اکولہ میں ادبِ اطفال پر ایک سیمینار تھا۔ مہاراشٹر بھر سے بچوں کے ادیب شریک تھے۔ میں اپنے دوست جواد حسین کے ساتھ موجود تھا۔ پہلے سیشن کے بعد درمیانی وقفے میں ملاقاتوں کا دور جاری تھا۔ گل بوٹے کے مدیر فاروق سید اور حامداقبال صدیقی کے ہمراہ ایک متناسب جسامت اور گندمی رنگ کے شخص ہمارے سامنے آئے۔ علیک سلیک ہوئی۔ فاروق سید صاحب نے تعارف کر ایا کہ یہ خان نوید الحق صاحب ہیں ، بال بھارتی میں اردو افسر ہیں۔ ادھر جواد بھائی نے میرا تعارف کراتے ہوئے قدرے مبالغے سے کام لیا پھر اس پر مستزاد یہ کہ اپنا تعارف اساتذہ تنظیم کے صدر کی حیثیت سے کرایا۔ یہ سنتے ہی خان صاحب اکھڑ گئے۔ اساتذہ تنظیم اور اس کے ذمہ دار ران کو خوب کھری کھوٹی سنائی۔ اب میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے ممبئی پونہ میں کئی توپیں دیکھی ہیں۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ اس طرح پہلی ملاقات ہی بد مزگی پر ختم ہوئی اور اس کا کوئی اچھا تاثر میرے دل و دماغ پر قائم نہ ہوا۔
رات میں کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو ادھر سے آواز آئی۔ '' السلام علیکم محترم !میں خان نوید الحق بول رہا ہوں۔ دن میں آپ سے ملاقات رہی۔ اکولہ کی گرمی نے مزاج کی شدت کو دو آتشہ بنا دیا۔ جواد صاحب کی لیڈری نے اسی میں مزید تلخی پیدا کی۔ میں حد درجہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے سامنے تلخ گفتگو کی نوبت آئی۔ رات میں کھا نے پر ڈاکٹر یحییٰ نشیط صاحب سے گفتگو ہوئی۔ آپ کا ذکر ِ خیر ہوا۔ انھو ں نے نہایت تحسین آمیز الفاظ میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بال بھارتی کے لیے کام کے آدمی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں پونہ پہنچتے ہی ورک شاپ کا دعوت نامہ ارسال کرتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ضرور بہ ضرور تشریف لائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ''یہ تھی خان صاحب سے خاکسار کی پہلی ملاقات کی روداد۔ ورنہ ان کے نام اور کام سے یک طرفہ آشنائی تو ایک عرصہ سے تھی۔
خان نوید الحق کے آباد و اجداد کا تعلق بھلے ہی برار سے ہو لیکن ان کی پیدائش ریاست مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں ہوئی۔ زندگی کا بیشتر حصہ عروس البلاد میں گزرا۔ اس طرح وہ مکمل طور پر 'بمبیاّ' ہیں۔ ان کے والد خان انعام الحق مرحوم رائل نیوی کی ملازمت ترک کرکے سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اس دوران انھوں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور کئی بار جیل بھی گئے تھے۔ نوید صاحب کی تعلیم ممبئی میں ہوئی۔ ننھیال کے لوگ اور دوست و احباب تحریک اسلامی سے وابستہ تھے۔ اس لیے وہ بھی عین جوانی ہی سے طلبہ تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ جوانی میں مولانا مودودی کے افکار و نظریات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آج سلفیت کے باوجود مولانا کے نظریات کو اسی عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے تلاشِ معاش کے سلسلے میں ممبئی سے پونہ کا رخ کیا۔ انھیں پونہ کا خوبصورت تعلیمی شہر اس قدرراس آیا کہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہ یکم؍ اگست ۱۹۹۱ء سے درسی کتابوں کی تدوین کرنے والے ریاستی ادارے بال بھارتی میں اردو افسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اب تک اپنی عمر عزیز کے تقریباََتیس برس کتابوں کی ترتیب وتدوین میں گزار چکے ہیں۔ ان تیس برسوں میں انھیں ریاست بھر کے اہل علم و نظر ‘ اہل زبان اور نمائندہ ادیبوں اور شاعروں کی ہم جلیسی ‘ ہم کلامی اور صحبتیں حاصل رہی ہیں۔ خان صاحب نے ان ادیبوں کی صحبتوں سے اپنے آپ کو اس حد تک آراستہ کرلیا ہے کہ آج زبان و ادب کے سلسلے میں ان کی تحریر و تقریر اور تجربات کو ریاست بھر کے تعلیمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
