Ticker

6/recent/ticker-posts

صدارتی خطاب ✒️محمد سراج عظیم

صدارتی خطاب
✒️
محمد سراج عظیم
افسانہ نگار گروپ کی پیشکش ایونٹ نمبر 27 🇮🇳 حُبّ الوطنی/دیش بھکتی
صدارتی خطاب ✒️محمد سراج عظیم
دسواں دن

عزیزانِ افسانہ نگار
السلام علیکم
آج افسانہ گروپ پر حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ کا دسواں دن اور بڑا خوش گوار دن۔ وطن کی محبت میں فرد واحد کا ایک البیلا انداز، طبقۂ خاص کے ذمیدار شہری کا تمام تر زیادتیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے آپ کو احساس کمتری سے ابھارتے ہوئے وطن عزیز کے جشن آزادی کو اسلاف میراث کے طور پر جوش خروش سے منانا۔ ایک منچلے الٹرا ماڈرن نوجوان کا اداکار ہیرو کے بجائے ایک اصل ملک کے ہیرو کے آٹو گراف لینا، اور آخر میں پھر طبقۂ خاص کا درد بیان کرتا افسانچہ۔ اج کے اس اختتامی دن میں روایت کے خلاف چار افسانچے نظر نواز ہوئے۔ جو بالترتیب گروپ کے روح رواں انور مرزا، مختصر افسانچوں اور سو لفظ کی جکڑن میں اپنے مقام کو دور حاضر کے افسانچہ نگاروں کی صف اول میں اپنے آپ کو مستحکم کرنے والے ریحان کوثر ، افسانچہ کی دنیا کا خوبصورت اور معتبر نوجوان افسانچہ نگار خالد بشیر تلگامی،چوتھا ابھرتے ہوئے نئی نسل اور مشہور باپ کے بیٹے محمد نجیب پاشا کا افسانچہ ہے جو اس طرح ہیں۔۔۔
میرے دیش کی دھرتی۔۔ بظاہر مزاح سے پر مگر اس کے پیچھے موبائل زدہ تہزیب کا دلپذیر ذکر اور رشتوں کے کھوکھلے پن کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو کا حسین امتزاج ریگولر گھریلو کھانوں میں اٹالین پِزّا کا مزہ دے گیا اس پر سیر حاصل تبصرے ہوئے۔ انور مرزا کو خوبصورت افسانچہ پر عمیق دل سے مبارکباد۔
دوسرا اسلاف سے میراث وہ جو پشتینی وطن عزیز کے باشندے ہیں وہ دور موجود کی ریشہ دوانیوں سے قطعاً متزلزل نہیں ان کے نزدیک یہ دور حباب کی شکل میں ہے۔ جو آخر ایک دن فنا ہونا ہے۔ مگر وہ حساس لوگ جن کے اسلاف کی تاریخ پر زعفرانی ملمَّہ چڑھایا جارہا ہے وہ بھی غموں کے پہاڑ کے نیچے دبے ہیں ایسے میں کراہ تو نکلنا فطری ہے وہ اس پہاڑ کے نیچے سے کیسے ابریں۔ایک اثر انگیز مکالماتی افسانچہ ہے مجھے تھوڑا سا عنوان سے اختلاف ہے اگر اس کو اسلاف کی وراثت تو شاید عنوان میں مزید پختگی پیدا ہو جاتیریحان کوثر کو تمام فنی لوازمات سے مزئین افسانچہ پر ڈھیروں مبارکباد۔ آٹو گراف ایک نئے زاویے نئی سوچ نئے انداز کا غماز ہے۔ وہ نوجوان نسل جو اندھا دند گلیمر پذیر ہورہی ہے۔ وہ ملک کی آرمی کے جوان کو ہیرو مان کر آٹو گراف مانگنا حُبُّ الوطنی کو نئے انداز سے جامہ پہنا نے کے مترادف ہے۔ بشیر تلگامی چھوٹے اور مختصر معنویت لئے افسانچے لکھنے کے لئے مشہور ہیں مگر یہ افسانچہ تھوڑا طویل ہوگیا مگر اپنا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ بشیر تلگامی کو خوبصورت افسانچہ پر دلی مبارکباد۔ دیش کا پرچم اس ایونٹ اور آج کے دن کا آخری افسانچہ ہے۔ ملک کے لیے شہید ہونے والے آرمی یا پولس پرسنل پر ملک کا ترنگا ڈالنے کے لئے پروٹوکول کے تحت کچھ نارمز اور اصول ملک کے قانون میں ہیں اس کے تحت کس پر ترنگا ڈالنا ہے یہ قانونی مسئلہ ہے۔ اتنا آسان نہیں۔ اب اس کو طبقہ خاص کا اشو بنا لینا درست نہیں حالانکہ ہر ہر موڑ پر زیادتیوں کا انبار ہے۔ نجیب پاشا کو ایونٹ میں شرکت پر مبارکباد۔
پچھلے دس دن میں افسانہ گروپ کے حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ میں تقریباً اکتیس افسانچے پیش ہوئے۔ جن میں کچھ بہت خوبصورت اور بہترین تو کچھ اپنی الفاظ کی در و بست کی چست بیانی لئے تو کئی کلاسیکی انداز میں باد صبا کا سا جھونکا تو کچھ ندرت خیال لئے اپنی چمک چھوڑ گئے تو حقیقت بیانی کی شاہکار تحریر ثابت ہوئے کچھ اوسط تو کچھ نے مایوس حالانکہ عزیزان گروپ نے سب کو مبارکبادیاں پیش کرکے ظرف کا ثبوت دیا۔ مگر میرا کہنا ہے کہ وقتی مبارکبادیوں کو پس پشت ڈال دینا اور اپنی اصلیت پر نظر کرنا اور اپنی بہتری کا راستہ متعین کرنا ادب اور خود کی ادبی بقا کے لئے ضروری ہے۔ تخلیق نگار اپنا خود کا بہترین تنقید نگار ہوتا ہے مریض اپنے مرض کے بارے مت خود بہتر جانتا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنی تحریر کو مکمل کرنے کے بعد اس پر نظرثانی ایک سبجیکٹ کے طور پر کریں گے (یعنی اپنی تحریر سمجھ کر) تو کچھ عیب نظر نہیں آئے گا۔ اگر اپنی تحریر کو آبجیکٹ بناکر پڑھیں گے(دوسرے کی تحریر سمجھ کر) تو سارے معائب و محاسن نظروں کے سامنے آ جائیں گے۔
گروپ کے مقتدر تبصرہ نگار قیوم اثر صاحب کے تبصرے ہمیشہ کی طرح اپنے ہی رنگ میں اپنے ہی طریقے سے افسانچوں کا درک محسوس کرتے ہوئے فلسفیانہ تفہیم پیش کرتے ہوئے نظر آئے۔ انکا اپنا ادراک ہے اپنی فہم اپنا جداگانہ نظریہ ہے۔ مجھے اقبال نیازی سے جان کر حیرت ہوئی کہ وہ اچھے تنقید نگار تھے مگر ادیب برادری متعصبانہ رویوں کا شکار ہوگئے اور دن کی شہرتوں سے بے نیاز ﷲ کو راضی کرنے کے لئے سربسجود ہوگئے۔ مگر قیوم صاحب ایسی بے نیازی کہ اگلی نسلوں کے لیے کوئی سرمایہ نہ چھوڑا جائے۔ ایسا مت کیجئے کوئی تو دستاویز بنائے اگلی نسل کو سونپنے کے لئے اس کے لئے میں ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہوں۔ اس ایونٹ کی ایک بہترین دریافت محمد علی صدیقی صاحب ہیں جو میرے کہنے پر پر تبصرہ کرنے پر تیار ہوئے اور بہترین بےلاگ غیر جانبدار بصیرت افروز تبصرے پیش کئے۔ صدیقی صاحب اپنی اس صلاحیت کو پوشیدہ مت رکھئے کیونکہ آپ اس وقت اس مقام پر ہیں جہاں نسل نو آپکے قائدانہ قدم پر پیچھے آرہی ہے انھیں نقوش پر وہ اگے بڑھے گی۔ نثار انجم ہمیشہ کی طرح حالانکہ دیر سے آئے مگر اپنے سائنٹفک مباحث کے ساتھ افسانچوں میں پڑے پیچوں کو سلجھانے کا ان کا اپنا طریقہ ہے۔ مگر ایک گزارش کہ بھائی مجھ ایسے ان پڑھ شخص کے لئے انگریزی کے پیراگرافس اور کوٹس کو اردو میں ترجمہ ضرور کردیا کریں تاکہ بقیہ تحریر اس کے ساتھ مربوط ہوجائے۔ عارفہ خالد شیخ نے بہت جلدی اپنی اہمیت اردو ادب میں منوالی ہے ہر ایک ان کے تبصرے کا منتظر کیوں کہ وہ افسانچوں کی گانٹھوں کو سماجی سروکار سے منضبط کرکے کھولتی ہیں۔ ڈاکٹر یسمین اپنی تحریر میں جداگانہ رنگ رکھتی ہیں وہ ہر تحریر کو اسلامی طرز پر پرکھتی ہیں اور ان ہی لائن پر افسانچوں کی تفہیم دینی نہج پر پیش کرکے بہت سے منطقی پہلؤں کو نکار دیتی ہیں۔ گروپ میں سب سے زیادہ زبان و تہزیب کی چاشنی لئے ہوئے ہماری نعیمہ باجی کے تبصرے اسان اور انسانی زندگی افعال سے نزدیک تفہیم لئے ہوئے ہوتے ہیں۔
بہرحال یہ ایونٹ میرے اپنے لیے بہت کارامد اور سود مند ثابت ہوا میں بہت دنوں سے افسانچہ پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ اس پر کچھ ادبی حلقوں میں بات چیت کا آغاز ہو۔ بہت کچھ میں نے پڑھا اکٹھا کیا ہے۔ بہت جلد افسانچہ پر ایک تحقیقی مضمون پیش کروں گا۔ مگر میرا کہنا ہے کہ لوگ اس پر توجہ دیں اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ افہام و تفہیم سے ہی نئ جہتیں نکلتی ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ڈاکٹر ریاض توحیدی، ریحان کوثر، نعیمہ باجی، احمد کمال حشمی صاحبان کو اس سمت پیش رفت کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کی بات:- مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں زبان کے تعلق سے بات کی، صحت لفظی کے تعلق سے الفاظ اور جملوں کے غلط استعمال پر اردو میں علاقائی زبان کو اردو مان لینے کے غلط رویہ پر بات کی۔ پھر افسانچہ کی صنف پر بات کی لیکن میرے گروپ کے ممبران کی جانب سے سوائے تحسین آمیز کلمات کے کچھ نہیں نہ کسی نے بحث کی نہ مجھے غلط ٹھہرایا یہ ادب کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں۔ لوگوں کی عادت پڑ گئی ہے صرف جھوٹی واہ واہ کی اگر کسی نے تنقید کردی تو چراغ پا ہوگئے۔ اور تو اور اس سوشل میڈیا نے ایک نیا ٹرینڈ چلا دیا ہے وہ نوجوان جنھیں قلم پکڑنا نہیں آیا وہ پختہ کاروں کو کنڈم کر رہے ہیں یہ سب ادب نہیں ادب کی کشتی کو ڈبونے کے مترادف ہے ایسا مت ہونے دیجئے۔
دس دن کے اس ایونٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے گروپ کے فعال اور سنجیدہ ایڈمن انور مرزا صاحب کی خدمت میں فرشی سلام ﷲ ان کے جزبہ کو قائم و دائم رکھے سلامت رہیں۔ تمام افسانچہ نگار اور مبصرین کو خوبصورت تخلیقات اور چشم کشا تبصرے پیش کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ ان قارئین کو بھی مبارکباد جنھوں نے بہت صبر اور تحمل سے افسانچوں کو پڑھا۔
سب سے اہم اس گروپ کی کوششوں کو دستاویزی شکل دینے والے ہر دل عزیز ریحان کوثر کو مبارکباد اور شکریہ۔
آپ لوگوں کے ساتھ یہ دس دن کیسے یادگار بن گئے اس کے لئے میں ہر ایک فرداً فرداً مشکور ہوں۔ مجھ سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔ آپ کی دعاؤں کا ہمیشہ متمنی۔ اپنا خیال رکھیں۔ ﷲ حافظ

