Ticker

6/recent/ticker-posts

مائیکروفکشن : تنقیدی جائزہ ✍️ڈاکٹر شہروز خاور



اس بات سے خوشی ہوئی کہ ایونٹ سے پہلے ، ایونٹ سے متعلق (مائیکروفکشن پر مائیکروفِیَن کے) خیالات پیش کیے جارہے ہیں۔ اس طرح گفتگو سے اشکالات کے رفع ہونے میں مدد ملے گی۔
سبھی کے حق میں ہے اچھا ، کرو ، اجالا کرو
اندھیری شب ہے ، جلاؤ ، جلو ، اجالا کرو
ہنوز شیدائے اردو ، افسانہ اور کہانی کی تعریف اور انھیں ایک دوسرے سے ممیز کرنے سے قاصر ہیں یا پوری طرح مطمئن نہیں ہوسکے ہیں پھر بھی نئے تجربات اور نئے افق کی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ تغیر ہی سے زندگی ہے۔ غور کرنا ، غور کرتے رہنا اور غور کرنے پر مجبور کرنا بھی بیدار سماج/طبقے کی علامت ہے۔ یہ لمحات غنیمت ہیں کہ محبان اردو کی قابل ذکر تعداد نئے امکانات اور نئی اصناف سے متعلق مستعدی سے سرگرم ہے۔
اس گفتگو میں شامل ہوکر میں بھی اپنی زبان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
گروپ میں مائیکرو فکشن سے متعلق کی گئی گفتگو میں
مائیکروفکشن کی تعریف
انگریزی اصطلاح
مائیکروف کی کسوٹیاں
اردو کی وسیع القبی
مائیکروف کے قاری
عصر حاضر میں مائیکروف کی ضرورت و اہمیت
ادبی ذوق کی تسکین
ادبی تجربات
اور
نئی صنف کے ردوقبول کے مسئلے
پر گفتگو کا ارتکاز رہا ہے۔
میری کوشش ہوگی کہ ان ہی موضوعات پر گفتگو کروں۔


مائیکروف/افسانچہ
اصطلاح/زبان/مرعوبیت/وسیع القلبی
مائیکروفکشن انگریزی اصطلاح ہے۔ صرف انگریزی نہیں بلکہ تینیکل بھی۔ ایک جگہ کہا گیا کہ "ادب سائنس یا حساب کتاب نہیں۔ " پھر اصطلاح کے معاملے میں اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا۔
شاید اس لیے کہ مائیکروفین کی اکثریت انگریزی زبان و ادب سے گہری واقفیت رکھتی ہے یا مرعوب ہے۔ خیر یہ اصطلاح اب عام ہے۔
مائیکرو فیکشن کو اور آسان کر کے مائیکروف کیا گیا ہے جو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اسی مائیکروف سے میں نے مائیکروفیکشن لکھنے والوں کے لیے مائیکروفِیَن کی اصطلاح گھڑی ہے۔ ممکن ہے پسند آئے۔ میں اس اصطلاح کو رائج کرنے کی لیے ضد نہیں کروں گا۔
اکثر مائیکروفین اظہار خیال کے انگریزی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک صاحب نے مائیکروف کی تعریف بھی انگریزی میں بیان کی ہے۔
اپنی زبان میں اظہار خیال کرتے ہوئے دوسری زبان کے الفاظ اسی صورت میں استعال کرنا مناسب ہوتا ہے کہ ان کا متبادل موجود نا ہو یا پھر مروج نا ہو ورنہ اس عمل سے تین تاثر قائم ہوتے ہیں۔ پہلے یہ کہ لفظیات/اصطلاحات کے اعتبار سے زبان قلاش/غریب/ارتقائی مراحل سے دور ہے۔ دوسرے یہ کہ اظہار خیال کرنے والی شخصیت مرعوب کرنا چاہتی ہے (انگریزی سے متعلق قبول کیا گیا تصور۔ ـ) اور تیسرے یہ کہ اظہار خیال کرنے والی شخصیت زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہے۔
یہ تینوں تاثر منفی رجحان کی تشکیل کرتے ہیں۔
