Ticker

6/recent/ticker-posts

نقوش ِحسرت بنام ڈاکٹر جاوید احمد سعیدی ✍️ نسیم سعید

نقوش ِحسرت بنام ڈاکٹر جاوید احمد سعیدی
✍️نسیم سعید
نقوش ِحسرت بنام ڈاکٹر جاوید احمد سعیدی ✍️ نسیم سعید

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نوَ رُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
گردشِ ایاّم میں ہر دم رواں دواں، محکم یقین، پیہم رواں اورفاتحِ نفس پر عمل پیرا ہونے کا نام زندگی ہے۔ اسی فلسفہء حیات کے زیر ِنظر دُنیا کا ہر انسان گرد ش ِبے قراں کے بھنور میں پھنستا اور نکلتا نظر آتاہے۔ یہاں ہر کوئی جستجوئے زندگی اور تلاشِ منزل کی پیچید گیوں میں اُلجھا ہوا ہے۔ کوئی عقیدوں اور مسئلوں کی باریکیوں میں پھنس کر زندگی کی کشتی کو پار لگانا چاہتا ہے تو کوئی عارضی دولت کے حصول کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ وقت کے فرعونوں اور قارون کے خزانوں کا ذکر تو کتابوں میں بہت ملتا ہے مگر حصولِ دولت کا مقصد صرف تباہی، گمراہی اور گمنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ حرص و طمع کے آگے انسانوں کی عقل گُم ہے۔ دُنیا کے انسانوں کے اس جم ِ غفیر میں زیادہ تر تو مقصدِ حیات کو بخوبی جانتے ہیں اور منزل ِحیات کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مگر ناداں انسان یہ نہیں جانتا کہ کن راہ ِحیات سے گزر کر منزلِ حیات تک رسائی کوممکن بنایا جاسکتا ہے۔
مقصدِ زندگی کی قدر وپیمائش، ظاہر و باطن کے اعمال پر انحصار کرتی ہے کہ انسان کو زندگی کے متعین وقت کا استعمال کس طرح کرنا ہے اور وہ کون سی کارکردگیاں اور سرگرمیاں ہیں جن پر عمل بارآور ہو کر زندگی کے مقصد ِحصول کو ممکن بناجا سکتا ہے۔ یہاں انسانوں کی بہت بڑی تعداد عملی زندگی میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس لیے ایسے انسانوں کے نصیب میں گُم نامی لکھی ہے اور اُن کی زندگی بے معنی ہ ہوکر رہ جاتی ہے۔گمنامی کے اندھیروں میں غرق ہو کر اپنے وجود کو کھودینا ایسے لوگوں کا مقدر بن جاتاہے۔
مگر عِلم کی دُنیا اُن سب سے منفرداور نرالی ہے۔ یہاں جو کوئی علم کے سمندر میں جتنا غوطہ لگاتاہے۔اتنا نکھر اور سنور کر اجالوں کو منتشر کرتاہے اور شمع ِحیات بن کر ہمیشہ کے لیے راہ ِحیات کے طور پر دوسروں کو منزل ِمقصود تک پہنچانے کا ذریعہ بنتاہے۔ ایسے بھلے انسان کی توقیر تاحیات تو ہوتی ہی رہتی ہے مگر بعد حیات بھی سد ا کے لیے اپنی کرنیں منتشر کرنے والی شمع لوگوں کو فراہم کر جاتا ہے۔ خود کی زندگی کو روشن کرکے دوسروں کی زندگیوں میں روشنی بکھیرنا، یہی ایک کامیاب انسان کی علامت ہے۔ بہت کم ہوتے ہیں اس دُنیا میں ایسے لوگ جو خود کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو دوسروں کا وِرثہ تسلیم کرتے ہیں۔خود مٹتے ہیں مگر دوسروں کی ہدایت کے لیے راہ ِعمل بنتے ہیں۔ خود زخم کھا کر دوسروں کی تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں۔اُردو زبان وادب کی دُنیا میں ایسی ہی منفرد خوبیوں والی شخصیت کا نام ہے ڈاکٹر جاوید احمد سعیدی۔اُنھیں دین و دُنیا دونوں جہاں کے علم سے نہ صرف لگاؤ تھا بلکہ ان کی عملی زندگی اُس علم پر عمل کا بہترین نمونہ تھی۔
