذ میں لپیٹ کر مانجھے سے باندھ کر گیند بنائی جاتی ہے۔ گاؤں میں وسائل نہ ہونے کے باوجود کسی طرح راستہ نکال ہی لیا جاتا ہے اس کی اچھی مثال افسانہ نگار نے یہاں پیش کی ہے۔ رام رحیم کو جب کھیلنے کے لئے مزید کوئی نہیں ملتا ہے تو وہ میدان میں چل رہی بکریوں، مرغیوں اور کبوتروں کو چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا وقت گزاری کا سامان کر رہے تھے۔ جانوروں کی آواز سن کر رام رحیم کے گھر کے علاوہ گاؤں کے دیگر لوگ بھی جمع ہو گئے۔ سب نے ان سادہ لوح، صاف دل اور نیک طینت رام رحیم کو پاگل قرار دیا اور فون کر کے پاگل خانے کی گاڑی منگوا کر دونوں کو پاگل خانے بھجوا دیا۔ جس وقت رام رحیم گاڑی میں بیٹھ رہے تھے گاؤں کے لڑکے موبائل سے ان کا ویڈیو بنا رہے تھے۔ ویڈیو بنانے والوں میں دونوں کے پوتے پوتیاں اور بہوئیں بھی شریک تھیں۔ یہ منظر بڑا دقت آمیز تھا۔ افسانہ نگار نے لفظوں کے ذریعے اس کی بہترین منظرکشی کی ہے۔ تب احساس ہوتا ہے ہمارے ملک کا تہذیبی ورثہ اور بزرگوں کی عزت و تکریم کی روایت آخر کہاں گم ہوگئی ہے۔ نئی نسل کا خون سفید ہوگیا ہے۔ وہ مادہ پرستی میں ایسے غرق ہیں کہ انہیں اپنے پرائے کے درد وجذبات کااحساس تک نہیں رہا۔
ریحان کوثر کا یہ افسانہ ایسا کسا ہوا ہے کہ قاری پوری یکسوئی اور انہماک سے پورا افسانہ پڑھ کر ہی دم لیتا ہے اور تجسس اور تحیر ایسا قائم رہتا ہے کہ پڑھنے کے دوران ایک مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ کہانی ہندو مسلم منافرت پر مبنی ہے مگر صحیح معنوں میں یہ ہماری تہذیب اور اخلاق کے دیوالیہ پن کا تازیانہ ہے۔
خوبصورت اور بامقصد افسانے کی تخلیق پر افسانہ نگار جناب ریحان کوثر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ نیک خواہشات اور اور دلی دعائیں۔
٭٭٭
محمد خضر حیات، ناگپور:
ریحان کوثر کے افسانے " رام لیلاکا میدان " میں ایک ساتھ دو تھیم نظر آتی ہیں۔ ابتدا میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ ہندوستان کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کا نوحہ ہو گا۔ مگر افسانے کا اختتام موجودہ دور کی علیحدگی پسندی، خود غرضی اور بیگانگی پر ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے افسانہ کی بنت میں اس نے دونوں تھیمز کو بخوبی واضح کیا ہے۔ اندازِ بیان دلکش ہے۔ افسانہ نگار کا مشاہدہ گہرا اور باریک بینی سے مملو ہے۔ بیانیہ آورد، تصنع، پیچیدگی اور عبارت آرائی سے پاک ہے۔ البتہ چند تکنیکی خامیاں ضرور در آئی ہیں جن پر اوپر مبصرین نے توجہ دلائی ہے۔ ریحان کوثر کو ان پر غور کرنا چاہئے۔
بحیثیتِ مجموعی رام لیلاکا میدان ایک اچھا افسانہ ہے۔ اس میں غضب کی readability ہے۔ ریحان کوثر کو مبارکباد اور دعائیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر رضوان الحق بھوپال:
ریحان کوثر صاحب سے پچھلے سال اردو اساتذہ کے ایک پروگرام کے سلسلے میں بھوپال میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بڑا خوش گوار تجربہ تھا۔ مہاراشٹر کے نوجوان اور سرگرم اساتذہ کی بہت عمدہ ٹیم تھی وہ۔ شمال میں اکثر اردو کے پروفیسر بھی اردو زبان و ادب کے لیے سرگرم نہیں ہیں، اسکول کے اساتذہ تو بالکل ایسے نہیں ملتے۔ بہرحال بزم افسانہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ٹیم میں شامل کئی بڑے اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ ریحان کوثر صاحب انھیں میں سے ایک ہیں۔
رام لیلا میدان میں کئی موضوعات ہیں لیکن دو موضوعات خاص طور سے ابھر کر آئے ہیں۔ اول ہماری وہ مشترکہ تہذیب جسے ہم عام طور پر گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ دوم کمپیوٹر اور موبائل کی پیداکردہ سماج کی مصروفیت۔ اس میں ایک تیسرا پہلو بھی یہ ہے کہ ان دونوں موضوعات کو ملا کرسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب ہم سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے کودتے تھے، رہتے بستے تھے تو یہ فرقہ واریت کم تھی۔ اب سوشل میڈیا پر فرقہ پرستی پھیلانا زیادہ آسان ہے۔ ان ساری باتوں کو افسانے میں فنی تقاضوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے ریحان کوثر نے بڑا خوبصورت افسانہ لکھا ہے۔ کچھ چھوٹی موٹی کمیاں ممکن ہے رہ گئی ہوں لیکن مجموعی تاثر بہت اچھا ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر فیروز عالم، حیدرآباد:
