آہ۔۔۔۔حق صاحب بھی رخصت ہوئے۔۔۔
- اردو سیکھیں (ہندی سے اردو سیکھنے کا سب سے آسان طریقہ) 1995
- میرا بچہ اور میں ( ذہنی طور پر معذور بچوں کی تربیت سے متعلق کتابچہ) 1998
- نئی صبح (افسانچے کا پہلا مجموعہ) 2007
- نئی صبح :دوسرا ایڈیشن 2010
- بے چینی (ہندی میں لگھو کتھا) 2009
- ڈنک (افسانچے کا دوسرا مجموعہ) 2018
حق صاحب بھی رخصت ہوئے۔
حق مغفرت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
حق صاحب افسانچہ کے عاشقوں میں سے تھے۔
بزم افسانہ میں بھی سرگرم رہے۔
افسانچے کے سب سے بڑے وکیل تھے۔میں میرا روڈ میں تھا تب وہاں دو بار ان سے ملاقات ہوئی ۔وہاں ان کے کوئی عزیز رہتے تھے۔ اپنے مزاج کے منفرد شخص تھے۔
اللہ مغفرت کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
✍️ سلام بن رزاق
واصل بحق ہوئے ایم اے حق
ان کے داخل دواخانہ کی خبر آئی تھی، ابھی تو لبوں پر ان کی صحت یابی کی دعائیں تھیں، لیکن،،، اب مغفرت کی دعائیں ہیں،
اپنے نام کی طرح، حق گو، حق بیاں، حق پرست، حق شناس، ایک مخلص انسان، اونچی اڑان، بھر گیا،
انا للہ وانا الیہ راجعون
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین،
شریک غم
✍️ خیال انصاری
ایک مخلص انسان مخلص دوست سادہ لوح شخصیت داغ مفارقت دے گئی۔
ادب کے بے لوث شیدایوں میں سے ایک اور ہم سے بچھڑ گیا۔
میں نے اپنا ایک اور مخلص دوست کھو دیا۔
اللہ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
✍️ ایم۔ مبین
معروف افسانچہ نگار اور افسانچۂ اطفال جیسی صنف کے موجد کہلانے والے، نہایت خلیق اور ملنسار شخصیت ایم اے حق داغ مفارقت دے گۓ اللہ عزوجل ان کی مغفرت فرماۓ اور متعلقین کو سطر جمیل عطا کرے۔مرحوم سے میرے دیرینہ مراسم تھے مرحوم احمد کلیم صاحب کے ساتھ ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، پھر عالمی انوار تخلیق جاری کیا، اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے رسالہ کے ذریعہ اردو ٹاور طلباء کے انٹرویو، کہانی ہے ادھوری۔۔۔ کیجیے پوری جیسی اسکیموں کے ذریعہ ذوق مطالعہ کو پروان چڑھایا۔
حال ہی میں افسانچۂ اطفال پر مبنی کتاب "اڑان" کا اجرا ہوا مجھے بھی کتاب بھجوائی اس کتاب میں خاندیس سے مرحوم احمد کلیم فیض پوری، حاجی انصار احمد اور راقم کی اراء شامل ہیں۔
طویل گفتگو اور مراسلت ان سے ہوا کرتی تھی اپنی بات، راۓ کھل کر ،بے باکی سے اور مخلصانہ انداز میں رکھتے تھے۔
ایم اے حق کے جانے سے یقیناً ادب اور افسانچے کی دنیا میں ان کی کمی محسوس کی جاۓ گی۔
ہم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ امین۔
✍️ رحیم رضا
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں بلند درجات عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔
افسانچے کے فروغ میں ان کی غیر معمولی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ بزم افسانہ کی تشکیل کے بعد پہلے ایونٹ میں بڑے فعال رہا کرتے تھے اور اپنے تبصروں سے نوازا کرتے تھے۔ میرے افسانے "تحفہ" کا بھی تفصیلی تجزیہ کیا تھا۔ افسانچوں کی ایک آن لائن نشست میں بھی ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا تھا۔ کیا پتہ تھا کہ یہ سفر اتنا مختصر رہے گا۔ اردو ادب مسلسل خسارے سے دوچار ہے۔ اللہ تعالی رحم فرمائے اور بہترین نعم البدل عطا کرے۔
✍️رخسانہ نازنین
اللہ تعالیٰ جوار رحمت میں جگہ عطا فرما کر جنت الفردوس کے اعلی مقام سے نوازے، ان کی آخری منازل آسان فرمائے ساتھ سوگواران کو صبرجمیل عطا فرمائے ۔آمین۔
اس مسافر خانے سے یکے بعد دیگرے رخصت ہو رہے ہیں۔
مشیت ایزدی یہی ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے ہمارے درمیان تھے اور اب رخت سفر باندھ لیا۔
اللہ رحم فرمائے ۔آمین۔
✍️ فریدہ نثار انصاری
ایک مخلص انسان مخلص دوست سادہ لوح شخصیت داغِ مفارقت دے گئی۔
ادب کا بے لوث شیدائی افسانچے کے ٹھوس ستونوں میں سے ایک اور ہم سے بچھڑ گیا. اردو ادب میں حق صاحب کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے کبھی پر نہ ہوگا۔
میں نے اپنا ایک اور مخلص دوست کھو دیا۔
اللہ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
✍️ رونق جمال
ڈاکٹر ایم اے حق صاحب بھی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے رخصت ہو گئے. آپ افسانچہ و افسانہ نگار تو تھے ہی، تجزیاتی بصیرت بھی رکھتے تھے. جلگاوں، بھساول (خاندیش) سے آپ کے مراسم نکھرتے ہی رہے. حضرت احمد کلیم فیض پوری سے آپ کے تعلقات انتہائی قریبی تھے. جب جلگاوں تشریف لائے تو آپ کے ہاتھوں مطالعہ بیداری مہم کا آغاز کیا گیا. آپ صاف گو اور طلبہ کی رہنمائی کا جذبہ رکھنے والے درد مند انسان تھے. بہت کچھ مزید لکھا جا سکتا ہے. اللہ آپ کی قبر کو سدا منور رکھنا آمین ثم آمین یا رب العالمین
✍️ مشتاق کریمی
ایم اے حق.. آپ بھی چلے گئے...
آپ کا جانا میرا ذاتی نقصان ہے.. پچھلے مہینے تو آپ نے مجھے فون کیا تھا اور میرے شعر کی زبردست تعریف کی تھی اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ جب مجھے کوئی تخلیق پسند آتی ہے تو میں فون کر کے ذاتی طور پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہوں اب ایسے مخلص انسان کہاں ملیں گے..... افسانچہ نگاری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے جب جب افسانچہ نگاری پر گفتگو ہوگی آپ کا نام سر فہرست رہے گا... رسالہ انوار تخلیق آپ جس لگن سے شائع کرتے تھے وہ آپ ہی کا خاصہ ہے.... ہر اچھے لکھنے والوں کی شمولیت کی کوشش کرتے نئے لکھنے والوں کو موقع دیتے اور ان کی پزیرائی کرتے آپ ہی نے افسانچہ نگاری کے فن کی طرف مجھے بھی راغب کیا اور اپنے رسالے میں اہتمام سے میری تخلیقات شائع بھی کرتے رہے... افسانچہ اطفال کی شکل میں آپ نے اردو دنیا کو ایک نئی صنف سے روشناس کرایا جس کی عالمی سطح پر خوب پزیرائی ہو رہی ہے...آپ تو ابھی اونچی اڑان پر تھے پھر یہ اچانک زمیں کی طرف کیوں آ گئے..... آپ کا جانا فن افسانچہ نگاری کا بہت بڑا خسارہ ہے... دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
✍️ اصغر شمیم
افسانچہ نگاری کی دنیا کا ایک روشن ستارہ اوجھل ہو گیا۔
مرحوم انتہائی مخلص انسان تھے۔ انھوں نے خود دو بار مجھے فون کیا تھا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں بلند درجات سے نوازے۔ آمین
✍️محمد علی صدیقی
آہ ڈاکٹر ایم اے حق صاحب دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ حق صاحب ناندورہ آئے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ ناندورہ میں ادب کے ساتھ ساتھ خلوص بھی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ ناندورہ آئیں۔۔۔۔
✍️محمد علیم اسماعیل
مرحوم ایم اے حق..... ہم سب اُنہیں مُنّا ماما کہا کرتے تھے. انہوں نے ہی میری شاعری کو اپنے نظر سے پرکھا اور مجھے اِس پر محنت کی تلقین کی. یہاں تک کے شکیلؔ رشڑوی میں 'رشڑوی' بھی تخلص بھی مرحوم کا دیا ہوا ہے....
