’’100لفظوں کی100کہانیاں‘‘ :ایک مطالعہ
نام کتاب : سو لفظوں کی سو کہانیاں
مصنف : ریحان کوثر
مبصر : ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی

نئی نسل کے اردو کے ہمہ جہت قلم کار کے طور پر ان دنوں سوشل میڈیا‘انٹرنیٹ اور اردو کے ادبی حلقوں میں ریحان کوثر کا نام کافی مقبول ہے اور ان کی حالیہ تصنیف ’’100لفظوں کی100کہانیاں‘‘ پر کافی تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ جو لوگ ریحان کوثر کو ادب کے علاوہ دیگرشعبہ جات کے اعتبار سے نہیں جانتے ان کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ریحان کوثر کا تعلق کامٹی ضلع ناگپور مہاراشٹر سے ہے وہ اردو کے صاحب طرز ہمہ جہت ادیب ہیں۔ تکنیکی تعلیم حاصل کرنے کے بعداب وہ پیشے سے ربانی آئی ٹی آئی و جونیر کالج کامٹی سے وابستہ ہیں۔
اردو فکشن‘ڈرامہ‘شاعری‘ نصاب اور دیگر موضوعات پر اب تک ان کی بیس(20) کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں قابل ذکر کہکشاں‘ڈاٹ کام‘پھولوں کی زبان‘اردو کمپیوٹنگ‘عرق ریحان‘سات دن کا غلام‘کہانیوں کے کنارے وغیرہ شامل ہیں۔ ڈرامہ، بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا، مضامین‘کتابوں کی ترتیب اور کمپیوٹر آپ کے دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کمپیوٹر پرلکھی گئی آپ کی کتابیں اردو میڈیم طلباء میں کافی مقبول ہیں۔ آپ نے دیگر مصنفین کی تیس سے زائد کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں۔ ریڈیو پر کئی پروگراموں میں شرکت کی۔انٹرنیٹ پر آپ کا بلاگ ’’تخم ریحان‘‘ کے نام سے کافی مقبول ہے۔ آپ اردو ماہنامہ’’الفاظ ہند کامٹی‘‘ کے مدیر ہیں۔
آپ کو مختلف تنظیموں نے ادبی ایوارڈز سے نوازا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے آپ کی تصنیف’’ڈاٹ کام‘‘ کی اشاعت بھی عمل میں آئی ہے۔ چونکہ کہانی‘ڈرامے اور فکشن سے ریحان کوثر کو لگاؤ رہا ہے اس لیے وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے انہوں نے اردو افسانچے لکھنے شروع کیے اور ہئیت کا تجربہ کرتے ہوئے ان افسانچوں کو 100لفظوں کی قید میں باندھا۔ ان کے تحریر کردہ یہ سو لفظی افسانچے اس قدر مقبول ہوئے کہ سو افسانچوں کی تکمیل کے بعد انہوں نے اسے کتابی شکل میں پیش کیا اور ان کے سو لفظی افسانچوں کا یہ مجموعہ جو’’الفاظ پبلی کیشنز ‘‘کے زیر اہتمام2021میں منظر عام پر آیا اردو کے ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوگیا۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا انتساب اور شکریہ بھی سو لفظوں میں ادا کیا گیا ہے۔ ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں ریحان کوثر نے اردو میں انگریزی کے حوالے سے سو لفظی کہانی لکھنے کی تعریف اور روایت کا ذکرکیا ہے۔ سو لفظی کہانی کی تعریف کرتے ہوئے ریحان کوثر لکھتے ہیں:
’’ سو لفظی کہانی یا ڈریبل ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں پورے پورے سو الفاظ ہوں۔ضروری نہیں کہ اس میں عنوان کے الفاظ بھی شامل کیے جائیں۔ سو لفظی کہانی کا اصل مقصد اختصار ہے اور مصنف کی صلاحیت کا پیمانہ یہ ہے کہ ایک محدود دائرے میں دلچسپ اور با معنی خیالات کا اظہار کامیابی سے کرے‘‘۔ ریحان کوثر نے لکھا کہ انگریزی میں سو لفظی کہانی لکھنے کا سلسلہ 1980ء میں برمنگھم یونیورسٹی کی سائنس فکشن سوسائٹی نے شروع کیا تھا۔ اردو میں سب سے پہلے مبشر زیدی صاحب نے سو لفظی کہانیاں لکھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ چل پڑا ہے۔ کلکتہ سے جاوید نہال حشمی صاحب اور کامٹی کے ہی پرویز انیس صاحب بھی سو لفظی کہانیاں لکھتے ہوئے مقبول ہورہے ہیں۔ ریحان کوثر نے اعتراف کیا کہ بال بھارتی ادارے نے اس ضمن میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور اسپیشل آفیسر اردو بال بھارتی خان نوید الحق نے ان کی کہانیوں کو متعارف کروایا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