عذر/تاویل : ایسا کرنے کی تاویل میں اکثر اردو کی وسیع القبی/کشادہ دامنی کا ذکر ہوتا ہے تو خیال رہے کہ انھیں الفاظ کو قبول کیا جاتا ہے جن کا متبادل موجود نا ہو۔ اگر نیا لفظ ہے تو اس کا متبادل ممکن نا ہو یا اتنا اہم یا ضروری نا ہو ( خاص طور سے چیزوں کے نام بلا جھجک/آسانی سے قبول کرلیے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر ، موبائیل وغیرہ ...... کیوں کہ ان چیزوں کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے۔ تیکنالوجی سے متعلق بھی اکثر اصطلاحات جوں کی توں قبول کی جارہی ہیں کہ ان کا تعلق عوام سے ہے۔ )
لیکن جب ادب کی بات ہوگی تو ایک خاص طبقے کا ذکر ہوگا جو رات دن جبان کی خدمت ، جبان کی خدمت / جبان کی بقا ، جبان کی بقا / جبان کی ترکی ، جبان کی ترکی کا ڈھنڈھورا پیٹتا رہتا ہے۔ اور اس طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ زبان کی شناخت و انفرادیت قائم رکھنے کے لیے دوسری زبان کے الفاظ قبول کرنے کی بجائے جہاں تک ممکن ہو اردو کی اپنی لفظیات میں اضافہ کرنے کی سعی کرے۔
اردو کے وجود میں آنے کا معاملہ اور اس کی بقا و ترقی کے معاملے کی نوعیت الگ الگ ہے۔ ہم دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں لیکن یہاں تو مائیکرو/نینو/فکشن/چپس/نیریشن/کمپریس جیسے بہت سارے الفاظ ایسے استعمال ہورہے ہیں جیسے اردو ابھی ابھی پیدا ہوئی ہے اور ارتقائی مراحل میں انگریزی کے سہارے چلنا سیکھ رہی ہے۔
کیا اردو کی حالت ایسی ہے کہ کسی بھی لفظ کو منہ لگا لے۔ ؟
میرے خیال سے سب سے پہلے زبان پر دھیان دیا جانا چاہیے اس کے بعد نئی صنف پر۔


مائیکروف/افسانچہ
صنف کی کسوٹی/ تعریف
مائیکروف سے متعلق پیش کیے گئے تبصروں سے منتخب وہ جملے جو مائیکروف کی تعریف میں کہے گئے ہیں۔
ریاض توحیدی صاحب
۔۔۔ اسلوب اور ہیت کے لحاظ سے مائکرو فکشن کاپلاٹ‘ الفاظ و معنی اور خیالات کی معنی خیز پیش کش پر استوار ہوتا ہے۔
۔۔۔ اس کا بیانیہ تخلیقی نوعیت کا ہوتا ہے یعنی ہر جملہ اور مکالمہ تخلیقی رچاؤ کا حامل ہوتا ہے۔
۔۔۔ پیش کش میں صحافتی انداز یا لطیفہ گوئی کے برعکس عنوان سے لیکر پنچ لائن تک حیرت انگیز کیفیت طاری رہنی چاہئے۔
۔۔۔ اس کے ہرجملے یا مکالمے میں احساس و خیالات کا دلکش تخلیقی برتاؤ موجود ہوناچاہئے۔
۔ ۔ـ مائکروفکشن کا متن چاہئے راست بیانیہ میں ہو یا علامتی اسلوب میں تاہم فنی تناظرمیں الفاظ و معنی کے تخلیقی برتاؤ سے ہی ایک کامیاب مائیکروف کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
۔۔۔ مائیکروف کے پلاٹ میں بیان (Description) کے برعکس بیانیہ (Narration) کا زیر نظر رہنا ضروری ہے اور پلاٹ چست ہونے کے ساتھ ساتھ کہانی میں خیالات کا ربطہ ہونا ضروری ہے۔
۔۔۔ کہانی میں ابہامی کیفیت کا اثر بھی سود مند رہے گا لیکن حد سے زیادہ تجریدیت ترسیل کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
۔ ۔۔ مجموعی طور پر مائیکروفکشن میں کہانی کے ماحول‘ تخلیقی اسلوب اور جملوں کی ساخت کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفقت محمود صاحب
تین سو سے چھہ سو الفاظ پر مشتمل ایک ایسا سادہ بیانیہ یا علامتی فکشن جہاں آغاز سے ہی جامع الفاظ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیں اور وہ وارفتگئ ِشوق سے اس جہانِ معانی کی دریافت میں سرگرداں نظر آئے۔ ـ آخری موڑ سے پہلے تک وہ جہانِ معانی نظروں سے اوجھل ہی رہے لیکن جب نظر آئے تو قاری تحیّر و انبساط سے پکار اٹھے یوریکا!