اُن کی طبیعت میں کافی سدھار آ چکی تھی پر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اُنہیں دوبارہ رانچی کے میدانتا ہسپتال میں داخل کروایا گیا.... آج صبح بڑے مامو (صلاح الدین انصاری) سے پتا چلا کہ اب وہ ہمارے بیچ نہیں رہے....
حق صاحب اُردو زبان و ادب کے لیے کوشاں تھے جس غرض سے انہوں نے "انوارِ تخلیق" نامی رسالہ بھی نکالا کرتے تھے (جس میں بطور شاعر مجھے چھپنے کا موقع ملا) جس میں انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک کے اُردو مجاہد کو بھی شامل کیا تھا..... یوں تو آج بہت سارے لوگ افسانچہ لکھتے ہیں مگر اِس کو ادبی پیمانہ پر مقبولیت دلانے میں ان کا بہت اہم رول ہے....
مرحوم کے جتنا کہوں کم ہے مانو آفتاب کو چراغ دکھانا....
ﷲ اُن کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے..... آمین یا رب العالمین
✍️شکیل رشڑوی
ایم اے حق صاحب مالیگاؤں سے ڈاکٹر نخشب مسعود مالیگاؤں انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر عزیز مالیگاؤں تشریف بھی لائے تھے نیز راقم ان کے پرچہ "انوارِ تخلیق" کا پرانا ممبر بھی تھا۔ مالیگاؤں سے ان کی ملاقات ہومیوپیتھی ڈاکٹر نخشب مسعود مالیگاؤں انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن سے کرائی تھی تب سے وہ نخشب مسعود کے رابطے میں تھے۔ وہ وبا کے دن ختم ہونے پر مالیگاؤں میں ایک پروگرام بھی کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی_____
✍️ احمد نعیم
دنیائے افسانچہ کا ایک درخشاں ستارہ ھمیشہ ھمیش کےلئے غروب ھوگیا....
ان کا اس طرح اچانک دنیا سے رخصت ہو جانا اردو افسانچے کا نقصان ِعظیم ہے...
انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن کے قیام 25 اگست 2014 کے ایک سال بعد آپ انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن کے چیف پیٹرون بنائے گئے. آپ اس بیچ کئی بار مالیگاؤں تشریف بھی لائے..وبا کے زور کے درمیان بھی آپ مالیگاؤں آنے ارادہ رکھتے تھے لیکن پریشر کی وجہ سے افراد ِ خانہ نے انھیں اجازت نہیں دی. آپ اپنے بچپن میں ایک بار اور مالیگاؤں آئے تھے. غلام محمد زیدی اور غلام صابر برادران سے ان کی قلمی دوستی تھی۔ غلام محمد زیدی اس زمانے میں بچوں کا رسالہ " بچوں کا ساتھی" * نکالتے تھے... میرے پڑوس میں ہی ان کا قیام تھا... آپ کو مالیگاؤں سے قلبی لگاؤ تھا۔ انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں شرکت فرماتے تھے۔ افسانچہ اور ادب اطفال سے ان کی اور میری مشترکہ دلچسپی رہی ہے۔
"اونچی اڑان" کا مالیگاؤں میں بھی اجراء کا پروگرام بنا تھا لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وجہ سے التواء کا شکار ہو گیا..مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ آپ اس قدر جلد دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ آپ افسانچے کےلئے ھمیشہ فعل رہے ہیں... آپ کے اس طرح آٹھ جانے سے افسانچہ کا نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی ممکن نہیں۔
اللہ تعالٰی آپ کی مغفرت فرمائے آمین اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے آمین اور آپ کے اہل واعیال کو سلامت رکھے نیز انھیں صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین
سوگوار غم
✍️ڈاکٹرنخشب مسعود
دعائے مغفرت
آج صبح فجر کی نماز کے بعد میں نے موبائل پر جیسے ہی واٹس ایپ میں بزم افسانہ پر نظر ڈالی تو علیم صاحب کی ایک اندوہناک خبر پر نظر پڑی کہ ایم اے حق صاحب کا انتقال ہوگیا۔ میرے منہ سے نکلا یا ﷲ خیر ﷲ رحم فرما۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افسانچہ کا ایک بہت بڑا نام بہت بڑا حامی اور افسانچہ کو عصر حاضر میں مستحکم کرنے اور اس کے لیے کوشاں رہنے والی شخصیت دنیائے فانی کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرکے چلی گئی۔ وہ اپنے ایکٹ کا مضبوط کردار تھا۔ جس کی تحریروں کی گونج دور تک جائے گی۔
ایم اے حق صاحب سے میری کبھی باالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی مگر موبائل پر متعدد ملاقاتیں رہیں، جن کا دورانیہ کبھی بھی آدھا پون گھنٹہ سے کم نہیں رہا۔ ایک صبح ساڑھے چھ بجے میرے موبائل کی رنگ ہوئی۔ دوسری طرف سے آواز آئی،
"السلام علیکم ارے کیا بھائی آپ سراج عظیم صاحب بول رہے۔۔۔"
"جی محترم بول رہا ہوں، آپ۔؟"
"ارے ہم ایم حق بول رہے ہیں بہار سے پہچان رہے ہیں۔"
"جی جی جناب والا افسانچہ کی دنیا کا بڑا نام"
"اچھا آپ جانتے ہیں ہم سمجھا کہ شاید آپ ہم کو نہیں نہ جانتے ہوں گے اس کا مطلب ہے آپ ادبی لوگوں کے بارے میں خبر گیری رکھتے۔ لیکن ہم کو یہ سمجھ نہیں آیا آپ ہم کو جانتے ہیں ہم آپ کو کیوں نہیں جانے۔ سمجھا۔ بزم افسانہ پے آپ کا شموئیل احمد کا افسانہ سنگھار دان پے آپ نے جو تبصرہ کئے ہیں نہ آپ تو ایک دم ہی سنگھار دان کو تہذیب بنا کے پیش کردئے ہیں ایسا شموئیل احمد بھی نہیں سوچے ہوں گے۔"
وہ مستقل نان اسٹاپ بول رہے تھے۔
"ہم سوچا ایسے آدمی کو فون کیا جائے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں نہ کیا نا۔"
"ارے نہیں صاحب یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے خاکسار کو اس قابل سمجھا۔ میں تو چھوٹا موٹا سا بچوں کا ادیب ہوں۔ میں رسالوں وغیرہ میں کم چھپتا ہوں۔"
"ارے بھائی بچوں کا ادیب تو اور بھی مشکل کام ہوتا ہے۔"
خیر کافی لمبی گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد ان کے فون آتے وہ بولتے رہتے میں سنتا رہتا۔ کئی گروپس پر ساتھ تھے۔ گلشن افسانچہ گروپ پر میری ان سے کچھ تلخی ہوگئی اور دو تین مہینہ ان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ والد صاحب کے انتقال پر ان کا پیغام اور فون آیا۔ میں نے ان سے شکریہ ادا کیا اور معذرت کی۔ ابھی ایک مہینہ پہلے میری ایک کہانی ٹیپو کی کہانی پڑھ کر ان کا فون آیا،
"ارے بھئی سراج صاحب ٹیپو کی کہانی میں آپ کی شرارتیں پڑھ کر مزہ آگیا۔ آپ کو مزاحیہ مضمون اور کہانیاں لکھنا چاہئے۔ آپ کو ایک مشورہ دیں آپ بچپن گروپ پر جتنے بڑے ادیب ہیں ان سب سے ان کی بچپن کی شرارتوں کے بارے میں لکھوائے اور اس کو کتابی شکل میں شائع کرائے یہ ادب اطفال میں ایک بڑا اور دستاویزی کام ہوگا۔ آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔"
حق صاحب محترم چلئے میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا ۔ سب سے پہلے اپنے لکھ کر گروپ پر ڈالئے۔ ہم تو لکھیں گے اور لوگوں سے بھی تو بولے۔ اور بہت سی باتیں ہوئیں۔ مگر اب افسانچہ لکھنے والے کی طویل گفتگو اور صفحۂ قرطاس مستقل متحرک رہنے والے کے لیے منتظر رہیں گے اور مڑ مڑ کر ماضی میں تاریخ کے پنّوں اور فضا میں مرتعش آواز کو تلاشتے رہیں گے۔
ﷲ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے پسماندگان اور چاہنے والوں کو صبر عطا فرمائے۔ آمین۔
بہت یاد آؤں گا جانے کے بعد
یادوں کے چراغ جلاؤ گے جانے کے بعد
دعائے مغفرت کے ساتھ
غمگین
✍️محمد سراج عظیم
دنیا ادب کا ایک اور معروف افسانچہ نگار فنکار اور مخلص و ملنسار شخصیت جناب ایم اے حق صاحب داغ مفارقت دے گئے۔ اردو افسانچہ نگاری کی تاریخ میں آ پ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گی۔
آ پ معتبر قلمکار کے ساتھ ساتھ بےباک افسانچہ نگار تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
شریک غم
✍️شکیل احمد
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ،درجات کو بلند کرے، اپنی رحمت خاص سے نوازے ،جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، درجات کو بلند کرے اور متعلقین و پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
مرحوم ابرارالحق (ایم اے حق) صاحب اردو ادب کا ایک معروف نام، بہترین افسانچہ نگار، افسانچۂ اطفال کے موجد اور حق گو ناقد تھے ـ ان سب کے علاوہ وہ انسان بہت ہی عمدہ تھے۔ مخلص، تعمیری ذہن کے مالک، نئے لکھنے والوں کو بھرپور حوصلے کے ساتھ پلیٹ فارم مہیا کروانے والے، انسان دوست، بے ضرر ....... کل ملا کر شخصیت ایسی کہ لوگ دل سے کہیں کہ 'حق صاحب انسان بڑے نیک دل ہیں۔ ' ادبی مباحث میں بہت سو سے ان کے اختلاف ہوتے لیکن وہ کبھی اپنا معیار نہ بھولتے.....
