Ticker

6/recent/ticker-posts

تیز رفتار قلم کار:ڈاکٹر رفیق اے۔ ایس ✍️ آغا محمد باقر نقی جعفری

تیز رفتار قلم کار:ڈاکٹر رفیق اے۔ ایس
✍️ آغا محمد باقر نقی جعفری
تیز رفتار قلم کار:ڈاکٹر رفیق اے۔ ایس  ✍️ آغا محمد باقر نقی جعفری
علاقۂ ودربھ میں یوں تو متعدد ایسے اہل قلم ہیں جن کی تصنیفات بہت تیزی سے منظر عام پر آرہی ہیں ۔بعض مصنفین تعدادِ تصنیف کے لحاظ سے سنچری بھی بنا چکے ہیں ، ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب بھی کثیر التصانیف اہل قلم میں شمار ہوتے ہیںلیکن ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ موضوعاتی اعتبار سے سائنسی اور ماحولیاتی ادب تخلیق کررہے ہیں اور اس معاملے میں وہ سارے برصغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کے منفرد قلم کار ہیں اب تک غالباً ان کی۱۹ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب کی بعض کتابیں ’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی‘ سے شائع ہو کر مقبولیت و پذیرائی کا ریکارڈ قائم کرچکی ہیں ۔ ان کی کتابوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر ان کی کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ ’ پیٹ کے کیڑے ‘ سن ۱۹۸۷ء میں ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی‘ کے زیر اہتمام شائع ہوئی اور اب تک اس کے چار ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں یہی مقبولیت کا عالم ان کی دیگر کتابوں کے ساتھ بھی مشترک ہے۔
ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب کی موجودہ تصنیف کا موضوع ہر چند کہ سائنسی ادب سے تعلق نہیں رکھتا اس کتاب کا موضوع اردو نظم و نثر کا ایک اہم نام کشمیری لال ذاکر کی حیات اور ادبی خدمات ہے تاہم یہ موضوع اپنے فنی اصول و ضوابط کے لحاظ سے سائنسی ادب سے تعلق رکھتا ہے یعنی سائنس میں دریافت ہوتی ہے اور زیر تذکرہ موضوع بھی تحقیق سے متعلق ہے ۔ تحقیق کے فن میں پورے طور پر نہ سہی لیکن بعض مقامات پر سائنسی اصولوں کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے بالخصوص تنقیدی اور تجزیاتی مراحل میں سائنسی طرز پر فیصلہ کن رویہ اختیار کرنا محقق کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
کشمیری لال ذاکرؔ اردو زبان و تہذیب کا ایک بڑا نام ہے ، کشمیری لال ذاکرؔ کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور نثر نگاری میں بھی اپنا لوہا تسلیم کروایا اردو فکشن کی تاریخ میں بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب نے کشمیری لال ذاکر کی شخصیت اور فن کے ذیل میں یہ جو تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے وہ ہر اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ، آزادیٔ ہند کے بعد اردو زبان پر مسلمانوں کی نمائندگی کا جو لیبل عصبیت زدہ ذہنیتوں نے چسپاں کیا ہے ، کشمیری لال ذاکر جیسی شخصیتوں کا ذکر انھیں منھ کی کھانے پر مجبور کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب کے اس تحقیقی کام کی معنویت اور اہمیت اس لحاظ سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ موجودہ زمانہ ہندوستان میں عصبیت انگیزی سے عبارت ہے ۔ ہر معاملے میں ہندو مسلم کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے بالخصوص اردو زبان پوری طرح مسلم تہذیب کی علامت قرار دی جا چکی ہے جب کہ تاریخی صداقتیں اردو زبان کو گنگا جمنی تہذیب کی نقیب قرار دیتی ہیں ، اردو زبان روز آفرینش ہی سے عربی و فارسی تہذیبوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تمدن سے بھی منسلک رہی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اردو ہی وہ زبان ہے جس میں ہندوستان کی تقریباً تمام بھاشائوں اور بولیوں کی تہذیب جلوہ گر ہے ۔ کشمیری لال ذاکر جیسے اردو زبان کے دیوانوں کا تاریخی وجود بھی اس بات کا غماز ہے کہ یہ زبان پورے طور پر ہندوستانی تہذیب وثقافت کی علمبردار ہے۔
ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اردو شعر و ادب کی ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے جس کا تعلق ہمارے غیر مسلم شعرا اور ادبا کے قبیلے سے ہے امکان ہے اس نوع کی کتابوں سے اردو کا اصل لسانی و تہذیبی تشخص از سر نو قائم ہوگا۔
۲؍ مئی ۲۰۱۹ء
کشمیری لال ذاکر ایک ہمہ گیر شخصیت
مصنف: ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ ایس

Post a Comment

0 Comments