نواں دن

معزز دوستو!! السلام علیکم
افسانہ نگار گروپ پر حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی پر مبنی ایونٹ کا نواں دن اور معلومات کے طور پر بہت اہم دن تھا۔ آج مجھے بہت مزہ آیا کہ بڑے خوش گوار ماحول میں ایک مثبت بحث ہوئ۔ یہی انداز تمام لوگوں کا ہونا چاہیے اگر مثبت پیرائے میں کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے تو اس میں بلا وجہ کوئی پیچیدگی ہونا یا بیزاری اور الجھن میرے خیال میں راستے مسدود کر دیتی ہے۔ مجھے خود کو تنویر بھائی کی بات اچھی لگی کہ انھوں نے میری نشاندہی بڑے اچھے انداز میں ایک بار نہیں دو بار الگ الگ انداز سےکی۔ انھوں نے ایک جملہ لکھا جس کا جواب میں نے دیا۔۔۔ اگر ایسا کرتے تو بھی غلط تھا۔۔۔۔ اس پر تنویر بھائی کا جواب بہت خوبصورت اور مثبت انداز میں آیا۔ یہ میرے کل کے اس جملے کے عین مطابق ہے جو میں نے تحریر کیا تھا کہ۔۔۔ آخر کو تجھے خاک ہونا ہے اس سے پہلے ہی تو خاک ہو جا۔ (یہ قول مولانا علی میاں کا ہے) اس لئے میں کسی تنقید کو انا یا ہتک کا سوال نہیں بناتاکیوں کہ میں عقل کل نہیں بشر ہوں اس لیے مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ اپنی غلطی کو خندہ پیشانی سےقبول کرلینا آپ کے مرتبے کو گھٹاتا نہیں بلکہ آپ کا قد بلند اور وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ 
ہمارے اکابرین ادب سمجھتے ہیں کہ انگریزی ادب میں افسانچہ اردو ادب کی تقلید ہے جبکہ یہ غلط فہمی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم افسانچہ کے سلسلے میں اختلال و اختلاف کا شکار ہیں۔ یہاں یہ بھی بتا دوں انگریزی ادب کی سب سے قدیم صنف ناول اور ڈراما ہے جو اج بھی ان لوگوں کی اولین پسند ہے۔اردو کی اپنی صنف سوائے غزل کے(وہ بھی فارسی سے مستعار خطوط پر ) علاوہ کوئی نہیں اگر کچھ کہیں تو داستان کو کہہ سکتے ہیں لیکن وہ بھی فارسی کی مرہونِ منت ہے۔ خیر۔ جب یوروپ میں روایات سے انحراف کا دور شروع ہوا تو ادب میں بھی نئے رجحانات پنپنے لگے۔ ضخیم ناولوں کی جگہ کم طویل اور چھوٹے ناول آنے لگے اسی طرح ڈراموں میں اسکٹس مائمز کی ایجاد ہوئ۔مگر ایک صنف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکی اوپیرا(یہ یوروپ کی سب سے قدیم صنف ہے جس کے لئے ایک زمانے میں اوپن تھئیٹر ہوا کرتے تھے جس کی آج بھی ایتھنز میں کھلی مثال ایلفی تھئیٹر کے اثار قدیمہ ہیں) بہرحال۔ یہ مثالیں میں اس لئے دے رہا ہوں کہ آپ ذہن میں رکھیں۔ اردو ادب میں انگریزی سے ناول، ناولٹ، اسٹوری کا افسانہ، شارٹ اسٹوری اور منی اسٹوری(اصل جو اختلال پیدا ہوا وہ یہیں پیدا ہوا) شارٹ اسٹوری وہ افسانہ ہوتا ہے جو ان کے یہاں پانچ سے چھ صفحات میں ختم ہو۔ (اور ہمارے یہان اس کو افسانچہ مان لیا گیااور اس کو اسی اصطلاح میں استعمال شروع ہوگیا) جب کہ یہ انگریزی میں مختصر افسانہ کے طور پر مخصوص ہے۔ اس کے بعد منی اسٹوری جس کا تصور انگریزی ادب میں وہ افسانہ جو دو سے تین صفحات پر مشتمل ہو اس غریب کے ساتھ یہ ہوا یہ افسانچہ اور مختصر کہانی کے مخمسے میں پس گئی یہ بےچاری کبھی منی اسٹوری نظر آئی تو کبھی مختصر کہانی کبھی اپنی ہئیت کی بنا پر افسانچہ کی لائن میں کھڑی کر دی گئی۔ جس وقت انگریزی میں افسانچہ کا جنم ہوا تو وہان پہلے سے ہی اسٹوری شارٹ اسٹوری منی پر گھما سان تھا۔ لوگوں نے لکھنا شروع کیا لیکن معدود چند اس لئے اس پر کسی نظر نہیں پڑی نہ مقبولیت ملی شروع میں منی کے زمرے میں لکھی جارہی تھی لیکن جب کچھ غبار بیٹھا اور تعداد بڑھی اور اس طرف لوگوں نے تنقیدی نگاہ سے دیکھا تو ایک اصطلاح مائیکروفکشن معرض وجود ہوئی بھائی لوگ چونکہ نئی چیزوں کی تلاش اور انگریزی ادب سے مرعوب رہتے ہیں تو اب چونکہ افسانچہ کچھ کچھ اپنے بال و پر نکالنے لگا تھا اس لئے اس کو جوں کا توں رہنے دیا اور مائیکروفکشن(فکشن اور مائیکروفکشن کے سلسلے میں میں پہلے لکھ چکا ہوں )کے نام پر اب بڑی شدومد کے ساتھ اپنی اپنی قابلیت کا اظہار ہونے لگا۔ بھائی لوگ مائیکروفکشن کو نئی صنف قرار دینے پر مصر ہیں،جبکہ اصلاً یہ افسانچہ ہی ہے اور اصطلاح انگریزی ادب میں ستر اسی کی دہائی آئی ہے۔ بہرحال یہ مضمون حوالوں کے ساتھ طوالت کا متقاضی، دلائل اور مثالوں سے مربوط ہوکر پیشکش کا حق رکھتا ہے جو کسی اور وقت پر مقالے کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔ 
آج کے تینوں افسانچے گو کہ خالص حُبُّ الوطنی پر منحصر تھے۔ مگر تینوں کا معیار اور سیاق و سباق مختلف تھے۔ آج جو سب سے خوش آئند بات رہی وہ احباب کے مربوط تبصرے اور علمی بحث۔ 
پہلا افسانچہ ہندوستان کے بہت مقبول اور سینئر افسانچہ نگار رونق جمال صاحب کا افسانچہ آسیب تھا۔ حالانکہ رونق جمال صاحب نے اس عنوان کو مثبت سوچ سے لیا ہے لیکن یہ بات واقعی اردو ادب میں منفی کردار یا کہانی کی بنت کے حساب سے استعجابیہ معنی میں استعمال ہوتی ہے اور احمد کمال حشمی کا اعتراض حق بجانب ہے۔ پھر محمد علی صدیقی صاحب کا تبصرہ اور نعیمہ جعفری کا استفسار یا رونق جمال صاحب کے رتبہ سے امید حقائق پر مبنی ہیں۔ لیکن رونق جمال صاحب کے ظرف کی تعریف کرنا ہوگی کہ ان کے افسانچہ کے ایک لفظ پر طویل بحث ہوئی مگر انھوں نے ایک بار بھی وضاحت داخل کرنے کی کوشش نہیں کی اسکے لئے میں ان کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔ ایونٹ میں ایک مثبت جذبہ کو لیکر افسانچہ کی پیشکش پر رونق بھائی کو بہت بہت مبارکباد۔
دوسرا افسانچہ پچھلے دو سال میں اپنے آپکو بہترین فکشن نقاد کے طور پر مستحکم کرنے والی عارفہ خالد شیخ کا ضمیر شکن ہے۔ اصلیت تو یہ ہےکہ یہ ایک عمیق جزبہ اور کرب کا پرتو خیال ہے۔ میں ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کی وطن دوستی یا ایمانی جذبہ پر کسی شک کی گنجائش ہے۔ مسلمان کا کردار حالانکہ اب انحطاط پذیر لیکن کنھیں سابقہ روایات میں ملتا ہے۔ سب سے بڑی مثال اس کورونا کے دورانئے میں جو مسلمان کا مجموعی کردار سامنے آیا ہے پورے ملک میں مسلمان نے جس صبر و تحمل اور ڈسپلن کا مظاہرہ کیا ہے ملک کی کسی قوم نے کیا۔ پورے ملک میں امداد کا مشن مسلمانوں نے ہی چلایا۔ اس افسانچہ کی جتنی خوبصورت تفہیم ڈاکٹر یٰسمین نے پیش کی ہے بالکل انھیں لائن پر میں نے سوچا تھا۔ کسی صاحب نے سوال کیا کہ چرن کیا کرتا تو چرن وہ کرتا کہ کسی کا ذہن اس طرف جاتا ہی نہیں وہ کارڈ کھیلتا کہ میجر نے میرے بیٹے کے پیچھے اپنی بیٹی کو لگا کر شادی کرادی تاکہ وہ اپنی کالی کرتوتوں کو چھپاتا رہے اور اگر کچھ ہوتو اسکا سارا الزام میرے بیٹے پر دھردے کہ یہ مجھے بلیک میل کیا کرتا تھا میری بیٹی سے شادی کرکے۔ کیا چرن کی یہ اسٹوری قابل قبول نہیں ہوتی۔ اور دونوں باپ بیٹی ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتے کیا یہ ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے اس نے اپنی اولاد کی خاطر کیا۔ جس اولاد نے انٹر کاسٹ میرج کرکے باپ کو رسوا اور ذلیل کرادیا اور خودکشی پر مجبور کردیا اگر بیٹی یہ کرم نہیں کرتی تو وہ فرض شناس آفیسر ملک کی سلامتی کے ساتھ ایسا نہیں کرتا اور احساس جرم نے خود کو ختم کرنے کا زخم دے دیا۔ وہ ہر محاذ پر کامیاب ہے۔ رحم دل اولاد سے محبت کرنے والاباپ، فرض شناس، محب وطن اور آخر میں غیرت دار۔ بہترین افسانچہ ایک ایک بات واضح اختصار لفظی کے ساتھ ایک بڑا کینواس لئے بیانیہ۔ عارفہ خالد شیخ کو ڈھیروں مبارکبادیاں۔ 
اج کا تیسرا افسانچہ اپنے سیاق و سباق، بنت ، مکالموں اور واقعات کی صداقت لئے آج کا سب سے اپیلنگ اور پرفیکٹ افسانچہ ثبوت ہے۔ دور موجود میں تو مسلمان قوم کا المیہ عروج پر ہے مگر کوئی کہہ سکتا ہے پچھلے پچھتر سال سے مسلمان انتہائی ایثار و قربانی کی مثالیں پیش کرنے کے بعد بھی اپنی وفا داری اور یکجہتی کیلیے ثبوت آج تک پیش کررہا ہے۔ تاریخ ٹیپو سلطان سے لیکر سینکڑوں علماء اشفاق اللہ عبدالحمید، اے پی جے عبدالکلام اورسینکڑوں ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے ملک کے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ بہرحال سید نعمت ﷲ صاحب کا بہت خوبصورت افسانچہ دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد مگر میرے پاس اسکا ثبوت نہیں یہ المیہ ہے ذات قوم کا ابھی تک میں اپنے وجود کو احترام تک لانے کے لئے ثبوت تلاش کر رہا ہوں کب تک یہ ایک لامتناہی آرزو ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میرے دل کی بات:- میں اپنے آپ کو افسانچہ نگار نہیں مانتا۔ میں نے کہیں اس بات کا ذکر کیا تو میرے چھوٹے بھائی ریحان کوثر مجھ پر ناراض ہوگئے کہ آپ اچھا خاصہ لکھتے ہو آپ اپنے آپ ایسے مت کیا کرو۔ میں اس ریحان کے پرخلوص جذبات میں خاموش ہوگیا۔ لیکن آج پھر وہی دوہرا رہا ہوں میں اپنے آپ کو اچھے افسانچہ نگاروں میں شمار نہیں کرسکتا یہ کیا ضروری ہے کہ میں اپنے آپ کو اس میں منواؤں جو میں بہتر طریقے سے نہیں کرسکتا۔ اگر مجھے یہ جھوٹا مقام حاصل ہو بھی گیا تو لوگ مجھ سے بہت اونچی امیدیں باندھیں گے ان کی امیدوں پر نہیں اتر سکا تو گرا دیں گے مجھے وہ منظور نہیں۔ اس لئے حقیقت سے نظریں ملانا ضروری ہے۔ سوچئے۔ 
ایک بار پھر انور مرزا کےلیے ڈھیروں مبارکبادیاں اور سلامتی کی دعائیں۔ تینو افسانچہ نگاروں، مبصرین، اور قارئین کو مبارکباد سلامت رہیں
مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا
ﷲ حافظ

