Ticker

6/recent/ticker-posts

شاطر حکیمی، شخصیت اور فن ✍️ محمد اسرار

شاطر حکیمی، شخصیت اور فن
✍️محمد اسرار
شاطر حکیمی، شخصیت اور فن ✍️ محمد اسرار

شہر کامٹی ادبی لحاظ سے نہایت زرخیز رہا ہے اور آج بھی اس کی ادبی بہار قائم ہے۔ یہاں شعروادب کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ اس طویل مدت میں اس شہر میں ایسی شخصیات بھی گذری ہیں جن کی شہرت علاقے سے باہر نکل کر پورے ملک میں پھیل گئی۔ وسط ہند میں داغ کے واحد شاگرد ناطقؔ گلاؤٹھوی کی پیدائش بھی اسی شہر میں ہوئی۔ منشی سعید، شاطر حکیمی، حافظ انور سے لے کر جدید شاعروں میں مدحت الاختر اور عبدالرحیم نشتر کا تعلق بھی کامٹی سے ہی ہے۔ شعر وادب کے میدان میں اہلیان کامٹی ان شعرا کی بدولت اپنے آپ پر فخر کرنے میں حق بجانب ہیں۔
غلام محی الدین شاطر حکیمی کی پیدائش یکم مئی ۱۹۱۲ کو ہوئی۔ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ عربیہ اسلامیہ سے مولوی کی سندبھی حاصل کی۔ نوعمری میں ہی شاعری کا شوق پروان چڑھا اور حافظ انور کے تلامذہ میں شامل ہوئے بعد ازاں نواب غازی آف گیوردھا سے بھی مشورۂ سخن کیا۔ ان تمام مراحل سے گذرتے ہوئے خود بھی استادی کے درجے تک پہنچے اور کئی مشہور شاعروں نے آپ کے آگے زانوئے سخن تہہ کیا۔ ان کے شاگردوں میں عبدالرب عرفانؔ، ڈاکٹر یونس افسرؔ کے علاوہ مشہور عالم دین اور کامٹی کے لئے باعث ِفخر شخصیت مولانا سعید اعجاز بھی شامل ہیں۔ شاطر حکیمی نہ صرف شاعر بلکہ صوفی بھی تھے۔ اس لئے جتنی تعداد شاعری میں آپ کے شاگردوں کی ہے اس سے زیادہ تعداد مریدوں کی ہے۔ یہ مرید شاگردوں کی طرح ہی ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کے والد صوفی شاہ عبدالحکیم کے چاہنے والے بے شمار ہیں۔ اپنے والد کی نسبت سے ہی شاطر صاحب حکیمی کہلاتے ہیں۔
کامٹی میں روایتی شاعری اور جدید شاعری کے درمیان کچھ عرصہ ایسا بھی گذرا جب شعر اترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے اور انھوں نے غریب طبقہ، مزدوروں، دبے کچلے لوگوں کی حمایت میں کلام کہنا شروع کیا۔ شاطر حکیمی بھی اس تحریک سے مکمل طور پر نہیں تو جزوی طور پر ضرور متاثر ہوئے۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر ارشدجمال سے بھی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ارشدجمال لکھتے ہیں۔’’بنیادی طور پر یہاں کی آبادی محنت ومشقت سے روزی کماتی تھی۔ چنانچہ مزدور کی خستہ حالی، غربت اور ناداری کا احساس زندہ تھا۔ اس احساس کو کچھ شاعروں نے گوان کی تعداد بہت کم ہے، اپنی شاعری میں سموتے کی کوشش کی ہے۔ شاطر حکیمی کی نظم ’’مزدور کی زندگی‘‘ انھی احساسات وجذبات کی آئینہ وار ہے۔‘‘ ۱؎
شاطر حکیمی کا اولین شعری مجموعہ، موت وحیات، کے نام سے ۱۹۴۴ میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کو پڑھ کر ہی اردو داں حضرات یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ شاعر اپنی الگ شناخت بنانے میں ضرور کامیاب ہوگا۔ شاطرؔ کے کلام میں روایتی طرز فکر کے علاوہ جدید یت اور ترقی پسند رجحانات بھی شامل ہیں۔ وہ مکمل طور سے کسی ایک ازم سے وابستہ نہیں ہیں۔ انھیں جو ٹھیک لگا وہی کلام میں نظر آتا ہے۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے اگر وہی لکھے تو وہ سچا شاعر کہلاتا ہے اور اس کا کلام سچی شاعری کے زمرے میں داخل ہوتا ہے۔ سیدمحی الدین قادری زورؔ لکھتے ہیں۔ ’’ان کے زیرنظر مجموعہ ’’موت وحیات‘‘ کے مطالعہ سے واضح ہو جائے گا کہ ان کی شاعری صحیح معنوں میں شاعری ہے، تکلف اور آورد کی انھیں ضرورت ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں کے عنوان بھی دلچسپ اور بے تکلف مقرر کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ مجموعہ جدید اردو شاعری کی دنیا میں اپنی ایک جگہ پیدا کرے گا۔‘‘ ۲؎ جس شاعر کی شاعری کا اعتراف سیدمحی الدین قادری زورؔ جیسی شخصیت کرے اس کے کامل شاعر ہونے میں کوئی شک نہیں ہوسکتا۔
ہمیں شاطر حکیمی کی نظموں کا انداز دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ ان کی نظمیں نہایت ہی رواں اور پرکشش ہیں۔ ان میں دلکش منظر کشی بھی ہے۔ ’مرزاغالب‘ کے عنوان سے دیکھئے کیسی خوبصورت نظم کہی ہے۔
اندھیری رات میں جب مسکرا اٹھتے ہیں سیارے
ترنم پھوٹ پڑتا ہے مرے سازِ رگِ جاں سے
کوئی انگڑائیاں لیتا جب آجاتا ہے محفل میں
تمنا کروٹیں لیتی ہیں پیہم دکھ بھرے دل میں
نگا ہیں بادۂ رخ سے خمار آمیز ہوتی ہیں
شرابی کی طرح جب جھومتی ہیں عشق کی نبضیں
کوئی ٹیگور کے جب میٹھے میٹھے گیت گاتا ہے
معلم گوئٹے کا فلسفہ جس دم سناتا ہے
ترے اشعار پرھتا ہوں ترے نغمات گاتا ہوں
کمالِ کیف وفرطِ بیخودی میں جھوم جاتا ہوں
شرطر حکیمی کی غزلیں بھی اعلیٰ معیار کی ہیں۔ وہ غزل میں اپنے دل کی سچی باتوں کو پیش کرتے ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ غزل شاہکار ہوگی یا نہیں، بس ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ بات سچی ہو اور دل کے قریب ہو دیکھئے کیا کہتے ہیں۔
قلب کی واردات ہے شاطر
یہ غزل فن کاشاہکار نہیں
وہ خومخواہ لفظیات میں الجھ کر غزل کو لفظوں کا شاہکار بنانے کی سعی نہیں کرتے بلکہ صاف اور سیدھے لفظوں میں جو دل میں ہے اس کاغذپر اتار دیا ہے ایک آسان غزل کے چند با معنی اشعار اس طرح ہیں۔
بے مقصد انسان بہت ہیں
افسانے بے جان بہت ہیں
وحشت کے سامان بہت ہیں
خاک بسر انسان بہت ہیں
گل کی صورت گلشن گلشن
چاک جگر انسان بہت ہیں
جھوٹے شہر آباد زیادہ
سچے گھر ویران بہت ہیں ۳؎
رایتی انداز میں بھی کلاسیک مضامین کو شاطر حکیمی نے اپنے الفاظ میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ رخ، رندی، شیخ، خورشید وغیرہ الفاظ کا استعمال روایتی شاعری میں جابجا ملتے ہیں۔ شاطرؔ نے کچھ اس انداز میں ان الفاظ کو برتا ہے۔
یہ بھی اچھا ہی کیا تم نے جو رخ پھیر لیا
ہاں بظاہر مرے حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں
خیررندی تو بر ا شغل ہے لیکن یہ ریا
شیخ جی آپ کی یہ بات بھی کچھ ٹھیک نہیں
اک نہ ہونے سے ترے اے مرے خورشید جمال
دن کا کیا ذکر مری رات بھی کچھ ٹھیک نہیں ۴؎
شاطر حکیمی کے چار مجموعۂ کلام منظر عام پر آچکے ہیں۔ موت وحیات، تسکین روح، بساطِ فکر اور پلکوں کے دیئے۔ اس کے علاوہ انکی حیات اور فن پر ایک ضخیم کتاب حضرت شاطر حکیمی۔ فن اور شخصیت انکے صاحبزادے غلام رحمن حکیمی اور ڈاکٹر اظہر حیات صاحب نے ترتیب دی ہے۔ ابھی بھی حضرت شاطر حکیمی کی زندگی اور کلام پر بہت کچھ کام ہونا باقی ہے۔
۱؎ کامٹی کی شعری روایت اور دیگر مضامین۔۔۔ ڈاکٹر ارشدجمال۔ صفحہ نمبر ۲۹، ۲۰۰۲ ء۔
۲؎ موت وحیات۔۔ پیش لفظ، صفحہ نمبر ۲۱، ۱۹۴۴ ء۔
۳؎ بساطِ فکر۔۔ صفحہ نمبر ۳۳، ۳۴، شاطر حکیمی
۴؎ بساطِ فکر۔۔ صفحہ نمبر ۹۰، شاطر حکیمی
 
٭٭٭


Post a Comment

0 Comments