بزمِ افسانہ کی پیش کش
نواں ایونٹ
’’ہفت رنگ (موضوعاتی افسانے)‘‘
افسانہ نمبر : 25
رِنگ ٹیون
(ٹیکنالوجی اور انسان)
سید اسماعیل گوہر
(ناندورہ ، مہاراشٹر)
جوں ہی الارم بجا اس نے آنکھیں کھول دیں۔ تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈال کر موبائل فون نکالا اور الارم بند کردیا۔
"اف کیا مصیبت ہے " وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
"رات نیند کی آغوش میں جانے تک موبائل ہاتھوں میں تھا اور اب پھر صبح ہی صبح موبائل ہاتھوں میں ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے، آدمی بس موبائل کا ہوکر رہ جائے۔ "
اس نے جھنجھلا کر موبائل پٹخنا چاہا۔۔۔ مگر پھر کچھ سوچا اور آف کرکے تکیہ پر رکھ دیا۔ ضروریات سے فارغ ہوتے وقت بھی اس کے دل ودماغ پر جھنجھلاہٹ ہی سوار تھی۔
"کیا موبائل اتنا ضروری ہے کہ انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔۔؟ موبائل نہ ہوا آکسیجن ہوگئی۔۔ اگر پھیپھڑوں میں نہ گئی تو سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے۔۔۔ کیا موبائل سے پہلے زندگی نہیں تھی۔۔۔؟ پھر آج کا انسان کیوں اس پر اتنا زیادہ منحصر ہوگیا ہے۔۔ ؟ "
تبھی اس کے ذہن میں ایک عجیب و غریب خیال نے دستک دی اور اس نے پل بھر میں اس خیال پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
باتھ روم سے نکل کر اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ ایک کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور کاغذ کو موبائل کے نیچے دبادیا جو اب بھی تکیہ پر پڑا ہوا تھا۔ بغل والے کمرے میں تمام اہل خانہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اس نے آہستہ سے بیرونی گیٹ کھولا اور اسےآہستگی سے بند کر خاموشی سے باہر نکل گیا۔
گلی سنسان پڑی تھی۔ کچھ آگے جانے کے بعد اکّا دکّا راہ گیر نظر آئے۔ مشرقی افق پر تھوڑا اجالا پھیل رہا تھا۔ وہ سیدھے محلّہ کی مسجد میں داخل ہوگیا۔ ابھی جماعت میں چند منٹ باقی تھے۔ ایسا موقع کم ہی آتا تھا کہ اس کی فجر کی نماز باجماعت ہوپاتی۔ اس نے مسجد میں موجود لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ زیادہ تر بزرگ اور ادھیڑ عمر کے لوگ ہی موجود تھے، البتہ دو پیارے سے بچے ایک کونے میں ادب سے بیٹھے ہوئےتھے۔ جیسے ہی اس کی نظر برآمدے کے ستون پر تحریر نوٹس پر پڑی تو غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ پتلون کی جیبیں ٹٹولنے لگے لیکن دوسرے ہی پل وہ سنبھل گیا اور تحریر کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔ کیون کہ یہ انتباہ تو موبائل فون والوں کےلیے تھی اور اس کے پاس تو فی الحال موبائل تھا ہی نہیں۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ شہر سے باہر جانے والی سڑک پر آگیا۔ رہائشی علاقہ ختم ہوتے ہی اسے تازہ ہوا کا فرحت بخش جھونکا محسوس ہوا، اس کی طبیعت سرشار ہوگئ۔ پچھلے کئی برسوں سے وہ اس مخصوص ہوا کے جھونکے سے محروم تھا۔ دھیرے دھیرے مارننگ واک کرنے والے بزرگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ اکّادکّا نوجوان بھی کانوں میں ہیڈ فون ٹھونسے، ٹریک سوٹ اور اسپورٹس شوز پہنے جاگنگ کر رہے تھے۔ وہ بھی چہل قدمی کرتا ہوا بہت دور تک نکل آیا۔
دور گیہوں اور چنے کے کھیتوں سے آگے سورج جھانک رہا تھا۔ سورج کی روپہلی سنہری کرنیں گیہوں اور چنے کی فصل سے مل کر خودبھی سبز مائل ہو رہی تھیں۔ جہاں تک نگاہ دیکھ رہی تھی، ہرے بھرے کھیت ہی نظر آ رہے تھے۔ کہیں کہیں درمیان میں املی اور آم کے پیڑ اس طرح کھڑے تھے گویا اس ہری بھری سلطنت کی پہرے داری کر رہے ہوں۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی کوک کانوں کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن وقفے وقفے سے گزرنے والی دودھ والوں کی موٹر سائیکل اور کھیتوں کی طرف جانے والے ٹریکٹروں کے شور سے ان مسرور کن آوازوں میں خلل بھی پیدا ہو رہا تھا۔
وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ کچھ دوری کے فاصلے پر دیہات کے مکانات نظر آرہے تھے۔ جن سے دھویں کی پتلی لکیریں نکل کر فضا میں تحلیل ہو رہی تھیں۔ وہ واپسی کےلیے مڑ گیا۔ وہ سڑک اور اس کے آس پاس کی خوبصورتی کو اپنے آپ میں جذب کر لینا چاہتا تھا۔ چہل قدمی کرتا ہوا دھیرے دھیرے شہر کی طرف واپس ہو رہا تھا۔ سورج اب افق سے کافی اوپر نکل آیا تھا۔ اسے گرمی کا احساس ہوا ۔ حالانکہ ماحول میں اب بھی خنکی موجود تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔
ہائی وے کے پاس کچھ دکانیں کھل گئی تھیں۔ ایک ٹھیلے والے سے پانی اور چائے پی کر اس کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ چائےکی چسکیاں لیتے وقت اتنے دورانیے میں پہلی بار اس کا دھیان اپنے گھر کی طرف گیا۔ موبائل کے نیچے دیے کاغذ کے پرزے پر لکھے اس کے پیغام پر بیوی کا کیا ردعمل ہوا ہوگا۔۔۔ وہ سوچ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔
"ممی دیکھو تو اس کاغذ پر کیا لکھا ہوا ہے۔۔؟ "
عرشیہ نے ماں کو آواز دی۔ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کر رہی عرشیہ اردو میں لکھی تحریر پڑھنے سے قاصر تھی۔
" میں ضروری کام سے باہر جا رہا ہوں۔۔ " بیوی نے بلند آواز سے پڑھا اور بڑبڑاتے لگی۔
" اب کہاں چلے گئے۔۔۔ ؟ اور دیکھو تو موبائل بھی ساتھ لے کر نہیں گئے۔۔۔ آج چھٹی کا دن ہے، گھر میں بہت سے کام پڑے ہیں۔۔۔ "
چائے پینے کے بعد اس کا رخ پبلک لائبریری کی طرف تھا۔ لائبریری انچارج رجسٹر پر سر جھکاۓ کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے لائبریری میں موجود لوگوں پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ زیادہ تر بوڑھے ہی تھے، جو اخبارات کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ اس نے ایک اخبار اٹھایا اور بینچ پر ٹک گیا۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں وہ بلاناغہ لائبریری آیا کرتا تھا۔ اگر کسی دن آنا نہ ہو سکا تو ادھورا پن محسوس ہوتا تھا۔ اس زمانے میں لائبریری میں تل دھرنےکو بھی جگہ نہ ہوتی تھی۔ جب تک لائبریری انچارج آکر یہ نہ کہتا کہ " لائبریری بند ہونے کا وقت ہوگیا ہے۔ " تب تک لوگ لائیبریری سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ آجکل نئی ٹیکنالوجی نے اخبار بینی کے شوق کو بالکل ہی ختم کردیا ہے۔ اس زمانے میں اپنے پسندیدہ رسالے کو لائبریری سے حاصل کرنے کےلیے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا تھا مگر آج الماریوں میں بند کتابیں اور رسالے دھول کھا رہے ہیں۔
وہ کئی گھنٹوں تک اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کرتا رہا۔ جب لائبریری انچارج نے پنکھے اور بلب بند کیے تو وہ بھی لائبریری سے باہر نکل گیا اور غیر ارادی طور پر ایک طرف کو چل دیا۔ تبھی اسے پیچھے سے کسی نے آواز دی۔۔
" توفیق میاں " اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو بڑے خالو کھڑے مسکرا رہے تھے۔ دونوں ہاتھوں میں کپڑے کی تھیلیاں تھیں۔ شاید سبزی منڈی سے سبزیاں لے کر آ رہے تھے۔ اس نے جھٹ سے سلام کیا۔
"میاں خیریت سے تو ہو ،کدھر جارہے ہو اس طرح پیدل؟ " بڑے خالو نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔۔
" جی خالو جان بالکل خیریت سے ہوں۔۔۔ میں ذرا یوں ہی ایک شناسا سے ملنے ادھر آیا تھا اب واپس جا رہا ہوں۔ "
اس نے دانستہ جھوٹ بولا۔
" گھر چلو، تمھاری خالہ تمھیں دیکھ کر بہت خوش ہو جائے گی۔ ویسے بھی تم مہینوں اپنی شکل نہیں دکھاتے۔ "
"جی چلیے" اس نے فوراً ہامی بھرلی اور خالو کے ہاتھ سے ایک تھیلی لے کر ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
بڑی خالہ نے اسے دیکھتے ہی گلے سے لگا لیا اور نظر اتارتے ہوئے چٹاچٹ بلائیں لے ڈالیں۔ " میرا بیٹا کتنے دنوں بعد آیا ہے۔ "
خالہ کی محبت اور خالو کا خلوص دیکھ کر اسے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ ان کا شکوہ بھی بجا تھا، ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی، وہ پچھلے چند برسوں میں بہت کم ان کے گھر آ پاتا تھا۔ خالہ بہت دیر تک اس سے باتیں کرتی رہیں۔ اسے بھی ان کی باتوں سے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی محبت بھری باتوں سے اس کی ساری کوفت اور الجھن دور ہوگئی۔ اس نے واپسی کی اجازت مانگی تو خالہ فوراً بول پڑی۔ " اے ہے۔۔۔ ایسے کیسے جانے دوں، کچھ دیر اور ٹھہر جا۔۔ کھانا کھا کر ہی جانا۔ " وہ انکار نہ کرسکا۔
کھانے کے دوران بھی دنیا جہاں کی باتیں ہوتی رہیں۔ خالہ کی بہو اور دونوں بچے بھی کھانے میں شریک تھے۔ البتہ بڑی خالہ کا بیٹا سہیل ابھی تک دکان سے نہیں آیا تھا۔ اس کی مارکیٹ میں کپڑوں کی دکان تھی۔ دونوں بچے کھانا کھاتے وقت بھی موبائل گیمز میں مشغول تھے۔ خالہ بڑبڑا رہی تھی۔ " ارے شیطانوں کھانا کھاتے وقت تو اس موۓ موبائل کو تھوڑا آرام کرنے دیا کرو۔" لیکن بچوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔۔۔۔
کھانا بہت ذائقے دار تھا۔۔ خالہ کی طرح ان کی بہو بھی امور خانہ داری میں ماہر تھی۔ اس نے سیر ہوکر کھایا ۔۔خالہ اور خالو سے اجازت لے کر باہر نکل گیا۔
ایک بار پھر اس کے قدم اپنے گھر کی بجائے کسی اور سمت میں اٹھ گۓ۔ وہ چلتے چلنے اچانک ٹھٹک گیا۔ اس کے نتھنوں سے وہی مانوس سی خوشبو ٹکرائی جو اس کے دل ودماغ کے کسی کونے کھدرے میں دبک کر پڑی ہوئی تھی اور آج نتھنوں سے ٹکراتے ہی پورے حواس پر چھا گئی تھی۔ گل مہر کے پھولوں کی مہک جو اسے بہت پسند تھی۔ خوشبو کےساتھ ساتھ کوئل کی کوک بھی کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ اس نے نظر اٹھائی تو خود کو نہرو پارک کی چہاردیواری کے سامنے پایا۔ اس کے قدم پارک کے آہنی پھاٹک کی طرف اٹھ گئے۔ یہ وہی نہرو پارک تھا جہاں اس نے اپنے بچپن اور لڑکپن کا بیشتر وقت گزارا تھا۔ نرم و مخملی گھاس پر چہل قدمی کی تھی۔ ہم عمر لڑکوں کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلے تھے۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کیں تھی۔ گل مہر کے پیڑ تو آج بھی اپنی جگہ پر ایستادہ تھے، مگر پتہ نہیں کیوں اداس لگ رہے تھے۔ پھولوں کی کیاریاں اجڑی پڑی ہوئی تھیں۔ مخملی گھاس کی جگہ دھول اڑ رہی تھی۔ اس نے پھاٹک میں کھڑے ہی کھڑے پارک کا جائزہ لے لیا۔ دور دور تک کوئی بچہ نظر نہیں آیا۔ ہاں چند بوڑھے پارک کی بینچوں پر اپنی اپنی سوچوں میں گم بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ پارک میں داخل ہوگیا اور ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ ان بیتے ہوئے سہانے دنوں کو یاد کرنے لگا۔ جب اس کا زیادہ تر وقت اسی پارک میں گزرتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ بچوں کے قدم گھروں میں ٹکتے ہی نہیں تھے۔ اور آج کا وقت ہے ! بچے گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں انسان نے ترقی کرلی ہے۔ یہ کیسی ترقی ہےکی انسان نے لاکھوں کروڑوں مربع میل زمین و آسمان سے نظر ہٹاکر محض چھ انچ اور بیالیس انچ کے اسکرین پر اپنی نظر مرکوز کرلی ہے۔
اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ گل مہر کی خوشبو اور کوئل کی کوک کو اپنے اندر سرائیت کرنے لگا۔ اسے لگا وہ خوشبو بن کر کوئل کے ساتھ ہواؤں میں اڑا جا رہا ہے۔ حد نگاہ تک نیلا آسمان اور ہریالی کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
تبھی اچانک اسے لگا جیسے کوئل اس کے کندھے پر بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے کانوں میں کوک رہی ہے۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا مگر کوئل نہیں تھی۔ لیکن آواز اب بھی مسلسل آرہی تھی۔ اسے کوئل کی کوک بہت پسند ہے، اسی لیے تو اس نے اپنے موبائل فون کی رنگ ٹیون۔۔ یہاں تک کہ الارم میں بھی یہی آواز سیٹ کر رکھی تھی۔ اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں غلطی سے تو موبائل میرے ساتھ تو نہیں آگیا۔۔۔ اور وہاں سے کوئل کی کوک والی رنگ ٹیون سنائی دے رہی ہو۔۔ یکے بعد دیگرے اپنے تمام جیبیں ٹٹول ڈالیں مگر بے سود۔ آواز اب بھی آ رہی تھی۔ وہ اور بھی چین ہوگیا۔ تبھی بالکل غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ تکیہ کے نیچے چلاگیا اور ایک سخت چیز سے ٹکرا گیا۔ ارے یہ تو موبائل ہے اور الارم سے آتی ہوئی کوئل کی کوک والی رنگ ٹیون اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
ختم شُد...
افسانہ : رِنگ ٹیون
موضوع : ٹیکنالوجی اور انسان
افسانہ نگار : سید اسماعیل گوہر
مبصر:
✍️ ریحان کوثر
کامٹی (ضلع ناگپور) مہاراشٹر
سید اسماعیل گوہر صاحب ایک مخلص انسان کے ساتھ ساتھ ایک مخلص قلم کار بھی ہیں۔ دینی یا دنیاوی نکتہ نظر سے قلم کار کی بے لوث کوشش، نیک نیتی، خلوص، غرض کے شائبے سے نیت کا پاک و صاف ہونا ایک قلم کار کو مخلص بنا دیتا ہے۔ آپ میں اور آپ کی تحریروں میں یہ تمام روشن اور تابناک قدریں شامل نظر آتی ہیں۔ آپ تحریروں میں سماج کا درد سمیٹ کر کہانی بننے کا ہنر جانتے ہیں۔ قدرت سے بے پناہ لگاؤ اور محبت کا ثبوت آپ کے فن پارے میں موجود ہیں۔
انسانی فطرت اور انسانی زندگی آج دوراہے پر کھڑی سسک رہی ہے۔ زندگی کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے۔ انسان ٹیکنالوجی کی غلامی اختیار کر چکا ہے۔ غلامی ایسی کہ انسان بس چلے جا رہا ہے۔۔۔ چلے جا رہا ہے! رکنے کے نام نہیں۔۔۔! تھکنے کی گنجائش نہیں۔۔۔! کہاں جانا ہے کوئی خبر نہیں! اور اس کے قدموں کے نیچے قدرت اور قدرتی وسائل، انسانی قدریں، انسانی جذبات، سماجی رابطے، سماجی سروکار، مذہبی اور ثقافتی ورثے سب کچھ بڑی ہی بے دردی اور بے رحمی سے روندے جا رہے ہیں۔ کچلے جا رہے ہیں! لعنت ہے ایسی مصروفیت پر ایسی بے وجہ اور غیر ضروری ترقی پر!
انسان آنکھ کھولتے ہی ٹیکنالوجی کی پرستش کرنا شروع کر دیتا ہے اور آنکھ لگنے تک بس اسی کی آغوش میں گرفتار رہتا ہے۔ زیر نظر افسانہ ’رنگ ٹون‘ انسانی قدروں کا سسکتے نوحے سے کم نہیں۔افسانے میں ایک خوبصورت خواب کا ذکر ہے جس میں راوی اپنی ایک دن کی زندگی ٹیکنالوجی کی اس غلامی کے بغیر جینے کی کوشش کرتا ہے۔ جیتا نہیں بلکہ صرف کوشش کرتا ہے وہ بھی ایک خواب میں!
زندگی کا یہ خوبصورت دن موبائل الارم سے شروع ہوتا ہے اور راوی جھنجلاہٹ میں موبائل توڑ دینے کا ارادہ کرتا ہے۔ لیکن صبح کی ضروریات سے فارغ ہو کر وہ موبائل وہیں تکیے پر چھوڑ کر اس کے نیچے ایک پرچی پر گھر والوں کے لیے پیغام لکھ کر مسجد کی طرف چل دیتا ہے۔ یہاں سے وہ زندگی شروع ہوتی ہے جو آج کسی خواب سے کم نہیں! ایک ایسا خواب جو ہر کس و ناکس اسے زندگی کی طرح جینا تو چاہتا ہے لیکن ٹکنولوجی کے چال میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ افسانے میں مسجد کے حالات، سڑکوں اور پارکوں کے حالات بڑی ہی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ راوی چلتے چلتے آبادیوں سے دور صبح کے خوبصورت مناظر میں کھو جاتا ہے۔ صبح کے ان فطری اور خوبصورت مناظر کو بڑی ہی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔
افسانے میں مختلف سماجی اور ثقافتی مسائل کو اٹھایا گیا ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں خوبصورتی سے افسانوی دھاگے میں پرویا گیا ہے۔
📌 دیر رات تک موبائل پر سوشل میڈیا مثلاً یو ٹیوب اور واٹس ایپ وغیرہ سے چپکے رہنا۔
📌 نمازِ فجر میں نوجوانوں کا غائب رہنا۔
📌 صبح لوگوں کا دیر تک سونا اور طلوع آفتاب وغیرہ سے محروم رہنا۔
📌 آبادیوں میں آلودگی
📌 انسان کا قدرت اور قدرتی نظاروں سے دور رہنا۔
📌 کتابوں اور دم توڑتے کتب خانوں سے دوری اور محرومی۔
📌 رشتے داروں اور پڑوسیوں سے رابط کم رکھنا۔
📌بطور خاص بچوں کا کھانا کھاتے وقت بھی موبائل اور ٹی وی وغیرہ سے چپکے رہنا۔
📌 پرندوں اور ان کی دلکش آوازوں کا آبادیوں میں مسلسل کم ہونا۔
اس افسانے سے پہلے بزم میں جو سید اسماعیل گوہر صاحب کا افسانہ ’شکواہ‘ پیش ہوا تھا وہ ماحولیاتی تناظر میں ایک عمدہ افسانہ تھا۔ اسی طرح زیر نظر افسانے میں بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اختتام سے قبل یہ ایک معمولی سی کہانی ہے۔ بلکہ جن موضوعات کا احاطہ اس تحریر میں کیا گیا ہے وہ اردو اخبارات کے جمعہ اور سنڈے ایڈیشن کی ہفتہ واری مشقت ہے جو ہر ہفتے قاری سے کسی نہ کسی مضمون کے ذریعے کروائی جاتی ہے۔ جس کا نہ کوئی اثر ہوتا ہے نہ کوئی فایدہ! لیکن اس افسانے میں افسانہ نگار اختتام پر قاری کو چونکانے میں کامیاب رہا اور اسی اختتام نے اس سادہ سی کہانی کو افسانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ مجموعی طور پر یہ پر لطف اور پراثر افسانہ ہے جو قاری تک اپنا پیغام پہنچانے میں سو فی صد کامیاب ہے۔
افسانہ نگار سید اسماعیل گوہر صاحب کو اس عمدہ افسانے کے لیے مبارکباد اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات 🌷
✍️ ریحان کوثر
0 Comments