Ticker

6/recent/ticker-posts

نجات (افسانچہ )✒️ خالدبشیر تلگامی

3️⃣
نجات
افسانہ نِگار ✒️ خالدبشیر تلگامی
ایونٹ نمبر 28 🎨 ھزار رنگ
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 3
نجات (افسانچہ )✒️ خالدبشیر تلگامی

’’جج صاحب! اچانک کہاں کھو گئے؟‘‘
 ارشد جو کہ جج صاحب کا قریبی دوست تھا 'چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔
’’کچھ نہیں دوست! سوچ رہا ہوں کہ جج کی نوکری سے استعفی دے دوں!‘‘
’’ارے یار!آج کل سرکاری نوکری ملتی کہاں ہے؟‘‘
ارشد یہ غیرمتوقع بات سن کر بولا’’ اور آپ ایسی باعزت اور شان وشوکت والی نوکری کو چھوڑنے کی بات کررہے ہیں۔ آپ کے منصفانہ فیصلوں کے چرچے سارے شہر میں ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
’’بس ارشد اب کوئی اور بات کریں۔‘‘ جج صاحب نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
’’نہیں 'ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ ارشد اب سنجیدگی سے بول پڑا ’’آپ کی ایمانداری اور انصاف پسندی کے تو لوگ گیت گاتے ہیں...پھر ایسا سخت فیصلہ لینے کی کوئی خاص وجہ...؟‘‘
’’اب میں کیا بتاوں‘‘ جج صاحب مایوس لہجے میں سرد آہ بھرتے ہوئےبول پڑے ’’اسی ایمانداری اور انصاف کو سیاست نے اپنا غلام بنائے رکھا ہے۔ اور میں غلامی سے نجات چاہتا ہوں...‘‘
✍️✍️✍️

Post a Comment

13 Comments

  1. یہ افسانچہ نام نہاد عدالتی نظام اور گرتی ہوئی سیاسی اقدار کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے۔۔ جج کا اپنے منصب سے استغفی دینے کے بارے میں سوچنا ایک نہایت گھمبیر مسٸلہ ہے جس کے بارے میں ہمیں سنجيدگی سے سوچنا چاہیے یعنی جج کا اپنے آپ کو غلام سمجھنا اس پوری سیاسی نظام کی اخلاقیات پر ایک زبردست چوٹ ہے۔۔۔ مجھے اپنے پسندیدہ ترین مصنف ہاشم ندیم کا جملہ یاد آ گیا ” مہذب معاشرے نے نوکری کا نیا نام غلامی رکھ دیا ہے “۔۔۔ یہ افسانچہ سیاسی گھٹن کی ایک عمدہ اور متاثرکن مثال ہے۔۔۔ زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں انا پرستی اس حد تک بڑھ گٸ ہے کہ انسان دوسروں کے آگے جھکنا پسند نہیں کرتا ۔۔۔ اس افسانچے میں سیاست اور عدالتی نظام پر ایک خفیف مگر دل خراش طنز ہے۔۔۔ اس سے واضح ہو گیا کہ عدالت ہی دراصل وہ جگہ ہوتی ہے جہاں انصاف، دولت اور طاقت کے زور پر خریدی جا سکتی ہے تبھی تو جج خود کو غلام سمجھتا ہے یاد رہے یہ پہلی صدی ہے جس میں جذبے بھی خریدے جاتے ہیں۔۔۔ افسانچہ گہری نفسیاتی آگہی کا مظہر ہے۔۔۔ بہرحال افسانچہ اپنی بنت اور ساخت میں مکمل سیاسی طنزیہ بیان پر مبنی ہے مگر اس طنز میں بے انتہا درد مندی ہے جس کا مصنف کو بھرپور احساس ہے۔۔ میرے خیال سے ایسے افسانچے عدالتوں میں بطور مثال پڑھانے چاہیے تاکہ ہمیں پتہ تو چل سکے کہ ہم سیاست کے نام پر درندگی چلا رہے ہیں۔۔۔ آہ جج کی اندرونی کیفیت پر ترس آتا ہے۔۔ مصنف گہری سیاسی بصیرت رکھتا ہے ڈھیروں داد قبول کیجۓ

    ثناءاللہ تاثیر۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete

  2. "نجات" ایک ایماندار جج
    کی ذہنی کشمکش کا عکاس ہے جو عدلیہ
    پر سیاست کے بڑھتے دباؤ سے پریشان ہے اور اسے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے عہدے سے استیفیٰ دے دے۔
    زبان سادہ اور سلیس ہے۔ دونوں دوستوں کی گفتگو حالات حاضرہ کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے
    خالد بشیر تلگامی صاحب عام طور سے بہت ہی مختصر افسانچے لکھتے ہیں اور اختصار کے ساتھ کوئی چبھتی بات کہہ جاتے ہیں۔