افسانے کا آغاز اچھا ہے۔ ابتدا میں چھتوں پر ڈش ٹی وی، کیبل اور بجلی کے تاروں کے جو مناظر پیش کیے گئے ہیں اور رام لیلا میدان اور عید گاہ سے متعلق جو تفصیلات بہم پہنچائی گئی ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہیں اور موثر بھی۔
زبان اور بیان کے اعتبار سے بھی یہ افسانہ ٹھیک ہے لیکن ماجرا سازی اور کردار نگاری میں افسانہ نگار کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ بعض واقعات حقیقت کے برعکس ہیں۔
افسانے میں مجھے جو کمیاں محسوس ہوئیں ان کی طرف مختصراً اشارہ کر رہاہوں۔
ابتدا میں گاؤ ں کی تصویر کشی کرنے کے بعد رام کی انٹری ان جملوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
"تبھی گیٹ پر رام کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔"یہاں 'تبھی' لفظ بے موقع استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاتا تو جملہ زیادہ مناسب ہوتا۔
رام اور رحیم کو ہندو اور مسلمان کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ علامتیں نہایت فرسودہ ہوگئی ہیں۔ ان کی جگہ دونوں کے کچھ اور نام دیے گئے ہوتے تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔
رام اور رحیم کی رام لیلا میدان میں ملاقات اور کرکٹ کے لیے گیند کی تیاری وغیرہ کے مناظر کی پیش کش پر بھی مزید توجہ دینے اور فطری بنانے کی ضرورت تھی۔
دونوں کرداروں کی حرکتوں سے لگ رہا ہے کہ دونوں بچے یا نوجوان ہیں جو کھیلنے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔ لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ دونوں باپ بن چکے ہیں۔ بعد ازاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دادا بھی بن چکے ہیں۔ افسانے کے آغاز سے اس مقام تک ان کے سراپا یا کسی عمل کے ذریعے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ غیر فطری محسوس ہوتا ہے۔
دونوں فیلڈنگ کرانے کے لیے بکریوں، مرغیوں اور کبوتروں کو پکڑنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد محلے میں ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ ان کے گھر اور محلے والے پاگل خانہ فون کرتے ہیں اور فوراً گاڑی بھی آ جاتی ہے۔ یہ تمام واقعات حقیقت سے بعید ہیں۔
اول اگرکسی شخص میں پاگل پن کی علامات نظر آتی ہیں تو ان کا علاج ذہنی معذوروں کے اسپتال میں کرایا جاتا ہے۔
دوم، دونوں کی کوئی ایسی حرکت نہیں دکھائی گئی ہے جس سے ڈر کر انھیں فوراً پاگل خانے بھجوانے کا فیصلہ کیا جائے۔
سوم، رام اور رحیم کی بات چیت بھی بالکل نارمل انداز کی ہے۔ اس سے بھی وہ ذہنی معذور معلوم نہیں ہوتے۔
چہارم، پاگل خانے سے کسی ذہنی مریض کو لینے کے لیے کوئی گاڑی نہیں آتی۔ اسپتال سے ایمبولنس منگوائی جاتی ہے۔
رام اور رحیم دونوں کے گھر والوں کا رویہ اور عمل بالکل میکانکی ہو گیا ہے۔
افسانے میں صرف دو مقامات ایسے ہیں جہاں یہ دکھایا گیا ہے کہ اب کوئی میدان میں کھیلنے نہیں آتا۔ سب موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں مصروف ہیں۔ اس موضوع پر افسانہ نگار کو مزید توجہ دینی چاہیے تھی۔
افسانہ نگار نے افسانے کی شروعات اچھی کی ہے لیکن انھوں نے مختلف واقعات، ان کے نتائج اور کرداروں کے اعمال کی پیش کش میں عجلت سے کام لیا ہے۔
مندرجہ بالا امور پر افسانہ نگار سنجیدگی سے غور کرتے اور ہر واقعے اور عمل کی منطق و استدلال پر توجہ دیتے تو افسانہ موثر ہو سکتا تھا۔
محترم ریحان کوثر کے لیے نیک خواہشات۔
اس شعر کے ساتھ
نہ سفیدی کے ہیں دشمن نہ سیاہی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں
٭٭٭
ڈاکٹر ناصر انصار، امراؤتی:
افسانہ "رام لیلا میدان " کے خالق ریحان کوثر کا تعلق مہاراشٹر کے مردم خیز شہر کامٹی سے ہے۔ اس سرزمین نے علامہ ناطق گلاؤٹھوی سے لے کر مدحت الاختر تک ہمہ پہلو شخصیات اردو شعر و ادب کو عنایت کی ہے۔ آج جس شخص کے دم سے بزم کامٹی کی رونق قائم ہے اس کا نام ریحان کوثر ہے۔ ریحان کوثر نے انتہائی قلیل مدت میں شعر و ادب کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ انھوں نے گزشتہ پانچ چھے برسوں میں شاعری، فکشن اور صحافت، جس میدان میں قدم رکھا، وہاں اپنی خداد صلاحیت کا لوہا منوایا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ان کے بے لاگ تبصرے بزم افسانہ کی زینت بنے ہوئے تھے کہ آج ان کے افسانے نے بزم پر مسرت و بصیرت بکھیردی۔