اُجالا جب ہوارخصتِ جبین ِشب کی افشاں کا
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبح ِ خنداں کا
ڈاکٹر جاوید احمد نہ صرف پنج وقتہ نمازی تھے بلکہ اُن کا کردار اور پورا حلیہ عین دین ِفطرت کے موافق تھا۔ نرم دل، نرم گفتار، ملنسار، مخلص، سادہ طبیعت اور پُروقار قدوخال کے مالک تھے۔ آہستہ قدم چلتے اور شفقت آمیز لہجے میں کم گوہونے کے باوجود اپنے ہمراہ چلنے والے ساتھی کو پُر اثر اور پُر معنی باتوں میں ہی سکون ِ زندگی عطا کر جاتے تھے۔ پڑوسی ہونے کے ناطے میں اکثر اُن سے محو گفتگو رہتا تھا۔ زندگی کے آخری سالوں میں آپ ذیابیطس اور نسیان کے ا مراض میں مبتلاہوگئے تھے۔ 
اُن کی زندگی کے آخر ی ایام راج کوٹ گجرات میں گزرے۔ اپنے صاحب زادے مدثر پرویز کے ہمراہ نومبر 2018 سے یہاں قیا م پذیر تھے۔ طویل علالت کے بعد آخرکا ر 25مارچ 2020کی شب کو اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ تجہیز و تکفین دوسرے دن راج کوٹ گجرات میں ہی صبح د س بجے عمل میں آئی۔ حالاں کہ موصوف کے زیادہ تر عزیز واقارب اور رشتہ دار شہر کامٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر عالمی وبائی بیماری کورونا وائرس کے مدّنظر ملک بھر میں کرفیو نافذ تھا۔ ایسے نامساعد حالات کے بنا پر یہاں سے کوئی بھی قریبی انسان اُن کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرسکا۔ ہم سب خالق ِکائنات کے حضور دست با دُعا ہیں کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لوا حقین کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت کرے۔آمین
موت، تجدیدِمذاق ِزندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
ڈاکٹر جاوید احمد 9،اپریل 1949کو شہر کامٹی میں پیدا ہوئے۔ ایک مصنف ہونے کے ناطے عرفیت یا قلمی نام جاوید احمد سعیدی یا جاوید احمد کامٹوی لکھا کرتے تھے۔یہ کہہ لیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اُن کا پیشہ ہی مصنفی کاتھا۔ انہوں نے ایچ ایس سی 1966میں کامٹی شہر کے مشہور و معروف ادارہ ایم۔ایم۔ربانی اسکول سے کیا۔ بی ایسی سی 1970میں انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ناگپور اور بی ایڈ 1974میں مراٹھواڑہ کالج آف ایجوکیشن اورنگ آباد سے مکمل کیا۔اس کے علاوہ ناگپور یونیورسٹی سے بی اے( ایڈیشنل ) اردو 1973میں، ایم اے (اُردو) 1978میں کیا۔ ایم اے(اُردو) کی سند حاصل کرتے وقت آپ یونیورسٹی ٹاپر رہے۔ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے (فارسی ) 1983میں کرنے کے ساتھ ہی پروفیسر ڈاکٹر زرینہ ثانی نا گپور کے زیر نگراں ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند 1981میں حاصل کی۔اُن کا تحقیقی مقالہ ’’ صالحہ عابد حسین۔ شخصیت و کارنامے ‘‘پرمشتمل ہے۔