بے حد افسوس ہوا!
اردو ادب میں ان کا کانٹربیوشن کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گاـ ان شاءاللہ۔
اللہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ـ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
✍️ وسیم عقیل شاہ
ایم اے حق صاحب!ا افسانچوں سے محبت کرنے والے شخص تھے۔
میری ان سے ملاقات ڈاکٹر نخشب مسعود صاحب کے توسط سے مالیگاؤں میں ہوئی تھی۔
وہ اکثر یہاں کے کچھ بزرگوں کے حوالے سے بات کیا کرتے تھے اور ظاہر کرتے تھے کہ ان کا شہر مالیگاؤں سے پرانا تعلق ہے۔
اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں یہ جان کر دکھ ہوا۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
✍️ طاہر انجم صدیقی
نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اردو کے مشہور و معروف ادیب، افسانچۂ اطفال کے خالق ڈاکٹر ایم۔ اے۔ حق آج صبح لگ بھگ پانچ بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ مغفرت فرمائے آمین۔
بہت ہی نیک دل انسان تھے۔کافی مدد گار۔۔۔ہر مسئلے کا حل پل دو پل میں نکال لیتے تھے۔کام چاہے جتنا بھی مشکل کیوں نہ ہو۔ان کے ہاتھ لگ جائے تو آسان ہو جاتا تھا۔ہر کسی کی مدد کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔تھوڑا سخت ضرور تھے لیکن دل کے بہت اچھے تھے۔
رمضان کے مہینے میں ہماری ان سے کم ہی بات ہوتی تھی۔کیونکہ ہم لوگ جب بھی بات کرتے تھے ادب کے مسئلے پر ہی کرتے تھے۔اور ان دنوں ہم نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ہمیں یاد ہے 30اپریل کو کافی دیر تک ہم سے بات ہوئی ۔اس درمیان انہوں نے بتایا تھا کہ مجھے کھانسی ہے۔پھر انہوں نے کورونا ٹیسٹ کی بات کہی۔دوسرے دن افطار بعد ان کا فون آیا کہ corona positive آیا ہے۔
میں نے ایک ہی سوال کیا۔ کیا آپ شوگر پیشنٹ ہیں۔۔۔؟بولے۔
ہاں۔۔۔۔۔میں فکر مند ہو گیء ۔کیوں کہ شوگر والوں کے لیۓ یہ وباء خطرے سے خالی نہیں۔لیکن انہیں اس بات کا احساس ہونے نہیں دیا۔کئی لوگوں کی مثالیں دی جو اس بیماری کو موت دے گئے ہیں۔
کہ رہے تھے ہماری بیگم ساتھ رہنا چاہتی ہے لیکن لڑکوں نے انہیں منع کردیا۔
میں نے بھی ان سے کہا کہ ایسی غلطی نہیں کیجئے گا۔آپ کو خدا نے ایک اچھا موقع دیا ہے۔ خالی وقت پہاڑ جیسا بھاری ہوتا ہے آپ لکھنا شروع کر دیجیئے۔مجھ سے کہنے لگے کیا لکھوں۔.؟
میں نے کہا ایک نیا مجموعہ تیار کیجئے۔
وہ خوش ہو گئے۔
پھر میں نے کہا پہلے آپ میری تحریر پر کچھ لکھ دیجئے اس کے بعد نئے سرے سے کام شروع کیجئے گا۔
حق صاحب ہنسنے لگے۔ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ کہنے لگے تم بہت جلدی اپنا کام کروا لیتی ہو۔
مجھے بھی ہنسی آ گئی۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آج میں نے کئی لوگوں سے باتیں کی ہے۔ان لوگوں سے بھی جن سے ہمارا رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ کسی بات کو لے کر ناراضگی ہو گئی تھی۔اس دنیا میں رکھا ہی کیا ہے۔سوچا میں خود ہی فون کرکے خیریت جان لوں۔
شاید یہ ان کے اندر کی آواز تھی۔اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کرنے کے لیے ان کا دل مچل گیا ہوگا۔
اس کے بعد فون نہیں آیا۔میں خیریت پوچھنے کے لیے میسج کرتی رہی اور وہ جواب لکھتے رہے۔تب تک بہت اچھے تھے۔چھ میء سے ان کے فون کا سوئچ آف ہوگیا۔
ان کی خیریت جاننے کے لیے میں نے کئی لوگوں کو میسج کیا۔ کسی نے نہیں بتایا۔ایک رن ان کے لڑکے کا میسج آیا۔
والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے دعا کیجئے کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔میں نے کئی لوگوں سے دعا کی درخواست کی۔
پھر ایک روز ان کے لڑکے سے بات ہوئی۔کہنے لگے،
پاپا پہلے سے بہتر ہہیں۔میں نے ان سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کے لڑکے نے کہا کہ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں۔
کل ان کے ایک عزیز دوست کا فون آیا تھا۔ وہ بھی حق صاحب کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔میں نے کہا مجھے تو کچھ نہیں معلوم مگر چودہ دن نکل گئے۔
ان شاء اللہ اب وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔۔
میری بات سن کر وہ خوش ہو گئے۔ اللہ کا شکریہ ادا کیا۔۔میں نے بھی اللہ کا شکریہ ادا کیا ہمیں کیا پتہ کہ موت ان پر حاوی ہے۔
اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا کرے۔آمین
آج گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ ان کی اہلیہ سے ہماری بات ہوئی تھی ۔انہوں نے کہا کہ حق صاحب اکثر آپ کا نام لیتے تھے۔ان کی باتیں سن کر میری آنکھیں بھر آئیں۔اس وقت ان کے لڑکے ہاسپیٹل میں تھے۔اس کے بعد مجھے فون کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔آگے کیا ہوا یہ جاننے کو دل بے چین ہے۔کل فون کرکے اس بارے میں پتہ کرو ں گی۔ان شاءاللہ
ان کی پیدائش 15 اپریل 1950 میں محلہ دوھانی ضلع دمکا ،جھاڑ کھنڑ میں ہوئی تھی۔اصل نام محمد ابرار الحق اور قلمی نام ڈاکٹر ایم اے حق تھا۔
موصوف نے بہت ہی کم عمر میں لکھنا شروع کیا تھا۔ طالب علمی( 1962) کے زمانے سے ہی مضامین کے ذریعے ادبی سفر کی شروعات کی تھی۔1965سے باقاعدہ لکھنے لگے۔اس زمانے میں ان کی کہانیاں ماہنامہ, بچپن, نونہال ٹاءمز ، ممبیء وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں
1968 سے افسانہ لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔پہلے وہ طویل افسانہ لکھا کرتے تھے۔پرانا موضوع یعنی حسن و عشق کو اہمیت دیتے تھے۔
1983 میں لیبر سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر بحال ہوئے ۔ بڑھتی مصروفیات کی وجہ سے لکھنے پڑھنے میں دشواری ہونے لگی۔موصوف نے لکھنا بند نہیں کیا منی کہانیاں لکھتے رہے۔پھر افسانچوں کی طرف توجہ دینے لگے۔جوگندر پال جیسی ہستی سے بھی انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
1987 میں بھاگلپور آئے تو ان کی ملاقات مناظر عاشق ہرگانوی سے ہوئی۔اور ان کے افسانچے ہفتہ وار رسالہ' کوہسار 'میں شائع ہونے لگے۔
30 اپریل 2012 میں وہ سبکدوش ہوئے۔
ہماری ملاقات ان سے ایک بار ہوئی ہے۔جب وہ اپنے پرانے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے بھاگلپور آئے تھے۔کچھ دیر کے لیے ہمارے گھر بھی تشریف لائے تھے۔ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ان کے رہنے سہنے کا انتظام ان کے عزیز دوست قیصر علی خان کے گھر تھا۔
ان کے آنے کی خوشی میں بھاگلپور میں دو تین جگہ پروگرام بھی ہوا تھا۔بھاگلپور کے حبیب مرشد خان سے بھی ان کی گہری پہچان رہی۔۔
اگلے سال انہیں یعنی 2020 میں اپنے دوست قیصر علی خان کے لڑکے کی شادی میں شرکت کرنے کی خواہش تھی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں آ پائے ہمارے شہر سے انہیں بے حد لگاؤ تھا۔اس شہر کے بہت سارے لوگوں کو وہ جانتے تھے۔ان لوگوں کو بھی جنہیں میں بھی نہیں جانتی ہوں۔
بار بار کہتے تھے بیماری کا خطرہ تھوڑا کم ہو جائے پھر میں وہاں جاؤں گا۔۔
ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔ سب سے پہلی تخلیق 'اردو سیکھے' ہے۔ جو 1995 میں شائع ہوئی تھی۔جس کو انہوں نے کتابچہ کا نام دیا تھا۔