آٹھواں دن

عزیزوں السلام علیکم
آج ہم حُبُّ الوطنی ایونٹ کے آٹھویں دن میں داخل ہوگئے۔ میری صبح فجر میں واحدَہُ لاَ شَرِيكَ کے اعلان سے ہوئی اٹھا تو دیکھا بادل بہت گہرے تھے خوش گوار موسم کہیں دور بجلی کڑکی اور اس کی گڑگڑاہٹ بادل تیز آواز میں میرے گھر تک لے آئے۔ میرے چہرے پر ﷲ کے شکرانے میں ایک مسکراہٹ کھیل گئی کیوں کہ پچھلے پندرہ روز سے گرمی کا قہر دل دماغ پر عجیب کیفیت طاری کئے ہوئے تھی۔ وضو کرکے آیا تو ﷲ کی رحمت برسنے لگی اور اس بارش کی بوندوں سے جیسے ہی دہلی کی مٹی سیراب ہوئی ایک بہت مسحور کن خوشبوئے خاکی فضا کو معطر کر رہی تھی۔ خاک کا پتلا اپنی مٹی کی خاکی خوشبو جو مجھے احساس دلا رہی تھی یہ ہی تیری اصل ہے۔ تجھے اس مٹی میں ہی ملنا ہے تیرا جسد خاکی اسی بستر خاکی پے آرام فرما ہوگا۔ ہاں میری مٹی ﷲ کی حکمت بھی عجب مٹی کو اس قدر اہم کردیا کہ اشرف المخلوقات کو معرض وجود کردیا اگر آدم خاکی اس فلسفہ کو سمجھ لے تو سب کچھ بے معنیٰ ہوجائے۔ آخر کو تجھے خاک ہونا ہے اس سے پہلے ہی تو خاک ہوجا۔آج افسانہ گروپ پر اسی سوندھی مٹی کی خوشبو سے لبریز افسانچے پورے گروپ کو حُبُّ الوطنی سے معطر کر گئے
پہلا افسانچہ قابل قدر باجی نعیمہ جعفری پاشا کا تھا۔ مٹی کی خوشبو ۔ نعیمہ جعفری حالانکہ دور جدید کے تمام تر لوازمات سے مزئین زندگی کے شب و روز جی رہی ہیں مگر ان کی کیفیت ہے کہ ؀یادوں کے دریچوں سے ہٹتی نہیں نظر دل بیچین کی۔۔۔۔۔
کے مصداق تحریر کا کلاسیکی انداز۔ دنیا کی روز افزوں ترقی نے رشتے اور ان کے بندھن معاشی آسودگی کے لئے بے تحاشہ اور بے سمت دوڑ نے ناصرف کمزور کردئے بلکہ ان پر ظالمانہ جبر کی ضرب سے ان کو تہہ و تیغ بھی کردی اور وہ بوڑھی پیڑھی ان کو ہی حرض جاں بنائے ہوئے اس سے دستبردار ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جبھی تو اماں بضد ہیں کہ کناڈا سفید مٹی نہیں اپنائیں گی اپنی سوہنی کالی مٹی کے عوض۔ مگر سود نہ چاہتے ہوئے بھی سود سے پیار محبت ایمان کو متزلزل کر دیتا ہے طوعاً کرہاً قبول کرلیا مگر مالک کو بندے پر ظلم منظور نہیں ہارٹ اٹیک کا قاصد بھیج کر مٹی کو امر کردیا۔
نعیمہ جعفری کا افسانچہ زبان و بیان، الفاظ کی نشست و برخاست، بنت سب معیاری افسانچہ کا بیانیہ بنا کسی پیچیدگی کے Compact اور مربوط۔ یہ ایک منجھے ہوئے قلمکار کی نشانی ہے۔ اس خوبصورت افسانچے پر نعیمہ باجی کو دلی مبارکباد ایونٹ کے کچھ اچھے افسانچوں میں ایک۔
دوسرا افسانچہ پرویز انیس کے زور قلم کا غماز ہے۔ ایک نئے زاوئے کی نشاندہی کرتا ہوا دیش بھکت۔ اف زہر کہاں تک سرائیت کرگیا ہے۔ معصوم بھی اس کے اثر سے نیلا نظر اتا ہے۔ یہ کونسا ہندوستان تعمیر ہورہا ہے۔ زعفرانیت کے زہر سے نسل نو نیلی ہوجائے گی۔ ایک لمحۂ فکریہ۔ اس کا تدارک کیسےممکن ہے؟ پرویز ابھرتے ہوئے نوجوان افسانچہ نگار ہیں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں انیس کے یہاں عنوانات کا تنوع اور اختصار کا بہترین امتزاج ہے۔ مجھے مستقبل کا ایک اچھا قلمکار نظر آتا ہے۔ مگر اس افسانچہ کے سیاق و سباق سے مجھے بھی محمد علی صدیقی اور احمد کمال حشمی کے اعتراضات سے اتفاق ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ جو منظر نگاری فاضل قلمکار نے کی ہے اس سے احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کا کلاس ہے۔ اتنے معصوم بچوں کا فہم و ادراک اتنا نہیں ہوتا کہ وہ اتنی میچیور سوچ کے متحمل ہوں الاّ یہ کہ بڑے ان کو سمجھائیں۔تکنیکی طور پر ایجوکیشن پروٹوکول کے تحت اس طرح کا درس جو ذہن کو زہر آلود کردے عمل معترضہ ہے۔ تیسری احمد کمال کے بقول یہ وقتی آسودگی کا سبب تو ہوسکتا ہے۔ مگر فنی اعتبار سے واقعتاً کمزور ہوگا۔ پرویز انیس کو خوبصورت افسانچہ مگر کچھ تحفظات کے ساتھ مبارکباد۔
شام ہوتے ہوتے موسم سہانا ہوچکا ہے اور ڈاکٹر یٰسمین اختر کا افسانچہ بارش کی ہلکی ہلکی پھوار کے ساتھ اذہان پر خود اعتمادی اور عزت نفس کی لطیف ٹھنڈک چھوڑ گیا۔ اپنی قدر و قیمت کو منوانے کے لئے By Choice اس لائن کا انتخاب کرلیا جو نہ صرف اس کو اس کے ملک کو سربلند کرے گا بلکہ اس کے کڑھتے دل میں اپنی قوم کے عزت و ناموس کے جزبہ کو بھی تقویت بخشے گا۔ ایسا بیانیہ ہے جزبہ کا۔ ڈاکٹر یٰسمین بھی دور موجود کی ایک اہم قلمکار ہیں جو بڑی تندہی افسانوی ادب کو مالا مال کر رہی ہیں۔ یسمین کو اس خوبصورت افسانچہ پر ڈھیروں مبارکباد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کی بات:- میں مستقل زبان کی صحت پر بات کر رہا ہوں مگر یار لوگ اس کو ایک دیوانہ کی بڑ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ کچھ الفاظ تو زبان میں کھر پتوار کی طرح ایسی جڑ پکڑتے جارہے ہیں، کہ جنہیں دیکھ کر دل آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے یہ غم اور گہرا ہوجاتا ہے جب میں پچاس پچاس سال سے لکھنے والے ادیبوں کے ذریعے فاش غلطیاں دیکھتا ہوں۔ یہیں اس گروپ پر میں دیکھ رہا ہوں مگر میری غیرت انسانی یہ گوارا نہیں کرتی کہ میں چھوٹوں کے سامنے ہزیمت کروں۔ اسی طرح سے ہندی یا پنجابی کے الفاظ کا استعمال کثرت سے رواج بن گیا ہے۔ مجھے خدانخواستہ کسی زبان سے بیر ہے۔ بلکہ یہ آپکی زبان کے لئے سم قاتل ہے۔ آج کی نسل ویسے ہی اردو سے نابلد ہے اور اس طرح غلط روایات کے جڑ پکڑنے سے زبان کا رنگ روپ، ذائقہ سب بدل جائے گا اور نسل نو اردو کی پہچان بھی بھول جائے گی۔
اج کے تبصرون میں محمد علی، قیوم اثر، احمد کمال حشمی عارفہ خالد کے تبصرے معیاری رہے۔ انور مرزا اور پردے کے پیچھے ریحان کوثر کی انتھک کوششوں کو سلام۔ تینوں افسانچہ نگاروں، تمام مبصرین اور خاموش قارئین کو مبارکباد۔
میں ہمیشہ اپ کی دعاؤں کا خواستگار ہوں
ﷲ حافظ
ساتواں دن

