Ticker

6/recent/ticker-posts

چند افسانوی شکلوں کی شناخت کی کوشش ✍️ غضنفر

چند افسانوی شکلوں کی شناخت کی کوشش
✍️ غضنفر


چند افسانوی شکلوں کی شناخت کی کوشش ✍️ غضنفر

ان دنوں برقی بزم میں عالمی سطح پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اور اس بحث کا موضوع ہے مائیکرو فکشن۔
بزم میں بیٹھے ایک طرف کے لوگ مائیکرو فکشن کی وکالت میں لگے ہوۓ ہیں اور اسے فکشن کی ایک نئی صنف ثابت کرنے میں دل و جان سے جڑے ہوۓ ہیں۔ان کی جانب سے اس پر مضامین لکھے جا رہے ہیں۔اس کی موافقت میں لوگوں کے تاثرات پیش کیے جا رہے ہیں۔مائکرو فکشن کے نام سے کچھ افسانوی نمونے بھی پیش کیے جا رہے ہیں اور مختلف انداز سے اس صنف کے خط و خال کی نشاندھی بھی کی جا رہی ہے۔کچھ لوگ اس ہوڑ میں بھی لگے ہوۓ ہیں کہ اپنی وضاحت اور صراحت اور دلیلوں سے اسے ایک نئی صنف ثابت کرکے وہ ایک ادبی صنف کے موجد بن جائیں اور اس کے لیے طرح طرح کی کوششیں بھی کر رہے ہیں اور ہتھ کنڈے بھی اپنا رہے ہیں۔
 دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اسے نئی صنف ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ان کی نظر میں یہ افسانوی ادب کا وہی روپ ہے جو اردو ادب میں بہت پہلے سے افسانچے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ان کے خیال میں مایکرو فکشن اور افسانچے میں کویی فرق نہیں ہے۔ دونوں ایک ہیں اور جب دونوں ایک ہیں تو نئے نام کی کیا ضرورت ہے؟
موافقت میں کھڑا گروپ تحریری تقریریں تو دھواں دھار کر رہا ہے مگر نمونہ وہ کوئی ایسا نہیں پیش کر پا رہا ہے جو کاٹ دار ہو اور جو اپنی تیزی اور برّاقی سے اپنے مخالفین کی دلیلوں کو کاٹ کر رکھ دے۔
جب نیا نیا افسانچہ شروع ہوا تھا تو اس وقت بھی ایک بحث چھڑی تھی اور وہ بحث تھی افسانچہ بنام لطیفہ یا چٹکلا۔ اس وقت کے لوگوں نے افسانچے کو لطیفہ کہا تھا،اسے کہانی ماننے یا فکشن کی ایک صورت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس وقت کے ناقدینِ ادب اور جیّد ادیبوں نے منٹو کے افسانچوں کو بھی لطیفے کا نام دیا تھا۔
اسی زمانے میں یا اس کے پاس افسانچے اور نثری نظم کی بحث بھی گرم تھی۔ کچھ لوگ دونوں کو الگ الگ صنف مانتے تھے اور جم کر اپنے موقف کی وکالت کرتے تھے اور کچھ حضرات دونوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے۔وہ دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے تھے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا نثری نظم اور افسانچہ دو الگ الگ اصناف ہیں ،یا دونوں ایک ہیں۔اگر دونوں ایک ہیں تو کیوں اور دو ہیں تو کیوں؟ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ افسانچہ اور لطیفہ دونوں ایک کیسے ہیں؟ اور اگر ایک نہیں ہیں تو ان کی الگ الگ شناخت کیسے کی جاۓ؟ یہی صورتِ حال مائیکرو فکشن اور افسانچے کی بھی ہے۔ دونوں دو ہیں تو کیسے اور ایک ہیں تو کیوں کر؟
ان سب پر بات کرنے سے پہلے مختصر افسانہ اور افسانچے پر بات کرناضروری ہے کہ یہیں سے کچھ کلیو ہاتھ لگ سکتے ہیں جو آگے والی بحثوں کی گتھیاں سلجھانے میں ممکن ہے مدد گار ثابت ہوں ۔