خانصاحب کی شخصیت کا پہلا تاثر جس سے ان کا ہر ملاقاتی دو چار ہوتا ہے وہ ان کی سخت مزاجی ہے۔ راست بازی‘ بے ریائی اور غیر مصلحتی کی ٹھیٹ اور پٹھانی روایت ‘ ممبئی کی زندگی ‘ مسلسل کام کا دباؤ اور اس پر مستزاد سلفیت نے ان کے مزاج کو دو آتشہ سے سہ آتشہ بنادیا۔ لہٰذا وہ مصلحت کے کبھی جویا نہیں ہوتے یہاں تک کہ بعض موقعوں پر حکمت سے بھی صرف نظر کر لیتے ہیں۔ دراصل حق گوئی اور راست بازی کی دیرینہ کیفیت ان پر اس قدر طاری ہوتی ہے کہ دل کی بات فوراََ زبان پر آجاتی ہے۔ پھر وہ اس کے اظہار میں پس و پیش نہیں کرتے نتیجتاََ بعض احباب جو ان کے مزاج سے واقف نہیں ہوتے ان کے ساتھ باتوں باتوں ہی میں اچھے خاصے معرکے اورمچیٹے ہو جاتے ہیں۔ دوسرے اگر سامنے والے کا مزاج شعلہ ہوتا ہے تو یہ جوالا مکھی بن جاتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سخت مزاجی بہت دیر تک قائم نہیں رہتی بلکہ تھوڑی سی بدمزگی اور تلخی کے بعد اسی شخص سے کچھ دیر میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرنے لگتے ہیں۔ اب خانصاحب یاروں کے یار ‘ دوستوں کے ہمدرد اور بے غرض دوست نظر آتے ہیں اور دراصل یہی ان کی شخصیت کا اصل جوہر ہے۔
خان نوید الحق کی شخصیت کی اہم خوبی ان کی راست فکری ہے۔ وہ فکری طور پر بے حد مضبوط ہیں اور اپنے مخاطب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔ درسی کتابوں کی ترتیب و تدوین سے لے کر زندگی کے معمولات تک وہ ہر جگہ صحیح العقیدگی چاہتے ہیں۔ کتابوں کی تدوین کے سلسلے میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب مضامین ‘ موضوعات اور مواد میں کوئی پہلو تشنہ ہوتا ہے تو کہیں راست عقیدے پر ضرب پڑتی ہے۔ ان موقعوں پر خانصاحب کے اندر موجود راسخ ا لعقیدہ مسلمان مکمل طور پر جاگ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میرے سامنے کس حیثیت کا شخص ہے۔ اب وہ مشرکانہ عقائد سے لے کر غلو تک کے ایک ایک جزیے پر سخت احتساب کرتے ہیں اور بالآخر متعلقہ مواد کو کسی بھی قسم کی فکری کجی کے شائبے تک سے پاک کر کے راست توحید و سنت تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ اس طرح ریاست بھر کے طلبہ کے سامنے جو مواد جاتا ہے وہ نہ صرف زبان و بیان کے لحاظ سے معیاری ہوتا ہے بلکہ فکر و عقیدے کے لحاظ سے بھی صحیح ہوتا ہے۔
خانصاحب ایک کثیر المطالعہ شخص ہیں۔ قرآن ‘ حدیث ‘ ادب ‘ زبان‘ شعر اور اسلامیات جیسے شعبہ ہائے علم پر ان کا مطالعہ غیر معمولی وسیع ہے۔ مذہب سے انھیں گہرا شغف ہے۔ نوجوانی میں طلبہ تحریک سے وابستگی نے اسلامیات کے مطالعے کاموقع عنایت کیا۔ پھر سلفیت سے تعلق نے ذوقِ مطالعہ میں اختصاص پیدا کیا۔ ادھر بال بھارتی جوائن کرنے کے بعد شعر و ادب اور درسیات کا مطالعہ ضرورت بن گیا۔ اس طرح کثرت مطالعہ نے ان میں فکر و نظر کی وسعت پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان تمام علوم پر بیک وقت گفتگو کر سکتے ہیں۔
