ایک نظر...
افسانہ نِگار گروپ کے ایڈمین
انور مرزا
افسانہ نِگار گروپ کے ایڈمین
انور مرزا
✍️ ڈاکٹر یاسمین اختر
مہاراشٹر کی سرزمین سے کئی افسانچہ نگارابھر کر سامنے آئے ہیں جو اپنی مختصر کہانیوں کی بدولت مقبول و معروف ہوئے ہیں۔ان میں ایک نام انور مرزا کا بھی ہے۔موصوف ایک کہنہ مشق اور قادرالکلام افسانچہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ باکمال افسانہ نگار بھی ہیں۔انہیں ادب اطفال سے بھی کافی انسیت ہے۔ان کے کئی افسانچے ادب اطفال کے اردگرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک افسانچہ پیش کر رہی ہوں ملاحظہ فرمائیں...
شوق
چھوٹا بچہ تمباکو گٹکا خرید لایا...
باپ نے ڈانٹا...
’’یہ کیا اٹھا لائے...؟پھینک دو اسے...‘‘
’’کیوں...؟‘‘
’’کیوں کہ یہ بہت بری چیز ہے...‘‘
’’ٹھیک ہے... آپ شوق سے کھاتے ہیں...میں سمجھا، اچھی چیز ہو گی...!‘‘
باپ لرز گیا۔
جو بات دادا نہیں سمجھا سکا تھا، پوتے نے سمجھا دی...!
یہ کہانی پچاس لفظوں پر مشتمل ہے۔کہانی بچّے کی معصومیت کا احساس دلاتی ہے۔ اتنے کم الفاظ میں مکمل کہانی لکھ کر انہوں نے ادب میں اپنا ایک الگ مقام بنالیا ہے۔
پچاس لفظوں میں لکھا گیا ایک اور افسانچہ پیش کر رہی ہوں۔
ڈیوٹی
کورونا سے موت پر ڈاک ملازمین کو ملیں گے دس لاکھ روپیے...!
خبر پڑھتے ہی بے روزگار، بیٹا
خوشی سے کانپنے لگا ...
ڈاکیہ کی وردی پہنے باپ گھر سے نکل رہا تھا۔
صحیح فیصلہ کیا ڈیڈی...!
باپ بھیگی آنکھوں سے مسکرایا...
’’ڈیوٹی ہے بیٹا...‘‘
باپ پہلے ہی اخبار پڑھ چکا تھا...!
کم سے کم الفاظ میں افسانچے مسلسل لکھے جا رہے ہیں۔لیکن پچاس لفظوں کی کہانیاں لکھنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن سی بات ہے۔سچ کہوں تو ان کے علاوہ کسی اور کے یہاں ایسی خوبی نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا اولیت کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔
ان کی کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آخری جملے پر قارئین چونک جاتے ہیں۔اور یہ خوبی افسانچے کے لیے لازمی ہے۔
انور مرزا نے موجودہ دور کے ہر واقعے سے متاثر ہوکر انہیں اپنی کہانیوں کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی بعض کہانیاں ایسی بھی ہیں جن میں لطیفے کا سا لطف ملتا ہے۔مثال ملاحظہ ہو۔
فرینڈشِپ ڈے
’دوستی کی عظمت‘ پر دوست نے...
اپنے نئے’ 'آئی فون‘ سے اقوالِ زریں شئیر کئے...
میَں نے فون کیا...
'یار...! کیا ایک ہزار روپیے ٹرانسفر کر دو گے...؟
کھانے کے پیسے نہیں ہیں...!
دوست نے ہزاروں بہانے بنائے...فون کاٹ دیا...
میَں نے قہقہہ لگایا۔
اور چکن تندوری کھانے لگا...!
موصوف کی کہانیوں میں سوزوگداز، حسن و لطافت شوخی و بانکپن کے ساتھ ساتھ سادگی بھی پائی جاتی ہے۔انہوں نے انسانی دوستی، اتحاد و اتفاق بھائی چارگی کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی کہانیوں کے ذریعے ان مسائل کو سامنے لانے کی اچھی کو کوشش کی ہے۔
ان کی کہانیوں میں سیاسی، سماجی، معاشرتی معاشی اور ادبی مسائل کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔زبان کی تازگی نے فکر و فن اور اسلوب نگارش کو توانائی بخشی ہے۔
ان کا مشاہدہ کافی وسیع ہے۔ الگ الگ موضوعات پر افسانچے لکھ کر اخلاص و محبت اور انسانیت کا جو درس دیا ہے اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی۔
زندگی اور موت کے فلسفے کو چند الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔موصوف نے اپنی اِس چھوٹی سی کہانی کے ذریعے اس المناک گھڑی کو کس طرح اجاگر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں...
آئی لوَ یو!
’’اب مَیں جا رہی ہوں۔‘‘ اُس نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔میَں سمجھ نہیں پایا کہ مجھے رونا ہے یا خوش ہونا ہے۔
’’جب آؤگے تو جہنّم کے دروازے پر مِلنا۔‘‘
میَں نے کچھ حیرت کچھ خوشی سے پوچھا۔ ’’سچ! کیا تمہیں یقین ہے؟ میَں تو سمجھ رہا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا گنہگارصرف میَں ہی ہوں۔‘‘
’’اسٹوپڈ! جہنّم کے دروازے پر مِلنے کیلئے کہا ہے ۔ جہنّم میں نہیں!‘‘
میَں نے مذاق کرنے کی کوشش کی ۔’’ جہنّم کے دروازے پر تو میَں بھی کھڑا ہوں!‘‘
’’ہی ہی ہی۔‘‘ اُس نے میرے مذاق کا مذاق اُڑایا۔ ’’جب اصلی جہنّم میں پہنچو گے تو پتہ چلے گا کہ یہ گھر ہی اصل جنّت تھا جسے تم ہمیشہ گھر کے باہر ڈھونڈتے رہے۔‘‘
چند ادھورے اور ناکام گناہوں کی تصویریں سلائیڈ شو کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئیں۔اور وہ تصویریں شاید اُس نے بھی دیکھ لیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اب اُس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے، حالانکہ پہلے بھی کب تھا!
