نام کتاب: دکھتی رگ
مصنف: خالد بشیر تلگامی
نوعیت : افسانچے
قیمت: 250
صفحات: 180
مبصر: ایس معشوق احمد
رابطہ :-8493981240
داستان کے محیر العقول واقعات اور جن،دیو، پریوں کی کہانیوں سے ناول کی حقیقی زندگی اور گوشت پوست کے انسانوں تک آنے میں کم سے کم چھ دہائیاں لگیں۔ ناول کی وسیع زندگی یعنی کل سے افسانے کی زندگی کے ایک پہلو کی عکاسی یعنی جز تک آنے میں اس سے کم وقت لگا۔افسانے کو وقت نے کب افسانچے کی خلعت عطا کی اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔داستان نے ناول کو اپنی سانسیں دی لیکن ناول نے افسانے اور افسانے نے افسانچے کو غذا ہی فراہم نہیں کی بلکہ اسے پالا بھی۔ ناول اور افسانہ خود بھی زندہ رہے اور افسانچے کی پرورش بھی ہوتی رہی۔ کم قلیل وقت میں افسانچہ پڑھا جاتا ہے اور لوگوں کو وقت میسر نہیں صرف اس وقت کی تنگ دامانی کے گلے نے افسانچہ کو جنم نہ دیا بلکہ تغیر و تبدل کی حقیقت نے افسانچے کو دست یاب کیا۔یہ حقیقت عیاں ہے کہ ادب ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ہر عہد کے اپنے تقاضے ، مسائل،پریشانیاں ہوتی ہیں اور ان مسائل کو ادیب فن کا لبادہ اوڑھ کر بیان کرتا ہے ۔معاشرے میں جو خامیاں اور خوبیاں ہوتی ہیں ان کو ایک ادیب مخصوص نظر سے دیکھنے کے بعد تخلیق اس انداز سے کرتا ہے کہ پڑھ کر خیال آتا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کو معاشرے کا آئینہ کہا جاتا ہے۔یہ وہ آئینہ ہے جس میں معاشرے کی صورت ہوبہو نظر آتی ہے۔
افسانہ لکھنا آسان نہیں۔افسانے میں ایک جملہ اضافی لکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس فن میں چند ادیبوں نے قابل رشک تخلیقات سامنے لائی ہیں۔ اس سے دشوار تر افسانچہ لکھنا ہے اس میں ایک لفظ فالتو نہیں آنا چاہیے۔ بہت کم ادیب ہیں جو اس راہ سے کامیاب گزر جاتے ہیں۔جہاں برصغیر میں افسانچے لکھے گئے اور بڑے بڑے نام سامنے آئے وہیں وادی کشمیر میں بھی چند نوجوان اور ادبی آسمان پر نئے ابھرتے ہوئے ستاروں نے اس طرف توجہ کی اور کامیاب افسانچے تحریر کئے۔ان ہی افسانچہ نگاروں میں ایک ابھرتا ہوا نام خالد بشیر تلگامی کا ہے۔
خالد بشیر تلگامی نے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا ہے۔شاعری کے بعد اردو اور کشمیری زبانوں میں افسانے اور افسانچے لکھنے شروع کئے۔کشمیر زبان میں پہلا افسانہ "دلیل کیاہ چھ" 2011ء میں لکھا۔ کشمیری زبان میں لکھے افسانچوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔اردو میں پہلا افسانہ" ادھورا خواب "کے عنوان سے لکھا۔ان کا پہلا افسانچہ "بھوک" کے عنوان سے 2016 ء میں تعمیل ارشاد میں شائع ہوا۔ ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ "دکھتی رگ" کے عنوان سے 2021ء منظر عام پر آچکا ہے۔ اس مجموعے کو ایجوکیشن پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی نے چھاپا ہے۔مجموعے کا انتساب تین نسلوں یعنی امی ابو،شریک حیات اور بیٹیوں کے نام ہے اور مصنف نے لکھا ہے کہ ان کی دعاؤں اور محبتوں سے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔کتاب کا عنوان دکھتی رگ مہتاب انور کے شعر _
دکھتی رگ پر مری نہ رکھ انگلی
سچ کا اظہار ورنہ کردوں گا
