Ticker

6/recent/ticker-posts

دانش غنی کا تنقیدی زاویہ نگاہ!✍️ پرویز احمد یعقوبی

دانش غنی کا تنقیدی زاویہ نگاہ!
✍️ پرویز احمد یعقوبی، کامٹی
دانش غنی کا تنقیدی زاویہ نگاہ!✍️ پرویز احمد یعقوبی

ڈاکٹر محمد دانش غنی کم عمر، کم گو، ادب پرور اورادب دوست شخصیت کے مالک ہیں، وہ مستقبل قریب میں اردو ادب کی اہم صنف تنقید و تحقیق کا دمکتا ستارہ ضرور ثابت ہوں گے۔ ان کا یہ ذوق تحریر خدا داد صلاحیت کا بین ثبوت ہے جو ایک طویل عمر گزارنے کے بعد بھی ادیبوں کو حاصل نہیں ہوتا۔ ان کی تحریر میں موضوع کی گیرائی،اسکے مثبت پہلو، اسکی اصلیت و اہمیت اس قدر واضح ہوجاتی ہیں کہ اکثر صاحب تحریر جن پر تنقید کی گئی ہے حیران ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ تنقیدانہیں مثبت قوتوں سے روشناس کرتی ہیں اور انہیں اپنے فن کو مزید نکھارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکرفنکار کی خوبی کو اجاگر کرکے اپنے قارئین سے تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ اس کی عزت و توقیردل میں قائم ہوجاتی ہے۔ ان کے مضامین میں زبان و بیان کی روانی پائی جاتی ہے،جس میں قاری خود بخود بہتا چلا جاتا ہے۔ ان ہی اوصاف کی بنا پرمئی۲۱۰۹ء میں ماہنامہ پرواز، لندن میں محمد دانش غنی پر ایک گوشہ قائم کیا گیا۔ مختلف اداروں نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔
ان کے تنقیدی مضامین معیاری اخبارو رسائل اور جرائد کی زینت بن چکے ہیں اور عالمی سطح پر شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں بھی مرتب کی ہیں جو شعبہ تنقید و تحقیق کے طالب علم کے لیے راہبر ثابت ہوسکتی ہیں۔
محمد دانش غنی ادب کا سنجیدگی سے مطالعہ اور غور و فکر کرتے ہیں، اپنی رائے کے اظہار میں دیانتداری اختیار کرتے ہیں۔ وہ شعراء و ادباء کے تنقیدی محاسبہ کے بجائے تاثراتی زاویہ نگاہ سے بھی کام لیتے ہیں جس کے سبب ان کے تخلیقی پہلو کی جہتیں صاف نظر آتی ہیں۔ اردو اب میں تحقیق و تنقید ایک وسیع و عریض میدان ہے، ابھی سفر طویل ہے اور وہ اپنی محنت و لگن سے بحسن خوبی اس سفر کوانجام کرسکتے ہیں۔
’’شعر کے پردے میں‘‘ محمد دانش غنی نے الطاف حسین حالیؔ، محسن کاکوروی، علامہ اقبال، محمد علی جوہرؔ، حسرتؔ موہانی، جگر ؔمرادآبادی، ساحرؔ، غنی اعجاز، بشر نواز، خضر ؔناگپوری، قاضی فراز ؔاحمد، شریف احمد شریفؔ، شمیم طارق، ساحرؔ شیوی، نذیر ؔفتح پوری، ظفر کلیم، شکیب غوثی، سعید کنول، تاج الدین شاہدؔ، حیدرؔ بیابانی، اقبال سالک وغیرہم پر ایک تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے جس سے ان کے فکر و فن اور تحقیق و تنقید کا شعور صاف ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ خود شاعر نہیں ہیں لیکن شعر فہمی کا فن رکھتے ہیں جو شاعر کے کلام کی صحیح تفہیم کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تنقیدی عمل میں ہر شاعر کی مثبت سوچ کا احترام کیا ہے اور بلا تفریق محمود و ایاز ان کے فکر و فن کا احتساب بھی کیا ہے۔ہر عنوان پر ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ دانشؔ کے کمالِ قلم نے انہیں ایک مالا میں پرو دیا ہے۔
بقلم شمیم طارق،’’ تنقید، تخلیق کے داخلی اور خارجی محاسن کو اجاگر کرنے مگراجاگر کرنے کے اس عمل کو اپنے ذہن و ظرف کی تنگی اور ہر قسم کے ذہنی تحفظات و تعصبات سے پاک رکھنے کا نام ہے۔ تنقید قاری کو اس ذہنی فضا اور ثقافتی ماحول سے واقف کراتی ہے جس میں کسی فن پارے کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس مضمر معانی کے نئے امکانات کو بھی تنقید ہی روشن کرتی ہے۔ یہ قاری کے ذہن اور تخلیق میں مضمر معنوی کائنات کے توسط سے تخلیق کار کی ذہنی فضا کے درمیان حائل ہونے والے پردوں کو ہٹانے کا کام کرتی ہے خود پردہ بن کر حائل ہونے کا کام نہیں کرتی۔‘‘
مجھے امید ہے ڈاکٹر محمد دانش غنی کے تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ ان کے ادبی، تنقیدی، اصلاحی مزاج کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
پرویز احمد یعقوبی
پیلی حویلی، کامٹی
موبائل : 9595559073

Post a Comment

0 Comments