اپنی بات: سات دن کا غلام
ریحان کوثر
ڈرامے کا لفظ ڈرامہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں کچھ کرکے دکھانا۔ بے شک ڈراموں میں گفتار کے بجائے کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن محض کردار پر مضبوط گرفت ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، مرکزی خیال، کردار نگاری اور نکتہ عروج جیسے فنی لوازم بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ڈرامے کی ابتداقدیم زمانے میں رقص و سرور کی محفلوں سے ہوئی جو کسی قبیلے کی فتح یا مذہبی تہوار کے موقعوں پر منعقد ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ فارس اور مصر میں دیوتاوں کی پرستش کی خاطر اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلے جاتے تھے۔
ڈرامے کو ناقدینِ فن تین ہزار سال پرانا فن کہتے ہیں۔ اس فن کی باقاعدہ ابتدا یونان میں ہوئی۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں نے یہیں سے اس کا اثر قبول کیا۔ اس سے قبل ہندوستان میں مذہبی اعتبار سے ناٹکوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ڈرامے کویونانی اورسنسکرت روایات میں قدیم زمانہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ان روایات میں وہ مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ کا بھی۔
عصرِ حاضر نے ڈرامے کو جلا بخشی ہے اور ڈرامے کو زندگی کا ترجمان بنایا ہے۔ سیاسی، سماجی معاشرتی مسائل کو ڈرامے کا موضوع بنایا گیاہے۔ اس طرح یہ فن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ویسے اردو ڈراموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو ڈرامے کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن اس میں تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اگر یہی رفتار برقرار رہی تو اس میں مزید وسعت اور نکھار پیدا ہوگا۔
ڈرامہ نگار کے لیے اُس کی علمی قابلیت کے علاوہ چند دوسری خوبیوں کا اس کے اندر پایا جانا ازبس ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کا مشاہدہ بہت گہرا ہو‘ انسانی نفسیات کا عمیق مطالعہ ہو‘ جس پس منظر میں وہ اپنے ڈرامے کو لے کر چل رہا ہے اس معاشرے اور ماحول سے اچھی طرح واقف ہو‘ اس کے ساتھ ہی جن قاریوں یا ناظرین کے لیے یہ ڈرامہ تحریر کیا جارہا ہے اُن کی پسند و ناپسند اور اُن کے مزاج کا بھی اسے ادراک ہو۔
ایک ڈرامہ نگار اپنے پڑھنے اور دیکھنے والوں میں وہ ذوق اور دلچسپی پیدا کرسکتا ہے جسے وہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی ڈرامہ نگار قاری اور ناظر کے ذوق کو وہ رخ دے سکتا ہے جسے وہ چاہتا ہے نہ کہ اپنی تحریروں میں وہ رنگ بھرے جو اس کا قاری یا ناظر چاہتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈرامہ نگار اپنے ناظر اور قاری پر حاوی ہوتا ہے اور اسے اُس سمت میں باآسانی لے جاسکتا ہے جہاں وہ لے جانا چاہتا ہے۔ ڈرامہ لکھنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جو تحریر کررہا ہے اُسے صرف پڑھا جانا ہے‘ ریڈیو سے نشر ہونا ہے یا ٹیلی ویژن پر دکھایا جانا ہے۔ ان تینوں حالات میں ڈرامہ نگار جو زبان استعمال کرے گا اور جو پیش منظر اور پس منظر پیش کرے گا‘ وہ مختلف ہوں گے۔ ناچیز نے ان ڈراموں کی تخلیق کے دوران بس ایک بات کا خیال رکھا کہ ان ڈراموں کو اسٹیج پر بہ آسانی پیش کیا جا سکے اور بہت زیادہ منظر تبدیل نہ ہوں۔
جہاں تک میرا تعلق ڈرامے سے ہے، یہ رشتہ اسکول کے زمانے سے رہا۔جب ہم جماعت چہارم میں تھے، ماسٹر ہارون رشید عادلؔ صاحب نے مجھے بھی منتخب کیا اپنے ایک ڈرامے کے لیے۔ نگر پریشد اسکولوں کے مشترکہ اجلاس میں قومی یکجہتی کے موضوع پر یہ بہترین ڈرامہ پیش کیا گیا جس کا عنوان"بھارت"تھا۔ اس ڈرامے نے نگر پریشد انٹر اسکول مقابلوں میں اول مقام حاصل کیا۔ اس ڈرامے میں عبدالرزاق، وسیم باری، میں اور رفعت انصاری اہم کرداروں میں تھے۔ نبیل اختر، عتیق ثانی، امین وقار وغیرہ بھی اس میں موجود تھے۔ اس ڈرامے میں ایک عیسائی کردار "انتھونی " میں نے ہی ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے کی کامیابی نے مجھے ڈراموں اور ایکٹنگ کی جانب متوجہ کیا لیکن یہ رجحان دھیرے دھیرے ختم ہونے لگا۔ اس میں ہماری اسکول کا اہم کردار تھا جہاں سوشل گیدرنگ کا مطلب صرف فٹ بال ہوا کرتا تھا۔ باقی طلبہ کے جوہر اور ان کی صلاحیتیں، ٹوٹے سرکاری نل سے رسنے والے پانی کی مانند تھے۔
٢٠٠٦ء میں جب میں نے ریاض احمد امروہی صاحب کے ساتھ ودربھ مائناریٹی ملٹی پر پز رورل ڈیویلپمنٹ ایجوکیشن سوسائیٹی کا قیام کیا تو ہم لوگوں نے سب سےپہلے "مستی کی پاٹھ شالہ" کے عنوان سے انٹر اسکول ڈراموں کے مقابلوں کا انعقاد کیا۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ اسی دوران میں نے اپنا سب سے پہلا ڈرامہ لکھا اور اسے ڈائرکٹ بھی کیا۔ اس ڈرامے کا نام 'عید مبارک' تھا۔ میرے اس ڈرامے کو دوسرا انعام حاصل ہوا۔
کامٹی سے جب اردو ماہنامہ الفاظ ہند جاری کیا گیا تو ادارے نے طے کیا کہ ہر شمارے میں ایک ڈرامہ ضرور شائع کیا جائے گا۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک الفاظ ہند کے اب تک ۶۲شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ابتدائی چند شماروں کو چھوڑ دیں تو ہر مہینے کا معمول بن گیا ہے۔ ودربھ کے سبھی معروف ڈرامہ نگار کے ڈرامے شائع کیے گئے جس میں وکیل نجیب، بانو سرتاج، ڈاکٹر محمد اسداللہ وغیرہم شامل ہیں۔
٭٭٭
0 Comments