”پرندہ پکڑنے والی گاڑی"
ایک منفرد اور یادگار افسانہ
ریحان کوثر
”پرندہ پکڑنے والی گاڑی" غیاث احمد گدی کا منفرد اور یادگار افسانہ ہے۔ اس میں استعاراتی وعلامتی انداز بیان کے باوجود چند ذیلی کہانیاں موجود ہیں جو مکمل اور جامع ہیں۔ پجلی کہانی حلوائی کی، دوسری ایک دس سالہ لڑکے، اس کی بہن اور اس کی تتلی کی اور تیسری منی بائی اور اس کے طوطے کی۔ اگر ان میں سے غیاث احمد گدی کسی بھی حصے کو بطور افسانہ قارئین کے حوالے کرتے تو بھی اس کا شمار بہترین افسانوں میں کیا جاتا۔
اس افسانے کے کرداروں میں اگر کوئی کردار سب سے زیاده بہتر لگا وہ منی بائی کے طوطے کا کردار ہے۔ طوطے کے کردار کا نقشہ افسانہ نگار نے اپنی کہانی کے زریعے کھنچا ہے۔ میرے خیال میں غیاث احمد گدی کو بھی یہی کردار پسند ہوگا کیوں کہ یہ کہانی جس کتاب سے لی گئی ہے اس کتاب کو منی بائی کے طوطے کے نام کیا جانااس کا ثبوت ہے۔
اگر ہم دنیاوی حالات کے پس منظر میں اس افسانے کو دیکھیں تو آج بھی یہ افسانہ زندۂ جاوید نظرآتا ہے اور اسی پس منظر میں جب اس کے اختتام پر پہنچا جائے تو روح کانپ جاتی ہے۔ پرندہ پکڑنے والی گاڑی تو علامت ہے لیکن اسی علامت کے سہارے مصنف نے حالات کو اس طرح قلم بند کیا ہے کہ ہر قاری کو محسوس ہوگا کہ یہ افسانہ حالات حاضرہ کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا نقیب بھی ہے۔
افسانہ نگارے شاید اس پس منظرکو ذہن میں رکھ کر اسے قلم بند کیا ہو کہ ظالم وجابر حکمراں لوگوں کے ضمیر اور فکر و شعور کی آزادی کو چھین رہے ہیں مگر لوگوں کا ضمیر احتجاج نہیں کرتا اور جب کرتا ہےتواسےبھی خاموش کرانے کے راسے ڈھونڈلیے جاتے ہیں لیکن میرسے نزدیک آج یہ افسانہ حالات حاضرہ کا شاہد ہے۔ اس کے مطالعہ کے دوران فکر و نظر کی سوئیاں باربار عالم سلام کی طرف ہی مرکوز ہوتی ہیں۔ اس میں حالات کاجبرو زبردستی نمایاں ہے۔ بے ضمیری اور با ضمیری کے نظریات میں تصادم اور کرداروں کی بے بسی اور لاچاری کو موضوع بنایا گیا ہے۔فکر و شعور کی آ زاوی کو چھین کر معاشرے کو کس طرح تارتارکیا جاتا ہے، یہ افسانہ اس کی نظیر ہے۔
____________________
روزنامہ انقلاب ممبئی
٭٭٭
0 Comments