ذہنی طور پر معذور بچوں کی تربیت کے لیے موصوف نے 1998 میں 'میرا بچہ اور میں 'لکھا تھا۔
'نئی صبح' ان کے افسانچے کا مجموعہ ہے. یہ مجموعہ 2007 میں منظر عام پر آیا تھا۔اس مجموعے کی کہانیوں کے ذریعے موصوف نے اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔۔
2009 میں ان کا ایک اور افسانچے کا مجموعہ ' بے چینی' ہندی میں شائع ہوا تھا۔
2010 میں' نئی صبح 'کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔
2018 میں ایک اور افسانچے کا مجموعہ' ڈ نک' شائع ہوا ۔اس مجموعے سے بھی انہیں کافی شہرت ملی۔اونچی اڑان 2020 میں شائع ہوا تھا۔
حق صاحب چھوٹے بڑے کئی اعزازات و انعامات سے نوازے گئے ۔
موصوف اپنا مجموعہ اونچی اڑان کو ہندی میں شائع کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ان کا یہ خواب ادھورا رہ گیا۔خواب تو انہوں نے بہت سارے دیکھے تھے۔ افسانچۂ اطفال کو فروغ دینے کا خواب۔۔۔بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا اور انہیں گھر گھر تک پہنچانے کا خواب۔۔۔۔ ایک بار میں نے ان سے کہا تھا کہ اس کام میں آپ گھر کے کسی ایک فرد کو شریک کر لیجئے تاکہ آپ کا نام ہمیشہ برقرار ہے۔جواب میں انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ
میرا ایک پوتا ہے جو میرے ہی نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے۔وہ کتنا بڑا ہے یہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔مجھے کیا معلوم کہ اتنی جلدی وہ ہم سب سے دور چلے جائیں گے۔
اس کے آگے میں کیا لکھوں۔۔؟ کہنا تو بہت کچھ چاہتی ہوں۔ ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گی۔ان شاءاللہ
✍️ڈاکٹر یاسمین اختر
ڈاکٹر ایم اے حق: کچھ یادیں کچھ باتیں
”اونچی اڑان“کے مصنف کی لمبی اڑان
(ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری)
پہلے پہل انسان صبح سویرے فیس بک یا واٹس ایپ کھول کر نئی نئی پوسٹس سے محظوظ ہوتا تھا لیکن اب عالمی وبا (Pandemic) کی زیاں کاری کی پوسٹس پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ہر روز کسی نہ کسی انسانی جان کی ختم ہونے کی خبر دل دُکھا دیتی ہے۔ آج جب فیس بک اوپن کیا تو معروف ادیب ڈاکٹر ایم۔اے۔حق (رانچی) کی وفات کی اطلاع سے دل مسوس ہوکر رہ گیا۔کسی بھی انسان کی موت سے ویسے بھی دل رنجیدہ ہوتا ہے تاہم جن لوگوں کے ساتھ تعلقات یا جان پہچان ہوتی ہے‘ان کی موت کچھ زیادہ ہی غم گین کر دیتی ہے۔ایم۔اے۔حق وکالت کے پیشہ سے وابسطہ تھے۔ کئی بار فون پر بتایا کہ دہلی میں کئی کشمیری لوگوں کے کیس کی وکالت کرتے ہوئے انہیں انصاف دلایا‘اس لئے دل مطمئن ہے کہ کشمیر کے لئے کچھ کررہا ہوں۔اونچی اڑان کے مصنف نے آج زندگی سے ایسی لمبی اڑان بھری کہ بس اب یادیں اور ادبی سرمایہ۔ اللہ مغفرت فرمائے۔
ڈاکٹر ایم۔اے۔حق(1950-2021ء) ادبی دنیا میں افسانچہ نگاری کی بدولت اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی شخصیت اور افسانچہ نگاری پر ایک کتاب ”ڈاکٹر ایم اے حق اور افسانچہ نگاری کا فن (مرتب: پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے2012ء میں شائع کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں فن افسانچہ نگاری کو سمجھنے کے لئے یہ کتاب بڑی اہم ہے کیونکہ اس میں کئی اہم ادباء اور ناقدین نے ایم اے حق کی افسانچہ نگاری کے ساتھ ساتھ فن افسانچہ نگاری پر بھی اچھی گفتگو کی ہے۔پروفیسر اسلم جمشید پوری کی یہ بات بڑی اہم ہے کہ”بہترین افسانچے وہی لکھ سکتا ہے جو افسانے کے اسرار و رموز سے واقف ہو۔“افسانچہ لکھنے کے دوران کسی بھی خیال‘واقعہ یا موضوع کو آزاد فکری تلازمہ (Free association of thoughts) کی تکنیک کے تخلیقی اظہار اور فنی ہنرمندی کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے نہیں تو وہ ایک قسم کی اخباری سرخی یا سطحی قسم کا واقعاتی بیان ہی بن جائے گا۔ افسانچہ لکھنا مہارت کا فن ہے کیونکہ لکھنے کے دوران صرف خیال ہی پیش کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی بنت کاری میں فنی ہنرمندی کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔(خیر یہ ایک طویل بحث ہے)۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ڈاکٹر ایم اے حق کے بیشتر افسانچے خیال آفرینی (Fancy) کے ساتھ ساتھ ماہرانہ ہنرمندی (Artistic skillfulness) کی اچھی عکاسی کرتے ہیں۔ان کے جوافسانچے ادب اطفال کے زمرے میں آتے ہیں ' ان کی قرات سے ظاہر ہے کہ وہ زیادہ تر اخلاقیات (Morality) کے حامل ہوتے ہیں۔'یعنی مجموعی طور پر قارئین اور خصوصا بچوں کی اخلاقی ذہن سازی۔ ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ نفسیاتی تعلیم (Psyco - education) کے پیش نظر بچوں کی کردار سازی میں سماجی ماحول اور اور علمی وادبی تعلیم و تربیت اہم رول ادا کرتی ہے تو ایم۔اے حق کے افسانچوں میں اخلاقیات(Morality) کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے کیونکہ ان میں اس قسم کے خیالات واقعات کو مختصر ترین کہانیوں میں پیش کیا گیا ہے کہ افسانچہ اپنا اخلاقی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔اس میں ان کی نئی کتاب”اونچی اڑان...افسانچہ اطفال“ میں شامل کئی افسانچوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔جیسے ''اخلاق'' ''سزا'' ''احتیاط'' وغیرہ۔ افسانچہ ''اخلاق'' ایک معیاری افسانچہ ہے کیونکہ اس کا متن خیال اور کہانی کے تخلیقی بیانیہ پر خلق ہوا ہے ا ورپیامی سطح پر اچھا اخلاقی تاثر چھوڑ رہا ہے۔ افسانچے میں بس میں سفر کے دوران ایک طالب علم اقبال کا اخلاقی مظاہرہ اور ایک ادھیڑ عمر کلرک کا متاثر ہو کر اخلاقی رویہ (Moral attitude) کی دلچسپ واقعہ نما کہانی پیش ہوئی ہے۔ اقبال ادھیڑ عمر آدمی کو انسانی ہمدردی کے طور پر اپنی سیٹ پر بٹھاتا ہے۔ اس طرح ایک تو وہ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس کے ایڈمیشن کا مسئلہ بھی حال ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ادھیڑ عمر شخص اسی کالج میں کلرک ہے جہاں پر اقبال اپنا ایڈمیشن کروانا چاہتا ہے اور کلرک اسے یقین دلاتا ہے کہ آپ کا ایڈمیشن ہوجائے گا۔ اس کتاب ''افسانچہ اطفال'' کے بیشتر افسانچے اخلاق سازی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ایک طرح سے جس مقصد کے لئے کتاب لکھی گئی ہے وہ اس کو پورا کرنے میں کامیاب ہے۔ایم۔اے۔حق کے بیشتر افسانچے خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ ماہرانہ ہنرمندی (Artistic skillfulness) کی اچھی تخلیقی عکاسی کرتے ہیں۔دراصل جب تخلیق میں آرٹ نہ ہو تو وہ تحریر کی ہی ایک صورت ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شامل کتاب دوسرے افسانچوں کے متنوع مضوعات پر بھی بات کرنی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ پوری کتاب کا احاطہ ہوجا ئے تاہم وہ بعد میں ایک مضمون کی صورت میں ہوگی۔
(ان شاء اللہ)
٭٭٭
گروپ افسانہ نگار اور حق صاحب
انور مرزا
افسانہ نِگار گروپ کے
کسی بھی ایونٹ کے لئے
ایم اے حق صاحب
کبھی خود افسانچہ نہیں بھیجتے تھے
کیونکہ ایونٹ کے مطابق افسانچہ
میَں خود ھی منتخب کرلیتا تھا...