مجموعے کے ابتداء میں چھ تنقیدی مضامین ہیں ،جن میں خالد بشیر تلگامی کے افسانچوں میں سماج کی دکھتی رگیں از نور شاہ، دنیائے افسانچہ کا ایک درخشندہ نام : خالد بشیر از ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، دکھتی رگ پر انگلی رکھنے والا افسانہ نگار : خالد بشیر از تنویر اختر رومانی ، خالد بشیر تلگامی کے افسانچے از ایم مبین ، خالد بشیر تلگامی اور افسانچے کا فن از سرور غزالی اور خالد بشیر تلگامی کی افسانچہ نگاری شامل ہیں۔مضامین میں مصنف کی افسانچہ نگاری پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔مضامین کے بعد مصنف کا مختصر تعارف ہے اور اپنی باتیں کے تحت مصنف نے اپنے ادبی سفر پر روشنی ڈالی ہے۔ صحفہ نمبر تنتالیس سے افسانچے شروع ہوتے ہیں۔پہلا افسانچہ بٹوارہ اور آخری آکسیجن ہے۔مجموعے میں کل ایک سو چھ افسانچے شامل ہیں۔افسانچوں کے بعد پنتالیس اہل قلم کے تاثرات بہ لحاظ حروف تہجی شامل ہیں۔مجموعے کا بیک فلپ رونق جمال نے لکھا ہے۔دکھتی رگ کے افسانچوں میں نا مساعد حالات ، سماجی مسائل ،ذہنی انتشار ، غربت ، اخلاقی قدروں کی پامالی ، ماں باپ کی نافرمانی، بناوٹ ، لالچ ، مکروفریب، منافقت ،خوف، غرض اپنے آس پاس کے سلگتے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ادب برائے زندگی کا نظریہ رکھنے والے مصنف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے کی سعی کرتے ہیں۔سماج کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان کا تدارک کرنے کی رائے دیتے ہیں اور عوام کا احساس جگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ غفلت میں پڑی قوم اور حرماں نصیب شکستہ خوردگی ، مایوسی ،ذہنی انتشار ،لالچ خود غرضی ،چغلی ،غیبت جیسے عیوب اور کیفیات سے باہر آکر پاک اور اعلی اخلاق کی حامل زندگی گزار سکے۔خالد بشیر اپنے افسانچوں کے ذریعے سوئے ہوؤں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بہتر ڈھنگ سے زندگی گزار سکے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی برائیوں ،خامیوں کو اپنے افسانچوں کا موضوع بناتے ہیں۔انسان کیسی ذہانت رکھتا ہے اس سے خالد بشیر واقف ہیں ۔اسے پتا ہے کہ موجودہ دور میں انسان آلسی ہوگیا ہے ۔محنت کا راستہ ترک کرکے قلیل المعیاد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس دوڈ دھوپ میں جعلی پیروں کے استھان پر ماتھا ٹیکنے جاتا ہے جو تعویز گنڈوں کے عوض لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹ لیتے ہیں۔ اس موضوع کو افسانچہ سارٹ کٹ میں برتا گیا ہے۔مرید کون بنے گا کروڑ پتی کے آڈشن میں کامیاب ہونے کے بعد پیر بابا کے پاس پہنچ جاتا ہے اور پیر سے دریافت کرتا ہے کہ ہاٹ سیٹ میں کون کون سے سوالات پوچھے جائیں گے۔بابا نذرانے کے طور ایک موٹی رقم وصول کرنے کے بعد دم کیا ہوا پانی دے دیتا ہے اس ہدایت کے ساتھ کہ آج رات سونے سے پہلے سارا پانی پی لینا۔جو سوالات تم سے پوچھے جائیں گے خواب میں ان کا جواب تمہیں مل جائے گا۔مرید جب رخصت ہوتا ہے تو خدمت گزار پوچھ لیتا ہے کہ بابا کیا واقعی ایسا ہوگا۔پیر ہنس کر جواب دیتا ہے کہ _
"پیر نے ایک فلک شگاف قہقہ لگاتے ہوئے کہا "ارے بھئی تم نے میرے ان شاء اللہ پر غور نہیں کیا !... بچہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے"
افسانچہ سارٹ کٹ صحفہ 46
