Ticker

6/recent/ticker-posts

قیصرواحدی اپنے اشعار کے آئینے میں ✍️ محمدایوب

قیصرواحدی اپنے اشعار کے آئینے میں
✍️ محمدایوب


قیصرواحدی اپنے اشعار کے آئینے میں ✍️ محمدایوب

قیصر واحدی سے میرے تعلقات بہت پرانے ہیں ۔میرا مکان ان کے پڑوس میں تھا۔اگر چہ یہ عمر میں مجھ سے چار سال بڑے تھے پھر بھی ان سے دوستانہ مراسم تھے۔مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور قیصر صاحب بھی مطالعے کے رسیا تھے۔خوشحال گھرانے سے تھے اس لئے اکثر کتابیں اور رسالے خریدتے رہتے تھے۔ان کا شوق اتنا بڑھا کہ انھوں نے بچوں کی ایک لائبریری ’’سن شائن‘‘ لائبریری کے نام سے شروع کردی اور اس کا انتظا م میرے سپرد کیا۔یہ ۱۹۶۱ء کی بات ہے۔ یہ لائبریری بچوں میں بہت مقبول ہوئی۔دور دور سے بچے اس لائبریری میں آنے لگے۔ اس کی فیس برائے نام تھی۔اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دوسرے محلے والوں نے بھی اس طرح کی لائبریریاں کھول لیں ۔ بطور خاص گرمیوں کی چھٹیوں میں ان لائبریریوں میں بڑی گہما گہمی رہتی تھی۔ بچوں کے بہت سے رسالے اور کہانیوں کی کتابیں اس میں جمع تھیں ۔خاص طور پر رسالہ کھلوناتو بہت مقبول تھا۔ قیصر صاحب جگہ جگہ سے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے کتابیں منگواتے۔ آنے والی کتابوں کی ورق گردانی سب سے پہلے میں کرتا تھا۔میرے ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔یہ لائبریری پانچ سال تک یعنی ۱۹۶۵ء تک چلی، پھر جب قیصر صاحب کی تعلیمی مصروفیات بڑھیں تو بند کرنی پڑی۔
قیصر صاحب سے میرے تعلقات میرے کالج میں داخلے کے بعد بھی قائم رہے، وہ اس وقت تک مارس کالج ناگ پور سے تعلیم حاصل کرکے فارغ ہو چکے تھے، مگروہ اکثر کالج آتے رہتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ منظورالحق انصاری کے ساتھ مل کر انھوں نے ناگپورمہاودیالیہ( ماریس کالج) سے ایک قلمی میگزن بھی شائع کیا تھاجس میں میری بھی تحریر شامل تھی۔میرے اسکول کے دنوں میں اکثر وہ منظور شاکراور وکیل انجم کے ساتھ آتے تھے، ان کے ساتھ ان کا ایک دو تازہ کلام بھی ہوتا تھا۔مجھے بھی دکھاتے کبھی مشورہ کرتے کبھی داد کے خواہاں ہوتے۔ غرض اسکول کے زمانے سے ہی میں ان کی شاعری سے واقف تھا۔ گاہے بگاہے مختلف رسائل میں بھی ان کی غزلیں اور آزاد نظمیں شائع ہوتیں ۔اسی دوران وہ ایک فری لانس جرنلسٹ، اسکرپٹ رائٹر، شاعر، ادیب اور سماجی کارکن کے طور پر خاصے معروف ہو چکے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں بسلسلۂ ملازمت،میں ممبئی چلا گیا اور اس طرح تعلقات میں تعطل پیدا ہوگیا۔انھوں نے اس دوران مختلف ملازمتیں کیں ۔ کچھ کا تعلق ادبی اور اخباری اداروں سے بھی رہا۔اس دوران اخبارات میں ان کی منی کہانیاں اور کلا م شائع ہوتا رہا، جس میں ہندی روزنامہ نو بھارت۔ ناگپور،راشٹریہ سہارا۔نوئڈا، روزنامہ اردو ٹائمز۔ممبئی، اردو انقلاب۔ ممبئی،شامل ہیں ۔دہلی سے نکلنے والے رسالوں ایوانِ اردو، اللہ کی پکار، بیسویں صدی، بچوں کا امنگ،پاکیزہ آنچل میں مستقل چھپتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وقارہند:حیدرآباد،تعمیر نو۔بنگلور،عالمی سہارا۔نوئڈا، شاخیں ۔اندور، قرطاس اوراردو میلہ۔ناگپور، فنکار۔ گوالیار وغیرہ میں باقاعدگی سے ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں ۔وہ تقریباً چھ ماہ تک حجاب رامپور میں مائل خیر آبادی کے زیر ادارت کام کرتے رہے۔ہندی اور اردو کے کئی اخبارات و رسائل میں بھی کام کیا۔ اس طرح ان کی فنی مہارت کو جلا ملتی رہی۔ کئی تنظیمیں خود قائم کیں اور کئی تنظیموں میں ذمہ دار عہدوں پر فائز ہوئے۔
(1)
ان کی شاعری کا سفر بڑا طویل ہے۔ مشورۂ سخن کئی سے کیامگر زانوئے تلمذحضرت شاطر حکیمی کے حضور تہہ کیا۔ ظاہر ہے ایسا لائق استاد جس کو ملے اس کی شاعری کا کیا کہنا۔اس لئے ان کے کلام میں عروضی اسقام بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ہر چند کہ ان کے کلام میں فلسفہ کی گہرائی نہیں ۔نہ ہی انھیں اس کا دعویٰ ہے۔جو کچھ زندگی نے ان کو دیا اس کو سیدھے سادے انداز میں رقم کر دیا ہے۔ اس میں نشیب و فراز بھی ہیں اوراپنوں سے ملی تلخیاں بھی۔ ان کے اشعارمیں تنوع، موضوعات میں بوقلمونی اور انفرادیت ہے۔ بہت سے روایتی موضوعات کو انھوں نے نیا رنگ و آہنگ دیا۔
سہل ممتنع میں کہے ان کے اشعار ان کی سلاست، فنکاری اورزباں وبیان پر ان کی گرفت کی دلیل ہیں۔
نعتیہ شعر کس سادگی سے کہا ہے ملاحظہ ہو:
نبی مجھ سے راضی خدا مجھ سے خوش ہے
بلا سے یہ دنیا خفا ہو گئی ہے
اسی طرح خدا کی حمد کتنی آسانی سے بیان کر گئے ہیں:
ہم اسے بھول جائیں ممکن ہے
ہم سے وہ بے خبر نہیں ہوتا
حمد کے شعر میں خودداری کا یہ پہلو بھی ملاحظہ ہو:
سرتسلیم جھکاتا ہوں خدا کے آگے
سب کی چوکھٹ پہ نہیں آتا مجھے سر رکھنا
معاملات اور وارداتِ عشق کے یہ اشعار تو اپنی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔اس میں موضوع کے ہر پہلو کو اجاگرکیا گیا ہے۔قاری کی دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے اور مختلف انداز بھی سامنے آتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
وفا کے کوچے میں تم سے ملنے
مثالِ گردِ سفر گیا ہوں
وہ بے وفا ہے، کہاہم نے، ایسی بات نہیں
وہ بات کیوں کریں جس کا کوئی گواہ نہ ہو
دیدنی قیصرؔ خرام ناز ہے
وقت کی رفتار ہے ٹھہری ہوئی
(2)
کچھ اور معتبر ہوئی تہمت لگی ہوئی
مل کر جناب شیخ سے بے حد خوشی ہوئی
دیتا کہاں ہے ساتھ رہِ عشق میں کوئی
جو بات کل ہوئی تھی وہی آج بھی ہوئی
ملا نہیں اسے شاید کوئی ستم کے لئے
زہے نصیب مرے مہرباں نے یاد کیا
کیسے بتلائوں محبت کی حقیقت کیا ہے
میں کہ بدنام ہوں دنیا میں ترے نام کے ساتھ
ہورہا تھا تبصرہ حالات پر
کس لئے تم اس قدر جھنجھلا گئے
آتش ہجر میں جلتے رہے پر آہ نہ کی
آگ کے ساتھ دھویں کو بھی دبا رکھا ہے
ایک لمحے کا مسکرانا بھی
اس سے بڑھ کر ہے حادثہ کوئی
ہم سے دانستہ پھر چراکے نگاہ
آج محفل سے اٹھ گیا کوئی
انسانی زندگی ایک المیہ ہے۔دنیا رنج و غم، امید و نومیدی، یاس و حسرت سے بھری ہوئی ہے۔ حساس لوگوں کو اس میں زیادہ مبتلا ہونا پڑتا ہے، چونکہ شاعر سماج کا حساس ترین فرد ہوتا ہے اس لئے اس کو نسبتاً زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ہر شاعر نے ذات کے کرب اور اپنے محسوسات کو ظاہر کیا ہے۔قیصر واحدی صاحب کے ہاں بھی اس موضوع پر اشعار ہیں ۔ یہ احساس ان کے یہاں ایک نرالی کیفیت کے ساتھ ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
(3)
ہاں ضروری تو نہیں اس کا ہو اقبال بلند
نام بچے کا برابھی نہیں قیصرؔ رکھنا
حال شب کیا پوچھنے آئے ہو قیصرؔ واحدی
صبح کو چھپ کر ہر ایک اخبار میں آجائے گا
دکھ میں ساتھی کون کسی کا
کہنے کو انسان بہت ہیں
قیصرؔ کہاں سے لائوں میں وہ شانِ قیصری
دیرینہ داستان ہے چھیڑا نہ کیجیے
چند ہی لوگوں نے سمجھا مجھے دانا لیکن
ورنہ دیوانہ ہوں میں سارے زمانے کے لئے
میرے سائے سے ذرا بچ کر اٹھے بیٹھیں جناب
جانتے ہیں سب کہ اک گرتی ہوئی دیوار ہوں
سماجی زندگی سے متعلق ان کے اشعار،سماج میں پھیلی ناہمواریوں کا بیان بھی ہیں اورشکوہ بھی۔کہیں کہیں حالات سے نبردآزما ہونے کی بات بھی کرتے ہیں:
عہد حاضر میں شرافت نہیں جینے دے گی
پھول اک ہاتھ میں اک ہاتھ میں پتھر رکھنا
سیاست داں یہاں سب ہو گئے ہیں
کسی کی بات کوئی کیسے مانے
اس نے پختہ مکاں بنانے کو
کتنے کچے مکان ڈھائے ہیں
(4)
اخلاقیات فارسی اور اردو شاعری کا اہم موضوع ہے۔بہت سے شعرا کا تو تقریباً سارا کلام اس پر محیط ہے۔ مگر دوسرے شعرا نے بھی کسی نہ کسی پہلو سے اس کا احاطہ کیا ہے۔ قیصر صاحب بھی پرانی قدروں کے امین اور اخلاق کے علمبردار ہیں ۔ ان کی شاعری کا معتدبہ حصہ بھی اس کی ترجمانی کرتا ہے۔کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:
نقش برآب غیرممکن ہے
نقش پانی میں تر نہیں ہوتا
شکلِ انساں نظر نہیں آتی
چرچا انسانیت کا گھر گھر ہے
زندگی کا دیکھیے کیا حشر ہو
ریت پر تحریر ہے لکھی ہوئی
اپنے عیبوں پہ جب نظر ڈالی
دوسروں سے مجھے گلہ کم ہے
دریا سے ہوتا ہے سمندر یوں تو بڑا
لیکن اس کا پانی کھارا ہوتا ہے
انسان دنیا کی چکاچوند کے سبب، خودفریبی میں مبتلا ہے، اس کی عکاسی کرتے ہوئے یہ شعر:
ہے گیان کی پستک جو ہر ایک ہاتھ میں قیصرؔ
انسان ابھی اپنا پتہ ڈھونڈھ رہا ہے

اپنے متعلق اعتماد ویقین کے اظہار کا نام تعلّی ہے۔جس میں لوگ مبالغے کی حدسے گزرجاتے ہیں ۔مگر قیصر صاحب نے اس میں حتی الامکان افراط سے گریز کیا ہے:
تو ہے کس زعم میں اے گردشِ افلاک و زمیں
حوصلہ چاہیے قیصرؔ کو مٹانے کے لئے
(5)
دیکھ کر قیصرؔ ہماری شہرتیں
آپ کے ماتھے پہ کیوں بل آگئے
جب کبھی میرا قلم شعلہ نوا ہوتا ہے
آگ لگ جاتی ہے اخبار کی دیواروں پر
زیست کے حالات مخفی کا حسیں اظہار ہوں
کھول ک پڑھ لیجیے میں آپ کا اخبار ہوں
تزئین گلشن اورتعمیرآشیاں کے ولولے شاعر کے ہاں بدرجۂ اتم موجود ہیں:
ہوائے وقت نے گلشن کو خارزا ر کیا
چمن میں باد صبا بن بہار پیدا کر
مرے ہاتھ میں دو نظام گلستاں
ہر اک شاخ پر آشیانے بنیں گے
ذیل میں مختلف موضوعات کے تحت درجہ بندی کر کے متفرق اشعار درج کردیے گئے ہیں ۔جس سے ان کے انداز بیان، تنوع اور موزونیت کلام کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔امید ہے یہ کتاب دنیائے شعرو ادب میں ان کاتعارف ثابت ہوگی بلکہ آگے کے لئے ان کا مقام و مرتبہ بھی طے کرے گی۔
عزم
دل نہیں جس میں ہو ساحل کی تمنا قیصرؔ
دل تو وہ ہے کہ ہر اک موج میں دریا مانگے
تجھے اے زندگی کانٹوں سے ہوتی ہے اگر وحشت
کیوں اپنے ہاتھ میں پھولوں کا کاروبار لیتی ہے
معاملات
تمام لوگوں کو اپنا بنا کے رکھا ہے
قدم جہاں کہیں رکھا جما کے رکھا ہے
(6)
مشاہدہ ہے ہمارا ذرا سی غلطی سے
بگڑ بھی جاتی ہیں باتیں کبھی کبھی بن کر
سادگی اور سلاست
تاخیر سے آئے ہو کیا جلدی ہے جانے کی
آئے ہو تھکے ماندے آرام سے کل جانا
میں اپنی بات کی توثیق کے لئے نقی جعفری کا مندرجہ ذیل تبصرہ پیش کرتا ہوں: 
’’قیصرواحدی اپنی راست گوئی اور جرأت رندانہ کے حوالے سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔بے لاگ لہجہ، بے باک طرز ادا اور دیگر فنی محاسن ان کے فن کا خاص جو ہر ہیں ۔وہ جو بھی لکھتے ہیں بلا تردداور زمانے کے منفی یا مثبت تاثرات کی پرواکیے بغیر لکھتے ہیں ۔ بے خوفی اور دلیری ان کے مزاج کا خاصّہ ہے اور بے شک یہی ایک آزاد قلم کار کی پہچان بھی ہے۔‘‘ میں دعاگو ہوں ان کا قلم یوں ہی بے خوف و خطر اپنی جولانیاں دکھاتا رہے۔اخیر میں ان کی خواہشوں کے آئینہ دار، ان کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
زمانہ یاد کرے گا مجھے بھی اے قیصرؔ
میں اپنی چھاپ زمانے پہ چھوڑ جائوں گا
٭٭٭

Post a Comment

1 Comments