1970میں قلندریہ اُردو ہائی اسکول منگرول پیر ضلع آکولہ میں بحیثیت ہائی اسکول معلم آپ کا انتخاب ہوا۔ 1978میں قلندریہ اُردو جونیر کالج آف آرٹس اینڈ سائنس منگرول پیر ضلع آکولہ میں بحیثیت اُردو لیکچر ر اپنی خدمات انجام دیں۔1993میں رفیع احمد قدوائی ہائی اسکول وجونیر کالج آف سائنس اینڈ ایم سی وی سی، چند ر پور ( مہاراشٹر ) میں وظیفہ یاب صدر مدرس ؍پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس عہدے سے مئی 2007میں سبکدوشی کے بعد آپ نے اپنے وطن کامٹی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ڈاکٹر جاوید احمد کے خاندانی پس منظر پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آپ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد محترم کا نام بشیر احمد تھاجو کہ حافظِ قرآن تھے۔ نیابازار کامٹی میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھے۔ آپ کے چچا ریاض الرحمن شمس اُردو زبان وادب پر اپنی مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ انھوں نے کئی ناولوں، نظموں اور عمدہ افسانوں کی تخلیق کی۔ آپ کے تایا کانام حافظ نذیر احمد تھا۔فارسی داں ہونے کے ساتھ ہی عمدہ مزاحیہ نگار بھی تھے۔
بطور ادیب آپ نے اپنے زیادہ ترمضامین کی تخلیق ادب کی سا تھ ہی سائنسی موضوعات پر کی۔حسب ِضرورت مختلف سائنسی وادبی موضوعات پر مبنی مضامین و خطوط بھی ارسال کئے اور متعدد کتابوں پر تبصرے بھی خوب کئے۔ آپ کی تخلیقات ملک کے مشہور و معروف رسائل و جرائد میں وقت بوقت شائع ہوتی رہیں۔بچوں کی نرالی دُنیا(دہلی)، ماہنامہ امنگ(نئی دہلی)، نور( رام پور)،بتول (رام پور)، گل بوٹے ( ممبئی)، گلشن اطفال (مالیگاؤں )، میزان ِ تعلیم( جلگاؤں ساکلی)، فردوس ( امراوتی اور اورنگ آباد)، دو ماہی غبارہ (بنگلور)، ہلال ( رام پور)جیسے رسالوں میں بچوں کے لیے معلوماتی مضامین اور کہانیاں تخلیق کیں۔پالیکا سماچار (اُردو) نئی دہلی، ماہنامہ ادیب ( بنگلور)میں مختلف نوعیت کے افسانے اور شگوفہ ( حیدرآباد)میں آپ کے انشائیے شائع ہوئے۔آپ کے ذریعے تخلیق کردہ تعلیمی و تعلمی مضامین کے لیے شکشن سنکرمن انگریزی(پونے )، تعلیمی سفر (کامٹی)، زیرو زبر ( ہفت روزہ آکوٹ)، میسکوبلیٹن انگریزی( چندر پور)جیسے رسالے زینت بنے۔ اُسی طرح آپ کے سائنسی و ماحولیاتی مضامین ماہنامہ یوجنا ( اُردو)نئی دہلی، سائنس کی دُنیا ( نئی دہلی)، ماہنامہ سائنس نئی دہلی، سائنس اور کائنات ( علی گڑھ)، اُردو دُنیا (نئی دہلی)،نقش میڈیکل (پونہ)، طہ ٰ ٹائمس( ناگپور) آندھر ا پردیش (اُردو ) حیدرآبادمیں شائع ہوتے رہے۔
کتاب نما (نئی دہلی )، توازن (مالیگاؤں )، نیادور ( لکھنو )، سہ ماہی تمثیل (بھوپال)، اسباق ( پونہ )، فنون ( اورنگ آباد )، ماہنا مہ حیات ( نئی دہلی )، قومی راج (ممبئی)، تعمیرِہریانہ(چنڈی گڑھ)، پندرہ روزہ رقیب (کامٹی)،ماہنامہ شگوفہ ( حیدرآباد)، خاتونِ مشرق (نئی دہلی)،ادبی گزٹ( مؤناتھ بھنجن)،ماہنامہ شاندار ( اعظم گڑھ)، اُردو میلہ ( ناگپور)اور قرطاس (ناگپور) کے ساتھ ہی علاقہ ودربھ کا بچوں وبڑوں کے لیے اپنی مقبولیت کی انتہا کو پہنچ چکا کامٹی کا رسالہ ’ ماہ نامہ الفاظ ہند‘ میں بھی آپ کی نگارشات طبع ہوتی رہیں۔ آپ کے زیادہ تر سائنسی مضامین بالکل نئے عنوانات پر معنی خیز اور معلوماتی ہوتے تھے۔ اس سے سائنس جیسے عالمگیر وسعت حامل مضمون کے تئیں اُن کی دلچسپی اور لگن کا اعتراف ہوتاہے۔