ریحان کوثر جدید تیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ اس موضوع پر ان کی دو کتابیں بھی شائع ہوچکی ہے۔ جدید تیکنالوجی سے گہری دلچسپی کے باوجود انھیں روایتی ادب سے اسی قدر ربط و تعلق ہے۔ اس لیے وہ اپنے افسانوں میں وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں تو روایت کے سرمائے کو بھی فراموش نہیں کرتے بلکہ جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ کسی تہذیبی یا سبق آموز پہلو کو بھی بیان کرجاتے ہیں۔ زیرِ نظر افسانے میں قاری کو افسانہ نگار کے مزاج کے اس حسین امتزاج کا احساس ہوتا ہے۔
افسانہ رام لیلا میدان دو نسلوں کے بیچ بدلتی قدروں کا نوحہ ہے۔ افسانہ نگار نے دو تہذیبوں کے ذکر سے اس میں مزید جاذبیت پیدا کی ہے۔ افسانہ نگار نے درپردہ کئی ایسے موضوعات کو چھیڑا ہے جن سے ہم مسلسل نبرد آزما ہیں۔ ہر دس بیس سال میں ہماری بدلتی ترجیحات، جنریشن گیپ کے نتائج، روایتی اقدار کا زوال، نئی نسل کی دلچسپیاں، گھر کے بزرگوں کی قیمتی اثاثے سے بوجھ میں تبدیل ہوتی دلخراش صورت حال اور اپنی تمام تر ترقی پسندی کا سراب۔۔۔ ایسے موضوعات ہیں جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
افسانے کا سادہ بیانیہ اسلوب ایک قاری کو شروع سے آخر تک باندھے رکھتا ہے۔ زبان و بیان، کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور منظر نگاری میں ریحان کوثر نے کمال دکھایا ہے۔ پھر ان کا شگفتہ اسلوب اور برجستگی اور راست گوئی جیسی صفات تحریر کو دو آتشہ بنادیتی ہیں اور یوں قاری اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
افسانے کا آخری منظر ہی افسانہ نگار کا مقصود ہے۔ انھوں نے قاری کے تجسّس کو یہاں تک قائم رکھ کر کمال ہنر مندی دکھایا ہے۔ اگرچہ افسانے میں یہاں کچھ ڈرامائیت بھی در آئی ہے لیکن گھر کے عمر رسیدہ لوگوں کے تعلق سے نئی نسل کے دل و دماغ میں آئی تبدیلی پر گرفت کرنے میں افسانہ نگار کو کامیابی ملنا افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے ۔
ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ افسانےکی تخلیق پر برادر ریحان کوثر کو دلی مبارک باد۔۔۔ نیز شاندار ادبی مستقبل کے لیے نیک خواہشات ۔۔۔
٭٭٭
زینت جنین صدیقی، جمشیدپور:
افسانہ"رام لیلا میدان"جس موضوع پر لکھا گیا ہے۔بہت خوب ہے۔آج کی اولادیں جس طرح کا رویہ اپنے والدین سے رکھ رہی ہے۔اس کی عکاسی بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس افسانہ میں کی گئی ہے۔
افسانہ میں افسانہ نگار نے "آم گاؤں"کے رام لیلا میدان کا زکر کیا ہے۔ گاؤں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔وہ صرف پاپڑ مرغیوں، کبوتروں، بکریوں پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔
آم گاؤں بھی ہے۔اور شہروں سے کم بھی نہیں!
اگر آم گاؤں نہیں شہر ہے تو۔گاؤں کا ذکر کیوں بھلا۔۔۔ پھر اگر شہر ہے۔وہ بھی ایک ایسا شہرجس سے رنگ روڈ گزر رہی ہو تو اس شہر کے میدان میں مرغیوں، بکریوں کا ہونا۔۔۔ رنگ روڈ پر گاڑیاں دھواں اڑاتی ہے۔دھول نہیں۔بہت بہت معافی کی طلب گار۔
٭٭٭
سید اسماعیل گوہر، ناندورہ:
ریحان کوثر کی پہچان ایک افسانچہ نگار کی ہے۔ سو الفاظ کی کہانی کے توسط سے موصوف نے سوشل میڈیاخصوصاً فیس بک پر اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔
"رام لیلا کا میدان" ان کی اچھی کوشش ہے۔ جینریش گیپ کے کرب کو انھوں نے محسوس کیا اور افسانہ بنانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کچھ حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ مستقبل کے لیے نیک خواہشات۔
٭٭٭
محمد قمر سلیم، نوی ممبئی:
ریحان کوثر کے نام سے میرا گہرا تعلق ہے۔ میرے بچپن کے دوست کے والد کا نام ریحان ہے اور میرے دوست کا نام کوثر۔ریحان کوثر میرے ہم پیشہ بھی ہیں۔ میں ان سے کبھی ملا نہیں لیکن پرنسپل ہیں تو رعب دار ہوں گے۔مدیر ہیں تو چابک دست ہوں گے۔میرے پاس الفاظ ہند نہیں آتا ہے۔ پبلی کیشن ہے تو کتاب شائع کروانے کا حق تو بنتا ہے۔