اُن کے مجموعے ’ڈنک‘ اور
’اُونچی اُڑان‘ میرے پاس تھے…
میَں صرف اُنھیں اطلاع کر کے
افسانچے کا نام بتا دیتا...
حوصلہ افزائی اور خلوص کا یہ عالم تھا کہ
ھر بار میرے انتخاب کی
کھُلے دل سے...جی بھر کر داد دیتے
اور افسانچے کا پس منظر بتاتے...
ایونٹ نمبر16 کے لئے حق صاحب نے
30 مارچ کو پہلی بار خود ایک افسانچہ بھیجا
غالباً یہ غیر مطبوعہ اور تازہ تحریر تھی
2اپریل تک افسانہ پیش نہیں ھوا
تو موصوف نے فون کیا اور ہنس کر پوچھا
’ھمارا افسانچہ ری جیکٹ کر دئیے ھیں کیا؟‘
سُن کر میَں بھی خوب ہنسا اور وضاحت کی کہ
"جونئیر کے بعد سینئر کا افسانچہ لگانا مناسب نہیں…
آپ کا افسانچہ ’اہلیت‘ کل صبح پیش کیا جائے گا…"
بعد میں ’اُونچی اڑُان‘ کے دوسرے ایڈیشن
کی باتیں بڑی دیر تک کرتے رھے
٭٭٭
ایم۔اے۔حق ایک نئی صنف ’’افسانچۂ اطفال ‘‘ کے موجد
قاضی مشتاق احمد
اب ایم۔اے۔حق صاحب نے ’’افسانچۂ اطفال ‘‘ کے عنوان سے ایک نئی صنف ایجاد کی ہے ۔ جب بھی کوئی سنف لکھی جاتی ہے تو اس کے کچھ اصول مقرر کیے جاتے ہیں ۔حق صاحب نے منی افسانے کے تمام اجزائے ترکیبی ’’افسانچۂ اطفال ‘‘ میں شامل کر کے اسے افسانوی ادب کی ایک ’’ نئی شاخ ‘‘ بننے کی منزل تک پہنچا دیا ۔اب وہ اپنی زیر ترتیب کتاب ’’ اونچی اُڑان ‘‘ کے ذریعہ ادبی دنیا میں ہنگامہ برپا کرنے کے ارادہ سے آرہے ہیں۔اُنہوں نے تو ’’کاغذ پر رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کر ‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُردو معاشرہ اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے یا اس نئی صنف کا خیر مقدم کرتا ہے ۔ حق کے افسانچوں میں سوتے ہوئے معاشرہ کو چونکا دینے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔اس لئے اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ نئی صنف ادب میں مزید ہنگامہ مچا دے گی۔ میری نیک خواہشات حق کے ساتھ ہیں.
٭٭٭
ڈاکٹر ایم اے حق : ایک باکمال معاصر افسانچہ نگار……!!
Azeez Belgaumi
اُردو زبان کا ’’افسانہ‘‘ اگرچہ انگریزی زبان کی’’ شارٹ سٹوری‘‘ کا مترادف مان تو لیا گیا ہے،لیکن جس سٹوری یا کہانی کو ’’شارٹ سٹوری‘‘کہہ کر اُس کی طوالت کی حقیقت سے تعرض کیا جاتارہا ہے، ’’افسانہ‘‘ ایسی کسی وضاحت کا متحمل نظر نہیں آتا، شاید یہی سبب ہے کہ ’’افسانچہ‘‘کی نئی اصطلاح کے اختراع کی ضرورت پیش آئی تاکہ ’’ افسانہ‘‘ کو طوالت کے اعتبار سے اِس نئی اِس اصطلاح کے ذریعہ ممیز کیا جاسکے۔ہمارے ہاں اِس سلسلے میں تجربے تو ہو رہے ہیں لیکن افسانوی ادب کی اِن اصطلاحات کی فکری بنیادوں کے حوالے سے بہت کچھ طے کیا جا نا ابھی باقی ہے۔ دُنیا کی زندہ اقوام کی زبانوں کا ادب مغلوب و محکوم اقوام کے ادب کے مقابلے میں چھلانگیں لگاتا ہوا کوسوں دور آگے نکل جاتا ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔یہ جستجو ضرورہونی چاہیے کہ کیا ہمیں اپنی فکری پیش رفت کے لیے اِن کے ہاں سے کسی قسم کی بنیادیں فراہم ہو سکتی ہیں ۔یہ ایک اہم ہدف ہے جو ہمارے ادبی و افسانوی مفکرین کا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔ بہت پہلے انگریزی کا یہ اقتباس کہانی کی طوالت کے بارے میں صاف اور واضح الفاظ میں بہت کچھ کہہ چکا تھا :
Determining what exactly separates a short story from longer fictional formats is problematic. A classic definition of a short story is that one should be able to read it in one sitting, a point most notably made in Edgar Allan Poe's essay "Thomas Le Moineau (Le Moile)" (1846).
ترجمہ : قطعی طور پر یہ طے کرنا کہ وہ کیا چیز ہے جوایک شارٹ سٹوری یا افسانے کو، ایک طویل قصہ نویسی کے فارمٹ سے ممیز کرتی ہے،اصلاً ایک بڑا مسئلہ ہے۔ایک افسانے یا شارٹ سٹوری کی کلاسک تعریف یہ کی گئی ہے کہ’’ ایک ایسی کہانی افسانہ یا شارٹ سٹوری کہلائے گی، جسے’’ ایک ہی نشست ‘‘میں پڑھا جاسکے،یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی طرف’’ ایڈگر الان پو‘‘ کے ایک مضمون (۱۸۴۶ء)میں خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے‘‘۔ایڈگرپوانیسویں صدی کی امریکی رومانوی ادبی تحریک کے ایک اہم ستون، مصنف، شاعر، مدیر اورنقاد(متوفی:۱۸۴۹ء)
قرار دیے جاتے ہیں)۔(حوالہ: ویکی پیڈیا، موضوع:شارٹ سٹوری)۔
یہ سوال پھر بھی جواب طلب باقی رہ جاتا ہے کہ افسانہ کس قدر طوالت کی بنا پر افسانہ کہلاتا ہے اور کس قدر چھوٹا ہو کر یہ افسانچہ کی حدود میں داخل ہوکر افسانچہ بن جاتا ہے۔! کیوں کہ ’’ایک ہی نشست‘‘ کی بات طوالت کو متعین کرنے سے قاصر ہے اوراس میں جو ابہام اور غیر یقینی پائی جاتی ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اِس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بعد کے مفکریں نے الفاظ کی تعدا د بھی متعین کی اور اِس طرح افسانے ؍شارٹ سٹوری کی حدودکومقرر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
Other definitions place the maximum word count of the short story at anywhere from 1,000 to 9,000 words. In contemporary usage, the term short story most often refers to a work of fiction no longer than 20,000 words and no shorter than 1,000, or 5 to 20 pages.
