پرویز انیس کی نثر نگاری
ریحان کوثر
میری انٹرنیٹ سے دلچسپی یوں تو تقریباً ۲۰۰۲ء سے ہی ہے، لیکن جب سے انٹرنیٹ پر سوشل سائیٹ فیس بک متعارف کروایا گیا، اس دلچسپی میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ فیس بک پر آتے ہی میں نے ایک گروپ"بیت بازی موسٹ ہارٹ ٹچنگ شاعری" کی تشکیل کی۔ کچھ مقامی دوستوں کے اشتراک سے گروپ کا آغاز بخوبی ہو گیا۔ روز نئے صارفین کی آمد نے گروپ کو خاصہ متحرک کر دیا۔ جب بھی کوئی جان پہچان کا ملتا اسے فوراً اس گروپ میں جوڑدیتا۔ اب میں اس انتظار میں تھا کہ میرا کوئی ہم جماعت بھی فیس بک پر نظر آئے۔ کافی طویل عرصے تک میری تلاش جاری رہیں مگر کوئی ساتھی نظر نہیں آیا۔ایک دن اچانک مجھے ایک فرینڈ رکویسٹ آئی۔ فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیجنےوالے شخص کا نام تھا پرویز انیس۔
یوں تو ہم دونوں نے میٹرک ۱۹۹۳ء میں پاس کیں، لیکن دونوں کا سیکشن الگ الگ ہونے کے سبب ہم دونوں میں کبھی کسی قسم کی بات چیت نہ ہو سکی۔ لیکن دسویں بعد، بارہویں جماعت تک ہم دونوں نے باقی تعلیم ایک ساتھ ایک ہی جماعت میں حاصل کیں۔ اس دوران بھی کبھی ہم دونوں میں سلام دعا کے سوا کوئی رابطہ نہیں تھا۔شمیم بھائی کی نیوز ایجنسی،جو علمی، ادبی سرگرمیوں اور کتابوں کا شہر کا واحد مرکز ہے، وہاں کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ ہم دونوں میں کبھی بات ہی نہ ہو پاتی تھیں۔
خیر میں نے فرینڈ رکویسٹ قبول کی اور پرویز انیس کو بھی گروپ" بیت بازی موسٹ ہارٹ ٹچنگ شاعری" میں شامل کر دیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، ہم دونوں ادبی، سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات پر ہم تبصرہ کرتے رہے اور ایک نئی دوستی کی شروعات ہوگئی۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ جس سوشل سائیٹ اور انٹرنیٹ کو کوسا جاتا ہے اسی نے ہمیں کنیکٹ کیا۔ جب کہ ہم ایک ہی شہر میں پلے بڑے، ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کیں لیکن ہم دونوں کو ذہنی طور پر جڑنے کا موقع فیس بک سے ہی ملا۔
شہر کے نوجوان اور ہونہار شاعر، محمد ایوب سلامتؔ کے ساتھ ہم دونوں بھی اس فیس بک گروپ کے ایڈمن تھے۔ شاعری سے رغبت اور دلچسپی گہری ہوتی گئی۔ دھیرے دھیرے ہم دونوں شعر کہنے لگے۔ اس دوران محمد ایوب سلامت نے ہم دونوں کی کافی مدد کیاور شعر کہنے کی ترغیب دیں۔ ہم دونوں نے بیک وقت شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ گروپ کے اور زیادہ متحرک ہونے سے گروپ میں ایک مقابلہ شروع کیا جس کا عنوان تھا "میں شاعر تو نہیں۔ مگر۔۔" اس ہفتہ واری مقابوں کی بدولت شعر و سخن کی راہوں پر گامزن ہوتے گئے۔ اس دوران فیاض احمد فیاضؔ، افتخار احمد فرازؔ، ظفر انور واصعؔ اور ایوب سلامتؔ جیسے مقامی دوستوں نے فیس بک کی حدوں کو پار کر لیا اور ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ لیکن پرویز ہم سب سے آگے نکل گیا۔ جیسے جیسے ملاقاتیں بڑھنے لگیں، پرویز کے اندر چھپی صلاحیت ہم لوگوں کے سامنے آتی رہی۔
شہر کامٹی سے جب میں، میرے عزیز دوست ریاض احمدامروہی اورپرویز انیس نے کچھ اور دوستوں کے ہمراہ اردو ماہنامہ الفاظ ہند کی شروعات کی تب پرویز انیس کی نثرنگاری کے فن کا رخ سامنے آیا۔