افسانے کے عنوان سے یہ لگ رہاتھا کہ بات ہماری قومی یکجہتی، بھائی چارے کے بارے میں ہو گی کیوں کہ عموماً رام لیلا میدان میں وہی ہوتا ہے جس کا ذکر مصنف نے اپنے افسانے میں بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ ریحان کوثر بہت چابکدستی سے آگے بڑھے اور جہاں تک ممکن ہوا راز کھلنے نہیں دیا۔سچ تو یہ ہے پورے افسانے میں راز کھلنے میں مزہ آگیا لیکن افسوس یہ کہ یہیں پر ریحان کے ہاتھ سے چابک چھوٹ گیا اور جھول پیدا ہو گیا۔
یہ قیاس کرنا کہ راوی یکجہتی کی بات کر رہا ہے اسے اختتام نے بوجھل کر دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ راوی سماج کا دھیان بزرگوں کی بے بسی اور تنہائی پر مرکوز کرنا چاہ رہا تھا وہ اس جملے سے ختم ہو جاتی ہے،
"بیٹا ہم لوگ ان کو بھی اپنے ساتھ کھلا رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے فیلڈنگ کریں گے۔"
رام سہمنے کے بعد بھی یہ جملے کہتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاگل ہے۔اس صورت میں ان کے ساتھ تنہائی اور بے بسی والی نہیں آتی۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کی شویتا اور سلمیٰ اب تک کیا کر رہی تھیں اگر وہ پاگل ہیں تو گھر پر بھی پاگل پن کریں گے۔ اختتام کو راوی نے وسعت دینے کے بجائے محدود کر دیا۔ یعنی ساری تہمت بچوں پر۔
اب ذرا حقیقت دیکھ لیں۔یہ ہم بڑوں، والدین اور اساتزہ کی سوچ بن گئی ہے کہ ہر غلط بات کے لیے بچوں اور نو جوانوں کو مورد الزام ٹھراتے ہیں۔معدودے چند کو چھوڑ کر ہم بچوں کے ساتھ کیسی زبان استعمال کرتے ہیں ہم جانتے ہیں۔مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب کوئی اردو ادیب گالیاں بکتا ہے جبکہ شائستہ زبان ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے وہ لوگ استاد بھی ہو سکتے ہیں اور والدین بھی۔ اساتذہ اور گھر پر والدین بچوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ میں کسی اور کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتا۔ میں نے اپنے ارد گرد یہ ضرور دیکھا ہے کہ اولاد سے زیادہ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اپنے دادا دادی نانا نانی کا خیال رکھتے ہیں۔ میری اس بات کو کہانی کے اس جملے سے بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
"رام نے اپنے بیٹے روہت کی آنکھوں میں غصہ۔۔۔"
یعنی رام کو پوتے یا پوتی کا خوف نہیں ہے۔ اسی طرح رحیم یہ نہیں کہتا کہ بیٹا تو بھی تو مجھے وقت نہیں دیتا ہے۔ہم سب اس وقت خوب موبائل میں مصروف ہیں یہ الگ بات ہے بزم افسانہ اور دوسرے گروپ۔ نوجوان اور بچے اپنی عمر کے حساب سے موبائل، نیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ہم بچوں سے کہتے ہیں جلدی سو جاؤ لیکن ہم خود سوشل نیٹ ورکنگ میں لگے رہتے ہیں۔ کل ہی کی بات میں بزم افسانہ میں مشغول تھا میری بیٹی میرے پاس آئی کہ میں ابو کو پریشان کروں گی۔میں نے اسے ہٹا دیا زرا رکو بیٹا۔وہ فورا"اپنا موبائل لے کر بیٹھ گئی۔پھر اس کی آن لائن کلاس، میں اپنی کلاس میں مصروف ہوگیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ چھ گھنٹے بعد ہم ایک دوسرے سے بات کر سکے۔ ہم کب تک صرف بچوں کو مورد الزام ٹھرائیں گے۔ کہیں نہ کہیں ہم ذمے دار ہیں۔اگر اس کہانی میں بچوں کو ذمے دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ رام اور رحیم کے بیٹوں کو بھی ذمے دار ٹھرایا جاتا تو اختتام اچھا ہو تا۔
٭٭٭
محمد یحییٰ جمیل، امراؤتی:
ریحان کوثر صاحب کے افسانہ پر مختلف زاویوں سے بہترین گفتگو ہوتی رہی۔ اور کیوں نہ ہوتی کہ یہ افسانہ ہر لحاظ سے اس لائق ہے۔ ریحان کوثر نے سو لفظوں کی کہانیوں کے ذریعے اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ لیکن یہ افسانہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے پاس شاندار بیانیہ ہے۔ میں چاہوں گا کہ وہ افسانہ پر زیادہ توجہ دیں۔ ایک اچھے افسانہ پر صمیم قلب سے مبارکباد۔
٭٭٭
محمد علیم اسماعیل، ناندورہ:
ریحان کوثر صاحب کی سو لفظوں کی کہانیاں پڑھی تھی جو مکمل، موثر اور جھنجھوڑنے والے افسانچے تھے۔ آج ان کا افسانہ رام لیلا پڑھا۔ افسانہ پسند آیا۔ جناب ریحان کوثر کو مبارکباد!