اکیسویں صدی میں وقت کی کمی نے اس طرح کی مختصر کہانیوں کے لیے راہ ہموار کی جب کہ اردو افسانے کا قاری پانچ دس منٹ تک بھی کوئی تحریر پڑھنے کے لیے راضی نہ ہو تو اسے ایک دو منٹ تک مطالعے کے لیے راغب کرنے کے لیے یہ سو لفظی کہانیاں لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ افسانے میں مکالمے منظر نگاری جذبات نگاری کے کہانی کے ساتھ زندگی کے کسی ایک پہلو پر توجہ کی جاتی ہے جب کہ سو لفظی کہانی یا افسانچوں میں اختصار کے ساتھ زندگی کے کسی ایک ایسے واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو سیدھا قاری کے دل پر اثر کرے اور پڑھنے والے کو ساری کہانی سمجھ میں آجائے۔ افسانچہ ہو یا سو لفظی کہانی اس کا انجام چونکا دینے والا ہونا چاہئے اور موضوعات بالکل نئے اور اچھوتے ہونا چاہئے۔ افسانچہ نگار اپنے گہرے مطالعے کو فنکاری سے پیش کرتاہے اور چونکا دینے والے انجام سے اپنے افسانچے کو مقبول بناتا ہے۔ انسانی زندگی کی تیز رفتاری کے ساتھ ہمارے سامنے نئے نئے موضوعات سامنے آرہے ہیں۔ ریحان کوثر نے ان افسانچوں میں اپنے گہرے سماجی مطالعے، انسانی رویوں کی نفسیات اور زندگی کے بدلتے رنگوں کو فنکاری سے پیش کیا ہے۔
ان کی سبھی کہانیاں تازہ اور اچھوتے موضوعات پر ہیں اور کہانی کے انجام سے وہ ایک پنچ کے طور پر قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں۔ ان کے افسانچوں کے عنوانات جیسے وراثت،تیراک،لیڈیز ڈاکٹر، آخری وضو،لکشمن کی چوکھٹ،دھوبی کا کتا،ٹیگ لائن،واٹس اپ پوسٹ،مسجد کا چندہ،بابا سیٹھ کا چبوترا،پازیٹیو سے نگیٹو وغیرہ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریحان کوثر نے سماج کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور روزانہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے عجیب و غریب واقعات کو اپنے فن کے ذریعے پیش کیا۔
گزشتہ دو سال سے ساری دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں رہی ہے اور کرونا نے انسانی زندگی اور اس کے رویوں میں بڑی تبدیلی لائی تھی۔ لوگ بیماری کے خوف سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ اپنے ہی اپنوں سے ملنے سے کترا رہے تھے۔ اردو میں کرونا کے موضوع پر اب تک کچھ معیاری افسانے نہیں لکھے گئے لیکن ریحان کوثر نے اپنے افسانچوں کے اس مجموعے میں کرونا سے متعلق کئی کہانیاں لکھی ہیں اور ان کے انجام کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے کیسے سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ افسانچہ پازیٹیو سے نگیٹو میں ریحان کوثر نے لکھا کہ کرونا سے متاثرہ دو مریضوں مشتاق اور منیش دواخانے میں شریک تھے۔ منش حوصلہ ہار جاتا ہے اور مرجاتا ہے جب کہ اس کی رپورٹ بعد میں نگیٹو آئی تھی۔ مشتاق حوصلہ دکھاتا ہے اور صحتیاب ہو کر گھر واپس آجاتا ہے۔افسانہ’’تھالی‘‘ میں کرونا کے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے ریحان کوثر نے لکھا کہ سریتا اور رادھا ایک عمارت میں رہتی ہیں وزیر اعظم کے کہنے پر کرونا کو دور بھگانے کے لیے سب لوگ تھالی بجاتے ہیں۔ سریتا کا شوہر ڈاکٹر ہے کرونا کے مریضوں کے علاج کے بعد وہ روز گھر واپس آتا ہے رادھا کو ڈر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کہیں کرونا وائرس سے دوسروں کو متاثر نہ کردیں اس لیے وہ سریتا کو فلیٹ خالی کردینے کے لیے کہتی ہے۔ جب کہ سب نے مل کر تھالی بجائی تھی۔