    ایونٹ میں شمولیت کے لئے
    فاضل قلم کار کو مبارک باد اور نیک تمنائیں

    محمد علی صدیقی

    🌷🌷

    ReplyDelete
  3. مختصر تبصرہ
    نجات۔خالد بشیر تلگامی
    تاثرات۔قیوم اثر
    واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حقاٸق لبوں پر آہی گۓ۔
    اسی لیے تو،
    انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی ہے۔!!!
    دونوں دوستوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نے ”سارے ملک“ کی عدلیہ کی پول کھول دی۔
    جب ہی تو میں سوچوں،
    ملک بھر میں اتنا انتشار کیوں ؟
    جیسے انصاف پسندی،
    ”رنگ منچ کی کٹھ پتلیوں“کا ایک کھیل ہوگیا۔
    ایک ہاتھوں کی انگلیوں میں دھاگا باندھے ہوۓ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ”نظر نہیں آتا“۔
    اور کٹھ پتلیاں سر تال پر ناچ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔تالیوں کی گونج بھی ہے۔
    یہی حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دن اور چلے تو۔۔۔سہی،دستور بدل کی دفعات بدلنی پڑے گی۔
    زبردست اور کھرے افسانچہ پر خالد بشیر صاحب کے لیے ڈھیروں مبارک باد۔
    زبان اور بنت بھی متاثر کرتی ہیں۔

    ReplyDelete
  4. "نجات " از خالد بشیر تلگامی ۔
    انصاف کا زوال ۔
    پہلے انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہویء تھی اب زعفرانی پٹی بندھ گیء ۔
    با ضمیر لوگوں کی مشکل ہے ۔
    اور اب تو ضمیر بھی بیچے اور خریدے جارہے ہیں ۔
    ایک جج جس نے پریس کانفرنس بلاکر حکومت کی نالایقیوں کی پول کھولی تھی،اسے دھمکی کے بعد ملک کا چیف جسٹس بنادیا گیا اور انصاف کا جنازہ نکل گیا ۔
    عمدہ افسانچے کےلئے خالد بشیر صاحب کو مبارکباد ۔
    نعیمہ جعفری

    ReplyDelete
  5. جن کا ضمیر زندہ ہے وہ ہی ایسا سوچ سکتے ہیں. آج ملک میں سیاست دانوں, ججیز, پولس والوں کے پاس ضمیر کہاں ہے.
    ضمیر اور انصاف زندہ ہوتا تو مسجد کا فیصلہ الٹ ہوتا.
    اب اس ملک میں ضمیر کا زندہ ہونا نا ممکن ہے.
    ان ہی باتوں کو افسانچے میں بیاں کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے .
    شاندار کوشش کے لئے
    مبارک باد
    رونق جمال

    ReplyDelete
  6. سیاسی دباؤ کے سبب ججس کا خود کو غلام سمجھنا اور اس سے نجات کی خواہش ۔ اس ملک کی ایک تلخ سچائی ہے ۔ حالیہ عرصے میں ایسے ہی ایک دباؤ کے تحت کیا گیا یکطرفہ فیصلہ ملک کے ماتھے کا بدنما داغ بن چکا ہے ۔ اچھا افسانچہ ہے ۔ مبارک ہو

    ReplyDelete
  7. خالد بشیر تلگامی صاحب کا *نجات* ایک عمدہ پولیٹیکل فکشن ہے۔ بہت بہت مبارک باد اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات 🍁

    ریحان کوثر

    ReplyDelete
  8. سچائی کا اظہار کرتا ہوا ایک شاندار افسانچہ! سیاسی حالات اب اتنے بیکار ہو چکے ہیں کہ ہر زندہ ضمیر انسان اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 🌹

    ڈاکٹر انیس رشید

    ReplyDelete
  9. ہندوستان کی موجودہ سیاسی دبائو کے تحت ججوں کی پریشانی اور المیہ پر بھر پور طنز کرتا افسانچہ ۔
    خالد بشیر صاحب نے سادگی کے ساتھ اپنی بات رکھی ۔مبارک باد
    شمیم جہانگیری

    ReplyDelete
  10. گر چہ اس موضوع پر کٸی افسانچے ہیں مگر خالد بشیر صاحب نے اس موضوع عمدہ طریقہ سے برتا ہے
    مبارک باد

    پینٹر نفیس

    ReplyDelete
  11. خالد کا عصر حاضر کے سیاسی اور جوڈیشل سسٹم پر کرارا وار اور طنز، زبان و بیان سادہ اور متأثر کن۔ مبارکباد

    سراج اعظیم

    ReplyDelete
  12. مجھے افسانچہ کمزور لگا یا شاید میں اس کی تفہیم نہیں کرپارہا ہوں۔
    میرا خیال ھے کہ ایمانداری، سیاست کی غلام نہیں ہوسکتی
    اگر ایمانداری، سیاست کی غلام ہوئی تو ایمانداری نہیں رہ جاتی۔

    "اسی ایمانداری" سے ظاہر ہوتا ھے کہ جج صاحب کی ایمانداری کی طرف اشارہ ھے تو پھر اسے سیاست نے غلام کیسے اور کب سے بنائے رکھا؟

    "میں غلامی سے نجات چاہتا ہوں"

    یہ جملہ ظاہر کرتا ھے کہ جج صاحب سیاست کے غلام تھے۔
    تو پھر ان کی ایمانداری اور انصاف پسندی کے گیت لوگ کیسے گانے لگے تھے؟
    ان کے 'منصفانہ' فیصلوں کے چرچے شہر میں کیسے ہوتے تھے؟

    ReplyDelete
  13. افسانچہ عدلیہ کی حالتِزار بیان کر رہا ہے ۔اگر جج صاحب بکے ہوئے ضمیر کے ہوتے تو خاموش رہتے اور راجیہ سبھا ممبر یا کہیں کے گورنر بن جاتے ۔
    اچھا افسانچہ

    ReplyDelete