’تلاشِ پیہم‘ ایک آفاقی ناول
ریحان کوثر
دنیا بھر میں ادب کی جس صنف کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے، وہ ناول ہے۔ نارمن جودک کا قول کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔" حالانکہ ادب کی دوسری اور بھی تعریفیں تحریری شکل میں موجود ہیں لیکن جب خیالات و احساسات کی تحریری ترتیب وکیل نجیب صاحب کی ہو، تو بے شک قاری کو 'مسرت' ہی حاصل ہوتی ہے۔ دراصل یہ مسرت قاری کو خوشی، غم، تحیر، تجسس، سبق، فرمابرداری، خدمت، ایثار، نیکی، بدی، غصہ، جوش، جنوں، بے خیالی، بے بسی، محبت اور انتظار جیسی جذباتی قدروں میں حاصل ہوتی ہے۔ وکیل نجیب صاحب کے خیالات جب انجام تک پہنچتے ہیں تو ان قدروں کا ایسا محلول تیار ہوتا ہے کہ قاری مسرور ہو جاتا ہے۔
وکیل نجیب صاحب جیسے مفکر اور فنکار کسی معاشرے کے ڈاکٹر اور رہبر ہوتے ہیں۔ موصوف الفاظ کا جادو جگانے اور سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ دکھی حال لوگوں کی مرہم پٹی کرتے ہیں، تو کہیں اپنا درد دل بھی سنا دیتے ہیں۔ کہیں مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر چمکتے ہیں۔ معاشرے کی کردار سازی کرنا بھی وکیل نجیب صاحب کا کمال ہے۔ صرف اسی قدر مفہوم کو بھی پیش نظر رکھیں تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ عبدالوکیل جنہیں عرف عام میں وکیل نجیب کہا جاتا ہے کس قدر اعلی پائے کے ادیب ہیں۔ جنہوں نے سماج میں پھیلی انارکی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ کہنے کو وہ بچوں کے ناول نگار ہیں مگر ان کو زبان و بیان، نفسیات، مذہبی فلاسفہ اور جدید دور کی تمام اصلاحی و انقلابی تحریکوں کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی پیش رفت سے متعلق بھی مکمل آگاہی ہے۔ اگر ان کے ناولز کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو نئی نسل میں انشاء پردازی کی صلاحیت پروان چڑھائی جا سکتی ہے۔
وکیل نجیب صاحب کا آخری ناول ’مسیحا‘ تھا جس کے لیے انھیں ساہیتہ اکادمی کا قومی ایوارڈ حاصل ہوا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وکیل نجیب کو ناول نگاری کے فن میں جو مہارت حاصل ہے وہ کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی ایوارڈ کے حصول سے وکیل نجیب صاحب کی نہیں بلکہ اس ایوارڈ کی وقعت میں ہی اضافہ ہوا۔ وکیل نجیب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ تجربہ اور علم کی سچائی اور تکنیک پر پوری مہارت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں فینٹسی، علامت،فکرو فلسفہ، حقیقت کی بازیافت اور طنزومزاح موجود ہوتا ہے جو زندگی کا کلی یا اجتماعی تصور پیش کرتا ہے۔
مسیحا کی اشاعت کے کافی عرصہ بعد یہ ناول تلاشِ پیہم منظر عام پر آ رہا ہے۔ جب مطالعہ کے لیے مسودہ حاصل ہوا تو مسیحا کی مسیحائی سر پر سوار تھی، وکیل نجیب صاحب اور تفضل کا کردار اب تک آنکھوں میں روشن ہے۔ ایسے میں جب ’تلاشِ پیہم‘ کا مطالعہ شروع کیا تب مجھے تو بالکل وہی مسرت ملی جو مسیحا کے دوران حاصل ہوئی تھی۔ اب چونکہ سسپنس ناول پر تبصرہ کرنا بھی کسی جوکھم سے کم نہیں اس لیے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جب آپ اس کا مطالعہ کریں تو سبھی ضروریات سے فارغ ہو کر کریں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ آپ
بھی میری طرح اسے ایک ہی نشست میں پورا کر لیں۔
سلام بابو صاحب کی خوش نصیبی پر رشک آ رہا ہے کہ انھوں نے وکیل نجیب صاحب سے ایک معصوم سا مطالبہ کیا اور کمال کی بات یہ رہی کہ وکیل نجیب صاحب نے بابو سلام صاحب کی خواہش کو اتنی جلدی اور اتنے احسن طریقے سے پورا کیا۔
بے شک یسٰمین کا مرکزی کردار ہے لیکن صفحۂ قرطاس پر بابو سلام صاحب کا جب جب ذکر ہوتا ہے قاری کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔ کہانی میں وکیل نجیب صاحب کی موجودگی قاری کے لیے اعتماد اور اطمینان کا سبب بن کر ابھرتی ہے اور ان کی موجودگی ہمیشہ یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ کسی کے ساتھ کچھ غلط نہ ہوگا۔ ذاتی زندگی کی طرح موصوف ہر مشکلات اور پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
مرزا اقبال بیگ اور باقی تمام کی کردار سازی نہایت خوبصورت اور معیاری ہے۔ چونکہ نجیب صاحب اپنا ہر ناول راوی بن کر لکھتے ہیں اس لیے زبردستی کی ٹھونسی ہوئی کہانی، ضرورت سے زیادہ مکالمے اور زبردستی کی ڈرامے بازی بالکل نہیں ہوتی، ہاں لیکن کہانی کے ہر موڑ پر قاری تحیر زدہ ضرور ہو جاتا ہے۔ دراصل ناول اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے، ناول کی سطروں میں معاشرہ، عہد اور نفسیات و جذبات چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، ایک اچھے اور آفاقی ناول کی پہچان یہی ہے کہ اس میں اس عہد اور معاشرے کی تصویر کتنی صاف نظر آرہی ہے۔ اس ناول کے مطالعہ کے بعد میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک " آفاقی ناول " ہے۔
ناول ’تلاشِ پیہم‘ کی اشاعت کے موقع پر میں الفاظ پبلی کیشن، کامٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے وکیل نجیب صاحب کو دلی مبارک با د پیش کرتا ہوں۔
(ناول:تلاشِ پیہم)
٭٭٭
0 Comments