افسانہ ’’فائل دستخط‘‘ میں ریحان کوثر نے ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والے روہت کا حال بیان کیا ہے جو اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ مسلمان بہت کم اولڈ ایج ہوم میں رہتے ہیں۔ روہت کا گائیڈ اسے غصہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ چیپٹر سیون میں تم نے یہ سب کیا لکھ دیا روہت کہتا ہے کہ اس نے حقیقت لکھ دی،نگران کہتا ہے روہت تم پی ایچ ڈی کرنے آئے ہو حقیقت بیان کرنے نہیں۔ چیپٹر سیون پھاڑ دیا گیا اور روہت کے پی ایچ ڈی فائل پر دستخط ہوگئی۔ کہانی بابا سیٹھ کا چبوترہ میں انسانی نفسیات بیان کی گئی ہے کہ نعیم چبوترے پر سب سے آخر میں اٹھتا تھا جب اس سے پوچھا گیا کہ دوسرے لوگ تو چلے جاتے ہیں تم سب سے آخر میں کیوں جاتے ہو تو نعیم کہتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جب کوئی جاتا ہے تو لوگ اس کی برائیاں کرنے لگتے ہیں میں آخر میں اس لیے جاتا ہوں کہ میرے بعد میری برائی کرنے والا کوئی چبوترے پر نہ رہے۔
افسانہ’’ ترکیب‘‘ میں لکھا ہے کہ سلمیٰ لاک ڈاؤن میں اخراجات سے بچنے کے لیے اپنی بہو اور بچوں کے اس کی ماں کے گھر بھیج دیتی ہے تاکہ کم راشن خرچ ہو بہو جاتے ہیں سلمیٰ کی بیٹی صادقہ گھر میں داخل ہوتی ہے کہ اس کے ساس سسر نے بھی اسے بیس بائیس دن اپنی ماں کے گھر رہنے کے لیے بھیج دیا ہے۔افسانہ ’’جنت‘‘ میں لکھا گیا کہ چھوٹی بچی اریبہ آئیس کریم کے بارے میں پوچھنے پر بتاتی ہے کہ وہ جنت سے آئیس کریم لائی ہے اور وہ فریج کی جانب اشارہ کرتی ہے دادا نے اس سے کہا تھا کہ عید کے بعد ان کا بکرا جنت میں چلا جائے گا اریبہ کہتی ہے کہ ممی نے بکرے کا سارا گوشت فریج میں رکھ دیا ہے شائد یہی جنت ہے جہاں سے مجھے آئیس کریم ملی ہے۔
اس طرح ریحان کوثر نے زندگی کے ہمہ جہت پہلوؤں سیاست،الیکشن،کرونا،فرقہ واریت،گھریلو زندگی کے مسائل اور سماج میں آئے دن پیش آنے والے واقعات سے کہانی اخذ کی ہے اور مختصر جملوں میں انہیں سو لفظوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی کہانیاں قارئین کے دل پر اثر کرتی ہیں۔ان افسانوں میں چھوٹے چھوٹے مکالمے اور منظر نگاری بھی ہے۔ کردار نگاری بھی اور نفسیات نگاری اور جذبات نگاری بھی ان سب پہلوؤں کو ریحان کوثر نے بڑی فنکاری سے سو لفظوں میں سمیٹنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ریحان کوثر کی افسانچہ نگاری کی خاص بات یہ ہے کہ جب قاری کوئی کہانی پڑھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس بات کا مشاہدہ اس نے بھی کیا لیکن عام انسان اور قاری میں یہی فرق ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اسے کہانی کا روپ دیتا ہے۔ سو لفظوں کی سو کہانیاں افسانوی مجموعہ شروع سے آخر تک دلچسپ کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ مصنف سے فون نمبر 9326669893 پر رابطہ کرتے ہوئے یہ افسانوی مجموعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی قیمت سوروپے رکھی گئی ہے اردو میں اچھی کتابوں کے باذوق قارئین کے لیے یہ کتاب تحفہ سے کم نہیں۔ اور خود صاحب کتاب ریحان کوثر صاحب نے بھی اردو کے ادیبوں اور دانشوروں کو یہ کتاب بہ طور تحفہ عنایت کی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ریحان کوثر صاحب اپنے قلم کا جادو یوں ہی جگاتے رہیں گے اور ان کے قلم سے مزید اچھے اچھے افسانچے ہم سب کو پڑھنے کے لیے ملتے رہیں گے۔
DR MOHAMMED ASLAM FAROQUI
Asst Professor & Head
Department of Urdu
NTR Govt Degree College for Women
Mahabubnagar-Telangana State 509001.
email: draslamfaroqui@gmail.com
0 Comments