بلاشبہ پرویز کی شاعری اور نثر دونوں کو پڑھنے پر ان کی سوچ اور فکر کے پردے میں چھپے بے چین شخص کا پتہ چلتا ہے۔ جب ہمارے ایک ہم جماعتی آغا محمد باقر (نقی جعفری) نے "کامٹی کا ادبی منظرنامہ" لکھنا شروع کیا تو میں نے کافی کوشش کی کہ اس کتاب میں پرویز انیس کا بھی ذکر آئے لیکن پرویز انیس کے شرمیلے مزاج کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ شاید پرویز کو شفارشیں پسند نہ تھیں۔ لیکن میں بخوبی واقف ہوں کہ پرویز انیس کے اندر ایک با صلاحیت انسان کی تمام تر خوبیاں پوشیدہ ہیں۔
شروع ہی سے شعر وشاعری پرویز کی دلچسپی کا فن رہا ہے۔اس کے باوجود کبھی بھی انھوں نے شاعری کو نام نہاد اور مال و دولت کے پجاری شعراکی طرح اپنا مقصد حیات اور ذریعہ معاش نہیں بنایا اور نہ ہی اس فکر میں مبتلا رہے کہ زیادہ سے زیادہ اخبارات، رسائل میں ان کے کلام شائع ہوں۔ آپ بلاتکلف اشعار کہتے ہیں، آپ کے اشعار انتہائی معنی خیز، سادگی کے باوجود، تصوف کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ تمثیلات و تخیلات سے پر ہوتے ہیں۔ تشبیہات وکنایات کی فراوانی ہوتی ہیں۔ بلا مبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ شعر و شاعری میں آپ کے کلام آپ کی ادبی وشعری ذوق کا بہترین شاہ کار اورآئینہ دار ہے۔
ایک بار ہمارے ایک استاد نے دوران گفتگو فرمایا کہ"جو فکر، سوچ اور خیالات ہمارے ذہن میں پنپتے ہیں، اگر وہ مثبت پہلوؤں کے حامل ہو تو وہ بے شک قوم کی امانت ہے۔ اس کو تحریری شکل میں قوم تک پہنچانے کی ساری ذمہ داریاں ہماری ہے۔"اس قول کو بارہا دہرانے پر آخرکار پرویز انیس راضی ہوئے اس کتاب کی ترتیب کے لیے۔
پرویز کا قلم زیادہ تر شعر و سخن کی طرف رواں ہوا ہے۔ ان کی بیشتر توانائی ادب کی اسی دوسری قسم پر صرف ہوئی۔ نثری ذخیرہ کا دامن تنگ نظر آتا ہے، تاہم جو کچھ بھی ہے، جتنا بھی ہے، جس قدر بھی ہے، ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے، زبان وادب کے مسافروں کے لیے نشان راہ بننے کے قابل ہے۔
جب کوئی مضمون نگار یا مقالہ نویس لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے پورا احساس ہوتا ہے کہ اسے بہتیرے لوگ پڑھیں گے، بعض اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بعض تنقیدی نظر سے، اہل فن بھی اس کا مطالعہ کریں گے اور غیر اہل فن بھی، دوست و احباب بھی دیکھیں گے اور ناقدین وحاسدین بھی؛ اس لیے مضمون نگار اپنی تحریر کو ”خوب سے خوب تر“ بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے، جس کی وجہ سے تحریر میں کچھ نہ کچھ تکلف و تصنع کی بوآہی جاتی ہے، لیکن پرویز انیس کی تحریریں اس بو سے بالکل پاک و صاف نظر آتی ہیں۔پرویز کی تحریر انتہائی سلیس و سادہ اور تصنع سے بالکل پاک و صاف ہوتی ہے۔ متانت بیان، سنجیدگی کلام، جدت وندرت، سادگی وپرکاری پرویز کی تحریر کی خاص خوبی ہے۔
پرویز انیس نے اپنے قلم کا رخ صرف شعر و شاعری کی طرف ہی نہیں کیا بلکہ نثر نگاری کی طرف بھی توجہ دی ہے اوراہل ذوق کی تسکین کے لیے کچھ نثری سرمایہ ان کی کمپنی کی ڈائری میں موجود ہے جسے ریاض احمدامروہی نے بڑے سلیقے سے ترتیب دی ہے۔
پرویز انیس کے تعلق سے میرا دعویٰ کہاں تک صحیح ہے؟ اور میرے نظرئیے میں کتنی سچائی ہے؟ اس کا صحیح اندازہ ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے؛ اس لیے دعویٰ کی دلیل اور عندئیے کی تائید و توثیق کے لیے ان کی اس کتاب "تجربات" میں آپ کے نثری نمونے سپرد قرطاس کیے جا رہے ہیں جس سے قارئین از خود فیصلہ کرلیں گے کہ نثر نگاری میں آپ کا مرتبہ اور درجہ کیاہے؟
(کتاب: تجربات)
٭٭٭
0 Comments