مختصر افسانہ اور افسانچہ دونوں اپنے نام سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں افسانہ ہیں۔ فکشن کے یہ دونوں ہی چھوٹے روپ ہیں۔ان کا بڑا روپ تو ناول ہے۔ ان چھوٹی شکلوں کے ناموں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قدر ے بڑا ہے اور دوسرا کافی چھوٹا۔ یعنی جو قدرے بڑا روپ ہے وہ ممختصر افسانہ ہے اور جو بہت چھوٹا ہے وہ افسانچہ ہے۔ دونوں کہانی ہیں ، فرق بس اتنا ہے کہ ایک کا دائرہ پھیلا ہوا ہے اور دوسرے کا سمٹا ہوا۔ تو کیا ان دونوں میں صرف چھوٹے بڑے کا فرق ہے یا کچھ اور فرق بھی ہے ؟ آئیے اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
یہ دو بکسیز آپ کے سامنے ہیں ۔ اردو میں ایک کو صندوق کہلاتا ہے اور دوسرا صندوقچہ۔ یہ دونوں بنیادی طور پر بکس ہیں ۔دونوں کی بناوٹ ایک جیسی ہے۔ بس فرق ہے یہ کہ ایک میں جگہ زیادہ ہے دوسرے میں جگہ کم ہے۔ مگر یہ زیادہ اور کم جگہ والی بات اسپیس تک ہی محدود نہیں رہ جاتی،یہ آگے بڑھ کر یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک میں گنجایش زیادہ ہے اور دوسرے میں کم۔ایک میں بنیادی اور ضروری چیزوں کے ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی رکھی جا سکتی ہیں اور انھیں پھیلا کر بھی رکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے میں کم اسپیس ہونے کے سبب صرف بنیادی اور ضروری سامان ہی رکھے جا سکتے ہیں۔باقی سامان کو الگ کرنا ہی پڑے گا اور ضروری چیزوں کو بھی پھیلا کر رکھنے کے بجاے سمیت کر سلیقے سے رکھنا ہوگا۔
یہ مثال اس لیے دی گئی کہ مختصر افسانہ اور افسانچے کی صورت حال ہو بہو ایسی ہی ہوتی ہے۔ افسانے میں اجزاۓ ترکیبی اپنی جزئیات و تفصیلات کے ساتھ اڈجسٹ ہو جاتی ہیں جبکہ افسانچے میں جزئیات و تفصیلات کو کم کرنا پڑتا ہے اور صرف وہی باتیں جگہ پاتی ہیں جو ناگزیر ہوتی ہیں اور جنھیں رکھنے میں بھی بڑی ہنر مندی دکھانی پڑتی ہے۔ان کی تہیں لگانی پڑتی ہیں تاکہ وہ چھوٹی سی جگہ میں بھی سما سکیں۔
افسانچہ نگار کے پاس چونکہ اسپیس کم ہوتا ہے اور اسے اپنی کہانی کو کم سے کم لفظوں میں بیان کرنا ہوتاہے یعنی سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہوتا ہے تو وہ ایجاز و اختصار کے ہنر سے کام لیتا ہے۔
صفات میں افعال میں اور دیگر قواعدی اجزا میں کٹوتی کرتا ہے۔بات کو دس بارہ جملوں میں بیان کرنے کے بجاۓ دو چار جملوں میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ بات کا کوئی بنیادی یا اہم جز چھوٹنے نہ پاے۔پلاٹ کو کسنا ہوتا ہے اور کردار کی زندگی کے پھیلاؤ کو سمیٹنا ہوتا ہے اور بیان کو ادھر ادھر سے کاٹ چھانٹ کر چست درست بنانا ہوتاہے۔ بعض باتیں اشاروں میں کرنی پڑتی ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ہم بہت حد تک مختصر افسانہ اور افسانچے کے فرق کو سمجھ گئے ہیں۔ اب آئیے ہم افسانچہ اور لطیفہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے کہ کچھ لوگ دونوں کو ایک سمجھتے ہیں۔ دونوں کو ایک بتانے میں ان کی منظق شاید یہ رہی ہو کہ یہ دونوں آخر میں عام طور پر چونکاتے ہیں۔دونوں بہت مختصر ہوتے ہیں اور دونوں ہی میں کوئی نہ کوئی انوکھی بات کہی جاتی ہے مگر دونوں میں فرق بھی ہے ۔ لطیفہ ہنسانے اور گدگدانے کے مقصد سے بنایا اور سنایا جاتا ہے جبکہ افسانچے کا مقصد ہنسانا یا گدگدانا نہیں ہے‌ بلکہ زندگی کسی اہم پہلو کو نہایت اختصار اور خوبصورتی سے پیش کرنا ہوتا ہے ۔ وہ انبساط پہنچانے کے ساتھ ساتھ رلاتا بھی ہے اور سنجیدہ بھی کرتا ہے۔
لطیفے کی زبان میں مذاحیہ الفاظ جان بوجھ کر لاۓ جاتے ہیں۔اس کا انداز بیان بھی مذاحیہ ہوتا ہے۔افسانچے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا۔ لطیفہ سنانے کا مقصد محفل کو غیر سنجیدہ بنانا اور ٹینس سچویشن کو کم کرنا یا ختم کرنا ہوتا ہے ۔افسانچے کا یہ مقصد نہیں ہوتا۔اس سے محفل کی سنجیدگی اور بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس کا مقصد افسانوی پیراۓ میں زندگی کے کسی تجربے یا احساس میں دوسروں کو شریک کرنا یا کسی سچائی سے واقف کرانا یاکسی گہرے رمز کا ادراک کرانا ہوتا ہے۔ لطیفے میں کہانی یا کہانی پن یا کہانی جیسی کسی بات کا ہونا ضروری نہیں جبکہ افسانچے کے لیے اس کا ہونا لازمی ہے۔تبھی وہ افسانچہ ہوگا ورنہ وہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
افسانچے میں کچھ افسانوی اجزا لازمی طور پر ہوتے ہیں۔لطیفے میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نثری نظمیں اور افسانچے ایک جیسے لگتے ضرور ہیں کہ دونوں کی ترتیب زیادہ تر تخلیقات میں ایک جیسی نظر آتی ہے۔ دونوں میں عموماً اختصار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ دونوں میں تقریباً ایک طرح کا ارتکاز دیکھنے کو ملتا ہے اسی لیے دونوں کو ایک ثابت کرنے یا نثری نظم کو الگ سے کچھ نہ سمجھنے کے سلسلے میں کچھ ادبی تماشے بھی پیش ہوۓ۔انھیں تماشوں میں سے ایک تماشا یہ بھی ہے کہ ایک بار مشہور افسانہ نگار اقبال مجید نے اپنے چند افسانوں سے کچھ اقتباسات ماخوذ کرکے جملوں کو ایک مخصوص طریقے سے ترتیب دے کر نثری نظموں کے نام سے رسالہ الفاظ جس کے مدیر ابوالکلام قاسمی تھے،کو اشاعت کے لیے بھیجا۔مدیر نے انھیں نثری نظم کے نمونے سمجھ کر چھاپ بھی دیے۔جب افسانوی ٹکڑے نثری نظم کے نام سے شائع ہو گئے تو اقبال مجید نے اپنے ایک خط میں حقیقت کا انکشاف کیا تو اس کا اردو ادبی دنیا میں زبردست دھماکا ہوا اور کچھ نقاد مع مدیر محترم کے زد میں آگئے۔
اس تماشے کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ دونوں کی ہئیتیں ایسی بنائی جاتی ہیں کہ ایک نظر میں دونوں ایک جیسی دیکھنے لگتی ہیں اور ایسے میں دھوکا کھا جانا کوئی بعید نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں دو طرح کی تخلیقات ہیں اور دونوں کے درمیان فرق موجود ہے۔
ایک میں شعری آہنگ ہوتا ہے اور دوسری میں نثری اہنک ۔شعری آہنگ تیار ہوتا ہے لفظوں کی غیر قواعدی ترتیب سے۔ اس میں سطریں نثر کے جملوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ شعر کے مصرعوں کی مانند ہوتی ہیں اگرچہ ان میں وزن و قوافی کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔نثری نظم میں افعال وغیرہ کے استعمال سے بچا جاتا ہے یا ان کا بہت کم استعمال ہوتا ہے اور قواعدی ترتیب کی پابندی نہیں کی جاتی،کہیں پر تھیم کے تقاضے کے سبب ہو جاۓ تو بات الگ ہے۔
اس کے برعکس افسانچے میں جملے ہوتے ہیں۔قواعدی ترتیب بھی ہوتی ہے اگرچہ ضروری نہیں ہے۔ لفظ چست درست اور تخلیقیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جملے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور سبھی آپس میں مل کر ارتکاز قائم کرتے ہیں۔ افسانچے میں کہانی پن یا کہانی جیسے کسی عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ظاہر ہے نثری نظم میں اس کی ضرورت نہیں ہو سکتی،