قابل احترام ملکیت سنگھ مچھانا صاحب 
اور
عزیزان افسانہ گروپ 
السلام علیکم
آج عاشورہ کا دن ہے۔ اور آج ہی کے دن انسانیت اور سچائی کو مٹا دینے کے لئے یزید کے ظلم کی داستان ظہور پزیر ہوئی تھی لیکن انسانیت اور سچائی کے علمبردار حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن نے اپنی گردن کٹانا منظور کیا مگر انسانیت اور سچائی کی سربلندی کو پامال نہیں ہونے دیا۔ دنیا میں اس شہادت سے بڑی کوئی مثال اور ایسے کردار تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ آج ایونٹ کا ساتواں دن ہے۔ سات کی بھی مختلف مذاہب میں بڑی اہمیت ہے۔ آج میرے لئے افسانہ گروپ پر آئے تین افسانچے اور تبصرہ دیکھ کر بڑی خوشی اور اہمیت کا دن ہے آج مجھے افسانہ گروپ پر بہت مزہ اور قلبی آسودگی ہوئی مجھے آج لگا کہ افسانہ گروپ پر منصب صدارت کا بڑا اہم سلسلہ رہا۔ میں افسانہ گروپ کے تمام احباب سے معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج اس ایونٹ کا دوسرا افسانچہ ہے جو روح کو سیراب کر گیا بدلہ جس کے لئےملکیت سنگھ مچھانا صاحب کو عمیق دل سے ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ ملکیت صاحب نے پاکستانی مستورات کے ساتھ رحم کے معاملہ کو اجاگر کیا اس کی وجہ جب میں افسانچہ کی توضیح بیان کروں گا تب آپ لوگوں کو معلوم ہوگی 
آج کا پہلا افسانچہ پہلی بار میری نظروں سے بہت معنی خیز اور علمی مفہوم کے ساتھ گزرا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر نورالامین کو اس خوبصورت اور اپنے اندر خود ایک افسانچہ کو چھپائے عنوان اشراقیین پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر نورالامین ایک سنجیدہ اور قابل قلم کار ہیں۔ ان کے یہاں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے اورخاص طور سے ازدواجی زندگی میں رونما ہونے والی پیچیدگیوں اور مسائل کا ذکر ان کے افسانوں میں بہت سلیقے سے ملتا ہے۔ اشراقیین اس کی ایک واضح مثال ہے۔ مرد و زن کی شادی شدہ زندگی کی باریکیوں کا بیان حالانکہ کلاسیکل افسانوں اور ناولوں میں بدرجہ اتم ملتا ہےاس میں راجندر سنگھ بیدی اور پریم چند سر فہرست ہیں۔ مگر میں بہت معذدت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے لئےپہلے تو یہی بڑی بات ہے کہ اشراقیین کی سائیکی اور پھر اس کے تناظر میں افسانچہ کو پڑھنا اور انسانی نفسیات کی اصل تک پہنچنا بڑا مشکل کام ہے۔ یہ اشراقیین زمانۂ قدیم میں بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے جو افغانستان، یونان اٹلی وغیرہ میں دیوتاؤں کے مندروں میں اور خانقاہوں میں ہوا کرتے تھے وہ مریضوں جس میں ہرطرح کے مریض بدنی اور روحانی مرض میں مبتلا لوگوں کا دواؤں کے ساتھ تو علاج کرتے ہی تھے۔ مگر وہ مریض کو برداشت اور صبر کرنے کی تلقین کے ساتھ زیادہ علاج کرتے تھے۔ ڈاکٹر نورالامین نے بہت انٹیلیجینٹلی اس اشراقیین کو ایک عورت جو حیا اور شرم کا پیکر ہوتی ہے اور اپنی برہا کی پیڑا کو بیان نہیں کرسکتی اس کی اس نفسیاتی کشمکش کو بہت خوبصورتی سے بہت شستہ زبان اور حسین پیرائے میں سپردقلم کیا ہے۔ اس طرح کا سائکولوجیکل مشاہدہ صرف ایک نفسیاتی ماہر کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر نورالامین نے افسانچہ کی بنت اور پلاٹ کو برتنے میں بڑی چابکدستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ افسانچہ کے الفاظ کی نشست برخاست جملوں کا پینہ پن اور پنچ لائن اشراقیین سمجھنے کے بعد بھی وہ راز نہیں سمجھ پایا جو ایک برہن کی پیڑا ہوتی ہے۔ مگر بہت معذرت کے ساتھ بہترین افسانچہ ہونے کے باوجود یا کہوں شاہکار ہونے کے باوجود حُبُّ الوطنی سے اس کا دور تک میل نہیں جو عورت کے شوہر کی باڈر پر پوسٹنگ کو لیکر یا اس سپاہی کی پوسٹنگ کو لیکر اس کو حُبُّ الوطنی سے جوڑ رہے ہیں افسانچہ کا وہ سیاق سباق ہے ہی نہیں میں محمد علی صاحب قیوم اثر صاحب اور نثار انجم صاحب کے معروضات سے متفق ہوں۔ اس خوبصورت اور انٹیلیجینٹ افسانچہ کے لیے ڈاکٹر نورالامین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ 
؀چل اے گردش دوراں زرا ماضی کی طرف
اف مچھانا صاحب کا افسانچہ ساٹھ ستر کی دہائی کی کلاسیکل ترکیب وہی کلاسیکل منظر نگاری وہی زبان کے کلاسیکل زیرو بم سے سجا بدلہ ہے۔ حالانکہ افسانچہ کا پلاٹ تقسیم ہند کے زمانے کے سینکڑوں پلاٹس میں سے ایک ہے۔ مگر اس افسانچہ کی خاصیت کئی ہیں۔ سب سے پہلے تو مچھانا صاحب نے قاری کو اس دور میں پہنچا کر ہم جیسےلوگوں کو آبدیدہ تو کر ہی دیا نوجوان نسل جو دو ملکوں کے بٹوارے کے کرب کو نا جانتے ہوئے صرف دشمن کی نظر سے دیکھتی ہے سردار جی نےاس طرح کے نا جانے کتنے بدلوں کے زخموں کو تازہ کردیا کہ ایک شخص جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن کی عزت کو تاراج کرکے اسی کے سامنے قتل کیا گیا۔ وہ بدلے کی آگ میں جلتا ہوا نوجوان جو ہر وقت ننگی تلوار لئے گھوم رہا ہے۔ جب تین مغویہ دوشیزاؤں کی عصمت کو تاراج کرکے اپنے بدلہ کی آگ کو ٹھنڈا کرسکتا تھا۔ اب اس میں انسانیت کا سچا پکا سیدھا سادہ شرم و حیا کا آدمی اپنے پورے جاہ جلال کے ساتھ چہرے کی سرخی پر عود کر اتا ہے اور اپنے مقصد کی بازیابی میں مدد کرنے والے اپنے ہی حامی کو وہ تلوار جو بدلہ لینے کے لیے ننگی تھی اس کے سینے میں اتار دیتا ہے انسانیت کی فتح واہِ گرو دی فتح واہِ خالصہ دی فتح کا بگل بجا دیتا ہے۔ مچھانا صاحب نے اپنے کمنٹ میں کہیں کہا ہے کہ یہ پنجاب کا سچا واقعہ ہے۔ تاریخ میں انسانیت سے پر ایسے لاکھوں قصے بھرے پڑے ہیں۔ مگر آج لوگوں نے انسانیت کو قتل کر دیا ہے جن لوگوں نے بٹوارے کا پرآشوب دور دیکھا ہے وہ اس وقت کے قصے بیان کرتے ہوئے باقاعدہ کانپنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اس وقت انسان تھے جنکی وجہ سے انسانیت زندہ رہی مگر عصر حاضر میں جانوروں کی قدیم نسل ڈائناسور دھرتی پر وچرنے لگی ہے۔ جس سے انسانیت چھپتی پھرتی ہے۔ کہ لوگ یہ بھول گئے کہ دوسرے کی ماں بہن ہماری بہن بیٹی ماں ہے۔ اور وہاں وہ بہن کے بدلے کی آگ میں جلنے والا اپنی بہن کے کپڑے مغویہ لڑکیوں کو پہنا کر اپنی آگ کو ٹھنڈا کرلیتا ہے۔ مچھانا صاحب یہ میرا ذاتی کمینٹ آپ کے لئےہے دور حاضر میں اس کلاسیکل انداز میں لکھ کر آپ نے میرا دل جیت لیا۔ میں آپ کی عظمت کو سیلیوٹ کرتا ہوں۔ مگر محترم اس ایونٹ کا وحدت تاثر میں نمبر ایک افسانچہ ہونے کے بعد بھی یہ ایک ملک کے شہریوں کے باعزت اور باغیرت ہونے کا تو ثبوت ہے۔ مگر حُبُّ الوطنی سے اس کا دور کا علاقہ نہیں۔ اس بدلہ پر قیوم اثر صاحب، محمد علی صاحب، نثار انجم صاحب، ریحان کوثر صاحب، عارفہ خالد شیخ نے زبردست تبصروں کا بدلہ دیا ہے۔ 
اس شاہکار افسانچہ پر پورے گروپ کی جانب سے مبارکباد
تیسرا افسانچہ فرخندہ ضمیر کا پھل ہے۔ اس میں فرخندہ ضمیر نے حالیہ اولمپک میں جیولن تھرو میں ایک مسلم کوچ کے شاگرد کے گولڈ میڈل حاصل کرنے کو اس افسانچہ کو موضوع بنایا ہے۔ جس میں فاضل قلمکار نے مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کو نظر انداز کرنے کی بڑی دلپذیر کہانی پیش کی یہ مسلمانوں کا کردار ہے کہ مستقل زیادتیوں کے بعد بھی اپنی وطن پرستی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ عصر حاضر میں اسی مسلمان کے اوپر آج تمام انگلیاں اٹھتی ہیں فرخندہ نے اس غم کا ہی نوحہ یہاں پیش کیا ہے۔ پہلی بار فرخندہ ضمیر کا افسانچہ مجھے تمام فنی لوازمات سے مزئین چست اور کساؤدار لگا اور پسند آیا فرخندہ ضمیر کو اس کامیاب پیش کش پر مبارکباد۔ یہ افسانچہ حُبُّ الوطنی کی پرفیکٹ مثال ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میرے دل کی بات:- آج میرا دل بہت مسرور ہے کہ کل کی میری خواہش کا سب نے احترام کیا اور میری تحریک پر لبیک کیا۔ اس کے لئے میں تمام رفقاء کا تہے دل سے شکرگذار ہوں 
ایک بار پھر آج کے اس خوبصورت دن پر انور مرزا صاحب، تینوں افسانچہ نگاروں اج کےمعزز مبصرین اور قارئین کو مبارکباد۔ 
دعاؤں کا طالب

چھٹواں دن

عزیزان گروپ السلام علیکم
آج حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ کے چھٹے دن میں ہم داخل ہو گئے۔ آج سب سے پہلے نفیس پینٹر کا افسانچہ ایک دن کے لئے دوسرا عرفان ثمین کا افسانچہ سیاہ چراغ تیسرا اور آخری ڈاکٹر نسرین رمضان سید کا بنجر زمین ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ان تینوں افسانچوں پر کچھ کہوں مجھے بڑا افسوس اس بات کا ہے۔ سوائے قیوم اثر صاحب اور نعیمہ جعفری باجی کے کسی نے افسانچوں پر بھرپور تبصرہ نہیں کیا اور یہ ٹرینڈ میں پچھلے چھ روز سے دیکھ رہا ہوں۔ بعض لوگ تو بہت اچھے مبصر ہیں مثلاً عارفہ خالدصاحبہ، احمد کمال صاحب، محمد علی صدیقی صاحب، ریحان کوثر صاحب اور کئی لوگ میری نظر میں یہ پلیٹ فارم گھر کے آنگن کی طرح ہے جہاں ایک مسئلہ پر سب چھوٹے بڑے مل کر تبادلۂ خیال کرتے ہیں کسی کی ہتک یا شرمندگی سرزنش کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا ایسا ہی افسانہ گروپ کا آنگن ہے۔ میں نے شائید پہلے یا دوسرے خطاب میں افسانچہ سمجھ نہ آنے پر خاموشی کو ترجیح دینے کی بات کہی تھی لیکن میں سمجھتا ہوں ابھی تک ایسا کوئی کامپلیکس افسانچہ نہیں آیا۔ جو عقل میں نہ آیا ہو۔ میرا ماننا ہے کہ جب ایونٹ اس مقصد سے کیا جارہا ہے کہ اس سے سیکھنے سکھانے کا عمل وابستہ ہے تو ہر شخص کو اپنے تنقیدی شعور کو بیدار کرنا چاہئے۔ یہ میری رائے اور سوچ ہے اس سے اختلاف ہوسکتاہے۔
کل افسانچہ کے تعلق سے یہ میرا موقف تھا کہ اب وقت آگیا ہے جب افسانچہ پر بڑے پیمانے پر تبادلۂ خیال کیا جائے اور افسانچہ کے واضح خطوط تراشے جائیں تاکہ افسانچہ کو اردو ادب میں ایک مستحکم صنف کے طور پر مقام حاصل ہو۔
میں نے اپنے طور پر افسانچہ کی جو تعریف وضع کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔
"افسانچہ وہ تحریر ہے جو اختصار لفظی میں الفاظ کے انتخاب جو جہان معنی لئے ہوئے انسانی، سماجی دنیاوی اور قدرتی سروکار کو چونکا نے والے انداز میں پیش کرکے قاری سوچ وفکر کے در وا کرتے ہوئے ہیجان برپا کردے۔ "
افسانچہ میرے حساب سے سات لائنوں پر اپنے نام کے الگ الگ لفظ کی اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہونا چاہئے۔ جو اس طرح ہیں
  • ا۔ ابتدائیہ
  • ف۔ فسوں /فسانہ
  • س۔سیاق و سباق
  • ا۔ ابہام /اظہار/اشارہ
  • ن۔ نقطۂ عروج
  • چ۔ چونکنا/چونکائیہ
  • ہ۔ ہیجان
یہ میری ترکیب ہے افسانچہ کو پرکھنے لکھنے کی۔ یہ خام تعریف ہے۔ ابھی اس پر لوگوں کی رائے ہموار نہیں ہیں۔ مگر میں یہ ضرور سمجھتا ہوں۔ ان باتوں کو دھیان میں رکھ کر ایک معیاری افسانچہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے کی باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ اس وقت آج کے افسانچے
پہلا افسانچہ ایک دن کے لئے۔۔۔۔ عنوان بذاتِ خود ایک پنچ لائن کے مشابہ ہے اور جو تاثر عنوان کو دیکھ کر پڑتا ہے ایسا لگتا ہے کہ افسانچہ بہت دھماکے دار ہوگا مگر میں قیوم اثر صاحب کے تبصرہ سے اتفاق رکھتا ہوں کہ افسانچہ زبان، بنت اور ٹریٹمنٹ کے حساب سے بہت خوبصورت افسانچہ ہے مگر حُبُّ الوطنی سے بس چھوکر گیا ہے پھر دادا کا پوتے کو جو جواب ملا وہ پنچ لائن میں ابہام پیدا کر گیا۔ اگر یہ حُبُّ الوطنی سے منسلک نہ کیا جاتا تو بہت زبردست افسانچہ تھا۔ اس پرفیکٹ افسانچہ کے لیے نفیس صاحب کو مبارکباد۔
دوسرا افسانچہ عرفان صاحب کا سیاہ چراغ ہے۔ جو سیاسی لوگوں دو روخی کردار کا پرانا موضوع ہے۔ اس طرح کے موضوعات افسانوں اور افسانچوں مختلف طریقوں سے بہت زیادہ برتے گئے ہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ اس افسانچہ کو موضوعاتی بنانے کے لیے کھینچ تان کر لکھا گیا ہے۔ جیسے بیچ میں تقریر کی ڈبنگ کی گئی ہو ورنہ اسی طرح کی بنت پر مبنی میں کئی افسانچے پڑھ چکا ہوں یہی وجہ ہے جانے پہچانے پلاٹ کی وجہ سے وحدت تاثر قائم نہیں ہوسکا۔ عرفان صاحب کی زبان اور بنت اچھی ہے ایونٹ میں شمولیت پر مبارکباد
تیسرا افسانچہ ڈاکٹر نسرین رمضان سید کا بنجر زمین ہے۔ ایک بار پھر عنوان بہت جاندار شاندار تھا مگر ڈاکٹر نسرین اس افسانچہ کے ٹریٹمینٹ کو صحیح طریقہ سے ہینڈل نہیں کر سکیں ورنہ یہ افسانچہ شاہکار ہوسکتا تھا۔ بہت خوبصورت پلاٹ لیک سے ہٹ کر تھا۔ مگر افسانچہ سیدھا سادہ زبان میں آگے بڑھتا رہا۔ بڑی بات یہ ہے کہ کلائمکس بہت جاندار تھا پنچ لائن میں نسرین گڑ بڑا گئیں۔ جرنلسٹ کو فوجی کو چھوڑ کر منسٹر کی طرف نہیں جانا چاہیے تھا وہی تو اصل تھا منسٹر کو یہ بتانا چاہے تھا ہم بنجر زمین کو دیش کے حفاظت کے لئے استعمال کرتے ہوئے دیش بھکت پیدا کرتے ہیں نہ کہ دیش بھوگی۔ بہرحال اس خوبصورت تخیل سے لبریز افسانچہ پر ڈاکٹر صاحبہ کو مبارکباد۔ مگر علاقائی زبان اور انگریزی کے لفظوں کو اردو میں غلط لکھنے سے تحریر میں عجیب لیکیونہ سا ہے۔
کل عشرہ ہے۔ اس لئے میرے دل کی بات کل تک کے لئے موقوف۔
انور بھائی ادب کی تاریخ میں آپ کی سنجیدگی کا ذکر ہوتے ہوئے آپ کانام سنہرے لفظوں میں درج ہوگا مبارکباد
افسانچہ نگاروں، مبصرین اور گروپ کے خاموش قارئین کو بھی مبارکباد
میں اپ سب کی دعاؤں کا محتاج ہوں۔ ﷲ حافظ

پانچواں دن

السلام علیکم
عزیزان افسانہ نگار
آج حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ کا پانچواں دن ہے۔ آج بھی تین افسانچہ پیش ہوئے۔ آج کے تینوں افسانچہ ہئیت کی رو سے مجھے یکساں نظر آئے۔ یعنی ان افسانچوں میں کلائمکس کے نام پر کوئی بہت متاثر کن پنچ لائن یا چونکا دینے والی کوئی بات نہیں تھی۔ شائد میری یہ بات لوگوں کو کچھ اٹپٹی سی لگے۔ کچھ لوگ میرے اس بیان پر سوال بھی کھڑے کریں اور کچھ لوگوں کے ابرؤں پر شکن بھی پڑ جائے۔ مگر ٹھہریں۔ سوچیں میں نے ایسا کیوں کہا۔ افسانچہ کا چلن آج کل بہت رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض بڑی شدومد کے ساتھ افسانچہ لکھا جارہا ہے(اب یہ الگ بات ہے کہ کیا لکھا جارہا ہے، کیا پڑھا جارہا ہے، کیا سمجھا اور سمجھایا جارہا ہے) مگر کیا افسانچہ کے خطوط واضح ہیں۔ چھٹ بَھّیوں کو تو چھوڑ دیجئے وہ لوگ جو افسانچہ کے مستند مانے جاتے ہیں انھوں نے افسانچہ کے خطوط تراشے۔ ہمارے اردو ادب کے لکھنے والوں کی روایت رہی ہے کہ انگریزی ادب میں کوئی نئی ایجاد ہوئی اس کی ہئیت ، تعریف ، خطوط کے بارے میں جانے بغیر اس پر خامہ فرسائی شروع کردی۔ اس سلسلے کا ایک تجربہ مجھے ابھی چھ مہینے پہلے حیدرآباد میں ہوا میں ایک ادبی اجلاس میں اسٹیج پرتھا۔ ایک صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔ وہاں اسٹیج پر بہت بڑے استاد بزرگ شاعر بھی تھے جن کے شاگردوں کی تعداد اچھی خاصی بتائی گئی تھی۔ وہ صاحب مائک پر آئے اور ان بزرگ کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ محترم بزرگ کو میرا ایک سانٹ بہت پسند میں استاد محترم سے اجازت کے ساتھ پیش کر رہا ہوں چناچه انھوں نے چار مصرعوں کا سانٹ پیش کیا۔ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اتفاق سے وہ میرے برابر کی سیٹ پر تھے، میں نے ان سے سوال کیا آپ نے سانٹ کے بارے میں پڑھا ہے ان کا جواب تھا ہاں میں نے سانٹ کے بارے سنا ہے میں نے پڑھا نہیں ہے۔ لیکن استاد محترم نے مجھے بتایا کہ تم بہت اچھے سانٹ کہتے ہو۔ میں نے اپنا منہ پیٹ لیا۔ سانٹ پر والد صاحب کا مارکتا لآرا کام ہے۔ سانٹ چودہ مصروں کی موضوعاتی نظم ہوتی ہے ہئیت کے حساب سے اس کےالگ الگ قوافی ہوتے ہیں۔ بہرحال۔ یہ گفتگو طویل ہو جائے گی مضمون کی ضرورت پڑے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افسانچہ عام ہورہا ہے اس لئے اس کی تعریف اس کے اجزائے ترکیبی، اس کی اقسام پر کھل کر بات ہونا چاہیے۔ میں ان شاءاللہ کل مزید اس پر بات کروں گا اور چاہوں گا کہ کچھ افسانچہ کے سلسلے میں جو میرے نظریات ہیں یہاں پیش کروں۔ خیر
آج کا پہلا افسانچہ رخسانہ نازنین کا گھر کب آؤ گے۔۔۔۔۔۔ ہے۔ افسانچہ کی بنت بیانیہ انداز میں ہے۔ جہاں مرکزی کردار اختلال ذہن کا شکار ہے مگر حساس ہے۔ بظاہر لاپرواہ مگر خوددار ہے۔ افسانچہ کے سیاق وسباق سے یہ احساس ہوتا ہے کہ عمومی طور پر اس طرح کی باتیں خاندان میں ہوتی ہیں۔ آخرکار آرمی کی نوکری مل جاتی ہے۔ بارڈر پر جنگ کے دوران مارا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اگر گھر والے بھائی بھاوج ماں باپ کو اس سے لگاؤ نہ ہوتا تو بار بار یہ کیوں پوچھتے گھر کب آؤگے۔رخسانہ ایک اچھی اور سمجھدار قلمکار ہیں سادی زبان سادی بنت سیدھا سادہ بیانیہ لئے ہوئے بنا کسی ابہامی کلائمکس کے دل پذیر افسانچہ ہے۔ مگر اس افسانچہ کو منطقی طور پر افسانچہ کے سیاق و سباق اور بیانیہ کی رو سے جو قلم کار نے پیش کیا ہےحُبُّ الوطنی سے نہیں جوڑا جاسکتا نوکری حُبُّ الوطنی کے جذبہ سے نہیں کی گئی راوی نے ایسا کچھ ظاہر نہیں کیا بلکہ یہ اسنے اپنی زندگی کو چلانے کے لئے ضرورت کے تحت کی تھی۔ اب اس کی تقدیر میں تھا کہ وہ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ بہرحال۔ بہت دل پذیر افسانچہ رخسانہ کے قلم سے معرض وجود ہوا۔ اس افسانچہ کی ہئیت بالکل الگ اس وجہ سے میں نے افسانچہ پر بحث کا آغاز کیا۔ یعنی افسانچہ کی اقسام پر بھی بات ہونا چاہیے۔ رخسانہ کو اس دل پذیر افسانچہ پر ڈھیروں مبارکباد
آج کا دوسرا افسانچہ ڈاکٹر یٰسمین اختر کا بھارت ماتا کی۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ ڈاکٹر یٰسمین بھی دور حاضر میں افسانچوں اور ناول نگاری میں ابھرتا ہوا معتبر نام ہے۔ یٰسمین کے یہاں ماضی کا ناسٹیلجیا اور دینی فکر سے لبریز رجحان ملتا ہے۔ زیر نظر افسانچہ ماضی کے جھروکوں سے جھانکتا ہوا جنگ آزادی میں مرد و زن کی قربانیوں کی روداد بیان کرتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر یٰسمین کا غریب عورت کے لئے یہ مکالمہ کہ میں بہت غریب ہوں چندہ نہیں دے سکتی ہاں ایک بیٹا ہے اسکو دے سکتی ہوں۔ یہ مکالمہ غیر فطری سا لگتا ہے۔ چونکہ یٰسمین نے کلائمکس، کے بعد قوسین میں یہ باور کرایا ہے کہ یہ سچی کہانی پر مبنی افسانچہ ہے۔ اس لئے اس کی روشنی میں مان بھی لیا جائے تو بھی اس طرح کے جملے سے تحریر پرگرفت کمزور ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ افسانچہ تو ہے لیکن سپاٹ بیانیہ لئے ہوئے اور ماں کی حُبُّ الوطنی بالواسطہ یا بلاواسطہ دکھاتا ہوا بنا کسی پنچ لائن کے اختتام پذیر ہوتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ وحدت تاثر سے مرصع ہے یہ بھی افسانچہ کی ایک قسم ہے۔ ڈاکٹر یٰسمین اختر کو خوبصورت افسانچہ پر مبارکباد۔
تیسرا افسانچہ بدلتے رنگ ادب کی دنیا میں نووارد تبسم اشفاق کا افسانچہ ہے۔ تبسم نے عصر حاضر میں اخلاقی اقدار روایات اور سوچ کر بدلتے منظر نامہ کو تین پیڑھیوں کے توسط سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانچہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں خاندانی روایات کے برعکس نوجوان کو عصر کے منفی پہلو کے خلفشار سے نبرد آزما دکھا کر حُبُّ الوطنی کے بگڑتے چہرے کو طنزیہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ اس افسانچہ میں بھی وحدت تاثر تو مگر زبان کمزور ہے۔ تبسم کو اگلی صفوں میں پہنچنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ ایونٹ میں شمولیت پر اور اپنی بساط بھر خوبصورت افسانچہ تحریر کرنے پر تبسم کو مبارکباد اور دعائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کی بات:- مجھے نہیں لگتا کہ زبان کے تعلق سے میں پچھلے تین چار دنوں سے جو بات کر رہا ہوں وہ شاید کارآمد نہیں ہورہی ہیں۔ شائید کہ زبان تلخ ہے۔
ایک بار پھر انور مرزا کی کوششوں اور ادب کے لئے ان کے انہماک پر صمیم قلب سے مبارکباد
تینوں افسانچہ نگاروں کو مبارکباد اور سلامتی کی دعائیں۔ مبصرین اور قارئین ستائش کے حقدار ہیں بہت مبارک۔
ﷲ حافظ۔ دعاؤں میں یاد رکھیں
چوتھا دن

السلام علیکم
خواتین و حضرات آج حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ کا چوتھا دن ہے۔ وقت کتنی جلدی ساعتوں، پہروں، دنوں اور برسوں میں تبدیل ہوکر کب تاریخ بن جاتاہے۔ محسوس ہی نہیں ہوتا وقت ہمیشہ سے اپنی ہی رفتار سے کائنات خداوندی میں رواں بہت بوڑھا ہوگیا ہے مگر تھکا نہیں۔ چل رہا ہے مستقل مسافت پر ہے۔ اپنے اندر زمانہ کی ہزاروں کہانیاں لئے۔ کہانیاں جو انسانی سروکاروں سے متعلق روابط، منافرت، محبت، امن، بدامنی، جنگ و جدل، عاشق و معشوق ، غم و خوشی۔ کون سا احساس ہے جو وقت نے محفوظ نہ رکھا ہو۔
؀وقت کے رات اور دن غلام
وقت کا ہر شئے پے راج
یہی وقت بھیس بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا رہتاہے۔ آج ایونٹ میں پیش ہونے والے تینوں افسانچے اسی وقت کے بدلتے روپ کے پرتوخیال ہیں۔
پہلا افسانچہ اس فن افسانچہ کے ماہر ادب کی دنیا میں چار دہائیوں سے افسانچہ کی گدّی پر متمکن ہیں۔ رونق جمال صاحب کی ماہرانہ نوک قلم سے نکلا ہوا ہے۔ دوغلا پن۔ عصر حاضر میں دوغلا پن ہر اس جگہ دیکھنے کو مل جائے گا جہاں یا تو خودغرضی یا پھر احساس برتری یا پھر متعصبانہ رویہ کارفرما ہوگا آجکل دوغلا پن بدرجہ اتم وقت کی بلہاری ہے۔ آج یہ وقت کی کارفرمائی ہےکہ کبھی طبقہ خاص کے میاں جی کسی پنچایت کے سامنے سے گذرتے تھے تو آواز آتی تھی میاں جی فلاں بات کی گواہی دے دیں گے، تو سچ مان لیں گے یہ وقت کے پھیر ہے کہ میاں جی سر کے بل بھی کھڑے ہوجائیں تو کار ناکارہ ہی گردانا جائے گا بلکہ مارپیٹ، ماب لنچنگ، فقرہ بازی، الزام تراشی آخر میں سب سے بڑے گرو میڈیا کے آشیرواد سے ممکن بنا دیا جاۓ گا یعنی میڈیا ہے تو ممکن ہے۔ ایسے کتنے کارنامے ہیں۔ جن کو مسخ کرکے زعفران کا ملمّہ چڑھایا جارہا ہے یا چڑھا دیا گیا یا مستقل کوشش ہے۔ رونق جمال ایک زیرک افسانچہ نگار ہیں ان کا مشاہدہ وقت کی چال کے ساتھ چلتا ہےاور وہ اس سفر کے دوران راستے میں جو ملتا ہے اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے اپنے افسانچوں میں گھسیٹ لیتے ہیں۔ زیر نظر افسانچہ ان کی اسی بات کی گواہی دے رہا ہے۔ بہت خوبصورت انداز میں افسانچہ کی بنت اختصار کے ساتھ سیدھی سادی زبان میں نقطۂ عروج تک تو رونق بھائی کا قلم یکساں پیس(Pace)کے ساتھ دوڑتا رہا مگر کلائمکس پر پہنچتے پہنچتے ہانپ گیا اور ایک عام سی پنچ لائن چھوڑ گیا نتیجہ کچھ سکنڈ کے وقت سے گولڈ ہاتھ سے نکل گیا۔ رونق جمال میں کئی بار کہہ چکا ہوں افسانچہ کی دنیا کے Cynosure ہیں۔ ان سے لوگ وہ امید کرتے ہیں جو انکی شایان شان ہو پنچ لائن اگر واقعی قیوم اثر صاحب کے مطابق ہوتی تو یہ افسانچہ قاری کے دل دماغ پر چھا جاتا یہی ٹائم کلک ہے کہ وقت مقررہ پر جو دماغ میں آتا ہے اگر اس کو ٹھنڈا کر لیا جائے تو اپنی بہتر شکل میں آجاتا ہے۔ بہرحال۔ اس خوبصورت افسانچہ کے لئے بقول اقبال نیازی مآبدولت اکیس توپوں کی سلامی کا فرمان جاری کرتے ہیں۔ 
وقت تیزی سے گزر رہا ہے کیا پیچھے چھوٹ گیا کیا ساتھ آگیا خاندانی لوگوں کی رواداری پاسداری کی گٹھری کھلنے پر پتا چلا یہ سب تو بوسیدہ ہوکر بدبو دینے لگے کیوں کہ اس میں تو خود غرضیوں، چالبازیوں جھوٹ، مکروفریب اور نفرتوں کے کیڑے پڑ چکے ہیں۔ ہائے ہائے سب کچھ سڑ گیا۔ رونے سے کچھ نہیں ہوگا ہمت رکھو دھیرج سے کام لو۔ ایونٹ کا عارفہ خالد شیخ کا افسانچہ علم بردار اسی کا اعلان کر رہا ہے۔ طبقۂ خاص کا اس قدر استحصال ہوا ہے کہ وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے ایک وہ جو احساس بے مائیگی کا شکار ہے ایک وہ جو احساس امید میں ٹمٹماتے چراغوں کی حفاظت کرتے ہوئے پیغام نوید کے منتظر ہیں۔ عارفہ خالد شیخ وقت کے پردے سے اردو ادب کے اسٹیج پر نمودار ہونی والی افسانوی تنقید کا مضبوط کردار ہے۔ پچھلے دو سالوں میں اپنی مدبرانہ تحریروں سے اس کردار نے اپنی شخصیت کو دوام بخشا ہے۔ یہ افسانچہ اسی کے تدبرانہ تخیل کا عکس ہے۔ عارفہ کا ان چند دنوں میں میں نے تحریروں کے تعلق سے اسلوب کا جو رنگ دیکھا ہے وہ ان کی سوچ و فکر کا مظہر ہے۔ عارفہ نے اس افسانچہ اس طبقہ کی منفی اور مثبت سوچ کا نقشہ پیش کیا ہے اس کی بنت کو چابکدستی سے ہینڈل تو کیا مگر کہیں کہیں گرفت کمزور ہوگئی نتیجتاً اس کا اثر پنچ لائن پر پڑ گیا جہاں بہت مضبوط ردعمل ہونا چاہئے تھا۔ بقول اقبال نیازی کہ پنچ لائن پر لوگ اتنا فوکس کیوں کرتے ہیں تو میرے نزدیک پنچ لائن یا چونکائیہ اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ وہ قاری کو افسانچہ کے اختتام پر ہیجان میں مبتلا کردے۔ خیر۔ ایک خوبصورت سوچ نیک پیغام لئے افسانچہ پر عارفہ شیخ کو مبارکباد۔
میں نے کہا نا وقت ریٹائر نہیں ہوتا اس کا کام حرکت میں رہنا ہے میرے نزدیک ریٹائرمینٹ زندگی سے ہار ماننے کے مترادف ہے۔ انسان سماج کے بنائے سسٹم سے ریٹائر ہو سکتا ہے مگر جو اپنی سوچ اپنے افعال سے ریٹائر ہوگیا وہ جمود اور ناامیدیوں کے غار میں پہنچ کر موت کے حملے کا منتظر رہتا ہے۔ مگر کچھ لوگ سسٹم کو ریٹائر کرکے وقت کے سینے پر کوندوں دلتے ہیں۔ اب الگ بات کہ دلنا تعمیری ہوتا ہے یا تخریبی۔ یہی آج کا آخری افسانچہ محمدنجیب پاشا کے زور قلم کی ترجمانی کرتا ہوا اس ایونٹ میں جلوہ افروز ہوا ہے۔ مجھے پہلی بار نجیب پاشا کا افسانچہ ہر زاویہ سے پرفیکٹ محسوس ہوا۔ اختصار لفظی کے ساتھ کساؤدار بنت جاندار بیانیہ اور کلائمکس پر پنچ لائن زبردست بہت ہمت کا کام پورے سسٹم کو ادھیڑ دیا اور بین السطور میں نجیب نے وہ کہہ دیا جو بڑے قلمکار اس بےباکانہ انداز میں نہیں کہہ پائیں گے۔ میرے خیال میں یہ افسانچہ حاصل ایونٹ شمار ہونا چاہیے۔ نجیب پاشا اقبال نیازی کے کمانڈر مقرر ہوئے پچھلے دو ہفتوں سے اقبال نیازی کی اتباع کرتے ہوئے ہر ایک کو توپوں کی سلامی دے رہے ہیں اب اگر یہی حال رہا تو گروپ کا ہر آدمی توپوں کی سلامی مانگنے لگے گا اور توپیں چلنے لگیں گی مجھے ڈر لگتا ہے پھر بھی نجیب کو اکیس توپوں کی سلامی تو دوں گا ہی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میرے دل کی بات:- پچھلے دو دنوں سے میں زبان کی بابت بات کررہا ہوں۔ برابر میں اس طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ اردو رسم الخط میں اردو ہی لکھئے خدارا علاقائی زبان مت لکھئے میرے مزاج پر تو یہ گراں ہوتا ہی ہے لیکن آنے والے وقتوں میں یہ اردو زبان کی ہئیت بدل دیگا یہ یاد رکھئے جب زبان اپنی ہئیت بدلتی ہے تو اپنی جڑوں سے کھوکھلی ہوجاتی ہے اور انے ولی نسل کے ایک مردہ پیڑ کی طرح ہوجاتی ہے اور صرف جلانے کے کام آتی ہے اور اس کے ساتھ ماضی کا سارا سرمایہ خاک ہوجاتا ہے اور قومیں اپنے اسلاف کے نشان کو بھول کر ثقافتی اور تہزیبی طور بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ہوتے ہیں۔ جس طرح کمال اتاترک نے ترکی میں رومن میں ترکی زبان کو لکھنے فرمان جاری کیا اور ترکی زبان کو تحریری طور پر قتل کردیا اور نئی نسلوں کو اپنے سنہرے ماضی سے نابلد کردیا۔ اردو کو علاقائی زبانوں میں مت بانٹئے۔ اردو کو اردو رہنے دیجئے اردو کے کلاسیکی ادب کو پڑھئے سمجھ کر پڑھئے آپ کو احساس ہو جائے گا کہ ہم کیا غلط اردو جانتے ہیں۔۔۔۔۔ 
ایک بار انور مرزا کو ڈھیروں مبارکباد۔ تینوں افسانچہ نگار، مبصرین خصوصاََ قیوم اثر صاحب، اور تمام قارئین کو مبارکباد۔
دعاؤں کی درخواست کے ساتھ کل پھر ملاقات ہوگی ﷲ حافظ