انقلاب روزنامہ دہلی، نیا اُردو سماچارناگپور، لوک مت ٹائمز ناگپور، دی ہتواد ناگپور، ناگپور ٹائمز اورہندی مہا وردبھ ( چند ر پور)،اخبارِمشرق کولکتہ جیسے اخبارات بھی آپ کی قلمی خدمات کے اعتراف کی زینت بنے۔ متعدد بار( کل 23بار) آکاش وانی نا گپور کے اُردو پروگرام ’ آبشار ‘ میں آپ کی سماجی، سائنسی وادبی تخلیقات نشر ہوتی رہیں۔نیز کئی مذاکروں میں بھی آپ نے حصہ لیا۔ لوک عدالت چند رپور میں کئی بار بطور پینل رُکن آپ نے شرکت کی۔ ان سب کارناموں کو متواتر انجام دینے سے ہی اُن کی قابلیت و مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
بات اتنے پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ حکومتِ مہاراشٹر کی درسی ونصابی کتب کی تیاری کے ادارے بال بھارتی (پونے ) میں اُردو کی کتابوں پر نظر ثانی کے لیے منعقد کئی ورک شاپ میں بھی شرکت کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکندڑی ایجوکیشن پونہ کے دہم جماعت کے سائنس دوم پرچے میں بطور مترجم سالوں تک اپنی خدمات انجام دیں۔صحت عامہ کے تحت حکومتِ مہاراشٹر کے ذریعے منعقدہ ’ جذام مہم ‘ پر وگرام کے تحت مضمون نویسی میں متعدد انعامات کو حاصل کیا۔ بی بی سی لند ن ( اُردو سروس) کے مقابلوں میں شرکت کی اور کئی اعزازات اپنے نام کئے۔
کتابوں میں تحریر کردہ تبصروں کی شمولیت پر غورکریں تو غنی اعجاز ( آکولوی) فن اور شخصیت، عبدالباری ( کامٹوی) کی غزلیات، صالحہ عابد حسین ( کتاب نماخصوصی شمارہ)، شکیل شاہ جہاں کی ڈرامانویسی، وکیل نجیب بطور بچوں کے ادیب، رحمن آکولوی کا فن، پر تبصرے قابل ذکر نظرآتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید احمد قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان دہلی کے سائنس پینل میں بھی بحیثیت رکن شامل رہ کر اُردو کے تئیں اپنی سائنسی وادبی خدمات کو خوب انجام دیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان دہلی کا عالمی شہرت یافتہ رسالہ ’ اُردو دُنیا ‘ دہلی میں میرا پہلا سائنسی مضمون بعنوان ’جھوٹ کی تفتیش ‘ جون 2018میں شائع ہو اتو انہوں نے براہ راست مجھے فون کیا۔ اور ایرکھیڑا حاجی نگر کامٹی میں واقع اپنی رہائش گاہ ’ گلفشاں ‘ میں طلب کیا۔ اس دوران ادبی حلقوں کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کی۔ میری سائنسی تخلیقات کو بھی خوب پسند کیا۔کچھ ہدایتوں اورنصیحتوں کے ساتھ ہی اس شعبے میں مضبوط قدم جمانے کی تلقین کی۔ جان و پہچان اور تعارف کاسلسلہ پُرانا تھا مگر یہ ملاقات میرے لیے مشعلِ را ہ ثابت ہوئی۔
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