نثری نظم میں شعری آہنگ کو قائم کرنے کے لیے شعری ذرائع( poetic tools) مثلاً تشبیہ ،استعارہ، کنایہ، علامت، صنائع بدائع وغیرہ سے کام لیا جاتا ہے جبکہ افسانچے میں بیانیہ کے وسائل کام میں لاۓ جاتے ہیں۔
دونوں میں ایک ایسا فرق بھی ہے جسے نہ آنکھیں بتا سکتی ہیں اور نہ ہی ذہن اسے گرفت میں لا سکتا ہے۔بس اسے ذوق بتا سکتا ہے مگر وہ بھی صرف محسوس کر سکتا ہے،بیان نہیں کر سکتا۔ ذوق چپکے سے کان میں کہہ دیتا ہے کہ یہ تخلیق افسانچہ ہے۔یہ نثری نظم ہے اور یہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے یا یہ کہ لطیفہ ہے یا پھر محض ایک نثری ٹکڑا۔
اب ایک مثال دیکھیے :
یوکلپٹس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا انڈیل دیں یا یوریا کے کارخانوں کے منہ کھول دیں فصل اگنے والی نہیں ہے جب تک کہ کھیتوں کے منڈیروں پر یکلپٹس کھڑےہیں۔ یہ پیڑ ابھی کٹیں گے بھی نہیں کہ انھیں ابھی اور توانا ہونا ہے اور یوں بھی ان کے کٹنے کے امکانات کم ہیں کہ پیڑوں کے کاٹنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ شاید آندھیاں کچھ کر سکیں مگر وہ تو گہری نیند سو رہی ہیں اور ان کے سرہانے لوریاں جاگ رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوکلپٹس
دریا انڈیل دیں
یا یوریا کے کارخانوں کے منہ کھول دیں
فصل اُگنے والی نہیں
جب تک کھیتوں کے منڈیروں پر
یوکلپٹس کھڑے ہیں
یہ پیڑ کٹیں گے بھی نہیں
کہ انھیں ابھی اور توانا ہونا ہے
اور یوں بھی ان کے کٹنے کے امکانات کم ہیں
کہ پیڑوں کے کاٹنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے
شاید آندھیاں کچھ کر سکیں
مگر وہ تو گہری نیند سو رہی ہیں
اور ان کے سرہانے لوریاں جاگ رہی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔‌‌۔۔
شروع کی پہلی تحریر افسانچے کی مثال ہے اور دوسری نثری نظم کی۔ دونوں میں ایک ہی تھیم کو پیش کیا گیا ہے۔ دونوں کی ہئیت ایک جیسی لگتی ضرور ہے مگر دونوں میں فرق ہے۔ پہلی تحریر کے جملے نثر کے جملے ہیں۔شروع سے آخر تک قواعدی ساخت موجود ہے۔جملے کے اجزا قواعدی ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر مو جود ہیں مگر دوسری تحریر میں جملے جملے نہ رہ کر مصرعوں جیسے ہو گئے ہیں اور انھیں مصرع بنانے یا مصرعے جیسی صورت دینے میں ان کی ترتیب کا بھی اہم رول ہے۔ مثلاً :
دریا انڈیل دیں
یا یوریا کے کارخانوں کے منہ کھول دیں
فصل اگنے والی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جملے نہیں بلکہ مصرعے معلوم ہو رہے ہیں جبکہ پہلی تحریر میں یہ تینوں مل کر ایک جملہ بناتے ہیں۔جیسے :
" دریا انڈیل دیں یا یوریا کے کارخانوں کے منہ کھول دیں فصل اگنے والی نہیں ہے جب تک کھیتوں کے منڈیروں پر یکلپٹس کھڑے ہیں "
اس جملے کو نثر کا آہنگ دینے میں دو امور کام کر رہے ہیں۔ایک فعل: " ہے اور ہیں"
اور دوسرے سطروں کی ترتیب۔
اور انھیں کا فقدان دوسری تحریر میں ہے اور وہی فقدان ان کو شعری آہنگ عطا کر دیتا ہے۔
اس افسانچے کی ایک اور صورت دیکھیے :
یکلپٹس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کاکا ! ہم نے تو خوب سینچائی کی۔یوریا بھی ڈالا،پھر بھی فصل اچھی نہیں ہوئی۔
"ہوگی بھی نہیں۔"
"کیوں کاکا؟"
"منڈیروں پر یوکلپٹس جو کھڑے ہیں!"