تیسرا دن

السلام علیکم
افسانہ نگار گروپ کے محترم خواتین و حضرات آج حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی کے ایونٹ کا تیسرا دن ہے۔ حُبُّ الوطنی کے تعلق سے مصنفین کے مختلف زاویے اور سوچ کے دائروں اور مشاہدات پر مبنی افسانچہ پڑھنے کو ملے مگر ایک فکر ایک خیال ایک حسرت قدر مشترک تھی وہ یہ کہ طبقۂ خاص بالخصوص اور تمام اقلیتوں کے لئے عمومی طور پر دور موجود میں نفرتوں زہرافشانیوں کا سیلاب سراسیمگی کا باعث ہے اوراپنے تشخص کا دفاع اور وجود کی بقا کے لئے سراپا سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ قلم کار کا مشاہدہ اور اس کے رشحاتِ قلم صفحۂ قرطاس پر سماج کے مسائل اور رجحان کو تحریری شکل کےافسانوی پیرائے میں پیش کرنا ہے۔وہ میری دانست میں سماج کو آئنہ دکھاتے ہوئے در آئی خرابیوں کو نشان زد کرنے والا حساس نمائندہ ہوتا ہےاس لئے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی افسانوی تحریر کے متن سیاق وسباق خصوصاََ بین سطور بنظرِغائیر سمجھنا چاہیے اگر خاطر خواہ نتائج نظریات اور لاجیکل افہام سامنے آتا ہے، اور خود کا فہم و ادراک مطمئن ہوتا ہے تب تنقید، خوشہ چینی ہو تو مناسب ہےاور اگر اس کے برعکس ہو تو بجائے تنازعات میں پڑنے کے خاموشی بھلی ہوتی ہے۔ اگلے وقتوں کے بزرگ اپنی جہالت کے بعد بھی بڑی فہم آمیز باتیں کرتے تھے کہتے تھے ایک چپ سو کو ہراتی ہے۔ شائد یہ قول ادب میں بےجاتنقیدوں پر اور پرآشوب دورِحاضر میں رام بان ہے۔
آج کا پہلا افسانچہ رفیع الدین مجاہد کے رشحات قلم ہیں۔ جس میں فاضل قلم کار نے نئے سوچ کے دائرے انسانیت کے بحر احساس پر بکھیرے ہیں۔ کیسی مجبوری ہے کہ صاحب اختیار ہونے کے باوجود وہ نہیں کرسکتا جو صاحب اقتدار کے حکم کے منافی ہو مگر بچپن کی محبتوں کی ڈور سے بندھا اپنے اختیارات کے رخ کو اپنی منصبی ذمیداریوں کے منافی ناجائز کرنے کو تیار، نہیں تو خود کو دوستی پر قربان کرنے کو تیار۔ وائے ری قسمت کیا دن دکھایا، اپنی مٹی، اپنے ملک کا خون اپنے ہی پسینے سے ملک کی مٹی کو گوندھ کرماضی کی شکل کوسنوارا اور خود نہتھہ، ثبوتوں کی تلاش میں ناکام صعوبتیں جھیلنے کو تیار، حُبّ وطن میں ملک سے دیار غیر میں نقل مکانی منظور نہیں۔ رفیع الدین ایک زمانہ سے افسانچہ لکھ رہے ہیں ان کے یہاں موضوعات کی کمی نہیں، وہ اپنے مشاہدہ کو ہمیشہ سوچ کے ایک منفرد نظریہ سے پیش کرتے ہیں۔ صاف ستھری زبان اور متوازن بیانیہ ان کی تحریر کا اسلوب ہے۔ مگر اس افسانچہ میں کہیں جذبات کی ترجمانی کرنےمیں تحریر کی پکڑ پر ڈھیل آگئی۔ فرخندہ ضمیر، رخسانہ نازنیں اور ریحان کوثر کے تبصروں سے متفق ہوں۔ رفیع الدین مجاہد کو ایک نئے زاویے دوستی اور حُبُّ الوطنی کے جذبوں سے لبریز افسانچہ پر عمیق دل سے مبارکباد۔
اس ایونٹ میں آج کا دوسرا افسانچہ دیش بھکت ہے یہ عصر حاضر مستند نوجوان افسانچہ نگار خالد بشیر تلگامی کی نوک قلم کی کاوش ہے۔ یقیناً ملک میں مستقل زیادتیوں سے دلبرداشتہ کچھ اذہان مایوسی کا شکار ہوکر منفی سوچ کے اسیر ہوجاتے ہیں یہ انسانی فطرت ہے اس طرح کی سوچوں سے انسانی طبیعت کا مفر ممکن نہیں ہوتا مگر مایوسیوں میں سے ہی مثبت حوصلوں کا نزول ہوتا ہے یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ قوموں کی ترقی اور استحصال کا سب سے زیادہ اثر نسل نو پر پڑتا ہے جو اس کی مستقبل کی زندگی کی منزل کا تعین کرتا ہے۔ مگر جو ہوشمند رہنما ہوتے ہیں وہ کانٹوں بھرے راستوں سے بھی بچا کر لے جاتے ہیں اوراپنی مستقبل کی نسل کو کامران و کامیاب بنا دیتے ہیں۔ بشیر نے طبقۂ خاص کے ساتھ زیادتیوں کے حوصلہ شکن اثرات کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ مگر بقول رخسانہ نازنین اور قیوم اثر انھوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر نادانستہ طور پر منفی پیغام کی ترسیل کردی۔ اگر وہ کلائمکس میں بچہ کی مایوسانہ اور منفی سوچ کو ہمت بندھاتے ہوئے مثبت خیالات سے آراستہ کرتے تو شاید افسانچہ بہترین ہوجاتا۔ افسانچہ کی بنت خوبصورت اور الفاظ کی دروبست مضبوط ہے مگر پنچ لائن کے منفی رویے نے افسانچہ پر ان کی گرفت کمزور کردی۔ بہرحال خوبصورت خیال کے بیانیہ سے مزئین افسانچہ پر خالد بشیر کو مبارکباد۔ 
اج کا آخری افسانچہ اپنی ایک سلجھی اور متین سوچ رکھنے والے افسانہ نگار ابوذر صاحب کا اپنے وجود اور شناخت کا متلاشی میں کون ہوں۔۔۔۔ ہے۔ ابوذر صاحب کی زبان شستہ اور دلچسپ پیرائے کی مظہر ہوتی ہے میں ہمیشہ ابوذر صاحب کی تحریر اس کی چاشنی کی وجہ سے پڑھتا ہوں۔ ابوذر کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ ابوذر نے زندگی کے زیرو بم کو اپنے ندرت خیال سے پیش کیا ہے جو اپنی طرف توجہ مرتکز کراتا ہے۔ زیر نظر افسانچہ حقیقت میں ظہور پذیر واقعات کی روداد ہے۔ مگر افسانچہ کے لوازمات سے عاری ہے۔ یہ تحریر واقعہ یہ ہے کہ ٹی وی کے کسی خوبصورت پروگرام کے اثرانگیز افتتاحی کلمات تو ہوسکتے ہیں مگر بہت معذرت کے ساتھ افسانچہ کہتے ہوئے مجھے قباحت ہے۔ وجہ اس کا بیانیہ جو زبان کے لحاظ سے خوبصورت ہے مگر قاری اختتام تک پہنچتے پہنچتے وہ تمام واقعات کا ریویو کرلیتا ہے خبروں میں سرخیوں میں رہے تھے۔ محمد علی صدیقی صاحب نے اپنے تبصرے میں جو سوال کھڑے کیے ہیں درست ہیں مگر میں ان کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ابھی چونکہ افسانچہ کے رموز طئے نہیں ہیں یا افسانچہ کی ہئیت پر حتمی تعریف نہیں تو کوئی بھی اس کو افسانچہ کہہ سکتا ہے۔ پھر افسانچہ پر اتنی لٹھم لٹھا کس زمرے میں میں نے اپنی دانست میں افسانچہ کی تعریف اور اجزائے ترکیبی وضع کرنے کی کوشش کی ہے اب اہل نقدونظر پر ہے کہ اس کو کس طرح لیتے ہیں۔ ابوذر صاحب کوایونٹ میں خوبصورت تحریر کے ساتھ شمولیت پر مبارکباد۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میرے دل کی بات:- میں نے کل اردو زبان کے تعلق سے بات کی تھی۔ اردو زبان شائستہ زبان ہے۔ اس لب و لہجہ رائج بولی سے بالکل الگ ہے۔ اصل اردو کو جاننے کے لئے زیادہ دور نہیں صرف ساٹھ کی دہائی کا ادب پڑھئے اس میں صحیح اردو اور الفاظ کی دروبست صحیح الفاظ کا استعمال اور شائستہ اردو سے ملاقات ہوگی۔ 
ایک بار پھر انور مرزا مبارکباد اور تعریف کے مستحق ہیں کہ ایونٹس کے ذریعے سیکھنے سیکھانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ تمام افسانچہ نگاروں، مبصرین اور بہترین قاریوں کو مبارکباد اور سلام۔ 
ﷲ حافظ۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ

دوسرا دن

عزیزان گروپ
السلام علیکم اور وطن عزیز کی ڈائمنڈ یعنی پچھترویں میں سالگرہ مطلب جشن آزادی مبارک ہو۔ آج کی صبح بہت سنہری اور چمکدار تھی۔اس روپہلی صبح نے میرے واہٹس ایپ پر ایک آرینج ملفوف چھوڑ دیا۔ جذبات کے طلاطم میں دل کی دھڑکن عصر حاضر کے آرینج نما ذہنی انتشار اندیکھے خدشات سر ابھارنے لگے اور دھڑکنیں بے ربط ہوگئیں۔ مگر ملفوف کو کھولنے پر دل سرشار ہوگیا۔ اس میں وہ پیغام تھا جس کا بیان آنے والی اگلی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں۔ یقیناً اپ کے لئے خوش کن ہوگا۔
آج سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کی گردان سے واہٹس ایپ کی اوپننگ ہوئی افسانہ گروپ پر غیر متوقع طور پر انور مرزا کی دیکھ ریکھ میں چلنے والے کرکٹ میچ میں دلوں کے مابین عجب مقابلہ تھا اور لگاتار چوکوں چھکوں کی بوچھار تھی۔ ملک کے بٹوارے کے میچ کے ساتھ ساتھ دلوں کے بھی بٹوارے ہوچکے اور کبھی ہوشیاریوں کی گگلی پھینکی جاتی تو کبھی بیک فٹ پر جاکر وکٹ سیو کیا جاتا تو کبھی باؤنسر پر آگے بڑھ کر ہٹ کیا جاتا اور گیند میدان سے باہر۔ انور مرزا کا افسانچہ مس میچ تاریخ کی وہ تلخ حقیقت ہے جس کے پنے خون آلود اور یادیں لرزہ خیز۔ میچ کے پچھتر کے اسکور پر دونوں ملکوں کے نمائندوں میں ایک ہی خاندان کے دوڑتے خون کی رنگت نے دونوں میں اپنے خون کی ہمک جگا دی اور چناب کا ہلورے مارتا پانی پنجاب کے راستے پہنچنے کی کوشش میں تھا کہ طوفان کھڑا ہوگیا کہ دھارا الٹی بہہ جائے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ انور مرزا نے بہت چابکدستی سے پورے موضوع کو سنبھالا اور بہرحال اپنے ملک سے محبت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے ملک کی عظمت کو سر بلند کر دیا۔
انور مرزا ان دو سالوں میں ادب کی کرکٹ کا ایک البیلا ہرفن مولا ادیب نکلا۔ اس افسانچہ کے بارے میں بس لکھ رہا ہوں۔ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں۔ انور مرزا کوزہ میں دریا سمویا ہے۔ انور مرزا اسلوب نگارش اپنی الگ ایک شناخت رکھتا ہے۔ انور مرزا اختصار لفظی کے ساتھ اپنے الفاظ کو وہ زبان دے دیتے ہیں کہ الفاظ خود اپنا ایک استعارہ بن جاتے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت انور مرزا افسانچہ نگاری کا ایک اہم ستون اب تک جتنے ایونٹ ہوئے ہیں ان میں یہ افسانچہ واقعی ڈائمنڈ ہے۔ اس قدر خوبصورت استعاراتی بہترین افسانچہ کے لئے انور مرزا ٹرک لوڈ پھولوں کی بوچھار کے ساتھ ڈھیروں مبارکباد۔
حب الوطنی/دیش بھکتی ایونٹ پر ڈاکٹر انیس رشید کا افسانچہ دشمن ہے۔ سیدھا سادہ بیانیہ لئے ہوئے ہوئے انیس کا افسانچہ بین السطور میں دور حاضر میں طبقہ خاص کی حالت زار کو بیان کرتا ہے۔ وہ قوم جس کے اسلاف کی قربانیوں سے تاریخ سنہری ہے دور موجود میں منافرت اور زیادتیوں کے بیچ اپنے وجود کو تلاش کرتی ہوئی خاموش ہے۔ ڈاکٹر انیس رشید کے افسانچوں میں طبقاتی کشمکش جابجا ملتی ہے۔ یہاں بھی منافرت سے لبریز زعفران یوں کو جب پتہ چلتا ہے کہ طبقہ خاص کے شخص نے وطن عزیز کے لئے جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر صدر مملکت سے ایوارڈ حاصل کیا ہے تو زعفرانی رومالوں سے پسینہ پوچھنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ ڈاکٹر انیس کا حب الوطنی کے اوپر متاثر کرنے والا افسانچہ دلی مبارکباد
اس ایونٹ کا اخری افسانچہ ثبوت ڈاکٹر شیخ طاہرہ زور قلم سے نکلا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا افسانچہ بہت خوبصورت عنوان تو رکھتا ہے مگر یہ محض دو قریبی دوستوں کے بیچ شکوہ شکایت کے علاوہ کچھ نہیں جس کی بنت اچھی ہے مگر کلائمکس متاثر کن نہیں ہے۔ بیانیہ خوبصورت ہونے کے باوجود افسانچہ میں وحدت تاثر نہیں۔ ایونٹ میں شمولیت کے لئے ڈاکٹر صاحب کو دلی مبارکباد۔
میرے دل کی بات:-چونکہ میں دو روز سے اپنے ماموں جان کی خرابئ طبیعت کی وجہ سے سفر میں ہوں اس لئے اس وقت دل کی بات مختصر وہ یہ کہ اردو زبان کا لہجہ علاقائی زبانوں کی آمیزش نہیں جداگانہ ہے۔ لوگ اردو رسم الخط میں علاقائی زبان تحریر کرتے ہیں وہ اردو نہیں ہے۔ جس طرح کرناٹک میں نواطی زبان کا رسم الخط اردو ہے لیکن زبان نوائطی ہے جو اردو داں طبقہ کے لئے بالکل مختلف ہے۔
تمام مبصرین، قارئین، افسانچہ نگاروں اور انور مرزا کو مبارکباد۔
ﷲ حافظ دعاؤں کی درخواست
سراج عظیم