(اگر منہ گالی نکلے تو )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسیم سید صاحبہ
مائکرو فکشن لکھنے کی شرائط کڑی ہیں۔ ۔ تین سو الفا ظ کے افسانے میں ایسے گنے چنے اور منتخب الفا ظ ہوں جو معنی کی تمام تر تہہ داری کو سمیٹ لیں اور ایک مکمل افسانہ موجود ہو اپنے تمام تر حسن کے سا تھ۔ ۔۔۔ افسانے سے زیادہ مشکل ہے یہ مختصر تریں افسانہ لکھنا۔ ـ
ما ئکرو فکشن میں کسی بھی مو ضوع پر لکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ تحریر قاری کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کرلے اور اختتام پر قاری کو سوچنے ، محسوس کرنے اور واہ کہنے پر مجبور کردے۔ ـ
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید تحسین رضا گیلانی صاحب
Micro is Like a micro chip ..
That can store million books in a small device!!
Just a micro fiction should be like that !!


ایک متن جو خرد ناول کا لطف دے ۔
یعنی ایک ایسا متن جو ہر سطر میں ایک کہانی ہو کم میں زیادہ کہنے سے عبارت ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکروف کی تعریف میں درج بالا تمام باتوں کا اطلاق ہر اچھی تخلیق/فکشن پر ہوتا ہے۔ ـ یہ باتیں صرف مائیکروف کے لیے کیسے مختص کردی گئی ہیں۔
کیا مائیکروف کے علاوہ دوسری اصناف کے لیے تخلیقی جملے۔ ـ تخلیقی رچاؤ۔ ـ الفاظ کا انتخاب۔ ـ تہہ داریت۔ احساس و خیالات کا دلکش تخلیقی برتاؤ۔ معنی خیز پیش کش وغیرہ وغیرہ ضروری نہیں ہیں۔
کل ملا کر بات یہ ہے کہ جو کچھ مائیکروف (افسانچے) کی تعریف میں کہا جارہا ہے وہ تخلیق کی خوبیاں/اوصاف ہیں۔ خوبیاں اور خدوخال دو اگ چیزیں ہیں۔ یہاں مسئلہ مائیکروف کے خدوخال کا ہے۔
انسان/ہاتھی/کبوتر ..... کی جسمانی سخت الگ الگ ہوتی ہے۔ افسانہ/انشائیہ/خاکہ کی اپنی اپنی شناخت ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ جس بچے کی آنکھ نیلی ، ہونٹ لال ، ناک ستواں ، رنگ گورا اور بال بھورے ہوں گے وہ 喝酒 ہے۔ کیا یہ عمل درست ہے۔ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوبصورت انسانی بچہ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اختصار کی بنیاد پر لفظ افسانچہ قبول کیا گیا ہے۔ اب اسی افسانچے میں علامت/ابہام/تہہ داریت وغیرہ وغیرہ سو چیزیں شامل کردو ، وہ افسانہ/افسانچے سے قطعی الگ نہیں ہوسکتا۔


نثری صنف کی تمیز کے لیے ہیت ، اسلوب اور موضوع کے بغیر بحث مشکل ہے۔
جہاں تک مائیکروف کے اسلوب کی بات ہے تو علامتی/تجریدی/ابہامی اسلوب کو تہہ داریت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے اہمیت دی جارہی ہے۔ تو کیا علامت/تجرید/ابہام مائیکروفین کی اختراع ہے۔ ؟
فکشن میں موضوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا کا ہر موضوع برتا جاسکتا ہے۔
تیسری چیز ہیّت ہے۔ ۔ـ ہیت کا معاملہ بھی الفاظ کی تعداد تک محدود ہے اور الفاظ کی یہ تعدد بھی کچھ ایسی نہیں ہے کہ مائیکروف کو افسانہ یا افسانچے سے الگ کرسکے۔ (ہیت کے لحاظ سے 100/50/20 لفظی کہانیاں ، لفظی پابندی کی وجہ سے آج اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔ )
۔۔۔ اب بھلا مائیکروف کی شناخت کے لیے کیا بچتا ہے۔
شاید یہی کہ مائیکروف ختم ہونے کے بعد قاری یوریکا .... یوریکا پکار اٹھے۔