ترجمہ:’’دیگر تعریفیں افسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حد مقرر کرتی ہیں،ایک ہزار تا نو ہزار الفاظ کی تعداد کے کہیں قریب۔ جدید استعمال کے نقطۂ نگاہ سے افسانے کی اصطلاح زیادہ تر ایک ایسے افسانوی کاوش پر صادق آتی ہے، جو بیس ہزار الفاظ سے زیادہ طویل نہ ہو،اورایک ہزار الفاظ سے کم پر مشتمل نہ ہویا پھرپانچ تا بیس صفحات۔‘‘
لیکن آگے جو کچھ کہا گیا ہے وہ ہمارے ’’افسانچوں‘‘ کی تعریف متعین کرنے میں معاون ہو سکتا ہے:
Stories of fewer than 1,000 words are sometimes referred to as "short short stories" or "flash fiction."
ترجمہ: ’’کہانیاں جو ہزار سے کم، تھوڑے ہی الفاظ پر مشتمل ہوں،کبھی کبھی ’’شارٹ شارٹ سٹوریز‘‘ یا فلاش فکشن کہے جائیں گے۔‘‘
پھر یہ قطعی تعریف بھی ہمیں ملتی ہے:
’’افسانچہ (مختصر ترین کہانی) Story Short Short انسانی تجربے کو نثری صورت میں کم سے کم لفظوں میں بیان کرنا افسانچہ کہلاتا ہے۔ادب میں یہ صنف انگریزی ادبیات کے تتبّع سے متعارف ہوئی، جس میں شعور کی روStream of consciousness اور آزاد فکری تلازمے Free Association Of Thought کی عمل داری ہوتی ہے۔ شاعری میں مختصر نظم اور نثر میں افسانچہ ایک ہی نوع کی چیزیں ہیں لیکن اْردو ادب میں مقبول نہیں ہو سکیں……‘‘(حوالہ: ویکی پیڈیا: افسانچہ)۔
بالفاظ ِ دیگر یہی فلاش فکشن ہی دراصل’’ افسانچے ‘‘ہیں اورہونے چاہئیں، جو آج تواتر کے ساتھ لکھے جار ہے ہیں اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا ، جب اِس کی طوالت کو لے کر جوSuspenseپایا جاتا ہے، وہ ختم ہوکر رہے گا۔
بہر کیف اِن مباحث کے درمیان ہندوستان میں افسانچہ نگاروں میں اِس وقت ایک معتبر بلکہ سر فہرست نام جھارکھنڈ کے معروف قلمکار ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کا ہے۔ اُردو افسانوی ادب کی اِس صنف میں موصوف کی قدآوری کا اندازہ اِس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی جیسی معروف شخصیت نے ڈاکٹر حق کے افسانچوں پرعالمی سطح کی۵۴ جلیل القدر شخصیات کی آراء پر مشتمل ۱۷۶ صفحات کی کتاب مرتب کرنے کی ضرورت محسوس فرمائی ،جسے ہندوستان پبلشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیا ہے۔اِ ن آراء کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے نہایت ہی قلیل عرصے میں لمبی لمبی چھلانگیں لگائی ہیں۔ اِن چوّن احباب میں دُنیائے ادب کی شہرت یافتہ شخصیات شامل ہیں اوراِن اصحاب نے میدانِ افسانچہ نگاری میں حق صاحب کی منفرد صلاحیتوں اورخدمات کوبجا طور پر بھرپور خراجِ تحسین پیش فرمایا ہے، جو غماز ہے اِس حقیقت کا کہ اب افسانوں اور افسانچوں کے درمیان تمیز کا معاملہ کوئی معمہ بن کر بہت دیر تک باقی رہنے والانہیں ہے۔ ایک زندہ ادبی معاشرے کا خاصہ ہوتاہے کہ معاصرانہ چشمک سے بلند تر ہوکر معاصرین فنکار اپنے با صلاحیت اور اہم سینئر ہم عصروں کو ہاتھوں ہاتھ لیں۔حق صاحب تو اِس سے بھی کہیں زیادہ کے مستحق ہیں۔ اِس لیے کہ موصوف ایک ذمہ دارانہ سرکار ی منصب کی بے پناہ مصروفیات کے درمیان بھی نہ صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ، بلکہ، وقت کی نبض محسوس کی۔ عصر حاضر کا اِنسان یہ جو خواہ مخواہ کے مسائل میں اُلجھ کر رہ گیا ہے اور جسے ایک شعر تک پڑھنے کی فرصت نہیں، کجا کہ طویل افسانوں کے مطالعے کے لیے وقت نکا سکے،ایسے پر آشوب دور میں قاری کو قلمکاروں کی افسانوی تخلیقات سے وابستہ رکھنے کی حق صاحب نے جو شعوری کاوش فرمائی وہ قابلِ صد تحسین ہے اور یہی چیز حق صاحب کو اِس میدان کا نمایاں شہسوار بنا دیتی ہے۔
جس دورِ ادب بیزاری میں حق صاحب تخلیق کار ی کے فرائض انجام دینے میں مصروف ہیں،اُس میں مقصدیت کو سینے سے لگائے رکھنا بڑی جرٔت کا کام ہے۔ظاہر ہے یہ ایک ایسا دور ہے جس میں رُومانیت اپنا محلRelevanceکھو چکی ہے، اور اگر کہیں ہے بھی تو اِس پر مقصدیت اور اصلاح کا پہلوہی غالب رہا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اُردو افسانے کے ابتدائی دور میں بھی،جب سجاد حید ر اور پریم چند نے افسانہ نگاری کی کمان سنبھالی تھی ،تو دونوں کی مختلف المزاجی ایک حقیقت تھی۔ ایک طرف (سجاد حیدرکی )رومانیت تھی تو دوسری طرف پریم چند کی مقصدیت،اور یہی مقصدیت تھی جو با لآخرحیدر کی رومانیت پر غالب آگئی تھی۔دور جدید کے انقلابات نے ایک فنکار کو تاریخِ افسانوی ادب کے جس موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے وہاں صرف مقصدیت ہی اپنا لوہا منوا سکتی ہے اور رومانیت پر بازی لے جاسکتی ہے، چاہے وہ افسانے ہوں کہ افسانچے۔
ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ایم اے حق صاحب نے خود کو سدرشن ، علی عباس حسینی ، اعظم کریوی وغیرہ جیسے بامقصد متبعین افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہونے کو ترجیح دی، جنہوں نے پریم چند کی روایت کو مزید آگے بڑھایاہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی کاوشوں کو کھلے طور پر معاصر فنکاران برادری کی بھرپور تائید و نصرت حاصل ہونی چاہیے ۔ لیکن افسو س ہوتا ہے کہ وہ اِس وقت ایک روایتی مگر ناخوشگوار مقامی معاصرانہ چشمک کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔فیس بک پر موجود اُن کی ایک تحریر اِس کی خبر دیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ مقامی سطح پرکسی بھی فنکار کو بہت کم توجہ دی گئی ، وہ چاہے دُنیا کا کوئی شہر کیوں نہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ حق صاحب اِس حقیقت کو خنداں پیشانی سے تسلیم کر لیں گے۔ادبی گروپ اِزم کے اِس دور میں کچھ افراد کو نظر اندازکرتے ہوئے اپنے کام کو حسب معمول جاری رکھنا پڑتا ہے۔ایسے معاصر قلم کاراحباب سے گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی برادری کے ادبی خدمت گاروں کو حوصلہ بخشیں اور اُردو کو نئی بلندیوں سے روشناس کرنے میں اپنا عطیہ پیش کریں۔
میں دونوں ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی صاحب اور ڈاکٹر ایم اے حق صاحبان کی خدمت میں اِس کتاب ’’ڈاکٹر ایم اے حق اور افسانچہ نگاری کا فن‘‘ پردِلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ افسانچوں کی تخلیق کا اپنا بیش قیمت کام جاری رکھیں گے اور معاشرے کی مکروہات کی حسبِ معمول نشان دہی کرتے رہیں گے،جو اصلاً اِنسانیت کے مفاد میں بہت بڑا کام ہے اورتاریخ کا یہ کام ہے کہ کون ، کس دور میں اپنے قلم سے کیا کام لیا۔