اُس نے بڑی شفقت اور محبت سے مسکرا کر مجھے ایسے دیکھا جیسے ایک ماں اپنے نالائق، لاڈلے بیٹے کو دیکھتی ہے۔گویا کہہ رہی ہو۔’’ایک کام ٹھیک سے نہیں کر سکتے۔گناہ بھی نہیں!‘‘
میَں نے دل ہی دل میں اِس سچائی کا اعتراف کیا کہ میَں دنیا کا سب سے بڑا احمق ہوں۔یہ میری کوالٹی ہے۔
’’ مَیں جا رہی ہوں۔‘‘
اُس نے مجھے یاد دلایا۔جانے کیلئے مُڑ گئی۔اورپھر ،جیسے نہ چاہتے ہوئے بھی جانے لگی۔
میَں اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ایک دِل تو کہتا تھا کہ اُسے کچھ دیر کیلئے روک لوں۔ لیکن دل کی بات کہہ بھی دیتا تو وہ کون سا رُکنے یاسُننے والی تھی۔اُس نے زندگی بھر میری نہیں سُنی۔اب کیا سُنتی!
اُس کے قدم بڑھتے رہے اور وہ میری نظروں سے لمحہ بہ لمحہ دُور ہونے لگی۔اُس کے اطراف کا منظر بدلنے لگا۔ ایسا لگا جیسے وہ جنّت کی طرف چلی جا رہی ہو۔ ایک بار وہ رُکی۔ پلٹ کر آخری بارمیری طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا۔ بالکل ویسے ہی، جیسے پہلی بار دیکھا تھا۔
دفعتاً ایسا لگا جیسے وہ پانی میں بھیگ گئی ہو۔ لیکن نہیں۔ دراصل میری آنکھیںبھیگ گئی تھیں۔ میرے منھ سے اُس کے لئےبے ساختہ وہ تین الفاظ بالکل اُسی انداز میں ادا ہوئے جیسے کہ پہلی بار ہوئے تھے۔ ’’ آئی لو یو!‘‘
وہ شاید یہی سُننے کیلئے خراماں خراماں چل رہی تھی۔
یہ الفاظ سُنتے ہی وہ گویا جنّت کے منظر کا حصّہ بن گئی۔
اِس افسانچے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں درد کا ماحول ہے،لیکن جمالیاتی حسن نے کہانی کو خوشگوار اور فرحت بخش بنادیا ہے۔
موصوف ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں۔ لوگوں کے دکھ درد کا بھی انہیں احساس ہے۔ان کا افسانچہ احساس کو جگانے کا کام کرتا ہے۔وہ جو کچھ لکھتے ہیں دل سے لکھتے ہیں۔موضوع عام ہو یا خاص۔افسانچہ کچھ الگ ہی انداز میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔موصوف نے انفرادی، اجتماعی ،فطری اور سماجی مسائل کو سامنے رکھ کر عوامی زندگی کی جو تصویر کھینچی ہے قابل ستائش ہے۔ چند کہانیاں ایسی بھی ہیں جو ڈرامائی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ ان کی کہانیوں میں مکالمہ نویسی کا فنّی حسن بھی موجود ہے۔سچ تو یہ ہے کہ موصوف کی کہا نیاں ذہن میں بس جاتی ہیں۔ کہانیوں میں احساس کی شدت اور غزل کے اشعار کی طرح شیرینی پائی جاتی ہے۔
زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہیں لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں انہوں نے انہیں واقعات کو کہانی کے سانچے میں ڈھال کر کہانی کو دلکش بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انور مرزا اتنے ہی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کم الفاظ ہونے کے باوجود کہانی میں ادھورے پن کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں زندگی کے مختلف رنگ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے وقت اور حالات سے جوجھتے ہوئے لوگوں کی ایسی تصویر کھینچی ہے جنہیں ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔
وہ ایک کامیاب قلم کار ہی نہیں خوش اخلاق انسان بھی ہیں۔ان کے مزاج میں خلوص و محبت کی خوشبو رچی بسی ہے۔
موصوف کے چند افسانچے ایسے بھی ہیں جن میں ابہام کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کردار نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ان کے کردار جانے پہچانے کردار لگتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ہی آس پاس کے کردار ہوں۔
افسانچے پچاس لفظوں میں ہوں یا زیادہ الفاظ میں لکھے گئے ہوں، پڑھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کی طرز ِتحریر میں نہ صرف جدیدیت کا رنگ ہے بلکہ روایتی انداز بھی ہے۔لہٰذا ان کے افسانچوں کی بنیاد حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔
زبان و بیان پر بھی انہیں قدرت حاصل ہے۔
افسانچے کی زبان صاف،آسان،رواں اور دل کو موہ لینے والی ہوتی ہے۔موصوف موقع و محل کے لحاظ سے زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ان کا اسلوب دلکش اور کامیاب ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں فلسفیانہ و عاشقانہ خیالات کا بھی اظہار کیا ہے۔
انور مرزا صاحب اپنے مخصوص لب و لہجہ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
انور مرزا صاحب اپنے مخصوص لب و لہجہ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
1 Comments
Mirza saheb ka her afsancha dil k qarib mehsus hota hai.un jazbat ki nishandahi kerte hue.jinhen hum mehsus to kerte hain lekin kagaz per zindagi mirza saheb dete hain.bohot khoob mirza saheb.
ReplyDelete