معلوم نہیں کیوں؟ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اردو ادبِ اطفال میں تجربات نہیں کے برابر ہوئے ہیں۔ انگریزی، روسی، چینی اور کوریائی ادب اطفال میں ان گنت تجربات ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسی طرح چند ہندوستانی زبانوں میں قابل قدر تجربات ہوئے۔ بہرحال! تجربات ناکام یا کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ان کا واحد مقصد صنف کی ترویج و ترقی اور فروغ ہونا چاہیے۔ اگر ترویج و ترقی مقصود ہو تو کم از کم ان تجربات کا اثر تبدیلی کی شکل میں ضرور نظر آتاہے۔
جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اردو ادبِِ عالیہ بطور خاص نثری ادب میں آج کل ضرورت سے زیادہ تجربات ہو رہے ہیں۔ اب تو ہر چھے ماہ بعد ایک نئی صنف ایجاد کی جا رہی ہے یا متعارف کروائی جا رہی ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب اطفال میں مختلف تجربات کیے جائیں تاکہ آج کل کے بچوں میں ادب کے تعلق سے دلچسپی پیدا کی جاسکے۔
اس سے قبل ادبِ اطفال مشترکہ خاندانوں میں دادا دادی اور نانا ، نانی کی محبت کے سائے میں پروان چڑھتا رہا۔ ان بزرگوں کی صحبت اور تربیت کی فضا میں طفلانِ چمن بھرپور سانسیں لیا کرتے تھے۔دادا دادی کی کہانیاں بچے کے تخیل کو پنکھ لگا دیتی تھیں۔ آج بچے دادا ، نانا ، دادی ، نانی سے دور ہوتے جا ر ہےہیں۔ آج بچوں کے پاس دورِ جدید کی تمام تر سہولیات موجود ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں یہ بچے اندرونی طور پر تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ظاہری طور پر"اسمارٹ" اور" اپ ڈیٹیڈ" نظر آنے والی اِس نسلِ نو کے باطن میں انسانی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی قدروں کا فقدان ہے۔ ان قدروں کی عدم موجودگی کے سبب ان کے باطن میں ایک خلا سا پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خلا تاریک اور بے حد خطرناک ہے۔ ایسی صورتحال میں بچے اگر اچھی نظم یا کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی انھیں ایک اچھا ساتھی مل گیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ریڈیو اتنا عام نہ تھا۔ اس وقت نہ ٹیلی ویژن تھا۔ نہ ہی موبائل فون، ٹیبلٹ کمپیوٹر وغیرہ عام ہوئے تھے۔ بلکہ کچھ گیجیٹ تو ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے۔ ان دنوں ادب اطفال خوب پھل پھول رہا تھا۔ اسکول اور کھیل کود کے بعد زیادہ تر بچے بآسانی کتابوں اور رسائل کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔ طویل کہانیاں اور نظمیں پڑھنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومنے لگا۔ پہلے سنیما گھروں میں ہم شہر کے لوگوں کے ساتھ فلمیں دیکھتے تھے۔ وی سی آر آنے پر محلے والوں کے ساتھ فلمیں اور ڈرامے دیکھنے لگے۔ ٹیلی ویژن کے فروغ کے بعد ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹی وی شوز اور سیریل دیکھنے لگے۔ موبائل فون عام ہونے کے بعد ہر فرد اپنے اپنے موبائل میں دنیا جہاں کی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہے۔ یعنی ہمارے دائرے چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ شہر سے محلہ، محلے سے گھر اور گھر سے سب اپنے اپنے موبائل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے دائروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب ان حالات میں ادب اطفال کی تصویر بھی بدل گئی ہے اور میرا ماننا ہے کہ مزید بدل دی جانی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا متبادل کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ آج معاشرہ اور معاشرے کی فکر ونظر تبدیل ہو گئی۔ اس نئے معاشرے میں بچوں کی خواہشات اور ضروریات بدل گئیں۔ سہولیات میں اضافہ ہوا اور وسائل بھی بدل گئے۔ اس دور میں ادب اور ادبی رویوں میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے لہذا ادب اطفال میں بھی تبدیلی آنا فطری اور لازمی پہلو ہے۔ بچوں میں تجسس، تخیل، معصومیت، شرارتیں، بے ساختگی، سادہ پن اور بے لوث محبت جیسی نازک قدریں اور خصوصیات موجود ہوتی ہیں اور عمدہ ادب اطفال وہ ہے جن میں ان قدروں اور خصوصیات کی آمیزش ہو۔ بچوں کا ادب لسانی ثقافت کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ ہم ادب اطفال کے بغیر بچوں کی تعلیم و تدریس کا تصور نہیں کرسکتے۔ دراصل ادب اطفال کو لسانی شعور کے لحاظ سے بھی دیکھا جانا چاہئے۔ بچے آہستہ آہستہ ادب اطفال کے ذریعہ لسانی ساخت اور ڈھانچے کو سمجھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں وہ نئی زبانیں اور بولیاں بھی سیکھتے ہیں۔
در حقیقت بچوں کو ادب سے وابستہ کیے بغیر بچوں کی معیاری تعلیم و تربیت ناممکن ہے۔ بہرحال! اردو ادب اطفال کو دلچسپ بنانے کے لیے گزشتہ دو دہائیوں میں کچھ تجربات کیے گئے۔ ڈاکٹر ایم اے حق صاحب نے "افسانچۂ اطفال" اور رونق جمال صاحب نے "بچکانچہ" کی صنف کا آغاز کر کے ادب اطفال میں کامیاب تجربے کیے۔ انہی تجربات کے سبب ملک کے نامور افسانہ نگاروں کے ذریعے بچوں کے لیے 37 افسانچے وجود میں آئے جنھیں اس خصوصی شمارے میں شامل کیا گیا ہے۔ انور مِرزا صاحب کے گروپ افسانہ نِگار کا ادبِ اطفال ایونٹ 22 ستمبر 2020 کو صبح 10:00بجے شروع ہوا۔ یہ تجربہ کتنا کامیاب ہے یہ آپ کے تاثرات کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے ۔ اس کاوش پر اپنے تاثرات اور رائے ضرور ارسال کریں۔
٭٭٭
0 Comments