بزمِ افسانہ کی پیش کش
آٹھواں ایونٹ (دوسرا حصہ)
نقش ہائے رنگ رنگ(عصری افسانہ)
افسانہ نمبر : 25
لمبے قد کا بونا
مشتاق احمد نوری
نقش ہائے رنگ رنگ(عصری افسانہ)
افسانہ نمبر : 25
لمبے قد کا بونا
مشتاق احمد نوری
پورے پنڈال کی نگاہیں ایک میز پر مرکوز ہیں جس پر سترہ اٹھارہ سال کی شالو نام کی ، نیم برہنہ لڑکی ایک پہیے والی سائیکل پر بیٹھی ہے۔ وہ دونوں پاؤں پیڈل پر رکھے سائیکل کو بیلنس کرتی ہوئی داہنے پاؤں پر ایک طشتری رکھتی ہے، پھر اسے اٹھا کر اس طرح اچھالتی ہے کہ وہ طشتری اس کے سر پر آگرتی ہے۔ نیچے کھڑا بونا تالی بجاتا ہے۔ پھر ایک قلفی ہوا میں اچھال دیتا ہے۔ وہ قلفی کوپاؤں پر روک کر اس طرح اوپر پھینکتی ہے کہ قلفی اس کے سر پر رکھی ہوئی طشتری میں آکر گرتی ہے۔ یہ سلسلہ درجن بھر قلفیوں طشتریوں تک چلتا ہے۔آخر میں چمچے کی باری آتی ہے۔ بونا جو کر چمچہ ہوا میں لہراتے ہوئے کہتا ہے:
’’صاحبان قدردان۔۔۔ چمچوں کے اس دور میں اس خوبصورت لڑکی کے لئے چمچے کی کمی نہیں ہے۔ لیجئے اسے آپ ہی رکھ لیجئے ، شاید کام آجائے۔‘‘
پھر وہ چمچے کو لاپروائی سے ہوا میں اچھال دیتا ہے۔ لوگوں کی نگاہیں چمچے کا تعاقب کرتی ہیں اور ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ وہ چمچہ اڑتا ہوا لڑکی کے سر پر رکھی ہوئی آخری قلفی میں جا گرتا ہے۔ پورا پنڈال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔
یہ بونا راجن ہے۔ یہ کھیل بھی صرف راجن ہی دکھا سکتا ہے۔
راجن نئے نئے تماشے گڑھنے میں ماہر ہے۔ جب سے وہ اس سرکس میں آیا ہے، تماشے کے معیار میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔معمولی معمولی تبدیلی سے پرانے کھیل میں بھی نیا پن پیدا کرنے میں اسے مہارت حاصل ہے۔ اس پر طرہ اس کی جملے بازیاں۔ ایک سے ایک چبھتا ہوا فقرہ وہ پبلک کی طرف اچھالتا ہے ۔ جیسے کوئی گیند اچھالتا ہو۔ لوگ اس کی بات پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں، لیکن بعد میں انہیں احساس ہوتا ہے کہ راجن بہت گہرائی تک وار بھی کر جاتا ہے۔
جب سے یہ سرکس شہرمیں آیا ہے گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ویسے تو سارے سرکس ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ وہی جھولا ،وہی جو کر ، وہی سائیکل اور لڑکی ، موت کا کنواں، جانوروں کا کھیل، طوطے کا کمال، ہاتھیوں کی پوجا وغیرہ ۔۔۔ لیکن اس سر کس میں ایک ایسا اسپیشل شو تھا جو دوسرے کسی سرکس میں نہ ہوتا تھا اور یہی شو، شہر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
’’راجن دی گریٹ شو۔۔۔‘‘ یہ نام تھا اس اسپیشل شو کا اور اس کو انجام دینے والے سارے بونے تھے اور ان سب بونوں کاسردار راجن تھا۔
یہ راجن بھی عجیب تھا، کو ئی تین فٹ کا بونو۔ اس کی سج دھج ہی نرالی تھی۔ وہ جس شو میں بھی ہوتا اپنی شخصیت کا سکہ ضرور جما دیتا۔
آج بھی قلفی طشتری کا کھیل جاری ہے۔
آج شالو غضب ڈھا رہی ہے۔ اس کے گلابی جسم پر لباس بھی گلابی ہے۔ لباس کے نام پر صرف ٹو پیس بکنی پہنے اس لڑکی کو ذرہ برابر بھی احساس نہیں کہ سینکڑوں نگاہیں اس لباس کے اندر جھانکنے کی کو شش میں ہیں۔ لباس کے نام پر اس برہنہ شائستگی کا بھی جواب نہیں۔ سینکڑوں مردوں کے سامنے ایک برہنہ لڑکی کی جوانی کا جو بن سارے بندھن تو ڑ دینے کو بے تاب۔۔۔ دور سے دیکھنے میں کپڑے اور جسم کے گلابی پن میں کوئی فرق نہیں لگتا ۔ یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کپڑے کی حد کہاں تک ہے اور جسم کہاں سے بر ہنہ ہے۔
وہ راجن کے سہارے ٹیبل پر رکھی سائیکل پر چڑھتی ہے۔ پھر راجن ٹیبل سے کود کر نیچے آجاتا ہے اور اسے طشتریاں، قلفیاں اچھال کر دینے لگتا ہے۔ اب آخری قلفی دینا باقی ہے، لیکن راجن کہیں کھوسا گیا ہے۔ شالو اشارے سے قلفی مانگ رہی ہے، لیکن وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بھی اسے گویا دیکھ نہیں پارہا ہے، تب پیچھے سے بھولو نام کا بونا لکڑی کی چوڑی پٹی راجن کے کو لہے پر رسید کرتا ہے۔ پڑاق کی آواز ہوتی ہے اور پبلک کا قہقہہ بلند ہوتا ہے۔ راجن چونک پڑتا ہے اور مارنے والا بونا کہتا ہے:
’’کہاں ڈوب رہا ہے راجن؟‘‘
راجن جلدی سے قلفی ہوا میں اچھال دیتا ہے جسے لپک کر لڑکی پکڑنا چاہتی ہے لیکن پکڑ نہیں پاتی اور بیلنس کھو دیتی ہے۔ اس کے سر پر رکھی ساری قلفیاں طشتریاں زمین پر گر جاتی ہیں۔ راجن حیرت زدہ رہ جاتا ہے پھر دوسرا بونا بھولو پبلک کی طرف مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہتا ہے :
’’آپ لوگ جانتے ہیں ایک بات؟‘‘ وہ چاروں طرف نگاہیں دوڑاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتا ہے۔
’’یہ جو بونا ہے نا راجن۔۔۔ ہاں راجن دی گریٹ۔۔۔ یہ اس لڑکی سے عشق کرتا ہے۔ سنا آپ نے؟‘‘
اس کی بات سن کر سارا پنڈال قہقہوں سے گونج اٹھتاہے۔ شالو بھی مسکرا دیتی ہے اور راجن ۔۔۔ اسے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اچانک کسی نے اسے بھرے مجمع میں ننگا کر دیا ہے۔ وہ بونے کی جانب دیکھتا ہے، پھر بھرے پنڈال پر نظر ڈالتا ہے۔ چاروں طرف اسے تضحیک بھری ہنسی نظر آتی ہے۔ وہ اچانک اسٹیج چھوڑکر ، اندر کی جانب چل دیتا ہے۔
شو کے ختم ہونے کے بعد شالو اندر جا کر راجن سے اس کے اچانک اسٹیج چھوڑ جانے کی وجہ دریافت کر تی ہے۔ راجن اسے بہت غور سے دیکھتا ہے پھر رکی رکی آواز میں کہتا ہے:
’’شالو ۔۔۔ اس بونے نے اتنا بڑا سچ اتنی آسانی سے کیسے کہہ دیا؟‘‘
’’سچ ؟ کون ساسچ؟‘‘ شالو حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔
’’وہ سچ جو میں آج تک زبان پر نہیں لا پایا تھا۔‘‘
راجن زمین کی جانب تک رہا ہے۔ شالو ایک لمحہ چپ رہتی ہے پھر کہتی ہے۔ اس کے لہجے میں بے یقینی ہے:
’’راجن ۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’وہی۔۔۔ جسے کہنے کا کوئی حق مجھے نہیں۔ صرف اس لئے کہ میں بونا ہوں۔ بونا صرف بونا ہوتا ہے۔ اسے آج تک کسی نے مکمل آدمی نہیں سمجھا۔‘‘
شالو راجن کی آنکھوں کے کرب کو برداشت نہیں کر پاتی ۔ اسے لگتا ہے کہ وہ کسی غیر مرد کے سامنے برہنہ کھڑی ہے۔ اپنی برہنگی سے گھبرا کر باہر نکل جاتی ہے۔ راجن اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ماضی کے اوراق یا دوں کی گرم ٹھنڈی ہوا میں پھڑ پھڑانے لگتے ہیں۔
راجن عام بونوں سے بہت مختلف تھا۔ اس کا تعلق پورنیہ شہر کے ایک دولت مند تاجر گھرانے سے تھا۔ اس کی تعلیم و تربیت رؤسا کے بچوں کی طرح اور ان کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس نے پو رنیہ کالج سے انگریزی ادب میں آنرز کیا تھا۔ بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا۔ والدین کی محبت تو نصیب تھی، لیکن اس محبت میں ترحم کا جذبہ بھی شامل تھا جسے راجن اپنے لئے تضحیک تصور کرتا تھا۔ وہ اپنے قد کی کمی کو اپنی صلاحیتوں سے پوری کرنا چاہتا تھا۔ اس کی آواز بہت بھاری اور گرج دار تھی۔ کمرسے اوپر وہ بالکل عام آدمیوں جیسا ہی لگتا تھا، صرف اس کے ہاتھ پاؤں چھوٹے تھے اچھے لباس کا وہ ہمیشہ شوقین رہا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو مخاطب کو مسحور کرلیتی تھی، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنے قد کی وجہ سے ہر جگہ مار کھا جاتا۔ تین فٹ کا قد جو بھی اسے دیکھتا، اس کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ کالج میں داخلے کے بعد وہ کچھ دن تک لڑکوں کے مذاق کا نشانہ بنا رہا، لیکن کلاس کو جب اس کی صلاحیتوں کا علم ہوا تو لوگوں کو اس پر رحم آنے لگا۔ برابری کا درجہ اسے پھر بھی نہ ملا ۔ وہ سوچتا کہ اس رحم سے تو وہ بے رحم مذاق ہی اچھا تھا۔
بحیثیت مجموعی راجن مذاق اور رحم دونوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ وہ خود کو کسی بھی لحاظ سے دوسروں سے کم نہ سمجھتا تھا۔ ایک ہی سال میں اس نے پورے کالج سے اپنی ذہانت کا لوہا منوا لیا۔ انگریزی کے استاد پروفیسر رائے اسے بہت عزیز رکھتے تھے۔ وہ خود چمپا نگر اسٹیٹ کے وارث تھے اور ان کے رہن سہن اور بول چال میں وہی رئیسا نہ ٹھاٹ باٹ تھے۔ وہ راجن سے گھنٹوں انگریزی ادب پر گفتگو کرتے ، اس کو ادب اور زبان کے نکات سکھاتے ۔ انگریزی ڈبیٹ میں راجن ہمیشہ اول آتا۔ انگریزی وہ بالکل صحیح لہجے میں بولتا۔آواز کے سحر میں کھو کر تمام سننے والے اس کا قد بھول جاتے، لیکن اس کے بعد پھر وہی ترحم آمیز نگاہیں، وہی احتیاط اور لحاظ کہ راجن کسی بات کا برا نہ مان جائے۔ پروفیسر رائے نے اسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا، باقی کے لئے وہ صرف ایک مریض تھا، لا علاج اور رحم انگیز۔
آنرز کی اعلیٰ ڈگری کی بنیاد پر اسے اچھے پبلک اسکول میں نوکری بھی مل گئی ،لیکن پندرہ دن کے اندر ہی اسے اسکول چھوڑ دینا پڑا ۔ کسی بھی کلاس کے لڑکے اسے ٹیچر سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ جس کلاس میں بھی جاتا لڑکے منھ دبا کر ہی ہی کرنے لگتے اور اس کی بات نہ سنتے۔ بچوں کے لئے وہ محض بونا تھا۔ اس کی گرج دار ڈانٹ کا بھی لڑکوں پر اثر نہ ہوتا ۔ وہ ہوگا انگریزی کا ماہر ،لیکن بچوں کے لئے وہ محض بونا تھا۔ بونا صرف بونا ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ انسانی سلوک نہیں ہو سکتا۔
کئی سرکاری آسامیاں ایسی بھی تھیں، جو اسے جسمانی طور پر پس ماندہ ہونے کے باعث مل سکتی تھیں۔ اس نے درخواست بھی دی، لیکن اس سے جسمانی پسماندگی کا سرٹیفیکٹ مانگا گیا۔ وہ حیرت زدہ تھا۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ بونا ہے، لیکن پھر بھی خود کو بونا منوانے کے لئے اس سرکاری سرٹیفیکٹکی ضرورت تھی۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ جو تھا لوگ اسے بغیر سرکاری سرٹیفیکٹ کے ماننے کو تیار نہ تھے اور جو وہ خود کومنوانا چاہتا تھا اسے اس کا چھوٹا قد اپنی آڑ میں لے لیتا تھا اور تین فٹ کا قد اس کی تمام بلند و بالا صلاحیتوں کو چھپا لیتا تھا۔
آخر کار وہ گھر کی چہار دیواری میں قید ہو کر رہ گیا۔ یہاں اگر چہ اسے کسی شے کی کمی نہ تھی ،لیکن اسے بار بار یہ احساس ہوتا کہ وہ گھر والوں پر ایک بوجھ ہے۔ کسی بھی تقریب میں اسے ساتھ لے جانا شان کے خلاف سمجھا جاتا ۔ گھر میں مہمان آتے تو اسے اپنے کمرے سے نہ نکلنے کی تاکید کی جاتی۔ بہن کی سہیلیاں اسے کھیل کا سامان سمجھتیں۔ ایک مکمل جوان لڑکے کو بچہ سمجھتی ہوئی وہ عجیب عجیب سوال کر تیں اور جب وہ جھنجھلا کر انگریزی میں ان پر لعنت ملامت کرتا تو وہ حیرت سے اسے یوں دیکھتیں جیسے کوئی بندر آدمی کی بولی بول رہا ہو۔
ایسے گھٹن بھرے ماحول میں دیر تک زندہ رہنا بہت مشکل پا کر ایک نئی زندگی کی تلاش میں راجن نے ایک دن چپکے سے اپنا گھر چھوڑ دیا۔ پورنیہ سے بس لے کر وہ پٹنہ چلا آیا۔
بس اسٹینڈ کے قریب ہارڈنگ پارک میں سر کس کا پنڈال گڑا تھا۔ وہ بھی دل بہلانے کے لئے اندر داخل ہو گیا ۔ اسے حیرت ہوئی جب گیٹ کیپر نے اس کا ٹکٹ چیک نہیں کیا۔ اس نے شاید اسے بھی سرکس کا اسٹاف سمجھ لیا تھا۔
سرکس میں دیگر بونوں کو لوگوں پر قہقہہ اچھالتے دیکھ کر اس کے کسی نہ کسی جذبے کی ایسی تسکین ہوئی کہ اس کا دل سرکس کا ہی ہو کر رہ گیا۔
سرکس کے شوکی گھنٹی بج رہی تھی۔
نیا شو شروع ہونے والا تھا۔
سب سے پہلے جھولے کا شو ہونا تھا۔
جھولے میں بونے کا کیا کام؟
لیکن راجن تو راجن تھا، جو ٹھان لیتا اسے کر گزرتا ۔ اس نے جب پہلی بار سرکس منیجر سے جھولے کے شو میں حصہ لینے کی بات کی تو منیجر ہنس پڑا تھا، لیکن صرف دس دن کی پریکٹس میں اسے سکھانے والا جھولا ماسٹر شیرا بھی انگشت بد نداں رہ گیا تھا۔
شیرا جھولے کا سب سے ماہر کھلاڑی تھا۔ ایسے ایسے کرتب دکھا تا کہ بڑے بڑے استاد بھی دنگ رہ جاتے۔ لمبا گورا چٹا شیرا جو خاندانی کرتب باز تھا۔ وہ کئی پشتوں سے سر کس کا آدمی تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کی دنیا بس سرکس تھی۔ کہیں کوئی گھر نہیں ۔ جہاں سرکس وہیں گھر۔
راجن نے شیرا کی ناک نہ کٹنے دی، بلکہ اس کی شہرت اور وقار میں اضافہ ہی کیا۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پیر جھولے میں پھنسا کر اپنا بدن نیچے لٹکا دیتا۔ پھر اچانک ہوا میں پلٹے کھاتا۔ دوسری جانب سے لڑکیاں جھولتی ہوئی آتیں اور راجن انہیں ہوامیں ہی سنبھال لیتا۔ پھر وہ ان کے پاؤں میں پاؤں پھنسا کر ایسی قلابازیاں کھلاتا کہ لوگوں کی چیخ نکل جاتی۔ سب سے اچھا شو وہ تب دکھاتا جب شالو کا ایک ہاتھ اس کے پاؤں میں پھنسا ہوتا۔ وہ شالو کو ہوا میں لہراتا پھر اپنے پاؤں سے یوں پھر کی گھماتا کہ پنڈال تالیوں سے گونج جاتا۔
آخر میں وہ شیرا کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر جھولتا۔ شیرا اسے ہوا میں پھر کی گھماتا ، پھر وہ اوپر کی پٹری پر چلا جاتا اور جب دوسری بار شیرا جھولتے ہوئے ادھر آتا تو وہ اسے اپنے ہاتھ کے بجائے اپنا پاؤں تھما دیتا۔ شیرا کے ہاتھ میں راجن کے پاؤں کی بجائے صرف راجن کا پاجامہ آتا۔ راجن دھڑام سے نیچے رسیوں کی جالی پر گرتا اور لوگ قہقہوں سے اس کا استقبال کرتے۔
سرکس کی دنیا اپنے آپ میں نرالی تھی۔ باہر سے اسے کوئی مطلب نہ تھا۔ یہاں صرف مالک اور منیجر کا قانون چلتا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں کرتب باز تھے جو چھوٹے چھوٹے خیموں میں خاندان در خاندان آباد تھے۔ جانوروں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ کرتب بازوں میں زیادہ تر خاندانی تھے۔ عام طور پر سارے لوگ بہت کم پڑھے لکھے تھے۔ ان کے بچوں کو موقع ہی کب ملتا کہ وہ اسکول جائیں۔ بچے بھی ہوش سنبھالتے ہی سرکس کا حصہ ہو جاتے ۔ کسی شہر میں دو یا تین ماہ سے زائد نہیں رکنا ہوتا تھا۔ اس طرح ان لوگوں کی زندگی سفر در سفر گزرتی تھی۔ سرکس میں کرتب بازوں کا بچوں، بوڑھوں کا، جانوروں کا ہر طرح سے استحصال ہوتا۔ جانورتو مجبور تھے اور انسان اسے اپنی زندگی کا ایک حصہ مان چکے تھے۔ کوئی احتجاج کوئی ملامت کسی گوشے سے نہ اٹھتی تھی۔
شیرا کی نظریں ایک عرصہ سے شالو پر تھیں۔ شالو بھی اندر ہی اندر اسے پسند کرتی تھی۔ شالو کی نانی کیرل کی رہنے والی تھی۔ غربت سے تنگ آکر اس نے یہ پیشہ اختیار کیا تھا۔ شالو کی ماں یہیں پیدا ہوئی۔ اس سر کس کے ایک جھولا ما سٹر سے اس کی ماں کی شادی ہوئی تھی۔ پھر شالو پیدا ہوئی۔ شالو کا باپ بھی مانا ہوا جھولا ماسٹر تھا۔ شیرا کی تربیت اسی نے کی تھی۔ شہروں شہروں گھومتی ، پلتی، بڑھتی، بچپن سے سرکس میں کام کرتی شالو جوانی کی دہلیز پر کب پہنچ گئی کسی کو احساس بھی نہ ہوا۔ اسے بچپن میں جو پہنایا گیا ، وہ بلوغ میں بھی وہی پہنتی رہی۔ وہ یہی ٹوپیس بکنی پہنتی آئی تھی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ لباس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، صرف کپڑے کا سائز بدلتا گیا۔ اس نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیاتھا کہ اس کی نیم بر ہنہ جوانی دوسروں پر کیا قیامت برپا کرتی ہے۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مالک اس کی نیم بر ہنگی کی کتنی زبردست قیمت وصول کرتا ہے۔ وہ بچپن سے ایک ہی ڈگر پر چلتی آرہی تھی۔ اسے کیا پتہ تھا کہ ایک دن راجن جیسا بونا اچانک سامنے آکر اس کا راستہ روک لے گا اور کہے گا:
’’شالو۔۔۔ تم یہ باور کیوں نہیں کر لیتی کہ میں محض ایک بونا نہیں ہوں؟‘‘وہ چونک پڑی۔۔۔ سامنے شیرا کھڑا تھا۔ نہیں، یہ شیرا نہیں، راجن تھا۔ بونا راجن۔۔۔ کس بنا پر وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں دوسروں سے مختلف ہوں؟
ویسے سرکس میں سب سے خستہ حالت بونوں کی تھی، حالانکہ یہ درجن بھر بونے ہی سرکس کی شان تھے، انہیں کے دم سے شوکی رونق تھی، لیکن ان کے مسائل پر توجہ دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ ان میں راجن بالکل جدا لگتا تھا۔ شو کے بعد وہ بالکل سنجیدہ رہتا ، کوئی فالتو گفتگو نہ کرتا۔ اپنا زیادہ تر وقت وہ انگریزی کتب و رسائل کے مطالعے میں گزارتا یا پھر وہ تنہائی میں نئے نئے کرتب ایجاد کرتا اور اس کے مشورے کے مطابق کرتب بازوں کو تربیت دی جاتی۔ شو کے دوران وہ ایسے ایسے فقرے چست کرتا کہ لوگ تلملا کر رہ جاتے۔ پبلک تو صرف یہ جانتی تھی کہ راجن بھی بونوں کی طرح کا ایک بونا ہے، اگر چہ ذرا زیادہ تیز طرار ہے، لیکن سرکس کی پوری آبادی اس کی شخصیت کی معترف ہوتی جا رہی تھی۔
’’راجن دی گریٹ شو‘‘ ایک خاص شو تھا ،جو تھا تو ایک مختصر ڈراما ،لیکن ہنستے ہنساتے وہ سماج اور سیاست کی ایسی ایسی دکھتی رگوں پر انگلی دھردیتا کہ ایک طرف تو لوگ ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیتے اور دوسری طرف انہیں احساس ہوتا کہ اس بونے نے ایک ایسی پھانس ان کے دلوں میں چبھو دی ہے، جس کو آسانی سے نکالا نہیں جا سکتا۔ اپنے شو کی کامیابی کے نشے میں کبھی کبھی راجن کو سب بونے نظر آتے اور خود اپنا قد اسے سب سے اونچا نظر آتا۔
سرکس میں بونوں کو آدمی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ وہ بچوں کی فہرست میں بھی مشکل ہی سے شمار ہوتے تھے۔ بچوں کی طرح ہی ان سے بیگار کرائی جاتی۔ بیچارے بونے اف نہ کرتے۔ شاید انہیں یہ یقین دلادیا گیا تھا کہ سارے سماج نے انہیں ٹھکرا دیا ہے اور سرکس نے انہیں پناہ دی ہے، لہٰذا جو کہا جائے وہ چپ چاپ اس کی تعمیل کریں۔بونوں کو کھانا بھی بچوں کے برابر دیا جاتا۔ لڑکیاں خاص طور سے انہیں بہت چھیڑتیں۔ وہ انہیں بچوں کی طرح گود میں اٹھا کر نچاتیں ۔ ایک دن شالو نے بھی اسی طرح راجن کو اپنی گود میں اٹھا لیاتھا ۔ راجن کو محسوس ہوا جیسے اس کے پورے جسم میں بجلی کی لہر دوڑ گئی ہو۔ وہ تڑپ کر شالو کی گود سے نیچے آرہا تھا۔ شالو کے ساتھ دوسری لڑکیاں بھی ہنس پڑی تھیں ،لیکن راجن کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
ایک دن ایک کرتب باز نے راجن سے بھی بیگارلینی چاہی ، لیکن راجن نے غرا کر اسے ایسا سخت جواب دیا تھا کہ پھر کسی کو اس کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ بھولو نام کے بونے سے راجن کی خاصی دوستی تھی۔ وہ قدرے تعلیم یا فتہ تھا اور بونوں کے استحصال سے چڑھتا بھی تھا۔ اس نے راجن سے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ کچھ لوگ بونوں کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں، لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ بھی بونوں کے مسائل تھے، لیکن مالک کی نظروں میں کسی بونے کا کوئی بھی مسئلہ قابل ا عتنا نہیں تھا۔ وہ بس اتنا ہی جانتا تھا کہ میں بونوں پر احسان کر رہا ہوں کہ انہیں بھوکوں مرنے سے بچا رہا ہوں ۔ ایک دن راجن کئی بونوں کو لے کر مالک کے پاس گیا۔ مالک اس کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی تھوڑی بہت عزت کرتا تھا، اس لئے اس نے راجن کو کرسی پر بٹھایا۔ باقی سارے بونے کھڑے رہے۔ پھر راجن نے سنجیدہ اور جذبات انگیز لہجے میں مالک کو یہ سمجھانے کی کو شش کی کہ بونے بھی انسان ہیں۔ وہ مکمل مرد ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات و احساس عام انسانوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کی ضرورتیں عام آدمیوں جیسی ہوتی ہیں۔ صرف ان کے ہاتھ پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں اس سے زیادہ فرق ان میں اور ایک عام مرد میں نہیں ہوتا۔ انہیں ایک مکمل مرد سمجھتے ہوئے ان کااستحصال کرنے کی بجائے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
مالک بھڑک اٹھا:
’’کس انصاف کی بات کرتے ہو تم ؟ جب خود بھگوان نے تم لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کیاتو پھر تم انسان سے اس کی توقع کیوں رکھتے ہو؟‘‘
راجن نے پر سکون لہجے میں کہا:
’’دیکھئے صاحب۔۔۔ ہم بونے ہی آپ کے سرکس کی شان ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور ہماری ضرورتوں کی جانب توجہ نہ دی گئی تو پھر کوئی بھی بونا سر کس کے کسی بھی شو میں آئندہ سے حصہ نہیں لے گا۔۔۔‘‘
مالک نے بونوں کے مسائل کی طرح ہی ان کی اس دھمکی کو قابل اعتنا نہ سمجھا ۔ سرکس کی چالیس سالہ اس کی زندگی میں کسی کرتب باز نے آج اسے پہلی بار دھمکی دی تھی:
’’ایسے ایسے کتنے آئے اور میرے پاؤں کے نیچے سے نکل گئے۔‘‘ وہ حقارت سے بولا: ’’تم سالے ہوہی کیا؟ چوہوں سے بدتر ہو تم کیا اور تمہاری ضرورتیں کیا۔‘‘
اس نے بونوں کو دھتکاردیا ،لیکن دوسرے دن جب شو کی گھنٹی کے بعد بھی نہ کوئی بونا اور نہ بڑے قد کا جوکر رنگ میں آیا تو مالک کو تشویش ہوئی۔ بونوں کی اور خاص کر راجن کی کمی سب نے محسوس کی۔ یہ سرکس بے لطف ہو کر رہ گیا۔ پنڈال سے راجن راجن کی آوازیں آنے لگیں۔ جھک مار کر مالک کو بونوں کا حق تسلیم کرناپڑا ۔ پھر سارے بونے رنگ میں اس شان سے آئے کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ راجن ان بونوں کے کندھے پر سوار تھا اور بڑے جوکر اسے پنکھے سے ہوا جھل رہے تھے۔
یہ راجن کی پہلی جیت تھی۔
اور اس رات شالو نے راجن کے خیمے میں آکر اسے مبارک باد دیتے ہوئے کہاتھا:
’’راجن۔۔۔ آج تم نے سب کو یہ باور کرادیا کہ تم صرف بونانہیں ہو۔‘‘
’’اور تم۔۔۔ ؟‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا’’شالو ۔۔۔ تم بھی یہ کیوں نہیں مان لیتی کہ میں صرف بونا نہیں ہوں۔‘‘
شالو کچھ بھی بول نہ پائی ۔ بس اس کی جانب چپ چاپ دیکھتی رہ گئی تھی۔
’’راجن دی گریٹ ،تم اپنے آپ کو کہاں کہاں منواتے پھروگے؟‘‘
راجن چونک پڑا۔ یہ آواز تو پروفیسر رائے کی تھی۔
زمانہ طالب علمی میں راجن اکثر پروفیسر رائے سے بونوں کے مسائل پر گفتگو کرتا تھا۔ پروفیسر رائے نے اس کی ہمت بندھائی تھی اور اسے مقادمت، ثابت قدمی اور خود اعتماددی کے گر سکھائے تھے، لیکن اسی دوران انہوں نے ایک بار اس سے بھی یہ کہا تھا:
’’راجن دی گریٹ ۔ تم اپنے آپ کو کہاں کہاں منواتے پھرو گے؟‘‘
اس کے جی میں آیا کہ وہ چیخ چیخ کر کہے:
’’راجن دی گریٹ نے خود کو منوالیا ہے۔‘‘
اس رات وہ بہت خوش تھا اس نے پورے سرکس کے اسٹاف کی روزانہ زندگی اور حیثیت پر نظر دوڑائی ۔ سارے اسٹاف تھے تو بڑے قد کے لیکن مالک کے سامنے سب اس سے بھی زیادہ بونے تھے۔
اب بونوں سے کوئی بے جا کام نہیں لیا جاتا تھا۔ وہ پہلو انوں کی مالش بھی نہ کرتے تھے۔ اب انہیں ان کی بھوک اور کام کے مطابق کھانا دیا جاتا۔ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ لڑکیاں بھی اب ان کے ساتھ تضحیک کا برتاؤ نہ کرتی تھیں۔ شالو کی سمجھ میں اب آیا تھا کہ جب اس نے اچانک راجن کو اپنی گود میں اٹھا لیا تھا تو وہ تڑپ کر کیوں نیچے آرہا تھا، اس روز تو راجن کا چہرہ سرخ ہوا تھا اور آج اس واقعے کو یاد کرکے شالوسرخ ہو رہی تھی۔ اس سلسلے میں شالو نے کبھی سنجیدگی سے نہ سوچا تھا، لیکن قلفی طشتری والے شو کے دوران جو بات ہو ئی تھی اس کے باعث وہ پہلی بار چونکی تھی اور اب تو چونکنے کا سلسلہ اتنا دراز ہو گیا تھاکہ کبھی کبھی وہ سوتے میں بھی چونک پڑتی تھی۔
بونوں کا حق تسلیم کرانے کے بعد راجن ان کا ہیرو ہو گیا تھا۔ سارے بونے اسے ’’باس‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ۔بڑے قد کے جوکر بھی اس ٹولی میں شامل تھے۔
بونوں کے بعد سب سے زیادہ استحصال لڑکیوں کا ہوتا تھا، کبھی کبھی تو لڑکیوں کے والدین بھی سب کچھ جان کر گونگے بہرے اور اندھے بن جانے پر مجبور ہو جاتے۔ انہیں احساس تھا کہ مجبوریوں کے دریا میں رہ کر ضرورت کے مگر مچھ سے بیر نہیں کیا جاسکتا۔
سرکس کی دنیا نے اور کچھ کیا ہو یانہ کیا ہو لیکن اس نے اتنی شائستگی سے ہزاروں نگاہوں کے سامنے دن کے اجالے میں لڑکیوں کے جسم سے کپڑے اتار لئے تھے کہ خود ان لڑکیوں کو بھی احساس نہ ہو سکا تھا۔ سرکس کے شوکے دوران وہ کئی بار مردوں کے ہاتھوں سے گزرتیں ، لیکن انہیں محسوس بھی نہ ہوتا کہ غیر مرد انہیں چھو رہا ہے۔ جس ہو شیاری سے ان کے جسم سے لباس اتارا گیا تھا، اسی ہو شیاری سے ان کا استحصال بھی ہوتا اور استحصال ان کی زندگی کا معمول بن کر رہ گیا تھا۔
لڑکیوں کا استحصال کرنا ہر مرد اپنا حق سمجھتا ہے، لیکن سرکس کے منیجر ، مالک ، پہلوان اور دیگر طاقتور لوگ اسے صرف اپنا حق ہی نہ سمجھتے ، بلکہ زندگی کا معمول سمجھتے۔ یہاں زندگی ایسا منظم نظام تھی کہ کوئی چوں تک نہ کرسکتاتھا ۔ پھر یہ لوگ سرکس چھوڑ کر جاتے بھی کہاں ؟کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو لے کر رات کے اندھیرے میں غائب ہو جاتا ۔۔۔ بس۔۔۔
ایک دن راجن نے گفتگو کے دوران مالک سے اس سلسلے میں بھی گفتگو کرنی چاہی ،لیکن مالک نے بڑی رکھائی سے جواب دیا:’’ دیکھو راجن۔۔۔تم صرف بونے ہو ، اس لئے صرف بونوں کے بارے میں سوچو ۔۔۔ ان لوگوں کے بارے میں جو تم نے کہا میں نے سب مان لیا، لیکن دوسرے کے پھٹے میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤ، ورنہ اس چھوٹی سی ٹانگ سے بھی ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔‘‘
مالک کی بات سن کر وہ خاموشی سے چلا تو آیا تھا، لیکن اس نے خفیہ طور پر اپنی مہم جاری رکھی۔ شالو کو اپنا ترجمان بنا کر اس نے اندر ہی اندر ساری لڑکیوں کو متحد کر دیا۔ اب لڑکیاں راجن کو دیکھ کر مسکرانے کی بجائے اس کا احترام کرتی تھیں۔ راجن کی محنت نے وہ رنگ دکھایا کہ لڑکیاں جو اشارے میں بھی بات نہ کہہ پاتی تھیں، اب برملا اپنی شکایتوں کا اظہار کرنے لگیں۔ اس سب جھمیلے میں شالو، راجن کے بہت قریب آگئی، جذباتی طور پر وہ راجن کو اپنا سہارا کب تصور کرنے لگی، اس کااسے احساس بھی نہ ہوا۔
راجن ،مالک کی نظروں میں خار کی طرح کھٹکتا تو تھا ہی اب وہ شیرا کی آنکھوں میں بھی چبھنے لگا۔ شالو اگر چہ شیرا کی طرف مائل رہی تھی اور اس کی شادی شیرا سے گویا طے ہی تھی، لیکن شیرا کے دباؤ کے باوجود اس نے دوتین سال تک شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ التواکی اصل وجہ شیرا خوب سمجھتا تھا، چاہے شالو کو اس کا احساس نہ رہا ہو۔ کئی بار شیرا نے کھل کر راجن سے گفتگو کرنی چاہی لیکن وہ راجن کی نگاہوں کی تاب نہ لاپاتا اور ادھر ادھرکی بات کر کے اٹھ جاتا، پھر اچانک شیرا بالکل چپ رہنے لگا تھا۔ شاید مالک نے اسے راجن سے پنگا نہ لینے کا مشورہ دیا تھا۔ راجن نے سب کو یقین دلایا تھا کہ صرف قد چھوٹا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر عزم اور حوصلہ ہو تو چھوٹے قد والا بھی بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتا ہے۔
ہارڈنگ پارک میں سرکس کا آج الوداعی شوتھا۔ اس الوداعی شو میں ضلع کے کلکٹر اور ایس پی بھی مہمان خصوصی کے طورپر اپنے بال بچوں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ شہر کے میئر بھی موجود تھے اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے کئی سینئر رہنما بھی اس آخری شو سے لطف اندوز ہونے کے لئے آئے تھے۔
آج تین کے بجائے ایک ہی شور کھا گیا تھا۔ پورا پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس آخری شو کے لئے سارے کرتب بازوں نے جان توڑ محنت کی تھی۔ شیرا تو آج بجلی کی مانند کود رہا تھا ۔راجن نے بھی اپنے شو کو آج ایک انوکھا روپ دیا تھا۔ آج کے ڈرامے میں شالو کا بھی پارٹ رکھا گیا تھا۔ سب سے مزے دار آئٹم جھولے کا تھا، اس لئے اسے سب سے آخر میں رکھا گیا تھا۔ سارے کرتب باز جھولے پر جا چکے تھے۔ سب سے آخر میں راجن آیا۔ وہ حسب معمول رنگ برنگی قمیص اور پتلون میں تھا۔ اس کے چہرے پر اعتماد کے ساتھ عجیب طرح کی معصومیت بھی تھی۔ شالو بھی آج قیامت برپا کر رہی تھی۔ وہ بات بات پر چہلیں کر رہی تھی، حتیٰ کہ اس نے کئی بار شیرا کو بھی چھیڑا تھا۔ راجن تختے پر اس کے قریب کھڑا تھا۔ اچانک شالو نے اس سے بھی چھیڑ خانی کی، اس پر راجن نے اس کے سر پر چپت رسید کرنا چاہی ،لیکن راجن کی چپت شالو کی کمر تک ہی پہنچ سکی۔ پھر شالو نے مسکراتے ہوئے اسے دھکا دیا اور وہ دھڑام سے قلابازی کھاتے ہوئے نیچے جالی پر جا گرا۔ پبلک نے اسے بھی راجن کی خاص ادا سمجھ کر قبول کیا اور پنڈال تالیوں سے گونج گیا۔
سب سے پہلے شیرا نے اپنا کمال دکھایا ۔ آج اس نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ جھولے کا فن صرف شیرا پر ہی ختم ہوتا ہے۔ پھر دوسرے کرتب بازوں نے اپنا کمال دکھایا۔سب سے آخر میں راجن کی باری آئی۔ وہ پہلے جھولے کو پکڑ کر ہوا میں جھولتا رہا۔ پھر اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کو جھولے میں پھنسا کر خود کو نیچے کی جانب لٹکا دیا۔ وہ ہوا میں جھولتا رہا ۔ اس طرح جھولتے دیکھ کر کوئی یہ کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ بونا ہے۔ اس نے شالو کو اشارہ کیا۔ وہ دوسری جانب سے جھولتی ہوئی آئی اور ہوا میں اچھل کر اس نے راجن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اب وہ راجن کی گرفت میں تھی وہ اسے ہوا میں تیراتا رہا۔ اچانک اس نے شالو کا ایک ہاتھ چھوڑ دیا اب وہ اسے صرف دائیں ہاتھ میں سنبھالے ہوئے تھا۔
آخری کرتب میں شیرا کو جھولتے ہوئے راجن کی طرف جانا تھا۔ راجن اپنے ہاتھ کے بجائے اپنا پاؤں بڑھاتا۔ شیرا کے ہاتھ میں راجن کی صرف پتلون آتی اور راجن صرف جانگیہ پہنے ہوئے دھڑام سے جال پر گرتا اور پنڈال سے قہقہوں کا شور بلند ہوتا۔
پروگرام کے مطابق شیرا نے ہوا میں قلابازی کھائی۔ دوسری طرف سے اچھالے گئے جھولے کو اس نے لپک کر پکڑا ۔ کچھ دیر تک وہ تنہا اپنا کرتب دکھاتا رہا پھر اس نے اپنی ٹانگیں جھولے میں پھنسا کر خود کو لٹکا لیا۔ دوچار لمبے لمبے پینگ مارنے کے بعد اس نے راجن کو اشارہ کیا۔ راجن دوسری جانب سے جھولتا ہوا آیا اور اس نے اپنا پاؤں شیرا کی جانب بڑھا دیا۔ شیرا نے اس کا پاجامہ پکڑنے کے بجائے اس کا پاؤں ہی پکڑ لیا اور اسے الٹا لٹکا کر ہوا میں قلا بازی کھلانے لگا، پنڈال سے تالیوں کی آواز آنے لگی
تھوڑی دیر تک راجن کو شیرا چک پھیریاں کھلاتا رہا، پھر پوری شدت سے گھماتے ہو ئے۔اس نے راجن کو ہوا میں اچھال دیا۔راجن کسی ہوا باز کی طرح ہوا میں تیرتا ہوا دور نیچے جال کے بجائے باہر زمین پر سر کے بل گرا۔ لوگوں نے دیکھا کہ چشم زدن میں اس کا سر ،گردن شانہ ، سب ایک ہوگئے۔ اس کا قد تین کے بجائے دوفٹ رہ گیا۔
سارا پنڈال تالیوں کے شور سے گونج رہا تھا۔
ختم شدہ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
🍃 *افسانہ: لمبے قد کا بونا*
🍃 *افسانہ نگار: مشتاق احمد نوری*
🍃 *گفتگو: ریحان کوثر*
_____________⚝
یہ 2020ء کے شروعاتی دنوں کی بات ہے۔ میں مغرب کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا۔ غالباً دوسری رکعت شروع تھی۔ میں جلدی جلدی صف کی جانب پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جس طرح تقریباً ہر محلے میں ایک دو ’بونے قد کے لمبو‘ ہوتے ہیں جو خود کو باقی نمازیوں کے خشوع و خضو کے علم بردار، ٹھیکیدار اور محافظ مانتے ہیں، اکثر صفوں سے بچوں کو چھانٹ چھانٹ کر پیچھے کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسے دو چار لوگ ہیں ان میں سے ایک صف کی اس کانٹ چھانٹ میں مصروف تھا۔ وہ ’ماہرِِ کانٹ چھانٹ‘ قد کے حساب سے بچوں کو تیزی سے صف سے الگ کرتا آرہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے جمیل بھائی کو بھی کھینچ کر پیچھے کر دیا۔ جمیل بھائی تھے تو بال بچوں والے لیکن بدقسمتی سے ان کا قد کم تھا۔ وہ بھی شکل و صورت سے بونوں جیسے دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن قد کم ہونے سے وہ بھی چھانٹ لیے گئے تھے۔ خیر! اس کے بعد جو مسجد میں ہوا وہ بتانا مقصود نہیں! بعد نماز جمیل بھائی جب مسجد کے باہر نکلے تو ان کی نظریں میری نظروں سے ٹکرا گئیں۔ باوجود کہ ان کے ساتھ بدسلوکی ہوئی وہ بے چارے شرمندہ ہوگئے کیوں کہ انھوں نے مجھے وہ سب دیکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ان کی آنکھوں کو دیکھ کر مجھ میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی تھی۔ میرے پاس مناسب الفاظ ہی نہیں کہ اس واقعے کو ٹھیک ڈھنگ سے بیان کروں۔ بہرحال جمیل بھائی اکثر اس طرح کے ’تشدد‘ سے دو چار ہوتے ہی رہتے تھے۔ افسوس کہ اُسی سال ان کا کورونا کے سبب انتقال ہو گیا۔
بقول علامہ اقبال
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
کم سے کم جمہوری طرزِ حکومت میں جمیل بھائی اورراجن جیسوں کو گنا تو جاتا ہے! شکر ہے غلطی سے انھیں ترازو پر تولا نہیں جاتا ورنہ وہ شاید رائے دہی استعمال ہی نہیں کر پاتے اور خدا نخواستہ ناپا جاتا تو وہ خواب میں بھی ووٹنگ کے متعلق سوچ نہیں سکتے تھے۔ دراصل ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ بڑے بڑوں کی دنیا ہے۔ بڑا گھر، بڑی گاڑی اور بڑی اسکرین والا موبائل فون وغیرہ وغیرہ! اور لمبائی کب بڑے ہونے کی علامت بن گئی ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اب تو پاور اور یونیٹی کے لیے قد آور مورتیوں کی تعمیر کا دور ہے۔ قومی رہنماؤں کی مورتیاں بھی لمبے قد اور بونی ان دو زمرے میں تقسیم ہو گئی ہیں۔ لمبی عمارتیں، لمبے ٹاور اب ترقی کی علامتیں ہیں۔ ایسے معاشرے میں راجن جیسوں کی کیا بساط؟
مشتاق احمد نوری صاحب نام ہی سے نہیں واقعی میں وہ ’مشتاق‘ قلم کار ہیں اور بیشک ان کی تحریریں نوری بھی ہوتی ہے۔ جس کا ثبوت اس افسانے کا مرکزی کردار راجن ہے۔ راجن بونا ضرور ہے لیکن یہ دوسرے بونوں سے مختلف ہے۔ راجن بونا ہے لیکن شکل و صورت سے کسی عام آدمی جیسا ہے۔ پڑھائی لکھائی میں ذہین اور انگریزی زبان کا ماہر بھی ہے۔ پیشے اور ملازمت کی ناکامیوں کے باوجود ہمت نہیں ہارتا بلکہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے کوششیں کرتا ہے اور دوسروں کو رہنمائی بھی کرتا ہے۔ راجن اب انسان ہے تو اس کے سینے میں ایک عدد دل بھی فٹ کر دیا گیا ہے جو دھڑکتا اور مچلتا بھی ہے۔ دل نامی پرزے کو کیا معلوم کہ وہ جس سسٹم میں فٹ کیا گیا ہے وہ تھوڑی چھوٹا ہے۔ ویسے بونوں کا دل چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم! بہرحال راجن کا دل شالو کے لیے دھڑکتا ہے اور کہیں نہ کہیں راجن کو اس کے سارے مقاصد پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس میں شالو بھی شامل ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے ایک نہایت مثبت اور تعمیری کردار کی تخلیق کی ہے جو افسانہ نگار کے دیدۂ مشتاق کا ثبوت ہے کہ راجن عام بونوں سے الگ اور پر عزم ہے۔ اس کے عزائم، مقاصد اور اہداف کا قد اتنا بلند ہے کہ شیرا جیسا بازی گر بھی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے راستے سے ہٹانے میں بڑی ہی مکاری اور عیاری سے کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی پروفیسر نے تو اسے آگاہ کیا تھا کہ
’’راجن دی گریٹ۔ تم اپنے آپ کو کہاں کہاں منواتے پھرو گے؟‘‘
اختتام پر ہوا بھی کچھ ایسا کہ شیرا کی عیاری اور مکاری جیت جاتی ہے اور راجن کی موت تالیوں کی گونج میں کھو کر رہ جاتی ہے۔ یعنی راجن کو موت بھی مکمل نہیں ملتی وہی آدھی ادھوری سی موت! جو شہر کے مشہور و معروف لوگوں کے نزدیک کسی تماشے سے کم نہیں! اس افسانے کا اختتام دل دہلانے والا ہے۔ جس طرح راجن کا سر کے بل گرنا اور اس کا قد تین سے دو فٹ کا ہونا بیان کیا گیا ہے دل کی دھڑکن رک سی جاتی ہے۔
افسانہ نگار نے اس کردار کے ذریعے ہمدردی بٹورنے کی بے جا کوشش بالکل نہیں کی بلکہ اسے دشواریوں اور تکلیفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے کسی ہیرو کی طرح پیش کیا ہے۔ اختتام کو چھوڑ کر افسانے کی فضا اور ماحول قدرے مختلف اور خوش گوار ہے۔ بقول یوسف جمال
بونا تھا وہ ضرور مگر اس کے باوجود
کردار کے لحاظ سے قد کا بلند تھا
اس طرح کے کرداروں پر قلم اٹھانا مشکل کام ہے۔ بونے کیا کر سکتے ہیں لے دے کر صرف جوکر ہی تو بن سکتے ہیں۔ کرتب دکھا کر اوٹ پٹانگ حرکتوں سے لوگوں کو صرف ہنسا سکتے ہیں۔ سرکس اور جوکر یہ ایسا موضوع ہے کہ فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا شو مین بھی ڈوبنے سے بچ نہ سکا تھا۔ ہاں ایک ٹیلی ویژن سیریز جو سرکس کے نام سے ہی ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی وہ خوب مشہور ہوئی تھی کیونکہ وہ صرف کسی جوکر یا بونے کی کہانی نہیں تھی۔
افسانے کا کینوس وسیع ضرور ہے لیکن کمال یہ ہے کہ افسانہ نگار نے قاری کو سرکس کے پنڈال سے باہر نکلنے نہ دیا۔ سرکس کے مالک، مینیجر، پہلوان، ماسٹر، بازی گر، سرکس کی لڑکیاں، چھوٹے قد کے جوکر، لمبے قد کے جوکر، سرکس کے بچے اور جانوروں کا ذکر اتنا ہی کیا گیا ہے جتنا ضروری تھا۔ مرکز میں راجن، شالو اور شیرا کو رکھ کر نہایت شاندار کہانی بنی گئی ہے۔ افسانے میں بونوں کی نفسیات اور جذبات اظہار صرف کہانی اور واقعات کے ذریعے کیا گیا ہے۔ خوامخواہ کی فلسفیانہ گفتگو سے پرہیز کیا گیا ہے۔ جس کے سبب کہانی نہ تو بوجھل محسوس ہوتی ہے نہ طویل! بلکہ خوب روانی لیے ہوئے ہے۔ فلیش بیک تکنیک قاری کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بلکہ کہانی سے باندھنے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔
افسانے میں ’راجن دی گریٹ شو۔۔۔‘ کا ذکر بار بار کیا گیا ہے۔ یہ مخصوص انداز کا شو ہے جس میں سیاسی اور سماجی سٹائیر کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا جاتا ہے۔ میرے جیسا اناڑی اگر یہ افسانہ لکھا ہوتا تو اس شو کے ذریعے میں اپنی ساری علمیت جھاڑنے کی کوشش کرتا اور اسے پانی کے بلبلے میں تبدیل کر بیٹھتا کہ آج پڑھو کل بھول جاؤ! یعنی ساری آفاقیت کا ستیاناس کر بیٹھتا۔ ستیاناس یوں کہ میں موجودہ سیاسی منظر نامہ پیش کرتا اور بعد میں سارا منظر ہی بدل جاتا تو آفاقیت کہاں ٹک پاتی۔ ایک جگہ راجن کہتا ہے کہ
’صاحبان قدردان۔۔۔ چمچوں کے اس دور میں اس خوبصورت لڑکی کے لئے چمچے کی کمی نہیں ہے۔ لیجئے اسے آپ ہی رکھ لیجئے ، شاید کام آجائے۔‘‘
یہاں چمچوں کے کس دور کا ذکر ہے یہ ہمیں معلوم نہیں! جبکہ یہ چمچوں کے لیے مشہور سیاسی جماعت کے دور حکومت میں لکھا گیا ہے شاید! لیکن آج چمچوں کا نہیں بلکہ بھکتوں کا دور ہے! بہرحال افسانہ نگار نے بڑے ہی ضبط و نظم کا مظاہرہ کیا ہے اور اس شو کا صرف ذکر کیا ہے اور اس خالص رومانی افسانے کو کسی بھی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھا ہے۔
ہاں بھئی! یہ خالص رومانی افسانہ ہی تو ہے۔ راجن اور شالو کی محبت کی کہانی! یقین نہ آئے تو دوبارہ پڑھیں! دراصل کوئی کہانی ہمیں رومانی تب محسوس ہوتی ہے جب ہم ہیرو کی جگہ خود کو رکھتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں خود کو راجن کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ وہ بھلے ہی ایک لیڈر ہے، تعلیم یافتہ ہے، دوسروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے، سسٹم سے لڑنے کی صلاحیت اور تدبر رکھتا ہے، دوسرے جوکروں کی طرح بے تکی حرکت نہیں کرتا بلکہ پولیٹیکل سٹائیر مارتا ہے، لیکن ہے تو بونا ہی! پھر بھی جس طرح چھت پر ٹھہری دھوپ میں راوی کی جگہ خود کو رکھا تھا دھوپ میں، میچنگ کپڑوں کے ساتھ، جس طرح انتظار کروایا تھا کسی کو دھوپ میں اسی طرح بطور قاری اس افسانے میں خود کو رکھیں اور محسوس کریں یہ ایک عمدہ رومانی افسانہ ہے۔ اگر آپ یوں محسوس کر ہے کہ سامنے والی تو ٹھیک ہے بلکہ گلابی گلابی ہے لیکن چھی! میں اور بونا راجن؟ اور ایسا گمان کرتے ہی گھن محسوس ہو رہی ہے تو سمجھ لیں کہ یہ کتنا نازک موضوع ہے اور کتنے حساس موضوع پر افسانہ تحریر کیا گیا ہے؟
اردو ادب اس طرح کے موضوعات سے خالی ہے۔ ایسے عجیب و غریب قسم کے موضوعات پر طبع آزمائی کرنا مشتاق احمد نوری صاحب کا خاصہ ہے۔ اس بات کا اعتراف خود موصوف نے یہیں اسی گروپ میں خود میرے ایک تبصرے پر کیا تھا۔ جب بات ’مور پنکھ‘ پر نکلی تھی اور یہ بات بہت دور تک چلی گئی تھی۔
چھت پر ٹھہری دھوپ، گہن چاند کا، نظربند، جن کی سواری، جادوگر، شمائلہ، مرد، لمبی ریس کا گھوڑا، ترشول پر ٹنگی کہانی، اعتبار، وراثت، وردان، اور پھر ایسا ہوا یہ کچھ ایسے افسانوں کے نام ہیں جو موضوعات کے اعتبار سے انفرادیت اور دلچسپی کے باعث افسانہ نگار کو ایک الگ مقام حاصل ہے۔
مشتاق احمد نوری صاحب کو اس شاندار افسانے کے لیے مبارکباد اور سلامتی کی دعائیں۔
⚝⚝⚝------•
0 Comments