مائیکروف/افسانچہ
ادبی ذوق کی تسکین/عدیم الفرصتی/طوالت/وقت کی ضرورت
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم جس فارمیٹ میں فٹ ہوتے ہیں یا جو ہمیں ہے اسے ہی صحیح اور اہم ثابت کرنے کوشش کرتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ قریب ہے۔ اس تعلق نے میں نے ایک مثال پچھلے سال دی تھی۔ پہلے وہ پیش کردیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی اور نظریات
میرے دادا ہمیشہ دو دانت کے چھوٹے اور گول مٹول جانور لایا کرتے تھے۔ ـ بچوں کی خواہش بڑے جانور کی ہوتی ہے۔ ـ اتنا بڑا کہ گلی محلے میں سب سے اونچا ہو۔ ـ دادا کہتے تھے کہ اللہ نیت دیکھتا ہے۔ اس کے پاس یہ خون اور گوشت نہیں جاتے بلکہ یہ ہمارے لیے ہوتے ہیں تو کیوں نا اچھا گوشت کھایا جائے۔
ایک امیر خاندان میں قریب ستّر اسّی افراد تھے۔ ـ ان کے کارخانے میں دبلے پتلے (یعنی سستے) آٹھ دس جانور چھپا کر رکھے جاتے تھے۔ ـ اکثر دوستوں میں ایک دوسرے کے جانور دیکھنے کی اور تقابلی مطالعہ کی عادت ہوتی ہے۔ ـ اس گھر کے بچوں کا کہنا تھا کہ اللہ کو دکھاوا پسند نہیں ہے۔
ایک امیر خاندان میں پانچ افراد تھے لیکن دو تین مہنگے اور تندرست جانور لائے جاتے تھے۔ ـ دیکھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ـ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے جیسے نوازہ ہے اس لحاظ سے اس کے شایان شان قربانی کرنی چاہیے۔
ایک امیر خاندان میں لوگ کم تھے لیکن آٹھ دس بڑے بڑے (بوڑھے جانور جن کا گوشت تو اچھا نہیں ہوتا لیکن گوشت زیادہ نکلتا ہے اور جانور سستے ملتے ہیں) جانور لائے جاتے تھے۔ ـ ان کا خیال تھا کہ یہی موقع ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کو گوشت مل جاتا ہے۔
گھر کے بازو میں ایک بھرا پُرا خاندان تھا۔ ـ افراد زیادہ اور معاشی حالت کمزور تھی لیکن اپنے اچھے وقتوں سے ہمیشہ قربانی کرتے آئے تھے اس لیے بڑا (بوڑھا ـ سستا) جانور لایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نیت دیکھتا ہے۔
ایک خاندان مدرسوں میں کی جانے والی قربانی میں دو تین حصہ لے لیتا تھا۔ ـ ان کا خیال تھا کہ جن افراد پر قربانی فرض ہے ان کی ادائیگی ہوجاتی ہے تو پورا جانور لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کرنے والی ہر فیمیلی کا نظریہ اپنی جگہ مناسب ہے لیکن ہر فیمیلی دوسری فیمیلی کو اپنی کنڈیشن اور نیت کی پابند کرنا چاہے گی یا صرف خود کو صحیح اور باقیوں کو غلط ٹھہرائے گی تو یہ عمل کہاں تک ٹھیک ہے۔
یہ باتیں اس لیے کہنی پڑ رہی ہیں کہ مائیکروف (افسانچہ) کی حمایت میں دوسری اصناف کو فرسودہ/ روایتی/ پرانی/ گھسی پٹی اصناف ، جیسا تاثر پیش کیا جارہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ذہین لوگ ہی اسے سمجھ سکتے ہیں اور اس پر بات کرسکتے ہیں۔
دوسری اصناف کے مقابلے میں افسانچہ/مائیکروف کے لیے ، وقت کی ضرورت/عدیم الفرصتی/کم وقت میں ادبی ذوق کی تسکین/طوالت جیسی توجیہات کہاں تک درست ہیں جب کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس قدر مصروف دنیا میں ادبی ذوق کی تکمیل میں لوگ باگ چوبیس گھنٹے شوشل میڈیا پر افسانچے اور تبصروں میں یہی رونا رو رہے ہیں کہ فرصت نہیں ہے۔