ایک حساس ادیب جب اپنے آس پاس پنپ رہی برائیوں ،انسانی رویوں، سماجی مسائل، ذہنی انتشار، اور وحشت زدہ زندگی کو دیکھتا ہے تو اس کی رگ دکھتی ہے۔اس کسک کا اظہار وہ قلم کے ذریعے کرتا ہے اور مخصوص نظریے کا بھی اس میں اضافہ کرتا ہے۔خالد بشیر نے بھی یہی کیا ۔اس نے زندگی کی تلخیوں ،مٹتی ہوئی قدروں ،انسان کی خود غرضیوں ، والدین کا کرب ، ڈاکٹروں کی لالچ ، نئی نسل کی دلچسپیوں ، گفتار اور کردار میں تفاوت ، مذہب ،سوچ ، جھوٹ ، باپ بیٹے کے رشتوں ، اندھے قانون ، مجبوری اور بے بسی غرض زندگی اور احوال زندگی کو دکھتی رگ کے افسانچوں میں موضوع بنایا ہے۔بعض مسائل کی وہ کامیاب عکاسی کرتے ہیں اور زندگی کی کڑواہٹ کو شیرینی میں بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔ بیٹی کا باپ میں ایسے شخص کو موضوع بنایا گیا ہے جو شادی شدہ اور ایک بیٹی کا باپ ہونے کے باوجود ناحق تعلقات کا مرتکب ہے۔ناسور میں اپنی آگے والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کو چھیڑنے اور تھپڑ کھانے کے بعد لڑکی کا محرم نکلنے پر شرمندہ ہونے کو موضوع بنایاگیا ہے۔ دور حاضر میں کوئی کسی کی مدد بنا غرض کے نہیں کرتا۔کچھ لوگ غریبوں کی مدد اس لیے کرتے ہیں کہ مسیحا کہلائے اور سوشل میڈیا پر ان کی تصویر اور کارناموں کی خوب تشہیر ہو۔افسانچہ امداد میں ماجد کو جب پتا چلا کہ غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کے بعد اس کی تصویریں فیس بک اور واٹس ایپ پر گردش کر رہی ہیں تو وہ موبائل کو چومنے لگا اور اچھلنے کے بعد شہرت کے لیے اس نے دوسرا کیمپ لگانے کا ارادہ کیا۔
افسانچہ پوری دنیا کو آئینے میں دکھانے کا فن ہے۔قاری جب اس آئینے میں دیکھے تو اسے حیرت بھی ہو اور سوچنے پر بھی مجبور ہوجائے۔یہ بھی دھیان میں رہے کہ افسانچہ پرواز تخیل، تخلیقی زبان ، اچھوتے موضوع اور اختصار کا تقاضا کرتا ہے۔وہی افسانچہ کامیاب ہے جو کتاب پر ختم اور ذہن میں شروع ہوجائے۔ دکھتی رگ میں ایسے بھی افسانچے شامل ہیں جن کو زبردستی افسانچہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے افسانچوں میں سطحی موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے اور زبان و بیان میں بھی کوئی کشش نہیں دکھائی دیتی۔ ماسک، اعلان ، ڈھیل ، ارادہ ،دستور ، سپنے، کمینے ،بیٹی بچاؤ،سکون جیسے افسانچوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔وہیں کتاب میں شامل بہترین افسانچے بھی شامل ہیں جو سماجی مسائل کی عمدہ عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی چونکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔شارٹ کٹ ، گفتار کا غازی ، مسجد ، لاوارث ، احسان ، سبق ، سگے ، ماں، ناسور ، ایسے افسانچے ہیں جو متاثر کرتے ہیں۔
مجموعے میں بعض جگہ املا کی غلطیاں اور جملوں میں مذکر مونث کو برتنے میں بے احتیاطی ہوئی ہے اور رموز اوقاف کا بھی کم ہی خیال رکھا گیا ہے۔ پروف ریڈنگ میں اس طرف توجہ کی جاتی تو بہتر تھا۔بہرحال پہلی کتاب میں ہیچ مقدار خامیوں کا در آنا اچنبھے کی بات نہیں،ان کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں غالباً یہ افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ہے اور اس مجموعے کو ادبی حلقوں میں پذیرائی ملنے کے امکانات روشن ہیں۔
0 Comments