پسِ پردہ
محمد ایوب
کسی خیال، قصّے، کہانی یا واقعے کی منظرکشی یا اس کو تمثیل کے ذریعے پیش کرنے کا تصوربہت پرانا ہے اور دنیا کی ہر قدیم تہذیب میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں دیومالائی کہانیوں،رام لیلااور کرشن لیلا کا رواج بہت پہلے سے ہے۔ لوگوں کی تفریح طبع کے لئے اس میں طنز و مزاح اور دیگر عناصربھی شامل ہوتے چلے گئے۔ بعد میں اس پر ادب کا رنگ بھی چڑھا۔ اس طرح یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ڈرامہ ہی ادب کی قدیم ترین صنف ہے۔ شیکسپیئر نے اسی صنف کے ذریعے شہرت دوام حاصل کی۔کچھ شاہکار ادبی ڈرامے بوجوہ اسٹیج نہ کیے جاسکے۔ بہت سے ڈراموں کو نہ صرف شہرت حاصل ہوئی بلکہ ان پر بہترین فلمیں بھی بنیں۔آج کی فلمیں گویا ڈراموں کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ ہندوستانی ڈرامے کی تاریخ میں پارسی تھیٹر کاکردار ناقابل فراموش ہے۔
ڈرامے اور کہانی میں فرق یہ ہے کہ ڈرامے میں اصلیت کا رنگ بھرنے کے لئے ڈرامہ نگار کو زبان وبیان کی جگہ دوسرے انتظامات کرنے پڑتے ہیں، جیسے اسٹیج، پس منظر، موسیقی وغیرہ۔ جاندار مکالمے کہانی کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ ڈرامے کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، مرکزی خیال،کردار نگاری اور نکتۂ عروج جیسے فنی لوازم شامل ہیں۔ عصر حاضر کے ڈرامہ نگاروں نے ڈرامے کونہ صرف جلا بخشی بلکہ اسے زندگی کا ترجمان بنادیا۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل ڈرامے کا موضوع بنے۔ اس طرح یہ فن ترقی کرتاگیا۔ اگرچہ اردو ڈرامے کی عمر زیادہ نہیں مگر اس میں تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔
ڈرامے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار میں بھی کچھ خوبیوں کاہونا ضروری ہے۔ مثلاً گہرا مشاہدہ، انسانی نفسیات کا ادراک،عمیق مطالعہ، ڈرامے کے پس منظراور معاشرے کے ماحول سے واقفیت وغیرہ۔ قاری یا ناظر کی پسندوناپسند اور مزاج کاخیال بھی لازمی ہے۔ ڈرامہ نگار اپنے انداز بیان اور پیش کرنے کے طریقے سے قاری و ناظرکے لئے دلچسپی کا سامان پیدا کرسکتا ہے اور ان کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے۔بلاشبہ ریحان کوثر اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
شہرکامٹی میں پہلے تفریح کے ذرائع بہت محدود تھے۔یہاں کوئی سینیما گھر بھی نہیں تھا۔باہر سے سال میں ایک دو بار سرکس، ٹینٹ سینیما اور ڈرامہ کمپنیاں آیا کرتی تھیں۔ان سے متاثر ہو کر مقامی نوجوانوں میں بھی دلچسپی اور جوش پیدا ہوااورانھوں نے بھی اپنے طور پر ڈرامے اسٹیج کیے۔جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔اس کے لئے باقاعدہ کوئی تنظیم بنی ہو یا کسی گروپ کی تشکیل ہوئی ہواس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ماسٹر حمید جمال صاحب نے اپنی سرگذشت میں بیسویں صدی کے اوائل میں اس طرح کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے، مگر اس کی تحریری تفصیل کہیں نہیں ملتی۔اس لئے فنکاروں کے ناموں کی بھی تصدیق کرنا مشکل ہے۔یہاں وقتاً فوقتاً ڈرامے لکھے اور اسٹیج بھی کیے گئے مگر شہرت کسی کو نہ مل سکی۔ہاں ماضی قریب میں شکیل شاہجہاں نے البتہ اس میں نام پیدا کیااور ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
ماہنامہ الفاظ ہند کے اجرا کے بعد نہ صرف کامٹی، ناگپور بلکہ پورے ودربھ میں لکھنے لکھانے کی سرگرمیاں عروج پر پہنچیں۔ ریحان کوثر نے ڈرامہ نگاری کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی اوراسٹیج بھی کیا۔ریحان کوثر ایک زرخیز ذہن کے مالک ہیں۔ ایک کامیاب اردوماہنامے کی نہ صرف ادارت کررہے ہیں بلکہ ادب کی مختلف اصناف پرطبع آزمائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کی منی کہانیوں اور ڈراموں کی باز گشت کامٹی ناگپور سے نکل کر پورے ودربھ میں پھیل چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب اردو ڈراموں کی دنیا میں ان کی ایک پہچان ہو گی۔
ان کی یہ کتاب پچیس ڈراموں پر مشتمل ہے، جس میں انھوں نے متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے کمزور پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے۔رذیل انسانی جذبوں کو نشانہ بنایا ہے جیسے تنگ نظری اور خود غرضی، کسی کومذاق کا نشانہ بنانا،کسی کی مجبوری یا معذوری سے حظ حاصل کرنا،گندی سیاست، جھوٹ، غیبت اور دوسری سماجی برائیاں۔ دوسری طرف نیکی اور اچھائی، لطیف انسانی جذبوں کی آبیاری کی ہے، ایثار و قربانی، حبِّ وطن،درس اطفال، ماحولیات، گھریلو مسائل، تعلیم اطفال کے مسائل، عصر حاضر کے خود غرضانہ ماحول میں فناہوتی ہوئی انسانی قدروں کا احیا،روحانی اصلاح، اخلاق و اخلاص، غرضیکہ سب کا احاطہ انھوں نے بڑی خوبی اور چابکدستی سے کیا ہے اور مسائل کے قابل قبول حل بھی پیش کیے ہیں۔
ان تمام ڈراموں کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ انسانی نفسیات، مذہب، اخلاق، معاشرت، سیاست، تعلیم، ماحولیات، حب الوطنی اور حریت پسندی غرض کہ سماج اور اس کے ہر پہلو پر ریحان کوثر کی گہری نظر ہے، انسانی نفسیات کا انھوں نے باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ اور کھرے کھوٹے کی پرکھ میں وہ انسانی عیاریوں کی باریک تہوں تک پہنچ جاتے ہیں۔تحریر میں بے ساختگی اور برجستگی ہے۔ الفاظ کا بے جا اصراف نہیں۔ جہاں ضروری ہو وہاں انداز بیان شگفتہ اور فطری ہے۔ڈرامے میں حقیقت کا رنگ لانے کے لئے حسب ضرورت عوامی زبان کا بھی استعمال کیا ہے مگر ابتذال سے گریز کیا ہے۔ اسی طرح موقع و محل کے لحاظ سے ان کے انداز تحریر میں مناسب اور متناسب تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ڈرامے کا انداز معروضی ہونے کے باوجود خیرو شر کی آویزش میں ان کا قلم نہ صرف خیر کا موئید بلکہ داعی بن جاتا ہے۔
٭٭٭
0 Comments