کہیں ہم کم وقت میں زیادہ مشہور ہونے کا فرمولا تو نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ادبی ذوق اس قدر خراب ہے کہ ادب عالیہ کا مطالعہ بار گراں ہے یا ہم سمجھنے سے قاصر ہیں اور نا پڑھنے کے بہانے تلاش کررہے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مشاہیر کی تخلیقات پر غور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اس عیب کو چھپانے کے لیے دوسروں کو اپنی آڑی ترچھی تخیلقات پر سر کھپانے کی دعوت دے کر بڑا بننا چاہتے ہیں۔
پڑھنے والے وقت نکال کر آج بھی سب کچھ پڑھ لیتے ہیں اور نہیں پڑھنے والوں کو لکھنے سے فرصت نہیں ہے۔
دو گھنٹے کی فلم دیکھنے والے دس دس/بیس بیس گھنٹے کی ویب سیریز دیکھ ہیں۔ ـ
نا انسان کبھی خوش رہا اور ناہی کبھی اسے فرصت رہی ہے۔ آدمی کو جس چیز سے دلچسپی ہوتی وہ اس چیز کے لیے وقت نکالتا ہے۔ اس لیے افسانچے/مائیکروف کے لیے عدیم الفرصتی/طوالت جیسی دلیلیں غیر مناسب ہیں۔
ایک تخلیق کار کو چاہیے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار جنتے الفاظ اور جس اسلوب میں اچھی طرح سے کرسکتا ہے ، کرے۔ قاری کی سہولت/زمانے کی رفتار/دلچسپی جیسی باتیں فضول ہیں۔
زمانہ ہم انسانوں سے ہے۔ تغیر کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ لاک ڈاؤن لگنے سے ہم نے روزمرہ کے معمولات میں کیا کچھ تبدیلی برداشت نہیں کی ہے اور کتنا کچھ اپنے آپ کو نہیں بدلا ہے۔
لکھاری کا کام ہے لکھتا ہے۔ اس کے قاری خود پیدا ہوں گے۔ ہر کسی کو پسند کرنے والے دنیا میں موجود ہیں۔ تخلیق اچھی ہوگی تو باقی رہے۔
وقت اور زمانے کی تاویلات میں کاروباری ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے کہ کیا چل ہے اور کیا چلانا چاہیے۔
میرے خیال سے ادب کو زمانے پر نہیں بلکہ زمانے کو ادب پر انحصار کرنا چاہیے۔ ـ اتنی محنت اور ایمانداری سے لکھا جائے کہ جو ہم نے پیش کیا اسے دنیا قبول کرنے پر مجبور ہوجائے ناکہ کیا چل رہے اور قاری کیا چاہتا ہے۔
یہی سوچ تھی کہ اچھے اچھے شاعر عوام کی فرمائش پر قربان ہوگئے۔ ـ
فی الحال ناول لکھنا افسانچہ لکھنے سے لاکھ درجے مشکل ہے۔ اگر ہم ناول لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ افواہ نہیں پھیلانی چاہیے کہ وقت کی ضرورت مائیکروف/افسانچہ ہے۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق جو لکھنا چاہتے ہیں وہ لکھیے۔ ضد مت کیجیے کہ اب یہی چلے گا۔


مائیکروف/افسانچہ
تجربہ :
تجربہ کرنے کے لیے تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔
ادب میں کئی زبانوں پر دسترس اور کئی زبانوں کے ادب کے مطالعہ کے ساتھ ہی بیک وقت کئی علوم سے گہری واقفیت ہونے سے جب طبیعت پر یکسانیت کا احساس غالب ہونے لگتا ہے تو آدمی تجربات کی طرف منعطف ہوتا ہے اور اسی صورت میں تجربات سے نیک خواہشات کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ (ویسے تجربے کے لیے ہر کوئی آزاد ہے۔ )