پہلا دن

عزیزان افسانہ نگار السلام علیکم
سب سے پہلے انور مرزا صاحب کا صمیم قلب سے شکریہ کہ مجھ ایسے کم علم و فہم کو کرسی صدارت پر فائز کردیا جس کے قابل میں خود کو نہیں گردانتا۔ بہرحال۔ جیسا میں نے پہلے کہا کسی منصب کی ذمے داری سنبھالنا رستۂ خاردار سے گزرنا۔ خیر اب انور مرزا صاحب نے یہ فریضہ انجام دینے کے لئے کہا ہے تو کوشش کروں گا کہ انتہائی دیانتداری کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کروں گا۔ تمام احباب سے دعا کی درخواست کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہوں
ایونٹ نمبر 27 حُبُّ الوطنی/دیش بھکتی کا آغاز محمد علی صدیقی صاحب کے خوب صورت افسانچہ سے ہوا۔ بیڑیاں استعارہ ہے محبت میں گرفتار ہونے کا جس کا استعمال صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے۔ صدیقی صاحب افسانچہ نگاری کے ماہر شہسوار ہیں۔ بیڑیاں افسانچہ کے تمام فنی لوازمات سے مزئین خاص طور سے کلائمکس ایک دم چونکا دینے والا۔ مجھے صدیقی صاحب کے افسانچے بہت پسند ہیں۔ ان کی خاصیت ہے کہ ہر افسانچہ ندرت خیال لئے ہوئے جہاں عموماً قاری کی نگاہ نہیں پہنچتی ہے وہ وہ تخیل پیش کرتے ہیں۔ اختصار لفظی کے ساتھ الفاظ کی موزونیت یہ ایک اور خوبی ہے۔ زیر نظر افسانچہ ایک ہارڈ کور مجرم کے دل میں اپنے ملک کی قدر و منزلت کو اجاگر کرتا ہوا بہترین افسانچہ ہے۔ مگران سب توصیفات سے قطع نظر ایک ٹیکنیکل گلچ افسانچہ میں ہے۔ جو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو معلومات یا علم رکھتے ہیں۔ افسانچہ میں کمشنر کو یہ کہتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہم تو جشن آزادی کی تقریب کے بعد آرام کرنے کے لئے چھت پر کمرے میں موجود تھے۔ بہت معذرت کے ساتھ صدیقی صاحب پولس کمشنر بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے اور اس کی حیثیت بہت بڑی ہوتی ہے سب سے پہلی بات کہ کمشنرعام پولس والوں کے ساتھ کبھی آرام نہیں کرسکتا نہ ان کے ساتھ عام پولس والوں کی طرح اپنے معمولات زندگی طئے کرسکتا یہ ویسے بھی پروٹوکول کے تحت ناممکن ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے پولس ہیڈکوارٹر میں ایک الگ سے روم میں ریسٹ کرسکتا وہ بھی ہائی سیکیورٹی میں۔ دوسرے ایک ہارڈ کور مجرم ایک چھت پر ترنگا لہرانے پہنچ جاتا ہے یہ پتہ نہیں عمارت کیا تھی۔ اگر افسانچہ میں اس بات کے اشارے دے دئے جاتے کہ وہ عمارت پولس ہیڈکوارٹر تھی۔ اور مجرم کو پولس اہل کاروں نے گرفتار کرکے کمشنر کے سامنے پیش کیا تھا تب کمشنر اور مجرم کا مکالمہ ہوتا، تو افسانچہ مزید پر اثر ہوجاتا۔ لیکن باد النظر میں عام قاری کے لئے یہ کوئی گلچ نہیں ہے۔ اس کی نظر میں بہترین افسانچہ ہے مگر سنجیدہ قاری کی نظر میں یہ سیاق سباق کی کمی ہے اور بنت کو کمزور کرتا ہے۔ محمد علی صدیقی صاحب اس جانب ضرور دھیان دیں گے۔ میری جانب سے بہت بہت مبارکباد۔
آج کا دوسرا افسانچہ پرویز انیس کا بیٹا ہے۔ پرویز انیس نوجوان افسانچہ نگار ہیں خاص طور سے وہ ریحان کوثر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے سو لفظی کہانیوں میں ایک مہارت پیدا کی ہے۔ انیس کے یہاں ایک خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں عنوانات کا تنوع ملتا ہے اور اختصار ان کے افسانچوں کی خصوصیت ہے۔ مجھے لگتا ہے انیس کا وژن بڑا وسیع ہے اور وہ زندگی کو اپنے مخصوص زاوئے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے یہاں انسانیت کے ان پہلؤوں کا حساس بیانیہ ملتا ہے جس کی عموماً تشریح نہیں ہوتی۔ زیر مطالعہ افسانچہ میرے اسی قول کی نمائندگی کرتا ہے۔ انیس نے بیٹا کے عنوان کو ذو معنی پیش کیا ہے وہ بیٹا اپنی مادر وطن کی خاطر اس کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گیا مگر میدان جنگ میں شہید ہوتے وقت اس کی روح اپنی ماں کو اپنا کارنامہ دل میں لئے شہید ہوگیا اور روح بھٹکتی ہوئی ماں کے دیدار کے لئے پہنچ گئی وہاں کا منظر عجیب تھا۔ اور یہیں فاضل قلم کار تھوڑا سا گھبرا گئے اور کلائمکس جتنا اثر دار ہونا چاہیے تھا وہ اس میں بھٹک گئے میری دانست میں ماں کو روتے ہوئے دکھانے کے بجائے بھیگی آنکھوں سے اپنے بیٹے کی قربانی پر فخر کرتے ہوئے دکھانا چاہئے تھا۔ کبھی کبھی تحریر کو پراسرار یا واقعات میں ابہام ایک طرح کا عیب پیدا کردیتا ہے اور یہاں وہی ہوا افسانچہ کا اٹھان بہت اچھا ہوتے ہوئے بھی روڈ پر شخص کے سوچتے ہوئے چلنے نے افسانچہ کی بنت کو ڈھیلا کردیا۔ جس نے اتنے خوبصورت کہانی کو وحدت تاثر سے عاری کردیا۔ کیوں کہ بیٹے کی موت پر تو ہر ماں روتی ہے اگر اس میں ٹوئسٹ ہوتا تو مزہ دوبالا ہوجاتا۔ بہرحال اس کے باوجود افسانچہ کامیاب ہے۔ انیس مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میری دعائیں افسانچہ کی دنیا میں روشن ستارہ بننے کے لئے انیس کے ساتھ ہیں
اج کا تیسرا افسانچہ سید محمد نعمت اللہ کا ماں تجھے سلام شائید یہ افسانچہ میں پہلے کہیں پڑھ چکا ہوں۔ اس افسانچہ۔ نے گذرے وقتوں میں جنگ آزادی میں شہید ہونے والے بیٹوں کی ماؤں کی یہ عام بات تھی کہ میرے دس بیٹے ہوتے تو ان دسوں کو ملک پر قربان کر دیتی یہ جذبہ تھا مگر آج یہ عنقہ ہے۔ نعمت اللہ صاحب کا افسانچہ بنت میں پرفیکٹ ہے۔ اپنے وحدت تاثر سے قاری پر ایک خوش کن تاثر چھوڑتا ہے۔ اس افسانچہ پر نعمت اللہ صاحب کو دلی مبارکباد۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کی بات:
میں مستقل کچھ غلط الرائج اصطلاحات جو اردو ادب انگلش ادب سے مستعار ہیں بڑی شدو مد کے ساتھ بہت قابل ادباء و شعرا استعمال کرتے ہیں ان میں سے ایک بہت عام ہے فکشن (Fiction) فکشن اصل میں انگریزی (Fictitious) فکٹیشیس سے مشتق ہے۔ چسکا مطلب ہوتا ہے گڑھا ہوا تخیلاتی جو ایک انسان کی ذہنی اختراع ہوتی ہے۔ اس کی مثال آج کے پرویز انیس کے افسانچہ سے دے سکتا انیس کا افسانچہ حقیقت نہیں ہے۔ اس کو انیس اپنی حساس طبیعت کی بنا پر تخیلات میں کہانی کے تانے بانے گوندھے۔ ہمارے اردو ادب میں لوگوں نے بغیر اس لفظ فکشن کی ہئیت کو سمجھے اپنے آپکو بھیڑ سے الگ ثابت کرنے کے چکر میں فکشن کو ہر طرح سے استعمال کرنے لگے۔ انگریزی ادب میں کسی بھی صنف کی تعریف اس صنف کے نام سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انگریزی میں سائنس فکشن اور تخیلاتی کہانیوں کو فکشن کہا جاتا ہے چونکہ سائنسی ناول یا کہانیاں قلم کار کی سائنسی اختراع یا تخیل کے علاوہ کچھ نہیں۔ بہرحال۔ میں کہاں تک اپنی بات میں درست ہوں یہ آپ لوگوں کے زاوئے فہم و ادراک پر موقوف ہے۔ تمام مبصرین اور افسانچہ نگاروں کے ساتھ انور مرزا کی سنجیدہ کوششوں کو بہت مبارکباد
محمد سراج عظیم

Post a Comment

0 Comments