Ticker

6/recent/ticker-posts

نقشِ تحریر۔ ایک تاثر(تبصرہ) ✍️ ڈاکٹر محمد اسد اللہ

نقشِ تحریر۔ ایک تاثر
✍️ڈاکٹرمحمد اسد اللہ
نقشِ تحریر۔ ایک تاثر(تبصرہ)  ✍️ ڈاکٹر  محمد اسد اللہ

مصنف
محمد ایوب

رسائل اور کتابوں کی اشاعت میں اضافے کے باوجود اردو زبان کی سر حدیں مختلف سمتوں میں سمٹ رہی ہیں ،خواہ وہ شعبۂ تدریس ہو ، ادب کی تخلیق ہو یا روز مرہ زندگی میں زبان کا استعمال۔ہمارے معاشرے میں اردو بولی جاتی ہے ، مشاعروں میں سنی جاتی ہے ،تعلیمی اداروں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ واٹس ایپ گروپس میں اردو رسم الخط کے استعمال پر ان دنوں زور دیا جا رہا ہے۔اس زبان کے فروغ میں سر گرم اردو اکادمیاں، تعلیم گاہیں اور دیگرسر کاری وغیر سر کاری ادارے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ،تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس صورتِ حال کے باوجود ہماری زبان کا وہ سر مایہ جسے ایک تہذیب سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی طرح دھیرے دھیرے غائب ہو رہا ہے جیسے برسات کے موسم کے بعد سورج کی چمک دمک کے سبب زمین اپنی نمی سے دست بر دار ہونے لگتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب’’نقشِ تحریر‘‘ محمد ایوب صاحب کی اولین تصنیف ہے۔آ پ کا تعلق مہاراشٹر کے ایک اردو نواز شہر کامٹی سے ہے جو ناگپور سے قریب ہے۔محمد ایوب صاحب ایک مخصوص لب و لہجے کے ساتھ سلیس اردو میں نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ ان کے رکھ رکھاؤ میں اس تہذیب کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے جو اردو کے ساتھ مخصوص ہے۔
اس علاقے میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات میں ایوب صاحب محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ ایر انڈیا کی ملازمت کے سلسلے میں ممبئی میں رہے ، پھر ان کا تبادلہ ناگپور ہوگیا۔ وظیفہ یاب ہونے کے بعد بھی وہ اردو کی وہی خدمات انجام دے رہے ہیں جوان کا وظیفہ ٔ حیات رہا ہے۔ تیس برس عروس البلاد ، ممبئی کی بزم آ رائیوں کو دیکھنے اور ادبی سر گرمیوں میں شریک ہونے کے بعد وہ اپنے وطن لوٹے، تو اس علاقے کی ادبی تقریبات کو انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات سے بہرہ ور کیا۔ان کی آ مد سے یہاں کی لائبریریوں کو بھی فائدہ ہوا۔ ایوب صاحب نے نہ صرف ان کتب خانوں کی حالت کو بہتر بنانے پر زور دیا ،بلکہ وہاں مختلف تقاریب منعقد کر وانے میں بھی اپنی گراں قدر خدمات پیش کیں۔
’’ نقشِ تحریر‘‘مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین ،اور تقریبات کے لیے تیار کی گئی وہ تحریریں ہیں جن میں ایوب صاحب نے ادبی دنیا کی اہم شخصیات پر اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔اس کتاب کی تقریباً سبھی تحریریں ، خواہ وہ ادبی مضامین ،متفرق مضامین ،تعزیتی تحریریں ہوں یا مختلف شخصیات پر لکھے گئے خاکے ہوں، ان تما م کے ذریعے ناگپور اور کامٹی کے ان لوگوں کی ادبی اور سماجی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے ، جنھوں نے کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ ان دونوں شہروں کی تاریخ کا احاطہ کر نے والی کتابیں اس سے پہلے بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس قسم کے تذکروں میں عام طور پر مشہورشخصیات اور اہم تاریخی واقعات ہی جگہ پاتے ہیں۔ادبی مضامین ،خاکے خطوط، سفر نامے اور روزنامچے ادب کی وہ اصناف ہیں جن میں ہمیں کسی سماج کی وہ دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں جن کے شواہد تاریخ پیش کر نے سے قاصرہے۔
’’نقشِ تحریر‘‘کے مصنف اپنے علاقے کے ادبی حلقوں اور ادبی و سماجی شخصیات سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے کاموں کے قدر دان بھی۔ اس کتاب میں شامل شخصی خاکے اندازِ بیان اور جز ئیات نگاری کے لحاظ سے قابلِ مبارک باد ہیں۔ان تحریروں میں ایوب صاحب کی قوتِ مشاہدہ، مردم شناسی اور انسانی ہمدردی کی خوبیاں نمایاں ہیں۔ اگر یہ مضامین نہ لکھے جاتے تو، اس علاقے کے متعلق، شایدہم یہ نہ جان پاتے کہ ادب کے چھوٹے بڑے مراکز پر تہذیب کیسے سانس لیتی ہے ، ادب کس طرح پر وان چڑھتا ہے اورزبان کیسے مختلف افراد کے ہاتھوں اپنی بقا کا سامان پید اکرتی ہے۔
’’نقشِ تحریر‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایوب صاحب کتابوں کو تنقیدی نظر سے جانچنے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کر نے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل ان کے مضامین مولانا سعیداعجاز کامٹوی کی شخصیت کے چند پہلو ،فقط ذوقِ پر واز ہے زندگی ،خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا،ادب و صحافت کے امانت دار ، محمد امین الدین ،ایک کر دار ساز معلم وغیرہ کے مطالعے سے ظاہر ہے کہ اردو کے نثری و شعری سر مائے پران کی نظر ہے اورمطالعے نے انھیں ادب کی پر کھ کا سلیقہ عطا کیا ہے۔قوی امید ہے کہ اس کتاب کو ادبی حلقوں میں قبولِ عام حاصل ہوگا۔
٭٭٭
نام کتاب :	نقشِ تحریر




Post a Comment

0 Comments