تجربے کے اسباب و علل اور دلیل کا ہونا لازمی ہے۔ اگر ایک فرد "ب" لکھنا سیکھتے ہوئے "ت" لکھ دے تو شکل کے اعتبار سے اسے نیا تجربہ ہوگا لیکن وہ یہ کہے کہ یہ بھی "ب" ہی ہے۔ میں نے نیچے کی بجائے اوپر دو نقطے دے دے ہیں۔ اب اسے کوئی سمجھائے کہ یہ "ت" ہے اور وہ سمجھ لے تو ٹھیک ہے۔ اگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہے تو اس کے اپنے نظریے کے مطابق "ب" کی نئی شکل (ت) سے نئے پن کا احساس ضرور ہوگا تاہم وہ اس نئی چیز کے صحیح نام اور وصف کو بیان کرنے سے قاصر ہوگا ساتھ ہی جب "ت" سیکھنے کے عمل سے گذرے گا تو اس کا بھی انکار کردے گا کہ یہ تو میری بنائی ہوئی "ب" کی نئی شکل ہے۔
اسی طرح ایک فرد "ج" تک حروف تہجی سے واقف ہے اور "ل" کی شکل اس کے ذہن میں آئے۔ پھر وہ لام بنائے اور اسے "ق" نام دے دے تو یہ بھی تجربہ نہیں ہوسکتا کہ اس نے غور تو کیا لیکن وہ جسے نیا سمجھ رہا ہے وہ حرف پہلے سے اپنے نام کے ساتھ موجود ہے۔ اب "ل" کو "ق" منوانے پر "ق" کا عقدہ بھی کھل جائے۔ پھر وہ "ل" کی لکیر یا قوس میں کچھ ترمیم بھی کر لے تب بھی "ل" کی شناخت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اب جب تک وہ "ج" سے "ل" تک حروف کو ترتیب سے سمجھ نہیں لیتا اور مختلف الفاظ میں "ل" کے استعمال سے مطمئن نہیں ہوجاتا تب تک اس کے لیے "ل" کا مسئلہ بنا رہے گا اور وہ یہی سمجھے گا کہ دنیا والے ہر نئی چیز مخالفت کرتے ہیں۔ ـ
تیسری مثال یوں ہے کہ۔ ۔ ایک فرد تمام حروف تہجی ، ان کی مختلف شکلیں ، ان کا الفاظ میں استعمال اور ان کے جیسی آواز والے دوسری زبان کے حروف سے واقف ہے اور اس کے ذہن میں خیال آئے کہ چار نقطے والا کوئی حرف ہو تو اس کی شکل کا تعین اور اس کا استعمال کیا ہو سکتا ہے۔ پھر وہ حرف لکھ کر ایسا نام گھڑے جس میں اس حرف کا استعمال کیا جاسکے اور پھر وہ یہ ضد نا کرے کہ اسے مان ہی لیا جائے۔ کیوں کہ تجربات کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ تب یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تجربہ کیا گیا ہے۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی تجربہ :
ادب میں انھیں شخصیات کے تجربے قابل اعتنا ہوتے ہیں جو اپنی قابلیت اور اپنی تحریروں سے خود کو منوا چکے ہوں۔ جو پہلے سے موجود ادبی ورثے پر ٹھوس رائے رکھتے ہوں۔ جن کا نظریہ واضح ہو۔ جن کی قابل ذکر ادبی خدمات ہوں۔
اب ایسی بہت سی شخصیات کا حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے جو کم عمری میں تجربہ کر کے گذر گئے یا بہت کم ادبی سرمایہ ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ ان کے تجربات کا فیصلہ وقت نے کیا ہے نا کہ انھوں نے خود ہی بار بار اعلان کیا تھا ہم کامیاب ہوگئے/ مان لیے گئے اور وہ زندہ رہتے ہوئے کسی نا کسی سطح پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ اس لیے مائیکروفین سے گذارش ہے کہ اپنی تاویلات سے زیادہ تخلیقات سے قائل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ اکثر ایسے شعرا و ادبا کا سامنا ہوتا رہتا ہے جو اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے دنیا جہان کے اصول و ضوابط بتاتے ہیں لیکن ان کی تخیلقات ان کی اپنی باتوں پر کھری نہیں اترتیں۔ وہ اس لیے کہ کسی چیز کا علم اور اس کا درک دو الگ چیزیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مائیکروفین :