خان صاحب کا حافظہ بہت قوی ہے۔ نو عمری سے اب تک انھوں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ سب مستحضر ہے۔ آج بھی کسی کتاب کا ذکر نکل جائے تو وہ اس کی جزئیات اور ابواب تک پر تفصیلی گفتگو کر سکتے ہیں۔ درسیات پر تو ان کی اتنی گہری نظر ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں کس ادیب کی کونسی تحریر کس سال اور کس درجے کی درسی کتاب میں شامل تھی‘ یہ تمام باتیں انھیں ازبر ہیں۔ اس کے لیے نہ تو انھیں فائلیں دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ کسی رفیق سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان کا یہ اعتماد ا س بات کا بین ثبوت ہے کہ انھیں اپنے کام پر کس قدر دسترس حاصل ہے۔
نوید صاحب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ انھیں ہر دور میں اپنے وقت کے قابل اساتذہ اور اہل علم کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملے۔ اس کا فائدہ نہ صرف اردو محکمے کو ہوا بلکہ خود ان کی ذات بھی اس سے مستفیض ہوئی۔ انھوں نے اہل علم و فن کے تجربات کو نہایت خوش اسلوبی سے اپنے اندر سمویا ‘ ذاتی دلچسپی اور مکمل توجہ سے اہل نظر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا‘ یہاں تک کہ تیس سالہ مدت میں خود ان کا دامن علم و ہنر کے رنگا رنگ موتیوں سے بھر گیا۔ آج حال یہ ہے کہ چاہے شعر و ادب ہو‘ زبان و املا ہو یا درسیات کا کوئی موضوع ‘ خانصاحب کو اچھے برے کی تمیز حاصل ہو گئی ہے۔ اب اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں وہ فوراََ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کونسا موضوع ریاست بھر کے طلبہ کے لیے مفید ہے اورکونسی بات طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میں ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہے۔
خان بابا ‘صاحب ِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ عزیمت بھی ہیں۔ بال بھارتی میں اردو کے کاز کے لیے وہ ہمیشہ سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ جہاں کہیں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت یا انتظامیہ کے اس فیصلے سے اردو زبان اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا درسی کتاب کا کوئی حصہ امت میں انتشارکا باعث بن سکتا ہے ‘ وہ اس کی مخالفت کے لیے پوری قوت سے ڈٹ جاتے ہیں۔ اب مخاطب کوئی بھی ہو ‘ وہ حق بات کہنے ‘ ممکنہ غلطی پر گرفت کرنے اور اپنے موقف کا برملا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہاں تک کہ بعض معاملات میں ان کی وزراء اور اپنے محکمے کے ڈائرکٹر تک سے دو ٹوک ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ان کا جذبۂ حق قابل دید ہوتا ہے۔ غیر اللہ سے ڈرنا ‘ مرعوب ہونا‘ مصلحت آ میز انداز اختیار کرنا‘ جیسی باتوں کی انھیں ہوا بھی نہیں لگی ہے۔ وہ حق کا دفاع ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں اور کبھی اس کے عواقب کی پروا نہیں کرتے۔
خان صاحب اپنی ذمہ داریوں کے تئیں حد درجہ حساس ہیں۔ اردو ‘ فارسی اور عربی تین زبانوں کی درسی کتابوں کی ترتیب و تدوین کی مکمل ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وقتاََ فوقتاََ دیگر زبانوں کے کام بھی انھیں دیکھنے پڑتے ہیں۔ پھر ان کے لیے کوئی معاون یا اسسٹنٹ بھی نہیں ہے۔ اس پر درجنوں دفتری سرکلرز اور پالیسی معاملات ! ان کے ذمے کاموں کا تسلسل کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ بلا مبالغہ تین چار لوگوں کاکام انھیں تن تنہا انجام دینا پڑتا ہے۔ اتنے سارے کام نمٹانے کے لیے انھوں نے ذھنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر رکھا ہے۔ ان کے آفس آنے کا وقت تو صبح دس بجے ہے لیکن گھر جانے کا کوئی وقت متعین نہیں۔ خاکسار نے انھیں رات کے دس بجے تک آفس میں کام کرتے دیکھا ہے۔ جن دنوں کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے، خان صاحب مسودات اور فائلیں گھر لے جا کر رات کے دو بجے تک کام کرتے ہیں۔ بال بھارتی کے تمام افسران ان کی جانفشانی سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام زبانوں کے درجنوں افسران اور سیکڑوں ملازمین میں اکیلے مسلم ہونے کے باوجود اپنے کام کے باعث پورے ادارے میں ان کی دھاک قائم ہے اور بعض اوقات ان کی تلخ باتوں کو ڈائرکٹر درجے کے آفیسرتک گوارا کر لیتے ہیں۔
خان نوید الحق میں کام کرنے کی قابل رشک سکت ( stamina )پائی جاتی ہے۔ درسی کتاب کا مسودہ فائنل ہو جانے کے بعد اس کے اسباق اور مشمولات کی کم سے کم تین بار بلند خوانی کرنی پڑتی ہے۔ میرے جیسا شخص تو دو اسباق کی بلند خوانی کے بعد ہانپنے لگتا ہے اور عذرخواہی پر اتر آتا ہے لیکن خانصاحب گھنٹوں بلند خوانی کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ پوری کتاب کی تن تنہا بلند خوانی کرکے بھی تازہ دم نظر آتے ہیں۔ یہ بات ہم سب اراکین کے لیے واقعی تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ اتنی ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بعد وہ کس قدر ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہیں۔ یہی نہیں ‘ بلند خوانی کے دوران عبارت کے مندرجات‘ زبان و بیان ‘الفاظ کے در و بست اور ان کے معنی ومفہوم پر بھی ان کی اسی قدر گہری نظر ہوتی ہے۔
نوید صاحب وسیع الاطراف شخص ہیں۔ ان کے احباب کا حلقہ نہایت وسیع ہے۔ ریاست بھر کے اساتذہ اور اہل علم کا سال بھر بال بھارتی آنا جانا رہتا ہے اس لیے یہ تمام لوگ بھی ان کے ربط میں رہتے ہیں۔ بال بھارتی میں آنے والا چاہے نوجوان ہو‘ادھیڑعمر ہو یا معمر ‘ موصوف ہر شخص کے مزاج اور اس کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ شخص بھی خان صاحب کے مزاج اور معمولات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ خانصاحب سوشل میڈیا کے بھی مرد میداں ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے توسط سے بھی مختلف فکر و مزاج کے لوگوں سے ان کا مسلسل ربط بنا رہتا ہے۔ دفتر میں مسلسل دس‘ بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی وہ تکان محسوس نہیں کرتے اور دیر رات تک سوشل میڈیا پر مصروف ہوتے ہیں۔ پھر علی الصبح انھیں آن لائن پایا جاتا ہے!! ان کے یہ معمولات دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف بے خوابی کے مریض ہیں۔ گزشتہ دنوں احباب کے درمیان نیند کے گھنٹوں کو لے کر بحث ہوئی تو خان صاحب کو چار گھنٹے نیند کا موید پایا گیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ایک تندرست جسم کے لیے تین چار گھنٹے نیند کافی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی صراحت بھی کی کہ دنیا بھر میں جن لوگوں نے بڑے کام انجام دیے ہیں ان کا چار گھنٹے سے زیادہ سونے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ ادھر میرا یہ حال ہے کہ اگر چھ سات گھنٹے نیند پوری نہ ہو تو دوسرے دن طبیعت بوجھل رہتی ہے۔ ایک مرتبہ میری یہ کیفیت دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر آپ اپنی نیند کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو شرابیوں سے یہ توقع کیوں رکھتے ہو کہ وہ اپنی دیرینہ عادت چھوڑ دیں۔
خانصاحب اپنی سلفیت کے باوجود زندہ دل انسان ہیں۔ انھوں نے بڑی شگفتہ اور باغ