دُعا ہے کہ اﷲ تعالےٰ دُنیائے ادب کے اِس وفاشعار افسانچہ نگار کے کام میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭
اردو افسانچہ اور ڈاکٹر ایم اے حق
محمد علیم اسماعیل
میں نے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب کی فیس بک فرینڈ لسٹ میں انھیں تلاش کرلیا تھا،فرینڈ رکوسٹ بھیج کر فیس بک مسنجر پر مسیج سینڈ کیا کہ:
’’السلام علیکم
محترم جناب ایم اے حق صاحب
عرض تحریر یہ ہے کہ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والارنگا رنگ ادبی رسالہ عالمی انوارِ تخلیق،رانچی،موسم گرما 2017 کے شمارے میں میرا ایک افسانچہ ’’شرمندگی‘‘ شائع ہوا ہے۔کیا آپ رسالے کی ہارڈ کاپی مجھے ارسال کر سکتے ہیں۔ (محمد علیم اسماعیل،ناندورہ،مہاراشٹر)۔۔۔۔‘‘
دوسرے روز جواب ملا ’’آپ کا موبائل نمبر دیجیے۔‘‘ اور میں نے ایک لمحہ بھی دیر نہ کرتے ہوئے اپنا نمبر مسیج کردیا اس کے بعد موبائل پر گفتگو کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
پہلی بار ایم اے حق صاحب کا فون 24 اگست 2017 کو اس وقت آیا جب میں ایک کام کر کے پوسٹ آفس سے نکلا ہی تھااور مجھے ساڑے دس سے پہلے پہلے اسکول پہنچنا تھا۔میں نے موبائل میں وقت دیکھادس بج رہے تھے، اور اندازہ لگایا کہ بیس منٹ میں اسکول پہنچ ہی جاؤں گا۔موبائل کو جیب میں رکھنے ہی والا تھا کہ کال آگئی،کال ریسوکی،دوسری جانب سے آواز آئی۔۔۔۔۔’’السلام علیکم۔۔۔میں ایم اے حق بول رہا ہوں۔‘‘
میں خوشی سے چہک اٹھا۔چند لمحات یوں ہی گزر گئے پھر سلام کا جواب دینے کے بعد جی سر،یس سر،اچھا سر،اوکے سر،ٹھیک ہے سر۔۔۔۔۔۔جیسے الفاظ سے میں نے گفتگو میں شمولیت حاصل کی۔جب میں نے رسالے کا خریدار بننے کی بات کی تو انھوں نے یہ بات واضح کردی’’خریدار بننا آپ کی تخلیقات شائع ہونے کی گارنٹی نہیں ہوگی اگر آپ کی تخلیق معیار پر اترے گی تو ضرور شائع ہوگی۔‘‘یہ بات مجھے اچھی لگی۔پچیس منٹ کی بات چیت کے بعد میں نے اپنے آپ کوپوسٹ آفس کے احاطہ میں ہی پایا،اس کے بعد مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کی اسکول پہنچنے میں میں لیٹ ہوگیا ہوں۔اسکول پہنچا تو صدر مدرس کی ناراضگی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی لیکن کام کے شحص کو ہر کوئی برداشت کر ہی لیتا ہے۔
افسانچوں سے مجھے دلی لگاؤ ں ہے۔اس لیے فنِ افسانچہ کی باریکیوں کو جاننے کی خواہش دل میں لیے ہوئے،اپنے تشنہ لبوں کے ساتھ جب پہلی بار میری بات ایم اے حق صاحب سے ہوئی تو میں نے پایا کہ یہ تو افسانچہ نگاری کا ایک سمندر ہے۔جہاں تشنگانِ فن افسانچہ کوثرِ افسانچہ سے سیراب ہوتے ہیں۔وہ افسانچوں میں رہتے ہیں،افسانچوں میں جیتے ہیں اور ان کے چاروں طرف جدھر دیکھوں ادھر افسانچے ہی افسانچے نظر آتے ہیں۔انھوں نے افسانچہ کی ترقی میں ہمیشہ اپنی توانائی صرف کی ہیں۔افسانچوں کو فروغ دینے اور وسعت بخشنے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہیں۔بلکہ عمر عزیز کا ایک حصہ اس کے لیے وقف کر دیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ ’افسانچہ اطفال‘ کے موجد بھی ہیں۔
20 اگست 2017 کو نوجوان افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ ممبئی کا واٹس ایپ مسیج آیاتھا ’’مبارک ہو۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کس بات کی؟‘‘ انھوں نے کہا’’آپ کا افسانچہ رسالہ انوارِ تخلیق میں پڑھا،پڑھ کر دادو تحسین واجب محسوس ہوئی۔واقعی یہ ہمارے معاشرے کی سچی تصویر کشی ہے، ایک حقیقت نگاری ہے جسے آپن نے بڑی سنجیدگی سے پینٹ کیا ہے۔دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔‘‘ وسیم عقیل شاہ فیس بک پر ہمیشہ مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی صحبت میں نظر آتے ہیں۔انھوں نے مزید بتایاکہ ’’یہ رانچی سے نکلتا ہے اور ایک معیاری رسالہ ہے۔اس میں افسانچوں کا معیار بہت اعلی ہوتا ہے کیوں کہ اس کے مدیر ایم اے حق صاحب ایک بہت بڑے افسانچہ نگار ہے۔‘‘ انھوں نے مجھے ایم اے حق صاحب کا موبائل نمبر بھی دیا تھا لیکن وہ نمبر مسلسل بند ہی آرہا تھا۔
اس دنیا میں یوں تو ہر کوئی کسی نہ کسی وقتی ضروریات کے تحت اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زیست کا مقصد منتحب کر لیتے ہیں۔اور اس مقصد کو حق بہ حق پورا کرنے کے لیے الف سے یا تک،جاگنے سے سونے تک،سفر سے حضر تک اور رخصت سے واپسی تک ہمیشہ مصروف نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر ایم اے حق نے اردو افسانچے کو خون جگر سے سینچا ہے۔ان کی شہرت کا دارومدار صرف افسانچہ نگاری پر ہی کھڑا ہے کیوں کہ وہ صرف اور صرف ایک افسا نچہ نگار ہیں۔۔ وہ افسانچہ نگاری میں نقطہ عروج تک پہنچ گئے ہیں۔’’نئی صبح‘‘ ان کا پہلا افسانچوں کا مجموعہ ہے،جسے بہت پسند کیا گیا اور اب وہ اپنے دوسرے افسانچوں کے مجموعہ کی اشاعت میں مشغول ہے۔بہت سے لوگوں نے ان پر تنقید کی اور انھیں مشورے دیے آپ افسانچے کی بجائے اگر افسانے پر اپنی توانائی صرف کریں تو زیادہ بہتر ہوگاکیوں کہ افسانچہ کی صنف، لطیفے کے مترادف ہے۔ لیکن ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائیں، ان حوصلوں کی اڑان انچی تھی اس لیے وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد پر جمے رہے۔رسالہ عالمی انوار تخلیق میں افسانچہ نگاری کو فروغ دے کر وہ اردو افسانچے کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔رسالہ عالمی انوارِ تخلیق میں ایک مکتوب کے ردِعمل میں وہ لکھتے ہیں: ’’جہاں تک قربانی دینے کی بات ہے تو ابھی تک میں قربانی ہی دیتا آیا ہوں۔جب آپ نے بات چھیڑی ہے تو سن لیجئے کہ ہر شمارے(رسالہ عالمی انوارِتخلیق،رانچی)میں لگ بھگ بیس ہزار روپے اپنے پینشن کی رقم خرچ کرتا ہوں۔یہاں رانچی میں اِن پیج میں ٹائپ کرنے والوں کا ’’نخرہ‘‘اتنا زیادہ ہے کہ تھک ہار کر میں خود ٹائپ کر لیتا ہوں۔آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں بحیثیت ایڈوکیٹ پریکٹس کرتا ہوں۔آپ خود اندازہ لگا لیں کہ وقت کی اہمیت میرے لیے کیا ہے۔کیا یہ اردو کے لئے میری قربانی نہیں ہے؟‘‘
حق صاحب کے فن پر چنداہل قلم ادیب و نقادوں کے رائے ملا خط فرمائیں:
جوگندر پال ۔ ۔ ۔ ’’مجھے یقین ہے کہ حق کی تخلیقی بے چینیوں کے اسباب ہمیں سدا اسی مانند متجسس کرتے رہیں گے اور وہ اپنے پر گو اور ذومعنی اختصار کو کام میں لا لا کر اپنی افسانچہ نگاری کے باب میں فکر و فن کے اور بھی کئی نازک مقام سر کرتے چلے جائیں گے ۔‘‘