مائیکروف سے متعلق ایک طرف تجربہ تجربہ کیا جانا چاہیے ، تجربہ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف قبول کرلیا گیا / مان لیا گیا بھی کیا جارہا ہے۔ بیان کے اس تضاد کی وجہ ، تیز رفتار زندگی کے سبب مزاج میں در آئی جلدبازی ہے۔ مائیکروف کی فضیلت میں جس طرح ادب سے کم وقت میں زیادہ لطف اندوز ہونے پر زور دیا گیا ہے ویسی ہی عجلت اسے منوانے میں مائیکروفین بھی کررہے ہیں۔
میرے نزدیک مائیکروف کے لیے سرگرم ادبا دوسری قسم کے افراد کا گروہ ہے۔ مائیکروف کی تعریف میں جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ کہیں سے بھی طرح نیا نہیں ہے۔ ناہی اس کے خدوخال ظاہر کرنے میں معاون ہے۔ (اس پر آگے بات کی جائے گی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ جیلانی صاحبہ کہتی ہیں۔ ۔۔
اگر ماضی میں جھانکا جائے تو معلوم ہو گا کہ ماقبل تاریخ سب سے مشھور یونانی قصہ گو
AESOP
یعنی حکیم لقمان کی مختصر کہانیاں ہیں جن میں ہمیشہ ایک سبق چھپا ہوتا تھا ننھی منی کہانیوں کا یہ سلسلہ ملا نصیر الدین کے قصوں میں بھی جاری دکھائی دیتا ہے اور یہی نہیں ہندوستان میں گوتم بدھ کے قصوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب
JATAKA
ٹیلز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں جرمن افسانہ نگار فرانز کافکا کی مختصر کہانیوں کو جدید ادب میں فلیش فکشن کی صنف کی بنیاد کہا جاتا ہے - جبکہ بیسویں صدی کے وسط میں انگریزی میں مشہور مصنف سمر سیٹ مام کا نام بھی اس زمرے میں آتا ہے جب ١٩٣٦ میں ان کی مختصر مختصر کہانیوں کا مجموعہ سامنے آیا - جاپان میں بھی دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فلیش فکشن کی تحریک نے کافی زور پکڑا اور کئی مشھور ادیبوں نے اس میں طبع آزمائی کی -
حالیہ دور کے اکثر مغربی ادیبوں نے جن میں ٢٠١٣ کی بکر پرائز یافتہ ادیب لیڈیا ڈیوس جو چالیس سال سے مختصر افسانے لکھ رہی ہیں جو مائیکرو فکشن لکھی وہ ایک پیراگراف پر مشتمل ہے۔
.................... ان کہانیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو جدید اردو ادب میں منٹو کے سیاہ حاشیے جنھیں افسانچے کہا جاتا ہے در اصل اسی فلیش فکشن کی صنف سے ہی متعلق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج بالا حوالوں کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مائیکروف/فلیش فکشن/افسانچہ وغیرہ قطعی نیا تجربہ نہیں ہے۔ یہ تمام چیزیں کسی نا کسی شکل میں عرصہ سے موجود ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تجربہ آج کیا جارہا ہے تو منٹو اور جدیدیوں نے کیا کیا تھا۔ آخر کس قدر مختلف ہے ان کی تحریریں۔ اسے تجربہ تو بہرحال نہیں کہہ سکتے۔
ہاں ....... مائیکروفکشن کی کوشش جدیدادب/تجرید/ابہام کی بازیافت ہوسکتی ہے۔
شاید اس سے پہلے ادبا کے نزدیک نیا نام دینے سے زیادہ نئی تخلیق کی اہمیت تھی۔


مائیکروف/افسانچہ
ایونٹ :
افسانچہ نام مناسب ہے۔ بہتر ہے کہ سادہ بیانیہ / تجریدی / علامتی جیسے افسانچے ، جس لکھاری کے پاس ہیں وہ پیش کریں۔ جسے جس تحریر کو جو سمجھنا ہے سجمھے اور اسی مناسبت سے تبصرہ بھی کرے لیکن یہ ضد نا کرے کہ اس نے جیسا سمجھا ہے ہر کوئی ویسا ہی قبول کرے۔ اس طرح ایک دوسرے سے خیالات اور تبصروں سے ممکن ہے نئی باتیں سامنے آئیں۔ ایونٹ کے لیے نیک خوہشات


Post a Comment

0 Comments