و بہار طبیعت پائی ہے۔ بہت جلد ہر کسی سے بے تکلف ہو جاتے ہیں۔ اپنے دوستوں اور ہمیشہ کے ملنے والوں سے کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔ یہاں ان کی خوش طبعی اور شوخی اپنے جلوے دکھاتی ہے۔ بے تکلف دوستوں کی محفل میں لطیفوں اور چٹکلیوں کی خوب خوب پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں۔ ایسے اجتماعات میں انھیں احباب کو چھیڑنے میں خوب لطف آتا ہے۔ ان موقعوں پر وہ تکلف اور سنجیدگی کی بساط مکمل طور پر تہہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو اشارے اور کنایے کا بھی موقع نہیں رہنے دیتے۔
خان نوید الحق کی ایک اہم خوبی ان کی بر جستگی ہے۔ وہ ہمہ وقت مکالمے کے لیے ذھنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ بات میں بات پیدا کرنے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ سوشل سائٹس پر کوئی قسمت کا مارا غلطی سے انھیں چھیڑ دیتا ہے تو گویا اس کی شامت آجاتی ہے۔ اب خان صاحب اسے نہیں چھوڑتے بلکہ اسے گھر پہنچا کے آتے ہیں یا پھر وہ بر سرِ بزم معذرت طلب کر لیتا ہے۔ انھیں بلا مبالغہ ہزاروں اشعار یاد ہیں۔ سوشل میڈیا پر معرکوں کے درمیان اپنے مد ِ مقابل کو زیر کرنے کے لیے خان صاحب ان اشعار کا بھر پور اور بر محل استعمال کرتے ہیں۔
خان نوید الحق کے دل میں اس خاک نشین کے لیے جو محبت‘ ہمدردی اور گنجائش ہے وہ عین ممکن ہے کم لوگوں کے لیے ہو۔ موصوف میرے ساتھ ہمیشہ عزت و تکریم کا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ چاہے لسانی کمیٹی کی میٹنگ ہو یا دوست و احباب کی نجی محفل، موصوف خاکسار کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو میرے لیے کھول دیا ہے اس لیے میری بات ‘تجاویز اور نظریات میں انھیں خیر ہی خیر نظر آتا ہے۔
خان صاحب خوش پوشاک اور خوش خوراک ہیں۔ وہ کھانے اور کپڑوں کے معاملے میں شاہ خرچ واقع ہوئے ہیں۔ راقم الحروف کو ان کے ساتھ متعدد بار کھانا کھانے کا موقع ملا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر نے انھیں گوشت کھانے سے منع کر رکھا ہے لیکن وہ اپنے معمولات میں اپنے معالج کے مشورے کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ موصوف نہایت کشادہ دست ہیں اس لیے خود آگے بڑھ کر کھانے کا بل ادا کرتے ہیں۔ میں نے کئی بار کوشش کی تو مجھے ڈاکٹر عصمت جاوید کا حوالہ دے کر روک دیا۔ ایک مرتبہ عصمت صاحب اور خانصاحب ٹیکسی سے سفر کر رہے تھے۔ منزل آنے پر خانصاحب نے کرایہ ادا کرنے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ عصمت جاویدصاحب گویا ہوئے۔ ''میاں ! کیا ہم اس قدر جلد اپنی تہذیب بھول گئے کہ بڑوں کی موجودگی میں چھوٹے خرچ کرنے لگیں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ''خان صاحب نے یہ بات گرہ میں باندھ لی اور میرے ساتھ ہمیشہ بڑے ہونے کا معاملہ کرتے ہیں۔ خاکسار کو ان کے ساتھ کئی بار سفر کا موقع ملا اور ہر بار میرا ہاتھ جیب سے خالی ہی لوٹتا رہا ہے۔ اس موقع پر ایک دلچسپ سفر کا ذکر کیے بغیر رہوارِ قلم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ۔ ۔ ایک بار ہم کتابوں کی خریدی کے لیے اردو کتاب میلہ شولاپور گئے۔ وہاں احباب نے بہترین ہوٹل میں ضیافت کا اہتمام کیا۔ کھانے کی میز پر مختلف پکوان موجود تھے لیکن سب میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھی مرچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر سالن میں مرچوں کی وہ کثرت کہ میں تلملا کے رہ گیا۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں نمو دار ہوگئیں اور زبان سے سی سی کی آوازیں آنے لگیں۔ خان صاحب میری اس کیفیت کو دیکھ کر پہلے تو خوب لطف لیتے رہے پھر میرے لیے میٹھے کا اھتمام کیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے بر جستہ کہا کہ آج سے یہ شہر میرے لیے 'شعلہ پور ' ہے۔ رات میں کھانے پر احباب نے شہر سے دور ایک ہوٹل پر نظم کروایا۔ اب جو سامنے ڈش آئی تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پوچھنے پر پتاچلا کہ یہاں کی مشہور ڈش بکرے کی جگری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم دونوں حیرت زدہ رہ گئے اور ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ پھر خانصاحب نے میرے لیے متبادل ڈش کا نظم کیا۔
خان صاحب سیر سپاٹے کے بہت شوقین ہیں۔ ان کا ذوقِ سفر اپنی اہلیہ عارفہ خان کے توسط سے پروان چڑھا ہے۔ دونوں ہندوستان بھر کے تاریخی و تفریحی مقامات کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ملک گھوم آئے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی نہایت مطمئن اور ازدواجی تعلقات قابلِ رشک ہیں۔ زوجین کے مزاج ‘ پسند ‘ نشست و برخاست اور معمولات میں اس قدر ہم آہنگی ہے کہ اسے مثالی جوڑی کہا جاسکتا ہے۔ دونوں خوش پوشاک ‘ کشادہ دست‘ سیر چشم اور مخیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ بھی اس قدر گھل مل جاتے ہیں کہ ان کے دلوں پر اپنائیت کا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ دو مرتبہ غریب خانے پر تشریف لا کر میرے گھر کو رونق بخشی اور میری عزت افزائی فرمائی۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ نے سنگترے کے باغات دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور خانصاحب بذریعہ کار غریب خانے پر تشریف لائے۔ ان کا یہ سفر نہایت خوش گوار رہا۔ ادھر میرے احباب نے خانصاحب کے لیے سیر سپاٹے اور تفریحات کا بہترین نظم کیا۔ تین چار دن قدرتی مناظر کی سیر اور احباب کے ساتھ خوش فعلیوں اور خوش گپیوں میں کس طرح گزرے پتا بھی نہ چلا۔ خان صاحب احباب کے مخلصانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ان کی آفس کلرک نمیتا بنسوڑ بھی تھی۔ نمیتاکو موصوف نے بیٹی بنارکھا ہے۔ اب وہ اور ان کی اہلیہ اس کے ساتھ حقیقی بیٹی جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ نمیتا مشرف بہ اسلام ہو کر ان کے لیے ذخیرہ آخرت ثابت ہو۔ ادھر نمیتا بھی بے حد مہذب‘ مودب اور مخلص ہے۔ وہ دونوں کو اپنے حقیقی والدین کی طرح چاھتی ہے اور ان کی دوائی سے لے کر کپڑوں تک کا خیال رکھتی ہے۔ یہ تمام لوگ اس سفر میں میرے اہل خانہ کے ساتھ اس قدر گھل مل گئے تھے کہ جاتے وقت سب لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر دیر تک روتے رہے اور پھر دو دن تک میرے بچوں کا روتے روتے برا حال ہو گیا۔ واقعی خلوص و محبت کے نقوش نہایت انمٹ ہوتے ہیں۔
٭٭٭
2 Comments
خان صاحب کی شخصیت اپنے آپ میں کئی دفتر لیے ہوئے ہیں۔ وہ علم و دانش میں اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و ادب کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہے۔ ان کے لہجے کی سختی میں بھی اصلاح پوشیدہ ہوتی ہے۔ کام میں نظم و ضبط ، سلیقہ مندی ، وقت کی پابندی ، باریک بینی ان کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر ناصر الدین انصار صاحب نے خان صاحب کی شخصیت کی حقیقی عکاسی کی ہے۔ اس
ReplyDeleteبہترین تخلیق کے لیے مبارک باد قبول فرمائیں جناب عالی ⚘⚘⚘
عمدہ تحریر۔
ReplyDelete