پروفیسر وہاب اشرفی ۔ ۔ ۔’’ ڈاکٹر ایم اے حق اپنی نگارشات کے ذریعہ پڑھنے والوں کی حسیات پر قابض ہونا چاہتے ہیں ۔ اور اس مقصد میں وہ انتہائی کامیاب ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی ۔ ۔ ۔’’ ڈاکٹر ایم اے حق افسانچوں اور افسانوں میں نئی تخلیقیت فنی اقدار کے پس منظر میں رونما ہوتی ہے اور وسیع منظر نامے کو سامنے لاتی ہے ۔‘‘
رتن سنگھ ۔ ۔ ۔ ’’زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کو عام آدمی نظر انداز کردیتا ہے وہ ایم اے حق کے یہاں کہانی کے سانچے میں ڈھل کر دلکش بن جاتے ہیں انہیں پڑھ کر سن کر قاری محظوظ ہوتا ہے ۔‘‘
رونق جمال ۔ ۔ ۔ ’’حق صاحب نے ‘نئی صبح’ میں پچپن (55) افسانچے اور مختصر افسانوں کو شامل کیا ہے۔ان کے تمام افسانچوں کی یہ خوبی ہے کہ ان میں کہیں بھی فلسفے، تیرونشتر اور کہاوتوں کو افسانچے کے نام پر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تمام افسانچے حق صاحب کے قلم کے شہکار ہیں۔‘‘
نورالحسنین ۔ ۔ ۔ ’’ایم اے حق کے افسانچوں کی خاص خوبی یہ ہے کہ نہایت مختصر ہونے کے باوجود ان کا کلائمکس نہ صرف قاری کی توقعات سے مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ایسا انہونا نشتر لگاتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
مشرف عالم ذوقی ۔ ۔ ۔ ’’لفظ لفظ میں آپ کی کہانیاں مجھے پسند آئیں۔ یہ افسانچوں کا نیا موڑ ہے جہاں عہد حاضر کا منٹو ایک نئی فضا میں سانس لیتا ہے۔‘‘
محمد بشیر مالیرکوٹلوی ۔ ۔ ۔ ’’حق صاحب کا افسانوی اور افسانچوی مجموعہ نئی صبح کے مطالعہ سے محسوس ہوا کہ حق صاحب نے زندگی کو بہت قریب سے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے۔‘‘
قاضی مشتاق احمد ۔ ۔ ۔ ’’ ایم اے حق کے افسانوں میں گھن گرج ہے اور نہ شور شرابا۔ البتہ پس منظر سے طمانچوں کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نظیر فتح پوری ۔ ۔ ۔ ’’ حق صاحب زندگی کے بہت قریب سے گزرے ہیں ۔ان کے مشاہدے کی آنکھیں روشن ہیں ۔‘‘
ایم اے حق صاحب کا ایک افسا نچہ اور اس تجزیہ پیش خدمت ہے:
مجرم
’’میری بیٹی ٹرین کے باتھ روم سے وا پس آتے ہی بولی
’’پا پا آپ ابھی تک غلط ہندی لکھتے ہیں۔‘‘ اور میں دوہری شرم سے گڑ گیا۔‘‘
ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کا افسانچہ مجرم، نہایت ہی مختصراور تمام لوازمات کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک مکمل افسانچہ ہے۔اس میں
پلاٹ،کہانی پن،کردار،مکالمے،کلائمیکس سب کچھ ہیں۔ٹرینوں میں باتھ روم کی دیواروں پر فحش نگاری کس نے نہ دیکھی ہو!!! ہر کوئی اس سے واقف ہے۔اس افسانچے میں ایک جملہ ’’اور میں دوہری شرم سے گڑ گیا۔‘‘ اپنے دوہرے معنی لیے ہوئے ہے۔اگر باہر کا کوئی انجان شخص اس کی اس حرکت کو بے نقاب کرتا تو شاید اسے شرمندگی نہ ہوتی لیکن یہاں اس کی اپنی بیٹی نے ہی اسے بے نقاب کیا ہے۔ایک تو ٹرین کے باتھ روم کے فحش نگاری پکڑے جانے کی شرمندگی اور دوسرے اپنی بیٹی کی نظروں میں گر جانے کی شرمندگی۔اس طرح وہ دوہری شرم سے گڑ گیا۔جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افسانچہ کیسا ہوتا ہے ان کے لیے افسانچہ ’’مجرم‘‘ ایک مثال ہے۔اور یہی انفرادیت ایم اے حق صاحب کے افسانچوں میں نظر آتی ہے اور ان کے افسانچے ایک مکمل فن پارہ ہوتے ہیں۔مجرم ایک ایسا افسانچہ ہے جسے پڑھنے کے بعد ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر عظیم راہی نے اپنی کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت:تنقیدی مطالعہ‘‘ میں افسانچے کی تعریف کی ہے’’افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کردینے کا نام ہے۔‘‘
ایم اے حق صاحب سے موبائل پر دوران گفتگو میں افسانچہ کے فن پر کرید کرید کر سوالات کرتا رہااور انھوں نے بھی ہر بار بڑے اچھے طریقے سے مجھے ہر سوال کا جواب سمجھایااور میری الجھنیں دور کی۔واٹس ایپ پر میرے افسانچوں کی کھلے دل سے رائے دی ورنہ آج کل کے بڑے ادیب نئے لکھنے والوں سے بات کرنا بھی کہا پسند نہیں کرتے ہیں۔وہ ادب کے معیار سے کبھی سمجھوتا نہیں کرتے،جب جب وقت آیا انھونے خود پر بھی تنقید کی ہیں۔وہ ایک بیباک اور مخلص انسان ہیں۔ایم اے حق صاحب سے افسانچے کے فن کے متعلق کیئے گئے سوالات کے جوابات کا نچوڑ اس طرح ہے :
’’اختصار افسانچے کی خوبی ، طوالت افسانچے کی موت اور منظر کشی افسانچے کی دشمن ہے۔افسانچے کی شروعات ایسی ہو کہ قاری مطالعہ کرنے کے لیے مجبور ہوجائے۔الفاظ جملے اور مکالموں کی تکرار نہ ہو بلکہ یہ نپے تلے ہو۔اختصار اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ ابہام پیدا ہوجائے۔اور طوالت اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ ہر بات کھل کر بیان کردی جائے۔ گھسے پٹے واقعات سے دامن بچانا بھی ضروری ہے۔ عنوانات دور حاضر کے مسائل اور حالات زندگی پر مبنی ہو۔عنوان سے کلائمکس کا پتہ نہ چلنے پائے۔اختتام و کلائمکس چونکا دینے والا ہو۔لو گوں میں ذہانت کی سطح کافی اونچی ہوتی جارہی ہے اور ایک مشہور کہاوت ہے کہ عقلمند کو اشارہ کافی ہے اور اشارہ ہمیشہ مختصر ہوتا ہے۔فرض کیجیے آپ ٹرین میں سفر کر رہے ہے۔آپ کے پاس افسانوں کی کتاب ہے۔آپ کے مقابل میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جو ادب سے و مطالعے سے بے بہرا ہے۔وہ شحص کتاب اٹھائے گا،دس پیج کے ایک افسانے پر نظر دوڑائے گا اور واپس رکھ دے گا۔اس کے بر عکس اگر آپ کے پاس افسانچوں کی کتاب ہوگی تو وہ اسی وقت دو تین افسانچے پڑھ ہی لے گا،پڑھ کر لطف اندوز ہوگا،دھیرے دھیرے مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا اور وہ افسانوں کی طرف راغب ہوگا۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ افسانچے ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، نہیں تو ادبی ذوق والے حضرات تو ادب کے مطالعہ سے اپنی پیاس بجھا ہی رہے ہیں۔افسانچہ دراصل افسانے کی بونسائی (Bonsai) شکل ہے۔ پلاٹ، کردار، مکالمے، کلائمکس، پیغام وغیرہ اجزائے ترکیبی کو افسانچے میں بڑی مہارت کیساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔آج افسانچہ وقت کی ضرورت ہے اور یہ صنف دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔‘‘
٭٭٭
0 Comments