٭٭٭
وجاہت عبدالستار، سولاپور:
اراکین بزم
آداب
پانی کی موجودگی میں تیمم کا استعمال بالکل بھی درست نہیں۔۔۔ بزم میں موجود مفکرین و مبصرین ادب کے تبصروں کے بعد رام لیلا میدان پر کچھ کہنا اضافی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔لیکن افسانے سے متعلق اپنے محسوسات آپ کے سامنے ضرور رکھنا چاہوں گا۔۔۔
اس کہانی نے مجھے کچھ لکھنے پر اکسایا ہے اور یہی افسانہ نگار کی کامیابی ہے کہ افسانہ پڑھنے کے بعد اس پر قلم اٹھایا جائے۔
کہانی کا صرف ایک ہی پہلو نہیں ہوتا۔۔۔ایک کہانی وہ ہوتی ہے جو الفاظ کے پیرائے میں بیان کی جاتی ہے او دوسری کہانی وہ ہو ہوتی ہے جو بین السطور (between the lines) کہی جاے۔ رام۔لیلا کا میدان پڑھنے کے بعد کہانی ریل کی پٹری کی طرح نظر آئی۔۔۔کہ دونوں کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے ملتی نہیں۔۔۔ افسانہ نگار کی کہانی بین السطور کے اعتبار سے کافی مضبوط نظر آئی۔۔بلکہ ان کی گرفت اور پکڑ Between the lines کافی مضبوط ہے۔
کچھ علامات کا استعمال موصوف نے اتنی احتیاط سے کیا ہے کہ اس کی طرف توجہ تو مبذول ہوتی ہے مگر شدت پیدا نہیں ہوتی۔۔۔اور یہیں وہ کامیاب ہو گئے۔۔اگر وہ اپنی بات پوری شدت سے کہتے تو افسانے اور ڈرامے میں فرق ہی نہیں رہ جاتا۔۔۔۔لیکن۔۔۔
انہوں نے علامات کا بہترین استعمال کرتے ہوئے الفاظ کو کامیابی سے برتا۔۔۔ مین گیٹ کا ٹوٹنا اور وہاں ایک دیوار بن جانا ایک ایسی علامت ہے کہ اگر اس میں شدت آجاتی تو افسانے پر گرفت ڈھیلی پڑ سکتی تھی۔ لیکن ریحان کوثر صاحب نے بڑی فنکاری کے ساتھ ہینڈل کیا۔۔
ہاں۔۔کچھ جگہوں پر رام رحیم کی زبان کھٹکتی ضرور ہے۔۔
فنی اور تکنیکی اعتبار سے مبصرین نے کھل کر لکھا ہے اس لیے مزید نہیں کہوں گا۔۔۔لیکن ریحان کوثر صاحب میں افسانوی جراثیم فطری طور پر موجود ہیں اور منفرد موضوعات پر انکی گہری نظر ہے۔۔۔۔وہ نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار بن سکتے ہیں اگر دور حاضر کے مشاہیر ان کی پانچ فی صد بھی رہنمائی کو اپنا فرض عین سمجھیں۔
ریحان کوثر صاحب کو شاندار افسانے پر مبارکباد۔۔لیکن ان کے شاہکار افسانے کا انتظار رہے گا۔۔
٭٭٭
طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں:
چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ گھروں میں اپنی اپنی کاہلی اور سستی کے غلاف میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور کچھ لوگ نیند کے قید خانے میں مقید تھے۔
ریحان کوثر صاحب نے "رام لیلا میدان میں زبان بڑی پیاری استعمال کی ہے۔
اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔
ریحان کوثر صاحب کے افسانے کا میدان محض کھیل کود کا میدان ہی نہیں ہے بلکہ ہندومسلم یکجہتی کا مظہر بن کر پیش ہوا ہے۔ اگر ہم اسے سارے ہندوستان کی ہی علامت سمجھ لیں تب بات ذرا وسعت اختیار کرلیتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو مسلم دونوں بڑی قومیں ہندوستان کی دو آنکھوں کی طرح نظر آتی ہیں اور افسانہ اپنی سطح سے ذرا اونچا اٹھ کر قومی سطح کے موضوع کو چھو لیتا ہے اور ریحان کوثر صاحب بغیر کسی وعظ یا تقریر کے اپنے موضوع سے انصاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
میدان میں ایک طرف جہاں جہاں عبدل چاچا نے دانے اور پانی کی کٹوریاں رکھی تھی وہاں گٹرگوں کا کیرتن کرتے ہوئے سبھی کبوتر اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مگن تھے۔ برجو کاکا کی مرغیاں بھی میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گشت کر رہی تھیں۔کاکا کا مرغاصبح کی اذان کا فریضہ ادا کر کے ٹہل رہا تھا۔
عبدل چاچا کے کبوتروں سے کیرتن اور برجو کاکا کے مرغے سے اذان کا فریضہ ادا کروا لینا بھی خالص افسانہ نگار کا ہی کمال ہے۔ انہوں نے کتنی خوبصورت اور آسانی کے ساتھ پھر سے ہندو مسلم قوموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ظاہر کردیا ہے کہ دونوں ہی قومیں مل جل کر رہتی ہیں تو چاروں طرف امن و امان کی فضا قائم رہتی ہے مگر پھر انہوں نے لوگوں کی مصروفیات کی طرف افسانے کا رخ موڑ کر قاری کو تھوڑی دیر کے لیے حیران بھی کردیا ہے کیونکہ افسانہ جس طرح رام اور رحیم کے تذکرے سے گوندھا گیا تھا اس کے خمیرسے موبائل پر مصروف رہنے اور بچوں کے کھیل نہ کھیلنے کا خمیر اٹھنا ذرا عجیب سا لگتا ہے۔ چونکہ ریحان کوثر افسانہ نگار ہیں وہ کچھ بھی کشید کریں ہم بحیثیت افسانہ نگار ان پر پابندیاں عائد نہیں کرسکتے بس اس قسم کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔
٭٭٭
انور مرزا ، ممبئی:
افسانے کی ڈرامائی پیش کش قاری کو باندھے رکھتی ہے۔زبان و بیان میں روانی بھی خوب ہے۔ دونوں مرکزی کرداروں کے رام اور رحیم جیسے روایتی ناموں نے افسانہ نگار کو کئی غیر ضروری تفصیلات میں جانے سے بچا لیا ہے۔بعض جگہ منظر نگاری اور مکالمےدلچسپ ہیں۔مثلاً
’’اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔۔۔‘‘
اور
’’رام بلائے اور رحیم نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا‘‘
قاری دلچسپی سے افسانہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔مگر پاگل پن کے دوروں اور پاگل خانے کا ذکر آتے ہی افسانہ نگار کے ہاتھ سے افسانہ نکل جاتا ہے۔
کرداروں میں جب ایک ’رام‘ پہلے ہی موجود تھاتو دوسرا ’رام پرساد‘ کیوں ہے؟ کچھ اور نام ہونا چاہیے تھا کہ قاری کنفیوژ نہ ہوں۔
ریحان کوثر مختصر کہانیاں لکھنے کے لیے معروف ہیں اوریہ بھی مختصر افسانے کا ہی پلاٹ لگتا ہے۔جس پر افسانہ لکھنے کی کوشش تو بہت اچھی کی گئی ہے مگر افسانے کے لیے قدرے سنجیدہ پلاٹ ہی متاثر کن ثابت ہوتے ہیں۔
بہر حال اس افسانے سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ ریحان کوثر قدرے بہتر افسانے لکھ سکتے ہیں۔افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات۔۔۔
٭٭٭
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، راجوری:
رام لیلا میدان افسانہ پڑھا۔اس افسانے میں جس طرح کی منظر نگاری کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔کرداروں کی چہل پہل بھی بڑی پرلطف تھی اور آخر پر دومرکزی کرداروں کا تصادم طبقاتی تعصب کو عیاں کرتا ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔کرداروں کا خود ساختہ گیند تیار کرنا ان کے ذوق وشوق پہ دلالت کرتا ہے۔مجموعی حیثیت سے افسانہ اچھا ہے۔ افسانہ نگار کو مبارک باد ۔
٭٭٭
سلام بن رزاق، ممبئی:
ناگزیر مصروفیت کے سبب میں کل بزم میں حاضر نہیں ہو سکا۔ محمد یحییٰ جمیل کے افسانے 'بون سائی' پر اس کے شایان شان تبصرے کیے۔ ایک کامیاب افسانے کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف اسے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ باذوق قارئین کو اظہار خیال کرنے کے لیے اکساتا بھی ہے۔ بون سائی نے یہ کام بہ خوبی انجام دیا ہے۔
آج ریحان کوثر کا افسانہ' رام لیلا میدان ' نظر نواز ہوا۔ ریحان کوثر کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کی ادبی، تعلیمی اور صحافیانہ مصروفیات کا ذکر ان کے تعارف نامے میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ 'رام لیلا میدان ' پر ہمارے تیز و طرار مبصرین نے جم کر لکھا ہے اور افسانے کے کئی گوشوں کو اپنی تنقیدی بصیرت سے منور کیا۔
آج سے تیس چالیس برس پہلے جب جدیدیت کا غلغلہ تھا، جدیدیت کے امام اور مفتی اس وقت کے نو مولود افسانہ نگاروں پر قلم اٹھانے سے پرہیز کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ
'نئے فن کاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے نقاد خود پیدا کریں۔ '
اس زمانے میں جو کام نہیں ہو سکا وہ آج ہو رہا ہے۔ آج کے افسانہ نگار خوش قسمت ہیں کہ ان کی تخلیقات پر تازہ دم، صاحب نظر اور پرجوش مبصرین اپنے بہترین تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔
میں یحییٰ جمیل اور ریحان کوثر دونوں افسانہ نگار اور بزم افسانہ کے مبصرین کو مبارک باد دیتا ہوں۔ شکریہ
٭٭٭
اظہارِ تشکر
ریحان کوثر:
بزم افسانہ کے اس شاندار اسٹیڈیم میں شائق کے طور پر میری اینٹری سہ ماہی تکمیل کے نائب مدیر محترم عامر قریشی کی وجہ سے ہوئی۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ میرے افسانے رام لیلا میدان میں کم از کم رام کے ہاتھوں میں پیٹنی تو تھی لیکن جب میں یہاں آیا تو میرے ہاتھ خالی تھے۔ بیٹنگ کے لیے مشکل بزم کی تیز رفتار اور ہری گھانس والی پچ پر افسانہ نگار کی زبردست بلے بازی اور تبصرہ نگاروں کی شاندار گیند بازی جاری تھی۔ میں تماشائی بنا کچھ دن تو بس یہ سب دیکھتا ہی رہا۔
لیکن اس دوران سلام بن رزاق صاحب اور باقی سینئر اور اساتذہ کی سلجھی ہوئی کوچنگ جاری رہی۔ یہاں ہنر کی باریکی بڑے ہی سلیقے سے بتائی اور سمجھائی جا رہی تھی تو میں یہیں ٹک گیا۔ وسیم عقیل شاہ صاحب کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہاں سب کو ایک مرتبہ بیٹنگ کا موقع دیا جائے گا، گیند بازی یعنی تبصرے روز کیئے جا سکتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد گیند بازی یعنی میرے ٹوٹے پھوٹے تبصرے شروع ہوئے۔ کبھی کبھی پیٹھ پر محترم سلام بن رزاق، محترم مشتاق احمد نوری، پروفیسر غضنفر، پروفیسر بیگ احساس، محترم ایم مبین، محترم محمد سراج عظیم، ڈاکٹر ناصر الدین انصار، محترم اقبال نیازی، محترم انور مرزا، محترم قیوم اثر، محترم خان حسنین عاقب، ڈاکٹر سلیم خان، محترمہ شیریں دلوی، محترم رحیم رضا اور ڈاکٹر محمد اظہر حیات صاحبان کی شاباشی ملتی رہی۔ اسی طرح ایڈمن پینل کے ممبران کے ساتھ ساتھ محترم وجاہت عبدالستار، محترم شاداب رشید، ڈاکٹر شہروز خاور، محترم پرویز انیس، محترم عمران جمیل، ڈاکٹر فریدہ بیگم، ڈاکٹر عائشہ فرحین، ڈاکٹر اظہر ابرار جیسے باقی ہم عصر ساتھوں کی تائید اور حوصلہ بخش تالیاں توانائی فراہم کرتی رہیں۔
میں کرکٹ زیادہ برا کھیلتا تھا یا افسانہ نگاری زیادہ بری ہے یہ فیصلہ آج تک نہیں کر سکا ہوں۔ شکر ہے میرا کرکٹ کھیلنا آپ تمام نے نہیں دیکھا 🤗 لیکن افسانہ دیکھ لیں۔۔۔ ویسے ٹوینٹی ٹوینٹی زیادہ پسند ہے اس لیے میں نے سو لفظوں کی کہانیاں زیادہ لکھی ہیں۔ آج ونڈے میچ کھیلنے کا موقع ملا یعنی میرا افسانہ پیش ہوا ایڈمن پینل کے تمام ممبران وسیم عقیل شاہ، طاہر انجم صدیقی، محمد علیم اسماعیل اور سید اسماعیل گوہر صاحبان کا ممنون و مشکور ہوں۔
اس یک روزہ نائٹ ڈے میچ میں رات میں ہی مسکراہٹ کے ساتھ ڈاکٹر ریاض توحیدی اور خلوص کے ساتھ بھائی عمران جمیل نے تبصروں کی گیند بازی شروع کی۔ اس کے بعد پرویز انیس، انصاری مسعود عالم، عارفہ خالد شیخ، ڈاکٹر اظہر ابرار، قیوم اثر، وسیم ظفر، ڈاکٹر شہروز خاور، پروفیسر غضنفر، ڈاکٹر فریدہ بیگم، شاد اعظمی ندوی، ہارون اختر، فریدہ نثار احمد انصاری، مشتاق احمد نوری، رحیم رضا، مسرور تمنا، شبیر احمد، محمد سراج عظیم، شاہد اختر، ذکیہ مشہدی، ایم مبین، ڈاکٹر محمد اظہر حیات، اکبر عابد، خضر حیات، ڈاکٹر رضوان الحق، ڈاکٹر فیروز عالم، ڈاکٹر ناصر الدین انصار، زینت جبین صدیقی، سید اسماعیل گوہر، محمد قمر سلیم، سلام بن رزاق، ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل، محمد علیم اسماعیل، وجاہت عبدالستار، طاہر انجم صدیقی اور انور مرزا صاحبان نے عمدہ گیند بازی کا مظاہرہ کیا۔ کوئی اسپن، کوئی فاسٹ، کوئی گوگلی تو کوئی ’دوسرا‘ ڈالتا رہا۔ کسی کے اسپیل چھوٹے تو کسی کے بڑے تھے۔ کچھ بڑے ہی سنجیدہ سوال اٹھائے گئے، مثال کے طور پر کہ گاڑیاں دھول نہیں دھواں اڑاتی ہے اللہ کا شکر سوال کرنے والوں کے طرف گاڑیاں پتنگ نہیں اڑاتی۔ اسی طرح سے آم گاؤں کے گاؤں ہونے نہیں ہونے پر سوال اٹھایا گیا تب سے مالیگاؤں والے مجھ سے ناراض ہیں۔ آج یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمبولینس گاڑی نہیں ہوتی۔۔۔ کچھ اور ہوتی ہے!!! پاگل خانے اور اس کی گاڑیوں پر عالمانہ گفتگو ہوئی جبکہ وہیں رام پرساد چلا چلا کر کہہ رہا ہے،
’’پکڑو پکڑو۔۔۔ دیکھو رام اور رحیم کو پھر سے دورے شروع ہوگئے۔۔ پکڑو۔۔ روکو!‘‘
اسی طرح کی کچھ گیندیں سر پر سے گزرگئیں، کچھ کان کے قریب سے اور کچھ سیدھے دل میں اتر گئیں۔۔۔! میں تمام تبصروں، تجزیوں اور پروفیسر غضنفر صاحب اور بھائی وجاہت عبدالستار کے انتہائی خوبصورت ’محسوسات‘ کے لیے ممنون ہوں۔ کچھ لوگ صرف فیلڈنگ ہی کرتے رہے ان کا بھی شکریہ _____ کہ افسانے میں فیلڈنگ کے راستے ہی تو کلائمکس کھلا تھا!