''فصل کا ان سے کیا تعلق کاکا؟"
" ہے اور بہت گہرا ہے۔ ان پیڑوں کی جڑیں بہت گہرائی تک جاتی ہیں اور دور دور تک نمی جوس لیتی ہیں۔ "
" پھر تو ان کے کٹنے یا گرنے کا انتظار کرنا ہوگا ؟ "
" ہاں مگر یہ کٹیں گے بھی نہیں کہ انھیں ابھی اور توانا ہونا ہے اور یوں بھی ان کے کٹنے کے امکانات کم ہیں کہ پیڑوں کے کاٹنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ "
" تو پھر ؟ "
"شاید آندھیاں کچھ کر سکیں مگر۔۔۔"
"مگر کیا کاکا؟ "
"مگر یہ کہ آندھیاں تو گہری نیند سو رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔"
اور کیا کاکا ؟ "
اور یہ کہ ان کے سرہانے لوریاں جاگ رہی ہیں۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس افسانچے کا بھی تھیم وہی ہے جو پہلے کا ہے۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس میں بیانیہ حصے کو ذرا بڑھا دیا گیا ہے ۔تھوڑی کردار نگاری کو بھی واضح کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ افسانچے میں بیانیہ کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اور اسمیں افسانوی اجزا،مثلاً پلاٹ،کردار،مکالمہ وغیرہ بھی اپنا کردار کسی نہ کسی صورت میں نبھاتے ہیں۔کہیں پر واضح طور پر اور کہیں پر مبہم طریقے سے ۔ یعنی ڈھکے چھپے انداز میں۔
اب ذرا ان تحریروں کو دیکھیے :
تختی یا تختہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا! آپ نے اپنے ٹھیلے پر یہ کیسی تختی لگا رکھی ہے؟"
"اپنے نام کی"
"مگر آپ کا نام تو رحیم خان ہے اور اس پر شنکر رام لکھا ہوا ہے۔"
"آج سے یہی میرا نام ہے۔"
"مگر کیوں ابا! آپ نے نام کیوں بدل لیا؟"
"نہیں بدلتا تو ٹھیلے کی سبزیاں بنا بکے ہی واپس آ جاتیں۔"
"مگر ایسا کرنے سے جانتے ہیں کیا ہوگا؟"
"کیا ہوگا۔؟"
خدا نخواستہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔"
شمشان پہنچ جاؤں گا۔ یہی نا؟ بیٹے! جس
صورت,حال میں ہم آج پہنچ گئے ہیں،یہ ضروری نہیں کہ قبرستان میں بھی جگہ مل ہی جاۓ۔"
بیٹے کی آنکھوں میں یکایک قبرستان کا پھاٹک کھلا اور پھر کھٹاک سے بند ہو گیا
غضنفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیلے پر یہ کس کے نام کی تختی ہے؟
" میرے نام کی ۔ "
"مگر اس پر تو شنکر لکھا ہوا ہے؟ "
"اب یہی میرا نام ہے‌ ."