ڈاکٹر جاوید احمد صاحب اُردو زبان وادب پر مکمل عبور و دسترس رکھتے تھے۔ ایک ادیب ہونے کے ناطے انھوں نے کئی کتابیں تخلیق کیں۔ اُن میں ماحولیات پر مبنی ایک کتاب ’ ماحولیات اور انسان‘( اشاعت 2006) اور بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ ’’ اصلی پونجی‘ ‘قابل ستائش ہیں۔ کتاب’ ماحولیات اور انسان‘کومہاراشٹر اُردواکادمی ممبئی اور بہار اُردو اکادمی پٹنہ کی جانب سے عمدہ تخلیق اور بہترین سائنسی و ماحولیاتی سرمایہ ہونے کی بناپر انعامات و اکرامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ان کی ’ ادبی شذرات ‘ نامی کتاب ادبی مضامین اور انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی چوتھی کتاب ’ ہمارا طرزِزندگی اور بیماریاں ‘ کا جشنِ اجرابتاریخ 29اگست 2015کو انجمن ضیاء الاسلام پبلک لائبریری گجری بازار کامٹی میں منعقد ہوا تھا۔اس کتاب کو قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہونے کا شرف حاصل ہے۔اتنے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ ایک مضمون NCERTنئی دہلی کی اُردودرسی کتاب برائے جماعت دہم اور دوسرا مضمون اُردو کی جماعت نہم کی درسی کتاب میں حکومتِ مہاراشٹر نے شامل کیا۔ گھریلوو سماجی مصروفیات رہنے کے باوجود ایسی گراں قدر تصانیف کی تخلیق یقیناً اُن کی ادبی، سائنسی ا ور ماحولیاتی خدمات کا صلہ ہی ہیں۔
آج شہر کامٹی واکناف کے لوگ انھیں بحیثیت سائنس معلم اور صدر ِمدرس کے عہدے سے سبکدوش نیک سیرت انسان کے طور پر جانتے ہیں۔ مگر اُردو ادبی دُنیا میں آپ کی عالمی شہرت بحیثیت ایک مصنف کی ہے۔ جہاں آپ سائنسی وادبی نثر نگار ی بصورت مضمون نگار، خطوط نگار اور تبصرہ نگار جانے جاتے ہیں۔
شہر کامٹی علم وادب کا خصوصاً اُردو زبان وادب کابرسوں سے گہوارہ رہاہے۔ جہاں کی متعد د ادبی شخصیتوں نے اُردو زبان وادب کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ آپ بھی شہرکامٹی کی زرخیز ادبی زمین کی ہی پیداوار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ادبی خدمات ہم سب کی سرفرازی اور سر بلند ی کا سبب بنی۔ اُن کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کئی تنظیموں نے انہیں اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ان میں جونیئرجے سیزکلب (چند رپور) کا ’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ‘اور مولانا آزاد سوشل فورم چندر پور کا ’مولانا آزادایوارڈ ‘قابلِ ذکر ہیں۔ایسی مایہ ناز اور قابلِ افتخار ہستی کے کارہائے نمایاں خدمات کو صد ہا صد سلام۔ ادبی حلقوں میں اُن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ مالکِ کائنات سے ہم سب دعاگو ہیں کہ خدا ئے تعالیٰ اُن کی روح کو بخش دے۔انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرےاورہم سب کو اُن کی ادبی و سماجی خدمات کے طفیل مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہم تو جیتے ہیں کہ دُنیا میں ترانام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے!
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments