Ticker

6/recent/ticker-posts

اساتذہ کی ذمہ داری بعد از کووڈ۹۱ از قلم : خواجہ کوثر حیات

اساتذہ کی ذمہ داری بعد از کووڈ۹۱

از قلم : خواجہ کوثر حیات
اورنگ آباد (دکن)
Email: khwaja.kauser@gmail.com

جب کورونا کا قہر مکمل ختم ہوجائے گا، زندگی معمولات پر آجائے گی تب معاشرے اور خاص طور پر اساتذہ اکرام کی ذمہ داری کیا ہوگی؟کیا ہم نے تعلیمی بحران کے تحت متاثرہ بچوں کے لیے ہمارا رویہ، ہماری ذمہ داری کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے؟ یا اس سے متعلق تعلیمی و نفسیاتی ماہرین سے رہنمائی حاصل کی ہے؟
ہوسکتا ہے بچوں کے تئیں سماج ا ور اساتذہ کا رویہ اس طرح ہوگا کہ ٭ یہ توکورونا وبا کے عرصہ کے بچے ہیں ان سے کچھ بھی اچھے کی توقع مت کرو۔ ٭ یہ کسی کام کے اہل نہیں۔ ٭ ان میں وہ تعمیراتی صلاحیتیں نہیں۔ ٭ ان کا تو تعلیمی گیپ یا وقفہ ہوگیا۔ ٭ انہیں تو بیٹھ کر پڑھنے کی عادت ہی نہیں رہی۔ ٭ ان کے لیے بہت مشکل ہے رہنے دیتے ہیں۔ اس طرح ارادی یا غیر ارادی طور پر ہم بچوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں گے۔ انہیں بار بار احساس دلایا جائے گا کہ وہ ایک لمبا وقفہ تعلیم سے نابلد رہے۔
ذرا سوچئے20/ مارچ 2019ء ایک ناقابل فراموش دن جو ذہن و یاداشت کے ساتھ پیوست ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح ہر جگہ اسکولوں میں رونقیں تھیں، بچے خوش و خرم اپنی زندگی میں مگن تھے تعلیم کا عمل جاری تھاکہ اچانک حکم ملتا ہے کہ فوراً اسکول بندکیے جائیں۔ ایک مہلک بیماری پھیل گئی ہے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی گھروں میں قید ہوگئے۔ کاروبار بند،ملنا جلنا بند۔ ہر کوئی کورونا کے خوف سے سہما ہوا اپنے گھروں میں دبکا بیٹھا ہے۔
اس بیماری کے چلتے کئی نے اپنوں کو منٹوں میں کھودیااور ان کے آخری رسومات سے بھی قاصر رہے۔ کسی گھر کا سرپرست چل بسا تو کسی کا جگر کا ٹکڑا تو کسی کے بزرگ۔ موت کی کسی سے بھی دوستی نہیں ہوتی۔ کورونا کے نام پر اس نے کئی گھروں اور کنبوں کے افراد کو دائی اجل نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ موت کو نہ بلکتے بچوں پر رحم آیا نہ بازو برابر اولاد پر اور نہ گھر کی رونق بنے بزرگوں کے پر نور شفقت بھرے سائے پراور دیکھتے ہی دیکھتے موت نے ہر طرف خاموشی پھیلادی۔
دوسری طرف کاروبار مکمل بند۔المیہ یہ کہ کاروبار بند تو روز مزدوری کرنے والوں کے چولہے بھی بند۔ بھوک اور فاقہ کشی ان معصوم بچوں نے دیکھی جنھیں ان کے والدین عام حالات میں روکھی سوکھی ہی سہی کچھ ناکچھ پیٹ بھر کھلاتے مگر کورونا نے انہیں اتنا مجبور کردیا کہ معصوم بچے بھی فاقہ کشی کرنے لگے۔ انہوں نے ان حالات میں نہ صرف اپنوں کے کھونے کا غم سہا بلکہ بھوک۔ بیماری،تکلیف اور قید کو لمحہ لمحہ محسوس کیا۔ مختصراً کہا جائے تو وبا ء کے زیر اثر نہ صرف نفسیاتی مسائل کی تعداد بڑھی ہے بلکہ میل جول و روابط میں کمی اور تنہائی، روزمرہ کے معمولاتِ زندگی میں انتشار، ملازمتوں کے خاتمے، کاروبار کے زوال، مالی و اقتصادی مشکلات، عزیز و اقارب کی اموات، طویل عرصہ تک بیماری میں گرفتار رہنا جیسے واقعات سے جو خوفناک اثرات معاشرہ خاص طور پرتعلیم، تعلیمی اداروں اور درس وتدریس پر پڑے جس کی وجہ سے طلبہ اور والدین کی نفسیاتی اور دماغی حالت پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ جس کا لب لباب مزاجوں میں در آتا چڑ چڑاپن، بیزارگی اور خاص طور پر ناامیدی جسے زدعام میں ڈپریشن کہا جاتا ہے معاشرہ کا حصہ بن گیا ہے۔وبائی سراسیمگی کے باعث اساتذہ کرام اور طلبہ کے درمیان تعلیمی اور تربیتی ربط نہ کے برابر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ کی تعلیمی ترقی ہی نہیں کردار سازی اور ان کی راہنمائی بھی یکسر رک گئی ہے۔کیا اس درد کے دورانیہ سے گذرنے والے بچے معاشرہ اور ہم اساتذہ کی خصوصی توجہ کے طلبگار نہیں۔
جی ہاں عزیز اساتذہ اکرام ہم اس مقدس نبوی پیشہ سے وابستہ ہے اس لحاظ سے ان حالات میں ہمارا فرض عین بن جاتا ہے کہ ہم ابھی سے اپنے بچوں سے جڑے،ان کے مسائل، ان کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کے درد کو سمجھ کر اس کا موثر حل نکالیں۔
ہماری سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ کورونا وائرس نے نہ صرف جانی و مالی نقصانات کیے ہے بلکہ اس کا گہرا اثر ہمارے تعلیمی نظام پر حملہ کی صورت میں ہوا ہے، کیا ان حالات میں ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر بیٹھنا ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں حکمت عملی کی منظم منصوبہ بند طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
ایک طرف جہاں ہم اپنے بچوں کو وائرس کے خطرے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں وہیں دوسری طرف ان دقتوں میں ہمیں اپنی سوچ، دستیاب وسائل کے بہتر استعمال، جدید طرز عمل اپنانے اور سخت حالات میں زندگی بسر کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی جاننا ہے۔ اگرچہ ہمیں جدید تکنالوجی میں پیچھے ہونے پر افسوس ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس چیلنج پر سبقت لے جائیں گے۔
بیشک رب کائنات غیر مواقف حالات رونما کرکے ہمیں نئی تبدیلیوں سے روشناس اور نبرد آزما بھی کرتا ہے۔ انہی حالات میں ذہن میں ادراک کی آگہی ہوتی ہے،نئی جہتوں کے لیے راستے وا ہوتے ہیں۔ اور مثبت تبدیلیاں بھی نامواقف حالات میں رونما ہوتی ہیں۔یوں بھی نئے طریقہ تدریس کو بغور سمجھیں تواساتذہ کیلئے یہ بڑا فارغ وقت ہے کہ وہ مہارتوں پر مبنی تعلیم کا خاکہ نہ صرف مرتب کریں بلکہ اس کے لیے درکار وسائل و منصوبہ بندی کا لائحہ عمل بھی کر لے تاکہ معمولات کے مطابق اسکول تعلیم شروع ہوتے ہی تدریس کا نیا طریقہ بروئے کار لایا جاسکے۔ تعلیم کے حصول کا اختیار طلبہ کو دے دیا جائے یعنی طفل مرکوز تعلیم رائج کرکے استاد ایک مینٹر یعنی نگراں کی حیثیت سے کام انجام دے۔عام مروج طریقہ تدریس کو جدید طریقہ ای لرننگ کے لیے آمادہ اور تیارکرنے کا بہترین اور سازگار موقع جس کا موثر استعمال کرکے مسابقتی دورکا حصہ بنا جاسکتا ہے۔
ان حالات میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔آج زوم میٹ و گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ، فیس بک گروپس اور تعلیمی چینلس کے ذریعہ مختلف طریقہ کار استعمال میں لا ئے جا رہے ہیں۔یہ طریقے چونکہ مشکل اور دقت طلب ضرور ثابت ہورہے ہیں مگر بہرحال طلبا کے ساتھ اساتذہ نئی ٹیکنالوجی سے نہ صرف مانوس ہوئے بلکہ اسے اپنے معمولات کا حصہ بھی بنالیا۔ ان جدید طریقہ کار کے ذریعہ بہترین اساتذہ کی تدریسی صلاحتیں سامنے آئی ہیں جس سے نہ صرف مخصوص اسکول بلکہ ہر شہر و گاوں یا ریاست کے طلبا باآسانی استفادہ کررہے ہیں۔ اب طلبا خود بھی ان جدید طریقوں کے ذریعہ اپنے پراجکٹ۔ سرگرمیاں اور ہنر کو ویڈیو کی شکل میں پیش کررہے ہیں۔ ساتھ ہی گوگل اور سرچ انجن کی مدد سے اپنے سوالات کے جوابات کی تشقی بھی کررہے ہیں۔بچوں کا اعتماد بحال کرنے کی تدابیر کریں۔اس وقفہ کی یادداشت ختم کرنے کے لیے انہیں دلچسپ طریقہ کار کے ذریعہ تعلیم کے لیے آمادہ کریں۔ وہ اپنی کمزوریوں کو اپنی محرومی نہ سمجھے بلکہ ان سے ابھرنے کی قوت یکجاکریں اور زندگی کے اگلے پڑاو کی جانب قدم بڑھائے۔ انہیں ضررت ہیں آپ کے مشفقانہ و ہمدردانہ ساتھ کی تاکہ ہمارا طالب علم پھر لوٹ آئے۔

Post a Comment

0 Comments