" ایسا کیوں کیا؟ "
" نہیں کرتا تو مال نہیں بکتا۔ "
" مگر ایسا کرنے سے جانتے ہیں کیا ہوگا ابّا؟ خدا نخواستہ اگر آپ کو راستے میں کچھ ۔۔۔۔۔"
" جل جاؤں گا یہی نا؟ بیٹے ! جس صورتِ حال میں ہم آج پہنچ گئے ہیں،ضروری نہیں کہ مٹی بھی مل ہی جاۓ! "
بیٹے کی آنکھوں میں کھٹاک سے ایک پھاٹک کھلا اور پھر جھٹ سے بند ہوگیا۔
غضنفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔
یہ دونوں ادب پارے بھی افسانوی ادب یا فکشن کے نمونے ہیں۔تھیم دونوں کا ایک ہے۔اور ان میں پیش کی گئی کہانی بھی ایک ہے مگر دونوں کی پیشکش میں کچھ فرق ہے۔ پہلی دوسری کے مقابلے میں مختصر ہے اور اختصار کا سبب یہ ہے کہ بیان کے حصے کو کم کیا گیا ہے۔کچھ تفصیلات و جزئیات میں بھی کمی کی گئی ہے۔افعال اور کچھ دوسرے قواعدی اجزا بھی حذف کردیے گئے ہیں۔ ہیں تو یہ دنوں ہی افسانچے مگر ایک کو دوسرے سے الگ کرنے کے لیے اس کا کوئی اور نام دینا چاہیں تو اسے مائیکرو فکشن کا نام دے سکتے ہیں کہ اس میں باریک بینی کے اوصاف داخل ہو گئے ہیں۔ضروری نہیں کہ آپ اسے مائیکرو فکشن کا نام دیں یا اسے مأیکروفشن کا کوئی کامیاب نمونہ سمجھیں مگر مایکرو فکشن کے فن پر جتنی نظریاتی یا اصولی باتیں نظر سے گزری ہیں ان کی روشنی میں اگر کوئی مائیکرو فکشن کا نمونہ ہو سکتا ہے تو اس کے نقوش کچھ اسی طرح کے ہوں گے۔
اس لیے کہ اس نئی افسانوی صنف کا جو تصور میرے ذہن میں ابھرتا ہے اس کی شناخت کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے :
مائیکرو فکشن سے مراد ایسی مربوط اور مختصر ترین افسانوی تحریر جو لطیف ترین بھی ہو۔ یعنی افسانوی رنگ و روغن سے سجا تخلیقی نثر کی وہ مختصر ترین نگارش جو نہایت چست درست ہو اور جس کے ایک ایک جملے میں زندگی کے کسی گہرے تجربے کی کوئی جھلک یا شعور و ادراک کی کوئی رمق، یا جذبہ و احساس کی کوئی دمک، یا زبان و بیان کی کوئی چمک ہو , جس کی عبارت پھولوں کی لڑی کی مانند مربوط ہو اور ایک ایک پھول،اپنے رنگ ، اپنی خوشبو اور اپنے نور کا جوت جگا رہا ہو اور جو پڑھتے وقت قاری کے ذہن و دل میں کیف و انبساط بھر دے اور انجام پر پڑھنے والےکو سوچنے پر مجبور کر دے ، مائکرو فکشن ہے۔"
ایک مثال اور دیکھیے
"عزیزم ! کیا تمھیں بھی ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا کہ مجھے؟"
"کیا سر؟ "
"یہی کہ ہمارے چاروں طرف چھٹپٹاہٹ، پھڑپھڑاہٹ اور جھنجھلاہٹ ہے ۔ لگتا ہے کہیں کچھ چبھ کر ٹوٹ گیا ہے ۔معائینہ کرنے والے حیران ہیں ۔مشاہدہ کرنے والے پریشان ہیں ۔ حکیموں کی حکمتیں ہانپ رہی ہیں۔ سادھوؤں کی سادھنائیں اسمرتھ ہو چکی ہیں۔ جوگ کے ایک ایک آسن تھک ہار کر بیٹھ چکے ہیں۔ کمپیوٹر بھی دیدے پھاڑے کھڑا ہے۔اکسرے اور سٹی اسکین کی آنکھیں اپنی برقی بینائی پر شرمندہ ہیں۔ کسی کو کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ کہاں چبھا ہے؟ کدھر ٹوٹا ہے ؟ "
"جی سر ۔"
یہ افسانوی تحریر اپنے ایجاز و اختصار، لسانی کساو، معنوی چمک ، ایک ایک جملے کی دمک اور تخلیقی دھمک کی بدولت مائیکرو فکشن کے خانے میں رکھی جا سکتی ہے۔
اس تفصیلی گفتگو کی روشنی میں اگر ہم کچھ اور افسانچوں اور نثری نظموں اور مختصر افسانوں اور افسانچوں، مائکرو فکشن کے نمونوں کا تجزیہ کریں تو ممکن ہے ان اصناف کے بیچ کا امتیاز اور بھی واضح ہو کر سامنے آ سکے اور ہم مائیکرو فکشن کی کوئی اور بہتر اورٹھوس شکل و صورت گڑھنےمیں کامیاب ہو سکیں۔
غضنفر

Post a Comment

0 Comments