Ticker

6/recent/ticker-posts

’ابتداء‘

’ابتداء‘
آغا محمد باقر(نقیؔ جعفری)

جن زبانوں میں اپنے عہد کے ساتھ چلنے کی سکت نہیں ہوتی وہ زبانی عبادت گاہوں، خانقاہوں اور مٹھوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ عبرانی، سنسکرت اور ایک حد تک عربی زبان کا بھی یہی حال ہے۔ 1979ء کے بعد فارسی نے البتہ عروج پایا ہے۔ آج اگر ایران میں فارسی زبان زندہ ہے تو یہ فارسی کے بہ کمال اہلِ علم کا کارنامہ ہے جنھوں نے فارسی کو جدید علوم سے ہم آہنگ کیا۔
اردو کی پیدائش، اردو کا جنم، ماہرینِ لسانیات کے مطابق ضرورتِ زمانے کے تحت ہوا۔ ایک عرب کو ہندوستان کے باشندے سے بات کرنے میں دشواریاں تھیں، یہی پریشانی ایرانیوں کو بھی تھی جب وہ ہندوستان آیا کرتے تھے تو انہیں وہاں کے مقامی لوگوں سے تبادلۂ خیال میں مشکل پیش آتی تھی۔ یہ پریشانی ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے باشندوں کو بھی اکثر پیش پریشان کردیتی تھی، گجراتی، پنجابی، سندھی، اودھی، کنڑ، مراٹھی جیسی علاقائی زبانیں ایک دوسرے سے کافی جدا تھیں، ایسے ماحول میں ضروری تھا کہ کوئی ایسی زبان ہو جسے ہندوستان کے ہر علاقے کے افراد بہ آسانی بول سکیں اور سمجھ سکیں۔ لہٰذا دھیرے دھیرے اردو زبان کا خمیر تیار ہوا اور یہ زبان معرض وجود میں آئی۔ جب تک اردو ہندوستانی معاشرے کی ضرورت تھی دن رات ترقی کرتی چلی گئی، لیکن آزادئ ہند کے بعد یہ زبان کچھ سیاسی وجوہات اور ہماری لاپرواہی کے باعث پسماندگی کی سمت سفر کرنے لگی۔ کیونکہ ہم نے اردو کو عصری تقاضوں کی تکمیل کے قابل نہیں بنایا۔
آج جدید علوم کے حصول کے لیے انگریزی تعلیم لازمی ہو چکی ہے۔ میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جدید علوم کے تمام شعبے اردو میں کھول دیں۔ یہ ناممکن نہیں ہے میرے عزیز دوست ریحان کوثر نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔
اب تک اردو میں شعر و ادب اور ’ماحولیات‘ پر کتابیں لکھی جا رہی تھیں جس میں محترم ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب کا کوئی ثانی نہیں ہے یہ کام بھی اپنے آپ میں بے انتہا اہم ہے۔ لیکن جہاں تک کمپیوٹر سائنس اور انٹرنیٹ کی بات ہے تو اس شعبۂ علم میں اردو کے اہل قلم کم کم ہی خاصہ فرمائی کر رہے ہیں۔ 
ممکن ہے ریحان کوثر سے حوصلہ پاکر اور بھی اردو نواز ادیب اس جانب متوجہ ہوں۔ میں ریحان کوثر کو اس کتاب کی اشاعت پر اپنی جانب سے اور اشہر جعفری ساہیتہ اکادمی کی جانب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
_____________ 
یہ مقالہ ریحان کوثر کی کتاب "ڈاٹ کام " کے اجرا کے موقع پر پڑھا گیا
٢٥؍ نومبر ٢٠١٧ء
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments