Ticker

6/recent/ticker-posts

دیر آید درست آید (ظہیر قدسی کی کتاب کھٹی میٹھی کہانیاں) ✍️ریحان کوثر

 ’دیر آید درست آید

بے شک! بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہاں! لیکن بچوں کے لیے لکھناہو تو بچوں کے کھیل کے سارے اصول و ضوابط معلوم ہونا لازمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو قلم کار کو بچوں کی نفسیات اور ان کے احساسات کی گہرائی اور گیرائی سے معلومات ہونی چاہیے۔ بچوں کے لیے لکھتے وقت ہماری بچوں کی نفسیات کی سطح تک رسائی ہونی چاہیے۔ لیکِن یہ لازمی ہے کہ زبان و بیان کے معیار اور ادب کی ڈوری تھام کر اترنا چاہیے ورنہ مصنف زبان و بیان کے ساتھ خود سطح پر دھپ سے گر پڑتا ہے۔
ظہیر قدسی صاحب کا زیر نظر مسودہ’ کھٹی میٹھی کہانیاں‘ موصوف کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ آپ کے چند شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ آپ نے نعتیں، غزلیں اور بچوں کے لیے نظمیں بھی خوب لکھیں ہیں۔ بہت ساری منظوم نظمیں بھی کہی ہیں۔ آپ نے طنز و مزاح پر خوب طبع آزمائی کی اور یہ صنف آپ کی شناخت بن چکی ہے۔ لیکن میں حیران تھا کہ موصوف نے کبھی اس طرف یعنی کہانیوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ بہر حال کہانیوں کے اس مسودہ کے مطالعے سے محسوس ہوا کہ ’دیر آید درست آید‘ یہ کہاوت آپ پر صادق آتی ہے۔ جی ہاں میں خوش ہوں کہ آپ نے دیر سے لکھا لیکن مطمئن بھی ہوں کے درست لکھا۔
ظہیر قدسی صاحب سے میری پہلی ملاقات بال بھارتی پونے کے دفتر میں ہوئی تھی۔ آپ بال بھارتی کی اردو لسانی کمیٹی کے معزز رکن ہیں۔ اردو لسانی کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں سنجیدہ چہروں کی بھر مار تھی۔ان چہروں میں ایک چہرہ ظہیر قدسی صاحب کا بھی نظر آیا۔ گفتگو کا سلسلہ یوں شروع ہوا کہ قدسی صاحب دوسری جماعت کی مشق کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف تھے اور ایک طرف الگ تھلگ بیٹھے ہوئے کاغذ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ پانی کا جگ ان کے پیچھے رکھا تھا۔ میں جگ اٹھانے کے لیے ان کی میز کے بازو سے پیچھے جانے لگا کہ میرے ٹکرانے سے میز بری طرح ہل گئی اور جس کاغذ پر وہ تحریر کر رہے تھے میز ہلنے سے تحریر کچھ بگڑ سی گئی تو میں نے پوچھا،
’’معاف کرنا میز غلطی سے ہل گئی۔ تحریر بگڑی تو نہیں؟‘‘
وہ نظریں اٹھا کر سنجیدگی سے میرے بھاری بھرکم جسم کو ٹکٹکی باندھے ہوئے تکتے رہے، کچھ دیر بعد گویا ہوئے، 
’’اب آپ کو دیکھ لیا۔ جناب! نہ تو میز ہلی نہ ہی تحریر بگڑی۔۔۔!‘‘
آپ کا جواب سن کر میں ان کے مزاح کا  قائل ہو گیا اور مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک زندہ دل اور بڑے ہی دلچسپ انسان ہیں اور ایک باکمال شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ اس کے بعد  ہم گل بوٹیسلور جوبلی ٹیم کا حصہ بنے۔ ہمارے ذمے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پچیس برسوں میں گل بوٹے میں شائع نظموں اور کہانیوں کے انتخاب کا کام ہم دونوں کے ذمے آیا۔ اس مشکل کام کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاعر ظہیر قدسی کے اندر ایک عمدہ نثر نگار بھی چھپا ہوا ہے۔ اس کے بعد دہلی میں گل بوٹے بین الاقوامی سیمینار میں شرکت ہوئی اور دھیرے دھیرے موصوف کی تمام قدریں باہر نکل آئیں۔ قدسی صاحب مذہبی قدروں کی ڈور سنبھال کر جدیدیت کی پتنگوں کو اڑانا بخوبی  جانتے ہیں۔ دقیانوسی خیالات اور نظریات انھیں بالکل پسند نہیں۔ جدیدیت کی ایسی کئی رنگ برنگی  پتنگوں کا یہ خوبصورت مجموعہ اس بات  کی گواہ ہے۔
ظہیر قدسی صاحب کا تعلق کھٹی میٹھی گولیاں اور ٹافیوں کے لیے مشہور علاقے مالیگاوں سے ہے۔ ظہیر قدسی صاحب کی کہانیوں کا مجموعہ ’کھٹی میٹھی کہانیاں‘ کی فہرست میں کل پندرہ کہانیاں شامل ہیں۔ بنت اور موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام کہانیاں کتاب کے عنوان کی مظہر اور پیغام کی ترسیل کی شاہد ہیں۔ واقعی میں یہ کھٹی میٹھی اور ذائقے دار ہیں۔ موصوف نے انتہائی کفایت شعاری سے کہانیوں کا تانا بانا بنا ہے۔ شاید مالیگاوں کی پہچان اور آپ کے آبائی پیشے نے ہی اس طرح کے تانے بانے اور بنت کے تجربات دیے ہیں۔ زبان و بیان میں بلا کی شگفتگی اور معصومیت نظر آتی ہے۔ دراصل شگفتگی اور معصومیت جیسی خصوصیات نیک اور صالح نونہالوں کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ بچوں کو ایسی خصوصیات گر کسی بھی تحریر میں نظر آئے تو وہ ان کا دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ کہانیوں کا کلاسکی اسلوب صفحۂ قرطاس پر مسکراہٹ کے ساتھ درس و آداب کے بتاشے تقسیم کرتا نظر آ رہا ہے۔
موصوف نے عنوان کے ساتھ ٹیگ لائن لگایا ہے کہ’ 8 سے 80 سال کے بچوں کے لیے‘ اس طرح کی ٹیگ لائن اسی وقت لگائی جا سکتی ہے کہ کہانیوں کا اسلوب کلاسکی اور معیاری ہوں اور مجھے تقریباً تمام کہانیوں میں یہ  کلاسک رنگ نظر آیا۔
مجموعے کی پہلی کہانی ’گلگلے کی دوڑ۔۔۔ کہانی ریمکس‘ ہے۔ ضرورت مندوں کے لیے خود کو فنا کر دینا ایثار و قربانی کی معراج ہوتی ہے۔ اس کہانی میں ایثار و قربانی کی ایسی ہی معراج کو خوبصورت اور بڑے ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک دلچسپ تجربے کے تحت ریاضی کے فارمولے کی طرح دوسری کہانی کو عنوان دیا گیا ہے۔ کہانی کا عنوان ’محنت+ایمانداری=کامیابی‘ رکھا گیا ہے۔ اس کا عنوان بھی خوب ہے اور کہانی بھی بے حد خاص ہے۔ تعلیمِ نسواں کی تبلیغ اس کہانی کا پاک اور نیک مقصد ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ جیسی کاغذی مہم  بالکل نہیں! بلکہ موصوف نے یہ کام اپنے گھر میں بھی کر دکھایا اور باہر بھی اس نیک کام کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی موصوف کے انہی خوبصورت جزبات کی ترجمان ہے۔ 
تیسری کہانی کی شکل میں’بے چین صاحب‘ کے آتے ہی قاری کو مزہ آ جاتا ہے۔ خاکوں کی طرز پر قلم بند یہ کہانی طنز و مزاح سے بھرپور ہے۔ بے چین صاحب کی بے چینی بڑے ہی نرالے انداز میں پیش کی گئی ہے۔ لیکن اختتام پر بے چین صاحب آنکھوں میں آنسوں لیے جو کہتے ہیں تو قارئین کے دل میں ان کے لیے ہمدردی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اس کہانی کی کامیابی ہے۔ موصوف سے درخواست ہے کہ وہ اس کردار کو اپنی شاندار زبان و بیان سے ادبِ اطفال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’ امر ‘ کر دیں اور اسے لافانی کردار بنایا جا سکتا ہے غرض یہ کہ اس کردار پر مزید لکھیں۔
بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ بغیر جنگل اور جانوروں کی کہانیوں کے ادھورا نظر آتا ہے۔ چوتھی کہانی جنگل کے ان ہی کرداروں کے ارد گرد بنی گئی ہے۔ ’بدگمانی کا انجام‘ کے عنوان سے شامل کہانی انسانی مکاریوں اور رویے کو نہایت سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کہانی سبق آموز اور بڑی ہی دلچسپ ہے۔ کلاسک طرزِ تحریر اس کا خاصہ ہے۔ دو شیروں کو کس طرح ’الو‘ اور ’گدھا‘ بنایا جاتا ہے اس میں بتایا گیا۔
مجموعے کی پانچویں کہانی ’ایکتا کی دوڑ‘ افسانوی رنگوں سے مزین ایک خوبصورت اور دلپزیر کہانی ہے۔ زاہد اور آنند کی لافانی دوستی کے ذریعے اتحاد، قومی یکجتی اور پیار محبت کا درس دیا گیا ہے۔ بیشک یہ تمام انسانی قدریں وقت کی ضرورت ہیں۔ انہی قدروں کو بحسن و خوبی پیش کیا گیا ہے۔
مجموعے میں ایک کہانی ’نئے زمانے کی روشنی میں‘ ہے۔ یہاں روشنی دراصل کسی اندھیرے سے کم نہیں! دور حاضر میں نافرمانیاں بڑھتی جا رہی ہے۔ مظلوم والدین کے کرب کو بڑے ہی جذباتی انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ راوی کی طرح قاری کی آنکھیں بھی نم ہو جائیں۔ گویا کہ اس مجموعے میں کھٹی میٹھی ہی نہیں بلکہ تلخ اور کڑوی کہانی بھی شامل ہے۔
’اکیسویں صدی کے چچا چھکن‘ ایک مزے دار کہانی ہے۔ موصوف کا اصل رنگ اور طرزِ تحریر سب سے نمایاں طور پر اسی کہانی میں ابھر کر سامنے آیا ہے، دیکھیں،
’’تمہارا مشاعرہ تو اس چیخ و پکار اور بیگم کی چخ چخ بک بک میں کامیاب ہونے سے رہا۔ پھر یہاں نیٹ ورک بھی محبوب کی طرح نخرے دکھاتا ہے۔ چلو پڑوسی کی چھت پر جا کر مشاعرہ پڑھیں گے۔ تمہارے مکان کی چھت بھی بھارت کی معیشت کی طرح ڈانواں ڈول رہتی ہے۔‘‘

اس ایک کہانی میں موصوف نے رنگ ظرافت یوں بکھیرا کہ اس سے ہر خاص و عام موصوف کے رنگِ ظرافت  میں ڈوب گیا۔ لاک ڈاؤن اور کورونا وبا کے پس منظر میں تحریر کردہ یہ بے مثال کہانی ہے۔
’شرارتی لڑکا‘ منفرد اور دلچسپ موضوع پر تحریر کی گئی ایک عمدہ کہانی ہے۔ موصوف نے ایک شعر کے ارد گرد یہ بہترین کہانی بنی ہے؟
یہ بد تمیز اگر تجھ سے ڈر رہے ہیں تو پھر
تجھے بگاڑ کے میں نے برا نہیں کیا ہے
کہانیوں کا مجموعہ بادشاہوں اور راجہ مہاراجوں کے قصے کے بغیر بھی  ادھورا تسلیم کیا جاتا ہے۔ ’نیم پاگل بادشاہ‘ کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا گیا ہے۔ لیکن علامتی طور پر دیکھا جائے تو اس کہانی میں جتنا نظر آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ باتیں پوشیدہ ہے۔ دور حاضر کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک  غیر معمولی اور معیاری کہانی ہے۔
’سکون کی دولت‘ اساتذہ کے احترام اور فرمانبرداری کا حسین نظارہ ہے۔ ایک عظیم اور مثالی استاد نے اس کہانی کے ذریعے اپنے پیشے اور اپنی برادری ییعنی استاد کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہ سکون کا احساس دلاتی ایک اچھی کہانی ہے۔
’فرنوس‘ کو اس مجموعے میں شامل کر کے جن اور ان کے طلسم کو پیش کیا گیا ہے،  لیکن کمال یہ ہے کہ اسے بھی لاک ڈاؤن اور کورونا کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ آن لائن تعلیم کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی کو  ندیم کی ایمانداری اور فرنوس کی دوستی کے لیے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
’پرستان کی سیر‘ رعنا صدف نامی ایک ننھی منی پیاری سی بچی کی کہانی ہے۔ اس میں  سب سے اہم اور منفرد یہ ہے کہ پرستان کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بتایا گیا ہے۔ 
’دریا دلی یا بزنس‘ ایک مزے دار اور کھٹی میٹھی کہانی ہے۔ سچ ہے کہ گھوڑا گھانس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟
اس مجموعے کی میری سب سے پسندیدہ کہانی کا نام ’میرا دوست میرا ہمزاد‘ ہے۔ یہ کہانی مجھے سب سے زیادہ کیوں پسند آئی اسے تو آپ کو پڑھ کر ہی سمجھ آئے گا۔ لیکن میرا دعویٰ ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد آپ بھی میری تائید کے لیے میرے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔
اس کتاب کی زبان ایسی رواں دواں اور سلیس ہے کہ اس کا مواد ایک تیسری جماعت کے طالب علم کے لیے بھی دلچسپی کا مرکز بن سکتا ہے وہیں ایک پختہ عمر اور تجربے کار استاد کے لیے بھی یہ کتاب دلچسپی سے خالی نہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کا کتاب سے رشتہ بحال کر سکتی ہیں۔ کتاب کی اشاعت پر ظہیر قدسی صاحب کو مبارک باد اورآئندہ مجموعے کے لیے نیک خوہشات۔
ریحان کوثر
مدیر، ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی




Post a Comment

0 Comments