عمران جمیل مالیگاؤں:
ریحان کوثر صاحب۔۔ آپ کے تاثرات پڑھ کر طبعیت خوش ہوگئی۔۔
ایک دم نیچرل انداز۔۔ وعظ و نصیحتوں کا ہوتے رہنا اچھی بات ہے اس سے بے سمتی کا شکار ہوجانے والے سرپٹ دوڑتے منہ زور قلم پر لگام کسنا آسان ہوجاتا ہے۔لیکن اکثر دل کو ریحان کوثر بھائی کے بے ساختگی بھرے صاف و سیدھے جملے طبعیت کو خوش کردیتے ہے۔ فوراً کنیکٹیوٹی ہوجاتی ہے۔ آپ کے تاثرات کو پڑھ کر بہت اچھا لگا۔۔ شکرگذار ہوں اس پلیٹ فارم کا کہ یہاں سے آپ جیسے کھرے اور آئینے کی طرح صاف دل رکھنے والے انسان (بعد میں ادیب) ملے۔ یہ اَدبی کنبہ ہی مختلف شخصی و فنی خوبیاں رکھنے والوں کا جہان ہے۔ بہترین تاثرات کے لیے دلی مبارکباد۔۔
٭٭٭
مزید تبصرے و تجزیے:
خان نوید الحق:
آپ جو پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ ہاں لیکن ایک چیز ہے جنریشن گیپ، ایک اچھی relationship کے لیے اس کی حقیقت کو ہمیں بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا۔ میرے ابا میرے ساتھ بیڈمنٹن اور کرکٹ کھیلتے تھے، میں ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کالج اور ان کے آفس کے کاموں پر گفتگو کرتا تھا اور ہم بیٹھ کر خاندان میں نئی و پرانی شادیوں اور رشتوں کو بھی ڈسکس کرتے تھے۔
ریحان صاحب یہ دُنیا مُکافات عمل سے بھری پڑی ہے جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے، آپ کی بات سو فی صد سچ ہے، اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور خود احتسابی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
والدین کی محبت سود سمیت نہیں بلکہ ثواب سمجھ کر لوٹائی جاتی ہے جبکہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔ اللہ کریم ہم سب کو ماں باپ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی محبت کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھے۔ آمین ثم آمین۔
والد کو اپنے بیٹے کو پیار محبت اور توجہ دے کے اس سے اٹیچ رہنا ضروری ہے تاکہ وہ اس کی اچھی تربیت اور دین کے قریب لا سکے۔
مطلب اولاد تو کورا کاغذ ہوتی ہے ان کو فرائض تو سمجھانے ہوں گے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اور اس کا عملی مظاہرہ میرے والد مرحوم کیا کرتے تھے۔
آج کے معاشرے میں اولاد کی اچھی تربیت کے لیے بچوں سے اٹیچ رہنا نہایت ضروری ہے۔ میرے سامنے میرے والدین کی مثال موجود ہے جنھوں نے اپنی اچھی تربیت سے اپنی اولاد کو قابو میں رکھا۔
ریحان کوثر صاحب ۔۔۔ایک بہت نازک موضوع کو آپ نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ مزید غور فرما کر اور خوبصورتی پیدا کی جا سکتی ہے اس کہانی میں۔۔۔
ریحان بھائی سدا خوش رہیں سلامت رہیں۔ العلم بالقلم۔۔۔ اللہ نے قلم کا احسان جتایا ہے بندے پر۔۔ ماسٹر ڈگریوں والے ایک لفظ لکھ نہیں سکتے۔ آپ کا قلم چلتا ہے لکھا کر یں۔۔اپنا خیال رکھیں۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہی باتیں جو آپ نے لکھی ہیں آپ اپنے والد سے نہیں کر سکتے ان کو یہ باتیں سمجھا نہیں سکتے۔ کیونکہ معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ قرآن میں آیا ہے کہ ماں باپ کے سامنے آف تک نہیں کر سکتے اور بچے اتنی بات کر گئے۔ پھر اس کا کیا جواب ہوگا؟
اس کے بعد یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باپ جنت کا دروازہ ہے اگر وہ ناراض ہو جائے تو جنت سے محروم ہو جائے اولاد۔۔اور اتنی بات کرنے پر وہ آپ سے ناراض ہو جائیں پھر اس کا کیا جواب ہے۔۔ کیا یہ بہتر ہے کہ پھر خاموشی ہی اختیار کی جائے یا کیا کیا جائے؟
مگر اولاد کی بےحسی سے بھی مفر نہیں آج کل تو۔ اس کہانی کے پس منظر میں یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ زیادہ لاڈ پیار اولاد کو بگاڑتا ہی ہے۔۔ فضول کی سختی اور روک ٹوک بھی دل سخت کردیتی ہے بچوں کا۔۔ میانہ روی کا سلوک رکھنا چاہیے بچوں کے ساتھ۔۔ یہ بھی ممکن ہے اکثر والدین کا مکافات عمل ہو کہ انھوں نے بھی اپنے والدین کو ستایا ہوگا۔۔
1 Comments
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete