Ticker

6/recent/ticker-posts

ریحان کوثر: کامٹی میں ڈرامہ نگاری

ریحان کوثر: کامٹی میں ڈرامہ نگاری
ڈاکٹرعصمت کوثر انصاری

تعارف
نام مع تخلص: ریحان کوثر ؔ
قومیت: ہندوستانی
پتہ: کاشانۂ کوثر، ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی،کامٹی441001 ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
والد کا نام : محمد شمیم 
والدہ کا نام : سعیدہ بانو
مقام پیدائش: کامٹی، ضلع ناگپور (مہاراشٹر )
تاریخ پیدائش : 9 ؍ اکتوبر 1977ء
فون نمبر : +91 9326669893
ای میل : vmmrdes@gmail.com
تعلیم
تعلیم سال تعلیمی ادارہ
پرائمری 1988ء نگر پریشد اسماعیل پورہ اردو پرائمری اسکول
سیکنڈری 1993ء ایم ۔ایم ۔ ربانی ہائی اسکول، کامٹی
ہائر سیکنڈری 1995ء ایم ۔ایم ۔ ربانی جونیر کالج، کامٹی
ایچ ۔ایم ۔ سی ۔ ٹی 1999ء مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن
بی اے 2002ء سنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور
بی اے ایڈیشنل 2003ء سنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور
ایم اے(تاریخ) 2004ء سنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور
ذاتی کوائف
شادی شدہ 27 مئی 2006ء زوجہ:عظمیٰ ناہید بنت عبد الحمید
افرادخانہ ایان کوثر، ارحان کوثر، عبدان کوثر
تصانیف
تصنیف سال نوعیت
1 اُڑان(ہندی، انگریزی 2012ء رپورٹ
2 منووگیان (ہندی) 2013ء تعلیمی نصاب
2 مٹیریل سائنس (ہندی) 2013ء تعلیمی نصاب
4 ذرا سی شاعری 2014ء شاعری (ترتیب)
5 منظر پس منظر(اردو ڈرامے ) 2014ء تحقیق و ترتیب
6 بیت بازی 2015ء شاعری (ترتیب)
7 اردو ماہنامہ الفاظ ہند جنوری 2014ء (جاری)
8 کہکشاں 2015ء رپورٹ
9 کامٹی میری جان 2016ء سالانہ سرگرمیاں 
10 ڈاٹ کام 2016ء تصنیف
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مبنی یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔
مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی،ممبئی کی جانب سے زمرہ، سائنس و ٹیکنالوجی ایوارڈ برائے 2016ء، ’’ڈاٹ کام‘‘ کو حاصل ہوا۔
اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ کی جانب سے زمرہ، سائنس و ٹیکنالوجی ایوارڈ برائے 2016ء، ’’ڈاٹ کام‘‘ کو حاصل ہوا ۔
11 پھولوں کی زبان 2016ء مطبوعہ مضامین کا مجموعہ، ترتیب: ریاض احمد امروہی
12 اوراق 2017ء ڈاکٹر مدحت الاختر پبلک لائبریری، کامٹی کی رپورٹ اور فہرست کتب
13 عید مبارک 2017ء ڈراموں کا مجموعہ(تصنیف)
یہ کتاب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی کی مالی اعانت سے شائع کی گئی ہے۔
14 اردو کمپیوٹنگ 2017ء تصنیف
اردو اور کمپیوٹر کی معلومات پر مبنی یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔
15 عرقِ ریحان 2018ء مطبوعہ مضامین کا مجموعہ
ترتیب: ریاض احمد امروہی
16 ماہنامہ مدھیہ بھارت ٹائمز (ہندی) جنوری 2016ء 
17 سات دن کا غلام 2019ء ڈراموں کا مجموعہ(تصنیف)
یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔
18 بچوں کی نظمیں (الطاف حسین حالیؔ، سیماب اکبرآبادی) 2019ء بچوں کی نظمیں کی مرتبہ کتاب
یہ کتاب ماہنامہ گل بوٹے کے سلور جبلی جشن کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔
19 کہانیوں کے کنارے 2020ء بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ(تصنیف)
یہ کتاب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی کی مالی اعانت سے شائع کی گئی ہے۔
اشاعتی منصوبے
تصنیف سال
1 منووگیاں (حصہ دوم)(ہندی) تعلیمی نصاب
2 مٹیریل سائنس (حصہ2) (ہندی) تعلیمی نصاب
3 کامٹی کا مسلم معاشرہ تحقیق و تاریخ
4 ایک شاعر ایک صفحہ شاعری (ترتیب)
5 پہچان بچوں کا ناول
6 بابِ کوثر ؔ (غزلیں اور نظمیں )
7 میرے الفاظ اداریوں کا مجموعہ
اشاعت
تقریباً ٣٠سے زائد ادبی، علمی و ثقافتی موضوعات پر مضامین اردو کے موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔
پیش لفظ 5 ہندی اردو کتابوں پر پیش لفظ تحریر کیے۔
تبصرے 8 مختلف تصانیف پر تبصرے شائع ہوئے، زیادہ تر تبصرے ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی میں شائع ہوئے۔
روزنامہ اردو انقلاب( ممبئی)، روزنامہ اردو ٹائمز (ممبئی)، روزنامہ ممبئی اردو نیوز (ممبئی)، روزنامہ صحافت( ممبئی)، روزنامہ راشٹریہ سہارا (ممبئی)، روزنامہ ہندُستان (ممبئی)، روزنامہ خبریں (نئی دہلی)، روزنامہ میرا وطن (نئی دہلی)، روزنامہ قومی تنظیم (پٹنہ)، روزنامہ کشمیر عظمیٰ، (سرینگر)، روزنامہ تکمیلِ ارشاد (سرینگر)، روزنامہ ویتھ (سرینگر)، ماہنامہ بچوں کی دنیا (نئی دہلی)، ماہنامہ امنگ (نئی دہلی)، ماہنامہ ایوان اردو(نئی دہلی)، ماہنامہ قرطاس (ناگپور)، ماہنامہ اردو میلہ (ناگپور)، دو ماہی سربکف (کامٹی ) اور دوسرے اخبارات، رسائل اور جرائد میں مضامین، افسانے، کہانیاں، غزلیں اور نظمین شائع ہوتی رہی ہیں ۔
نشریات
ریڈیو سینٹر سال تقریب
1 آ کاشوانی ناگپور 2016ء پروگرام آبشار کے تحت، مشاعرہ میں شرکت
2 آ کاشوانی ناگپور
(7 مارچ 2018ء) ریکارڈنگ، 7فروری 
2018ء پروگرام آبشار کے تحت ٢٠١٧ کی اہم کتابوں پر تبصرہ بعنوان ’’کتابوں کی سیر : ٢٠١٧ کی اہم مطبوعات‘‘
3 آ کاشوانی ناگپور 2018ء بروز پیر 10 دسمبر 2018ء بعنوان ’’ترسیل ابلاغ کے ذرائع، سماجی افادیت اور مسائل‘‘ ڈاکٹر عبد الرحیم نشتر (مدیر ودربھ نامہ، ناگپور)، جناب نثار اختر انصاری (مدیر ہمہ گیر)، جناب شمیم اعجاز (مدیر المیزان، ناگپور) اور ریحان کوثر (مدیر الفاظ ہند)
4 آ کاشوانی ناگپور 2019ء منی افسانے(سو لفظوں کی کہانیاں)
ملازمت
ملازمت سال ادارہ
1 انسٹرکٹر 2000ء انڈین ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ، ناگپور
2 انسٹرکٹر 2006ء انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی
3 پرنسپل 2008ء ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
4 پرنسپل 2013ء ربانی آئی ٹی آئی و جونیر کالج، کامٹی
سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے انسلاک
1 سیکریٹری 2007ء ودربھ مائنا رٹی ملٹی پرپز رورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی، ناگپور
2 رکن 2008ء انڈین ٹیکنیکل ایجوکیشن سوسائٹی، ممبئی
3 سیکریٹری 2009ء ودربھ ایم ایس بی وی ای ای انسٹی ٹیویشنل اشوسی ایشن
4 منیجنگ ڈائرکٹر 2009ء مولانا آزاد کرافٹ ڈی ایڈ کالج، کامٹی
5 منیجنگ ڈائرکٹر 2010ء رضوان کالج آف نرسنگ اینڈ پیرا میڈیکل
6 مدیر 2014ء اردو ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی
7 رکن 2015ء نگر پریشداسماعیل پورہ اردو پرائمری اسکول سمیتی
8 نائب صدر 2016ء نگر پریشداسماعیل پورہ اردو پرائمری اسکول سمیتی
9 نائب مدیر 2015ء ہندی ماہنامہ مدھیہ بھارت ٹائمز، کامٹی
10 منیجنگ ڈائرکٹر 2015ء الفاظ پبلی کیشن، کامٹی
11 صدر 2017ء ڈاکٹر مدحت الاختر پبلک لائبریری، کامٹی
12 منیجنگ ڈائرکٹر 2017ء ودربھ ہندی اردو پریس، کامٹی
13 رکن 2018ء مجلس مشاورت اردو لسانی کمیٹی، بال بھارتی
14 رکن 2018ء ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی
بحیثیت کنوینر اور ناظم سیمینار و مشاعرہ
زیر اہتمام: ودربھ مائنا رٹی ملٹی پرپز رورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی، ناگپور
کنوینر گائیڈنس میلہ دسویں اور بارہویں کے بعد کیا ؟ 14 مئی 2007ء بتعاون انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی بمقام میمن جماعت خانہ، اسماعیل پورہ، کامٹی
کنوینر گائیڈنس میلہ 20 اپریل 2008ء بتعاون انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی، بمقام خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول، گرائونڈ، 
کنوینر مستی کی پاٹھ شالہ (انٹر اسکول ڈراموں کا مقابلہ ) 20 اپریل 2008ء
(شام کو ) بتعاون انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی بمقام خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول، گرائونڈ، کامٹی
کنوینر مستی کی پاٹھ شالہ (دو روزہ انٹر اسکول ڈراموں کا مقابلہ ) 28 دسمبر 2008ء بتعاون انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی بمقام ریاض احمد امروہی ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی
کنوینر مستی کی پاٹھ شالہ (دو روزہ انٹر اسکول ڈراموں کا مقابلہ ) 13 دسمبر 2009ء بتعاون انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی بمقام ریاض احمد امروہی ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی
کنوینر گائیڈنس میلہ نرسنگ اور پیرا 2009ء بتعاون رضوان کالج آف نرسنگ اینڈ پیرا میڈیکل کامٹی، بمقام پربھات بلڈنگ، کامٹی 
کنوینر کرافٹ میلہ (بیسٹ فرام ویسٹ ) 2009ء بتعاون مولانا آزاد کرافٹ ڈی ایڈ، کالج کامٹی، بمقام انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اسٹڈیز، کامٹی 
کنوینر کرافٹ میلہ (بیسٹ فرام ویسٹ ) 2010ء بتعاون مولانا آزاد کرافٹ ڈی ایڈ، کالج کامٹی، بمقام پربھات بلڈنگ، کامٹی 
کنوینر مستی کی پاٹھ شالہ (دو روزہ انٹر اسکول ڈراموں کا مقابلہ ) 16 جنوری 2011ء بتعاون ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی، بمقام ریاض احمد امروہی ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی
کنوینر ٹیکسٹائل میلہ صدارت :وکاس جین ستمبر 2013ء بتعاون ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی،کیمپس کامٹی
کنوینر تقریب اعزاز( روشنی کا مینار) صدارت :آر این ڈونگرے 2013ء بتعاون ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی،کیمپس کامٹی
کنوینر تقریب اعزاز (روشنی کا مینار اور ودربھ رتن ) 26جنوری 2015ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر اردو ماہنامہ الفاظ ہند کی تعارفی تقریب 9 مئی 2015ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام حسن ہاؤس، جعفر نگر، ناگپور 
کنوینر الفاظ ہند مشاعرہ (اول ) صدارت : ڈاکٹر مدحتؔ الاختر 5 ستمبر 2015ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر تقریب اعزاز (ایم مبین ) 25 اکتوبر 2015ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام انجمن ضیاء الاسلام پبلک لائبریری، کامٹی 
کنوینر الفاظ ہند مشاعرہ (دوم ) صدارت : ظفر کلیم 29جنوری 2016ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر تقریب اجرا ’’ڈاٹ کام ‘‘ بدست : ریاض احمد امروہی 25 نومبر 2017ء بتعاون الفاظ پبلی کشن، کامٹی، بمقام مسلم سماج بھون، املی باغ، کامٹی
کنوینر تقریب اجرا ’’یہ ہماری قوم‘‘ بدست عبد الستار انصاری 31دسمبر 2017ء بتعاون الفاظ پبلی کشن، کامٹی، بمقام ڈاکٹر خلیل الله پبلک لائبریری، صوفی نگر، کامٹی
کنوینر مہامشاعرہ (ریاستی مشاعرہ ) صدارت : ڈاکٹر مدحتؔ الاختر 5 ستمبر 2018ء بتعاون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، بمقام مسلم سماج بھون، املی باغ، کامٹی
کنوینر تقریب اجرا ’’ماہنامہ الفاظ ہند ‘‘ پچاسواں شمارہ بدست : گریش شرما 5 فروری 2018ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر/ نظامت تقریب اجرا کتاب’’تجربات ‘‘ بدست ایس کیو زماں 18 اگست 2018ء بتعاون الفاظ پبلی کیشن، کامٹی، ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی، بمقام ربانی اسکول کامٹی
کنوینر/ نظامت تقریب اجرا کتاب’’تجربات ‘‘ بدست سہیل اختر 10 مارچ 2019ء بتعاون الفاظ پبلی کیشن، کامٹی، ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی، بمقام لال مدرسہ، وارث پورہ کامٹی
کنوینر جلسۂ استقبالیہ ایورڈ یافتگان، صدارت: ڈاکٹر محمد اسداللہ 5 اکتوبر 2019ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر/ نظامت تقریب اجرا و جلسۂ استقبالہ بدست خان نوید الحق 20 فروری 2020ء بتعاون الفاظ پبلی کیشن، کامٹی، ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
کنوینر/ نظامت تقریب اجرا کتاب’’مہا کہانیاں، اصلاح کوئز سیریز2‘‘ 26 ستمبر 2018ء بتعاون ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، ربانی اسکول اسٹیوڈنٹ ایسو سی ایشن، کامٹی، بمقام ربانی آئی ٹی آئی، کامٹی
انعامات واعزازات
مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے تصنیف، کتاب ڈاٹ کام 13نمبر 2017ء زمرہ، سائنس و ٹیکنالوجی ایوارڈ برائے 2016ء، منجانب: مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی،ممبئی 
اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ برائے تصنیف، کتاب ڈاٹ کام 2018ء زمرہ، سائنس و ٹیکنالوجی ایوارڈ برائے 2016ء، منجانب: اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ
تعلیمی بیداری ایوارڈ 8 ستمبر 2019ء ودربھ مسلم انٹیلکچوئل فورم، انجمن ضیاء الاسلام پبلک لائبریری، نور محمد فاؤنڈیشن، بمقام، مسلم سماج بھون کامٹی
اعزاز و استقبال بدست دلیپ پانڈے (ایم ایل اے، دہلی) 25 تمبر 2019ء منجانب: دہلی اردو اکادمی،دہلی
اعزاز و استقبال 25 تمبر 2019ء ماہنامہ گل بوٹے (گل بوٹے سلور جبلی جشن)
مثالی مدرس ایوارڈ 5 ستمبر 2018 اقلیتی سیل، این سی پی، کامٹی
صحافتی ایوارڈ 28 اکتوبر 2017ء انجمن محبان ِمعیارِ ادب، ناگپور
اعزاز برائے تصنیف، کتاب ڈاٹ کام 09دسمبر 2016ء بزم نیاز انجم، کامٹی
جانِ ادب ایوارڈ :
اعزاز برائے ادبی خدمات 29جنوری 2016ء منجانب :اشہرجعفری ساہتیہ اکادمی، کامٹی
ظہیر افروز صحافتی ایوارڈ 31سمبر 2015ء منجانب : ہفتہ روزہ تاج، کامٹی
عبد المتین ایوارڈ
اعزاز برائے سماجی خدمات 26جنوری 2015ء منجانب : شہید عبد الحمید اکادمی، ناگپور
مثالی مدرس (ٹیکنیکل ) 13جولائی 2008ء انڈین ٹیکنیکل ایجوکیشن سوسائٹی، ممبئی
٭٭٭


ریحان کوثر:
ریحان کوثر9 اکتوبر 1977کو ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی ضلع ناگپور (مہاراشٹر) میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد شمیم اور والدہ کا نام سعیدہ بانو ہے۔ آپ کی شریک حیات کا نام عظمیٰ ناہید ہے۔ آپ کے خانوادہ میں تین فرزند ایان کوثر، ارہان کوثر اور عبدان کوثر شامل ہیں۔ ریحان کوثر نے نگر پریشد اسماعیل پورہ اردو پرائمری اسکول سے 1988ء میں چوتھی کا امتحان پاس کیا۔ 1993ء میں ایم ایم ربانی ہائی اسکول،کامٹی ے دسویں اور 1995میں ایم۔ ایم۔ ربانی ہائی اسکول و جونیر کالج سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں 1999ءمیں مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، ممبئی سے ڈپلوما ان ایچ۔ ایم۔سی۔ٹی حاصل کیا۔ 2002ء اور 2004میں ناگپور یونیورسٹی سے بالترتیب بی۔اے اور ایم۔ اے(تاریخ) کی ڈگریاں حاصل کیں۔
2012ءسے2020ءکے درمیان آپ کی مختلف تصانیف منظر عام پر آئیں۔ ساتھ ہی مختلف منصوبوں کی اشاعت کا کام جاری ہے۔ ریحان کوثر فی الوقت ربانی آئی ٹی آئی و جونیئر کالج میں پرنسپل کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ کامٹی کا مشہور اردو ماہنامہ ’’ الفاظ ہند‘‘ کی ادارت کا کام بھی بخوبی سنبھال رہے ہیں۔ ریحان کوثر کو ادبی و سماجی خدمات کے عوض مختلف ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

ریحان کوثر بحیثیت ڈرامہ نگار:
شہر کامٹی کو شروع سے ہی علمی و ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں علم و ادب، کھیل کو د اور پارچہ بافی کی صنعت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں سے ایسے ایسے فنکار ابھرے ہیں جنھوں نے اپنے متعلقہ میدان میں نمایاں کام انجام دیا ہے۔ ریحان کوثر ایک ایسے ہی فنکار ہیں جنھوں نے بہت ہی کم وقت میں اپنی صلاحیتوں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔
ریحان کوثر ڈراموں کے مجموعے ’’ عید مبارک‘‘ کے دیباچہ میں ڈراموں سے ابتدائی دلچسپی کو یوں بیان کرتے ہیں: 
’’ جہاں تک میرا تعلق ڈرامے سے ہے یہ رشتہ اسکول کے زمانے سے رہا۔ جب ہم جماعت چہارم میں تھے، ماسٹر ہارون رشید عادل نے مجھے بھی منتخب کیا اپنے ایک ڈرامے کے لیے۔ نگر پریشد اسکولوں کے مشترکہ اجلاس میں قومی یکجہتی کے موضوع پر یہ بہترین ڈرامہ پیش کیا گیا اور اس ڈرامے نے انٹر اسکول مقابلوں میں اول مقام حاصل کیا۔ اس ڈرامے میں ایک عیسائی کردار ’’ انتھونی ‘‘ میں نے ہی ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے کی کامیابی نے مجھے ڈراموں او ر ایکٹنگ کی جانب متوجہ کیا۔ ‘‘
ریحان کوثر نے اس دلچسپی کو برقرار رکھا او رآپ نے جب اردو ماہنامہ ’’ الفاظ ہند‘‘ شروع کیا تو یہ طے کیا کہ ہر شمارے میں ایک ڈرامہ ضرور شائع کیا جائے۔ اس سوچ کو انھوں نے عملی جامہ بھی پہنایا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ آج تک ’’ الفاظ ہند‘‘ میں ودربھ کے تقریباً تمام معروف ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ ڈراموں کے تئیں دلچسپی نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے آپ کو ڈراموں کا مجموعہ ’’ عید مبارک‘‘اور’’ سات دن کا غلام‘‘ تخلیق کرنے پر مجبور کیا۔
ڈراموں کا مجموعہ ’’ عید مبارک‘‘ ۲۰۱۷ء میں منظر عام پر آیا۔ جس کے مقدمہ میں وکیل نجیب نے ریحان کوثر کا تعارف کچھ اس طرح پیش کیا ہے: 
’’ریحان کوثر صاحب کامٹی کی ایک معتبر ادبی او رتعلیمی شخصیت ہیں۔ عزم و حوصلے کے پیکر ہیں مشکل ترین حالات میں اپنے کام کوانجام دینے کا سلیقہ و شعور رکھتے ہیں۔ تعلیم کے میدان کے ساتھ ہی ادبی محاذ پر بھی برسرپیکار ہیں۔ گذشتہ تین برسوں سے کامٹی جیسے چھوٹے شہر سے بچوں اور نوجوانوں کا بڑا رسالہ’’ الفاظ ہند‘‘ جاری کئے ہوئے ہیں۔
ریحان کوثر کو ڈرامے پر خاصا عبور حاصل ہے۔ ڈراموں کی پرکھ ہے اور ڈرامہ تحریر کرنے او راسٹیج پر پیش کرنے کے فن سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ اس نوجوان فن کار کی ڈراموں کی اس کتاب میں جو سولہ ڈرامے ہیں وہ سب کے سب ادب کے اچھے نمونے ہیں۔‘‘
ڈراموں کا مجموعہ’’عید مبارک‘‘ ریحان کوثر کو ایک کامیاب ڈرامہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ اس میں کل ۱۶ ڈرامے شامل ہیں جسے آرام سے اسٹیج پر پیش کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے ہر ڈرامے کے ذریعے کوئی نہ کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ڈراموں میں جگہ جگہ مذہبی باتوں کا رنگ جھلکتا ہے جو ان کی نیک اور صالح فکر کو ظاہر کرتے ہیں۔ کہیں انھوں نے مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے تو کہیں طنز کے تیر چلائے ہیں۔ سماج میں جنم لینے والی چھوٹی چھوٹی خرابیاں جو سماج کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کررہی ہیں، ان برائیوں کو ڈرامے میں خوبصورت انداز میں نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈراموں کا مجموعہ ’’ عید مبارک‘‘ کا تنقیدی مطالعہ:
ریحان کوثر کے ڈراموں کا مجموعہ ’’ عید مبارک‘‘ ۲۰۱۷ء میں منظر عا م پر آیا۔ اس میں کل ۱۶؍ ڈرامے شامل ہیں جن میں ڈرامہ ’’ بستوں کی فریاد‘‘ پر بھودیال شری واستو کےہندی ڈرامے سے ماخود ہے۔ ڈرامہ ’’ اندھیر نگری ‘‘ کا مرکزی خیال ہندی کہانی ’’ اندھیر نگری چوپٹ راجہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ان ڈراموں کو آسانی سے اسٹیج پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
ریحان کوثر نے ان ڈراموں کے ذریعے حب الوطنی، اخلاقیات، بزرگوں کا احترام درگذر، دوسروں کی مدد، اور دوسروں کی تحقیر کرنے سے روکنے کا پیغام دیا ہے۔ اس مجموعے میں ’’آخری جنگ ‘‘، ’’ دس نمبر‘‘، ’’ زمین کو بخار آگیا!‘‘، ’’ عید مبارک‘‘، ’’ بستوں کی فریاد‘‘، ’’ اسپلٹ ائیر کنڈیشن ‘‘، ’’ دیوالی ‘‘، ’’ نیتا جی ‘‘، ’’ ایک سفر‘‘، ’’ لالچ کا انجام ‘‘، ’’ سائیکل کی قیمت ‘‘، ’’گوشت خور‘‘، ’’ جنرل صاحب ‘ ‘، ’’ اندھیرنگری‘‘، ’’ ایک لیٹر دودھ‘‘، ’’ الیکٹران ‘‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

)۱ ) ڈرامہ ’’ آخری جنگ ‘‘:
ڈرامہ ’’ آخری جنگ ‘‘ میں ڈرامہ نگار نے بھگت سنگھ کی پھانسی جیسے تاریخی واقعہ کو بیان کیا ہے۔ اس ڈرامہ میں انھوں نے بھگت سنگھ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ انقلابی بھگت سنگھ، اتحادی بھگت سنگھ، ناستک بھگت سنگھ۔۔ بھگت سنگھ اور ان کے دوست راج گرو اور سکھ دیو جب سامراج اور سرمایہ داروں کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے ہیں تو گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔ تینوں کو پھانسی کا حکم دیا جاتا ہے۔قیدہونے سے لے کر پھانسی چڑھنے تک کے وقفہ کو ڈرامہ نگار نے بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کو جب قبل از وقت پھانسی کے لیے لے جایا جاتا ہے تب بھی وہ لڑکھڑاتے نہیں بلکہ سینہ تان کر چلتے ہیں۔ ان کی چال میں فخر، اعتماد، امنگ اور جوش صاف نظر آتا ہے۔ جب تینوں پلیٹ فارم کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور اپنے اپنے پھندوں کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں اس وقت بھی ان کی رگوں میں انقلابی جوش رواں دواں تھا اس وقت کے ان کے جذبات کو ڈرامہ نگار نے یوں بیان کیا ہے:
راج گرو: ہم اپنی پوری طاقت سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انقلابی زندگی کے شروع کے چند 
دنوں کے سوا نہ تو ہم دہشت گرد ہیں اور نہ تھے۔۔۔
بھگت سنگھ: غریب محنت کش مزدوروں اور کسانوں۔۔۔۔۔۔تمھارے حقیقی دشمن سرمایہ دارہیں۔ تم کسی بھی نسل، مذہب یا قوم کے ہو، بہتر یہی ہے کہ متحد ہو جاؤ او رحکومت کی طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرو۔ دیکھنا ایک نہ ایک دن تمھاری زنجیریں کٹ جائیں گی او رتمھیں اقتصادی آزادی ملے گی۔۔۔
سکھ دیو: اٹھو اور موجود ہ نظام کے خلاف بغاوت کھڑی کردو۔ سماجی تحریک سے انقلاب پیدا کردو او رسیاسی اور اقتصادی انقلاب کے لیے کمر کس لو۔ تم ہی تو ملک کی بنیاد ہو۔ حقیقی طاقت ہو۔
سوئے ہوئے شیرو، جاگو۔۔۔۔۔۔
اٹھو اور بغاوت کھڑی کردو۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں پھانسی سے قبل آخری خواہش پوچھنے کی روایت ہے۔جب بھگت سنگھ سے آخری خواہش پوچھی جاتی ہے تو وہ جمعدار کے ہاتھ کی روٹی کھانے کے لیے کہتا ہیں۔ جمعدار جو نیچی ذات کے ہوتے ہیں ان کے ہاتھ سے روٹی کھا کر انھوں نے ہمیں انسانی مساوات کا درس دیا ہے۔ انھوں نے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بھید بھاؤ انسانوں کے ذریعے ہی پیدا کیا گیا ہے اگر ہم چاہے تواسے بہ آسانی مٹا سکتے ہیں۔ ڈرامہ نگار نے انسانی مساوات کی تعلیم بھگت سنگھ کی زبانی اس طرح دی ہے:
بھگت سنگھ: ماں، جن ہاتھوں سے بچوں کا پاخانہ صاف کرتی ہے، انہی سے کھانا بناتی 
ہے۔ بے بے، آپ فکر مت کرو۔ نکالو اپنی پوٹلی۔ روٹی دو، بہت زور کی بھوک لگی ہے۔
)جمعدار کندھوں سے ٹنگی پوٹلی اتار کر روٹی نکالنے لگتا ہے (
کتا ہماری گود میں بیٹھ سکتا ہے۔ ہمارے باورچی خانے میں گھومتا۔ پھرتا ہے لیکن ایک انسان ہم کو چھولے تو وہ دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ کیا اتنا کمزور ہے مذہب؟
)بھگت سنگھ جمعدار کے ہاتھ سے روٹی لے کر کھانے لگتے ہیں۔ (
یہ ڈراما اسی طرح جذبات و احساسات سے آراستہ ہے۔ انقلاب کے تناظر میں قومی یک جہتی اور انسانی مساوات کی عکاسی احسن طریقے سے کی گئی ہے۔ مکالمے پر اثر ہے۔ الغرض ڈرامہ ’’ آخری جنگ‘‘ حقائق و واقعات کی ترتیب،کرداروں کی تصویر کشی، منظر نگاری کے ساتھ ایک کامیاب کوشش ہے۔

)۲ ( ڈرامہ ’’ زمین کوبخار آگیا!‘‘
’’زمین کو بخار آگیا‘‘ اس ڈرامہ میں ڈرامہ نگار نے انسانی سر گرمیوں سے پیدا ہونے والے برے نتائج پر روشنی ڈالی ہے ساتھ ہی اس کا بہترین علا ج بھی تفویض کیا ہے۔ 5منظروں میں ڈرامہ کا آغاز عروج اور اختتام ہوجاتا ہے۔ یہ ڈرامہ آسانی سے اسٹیج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے کرداروں میں نیلو، اس کی ماں، والد، دادا، ٹیچر، ٹی۔ وی اینکر، محکمہ موسمیات کی صدر ڈاکٹر پریم لتا پرمار شامل ہیں۔ ہمارا سماج ہمارا ماحول آج جس تیزی سے بگڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اگر اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو شاید ہمیں اس کے خطر ناک نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ اس بڑے مدعے کو ڈرامہ نگار نے اسکول کی ایک چھوٹی بچی نیلو کے ذریعے نیلو کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
نیلو: ماں، آپ کو معلوم ہے، آج ٹیچر نے کیا سکھایا ہمیں؟
ٹیچر نے کہا، زمین کو بخار آرہا ہے۔
ماں: کیا
نیلو: ہاں ماں، زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
ٹیچر نے کہا، اس سے ہم سب بھی بیمار ہوجائیں گے
ماں: ایسا کیا؟
نیلو: ٹیچر بولیں، بارش نہیں ہوگی، گرمی بڑھے گی، سب جگہ صحرا ہوجائے گا۔ تمام مخلوق اور یہاں تک کہ ہم انسان بھی مر جائیں گے۔ کیا ایسا ہوگا، ماں؟
نیلو کا چھوٹا ذہن اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ٹیچر نے جو کہا وہ حقیقت میں ہوگا تبھی وہ اپنی ماں سے اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ ڈرامہ نگار نے بہت ہی عمدہ طریقے سے ڈرامے کو آگے بڑھاتے ہوئے نیلو کے تجسس کو اس کے والد اور دادا کی باتوں سے کچھ حد تک شانت کرنے کی کوشش کی ہے۔
والد: کیوں کیا ہوا بابو جی۔
دادا: معلوم نہیں بیٹا۔ سب کچھ بدل رہا ہے۔ کسی کا کچھ ٹھکانا نہیں رہا۔ مارچ اپریل میں ہی بارش ہوجاتی ہے اور اتنی تیز بارش کہ کٹائی کے لیے تیار فصل خراب ہوجاتی ہے اور جون، جولائی میں جب سارا کھیت جوت کر تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ بارش آئے اور بوائی شروع کریں، پھر بارش کہا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہور ہا ہے۔ ایسے میں کوئی کھیتی کرے تو کس طرح ؟ موسم کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔
نیلو: آج ہماری ٹیچر نے بھی یہی کہا۔ موسم بدل رہا ہے۔ زمین بیمار ہو رہی ہے۔ 
بابا، زمین کیوں بیمار ہو رہی ہے؟
چھوٹی سی نیلو دادا کی باتوں سے اتنا تو سمجھ جاتی ہے کہ ٹیچر کی باتیں صحیح ہے۔ جب وہ ٹی۔ وی پر اینکر سواتی اور محکمہ موسمیات کی صدر ڈاکٹر پریم لتا پرمار کی گفتگو سنتی ہے تو اسے اتنا سمجھ آتا ہے کہ انسانی سر گرمیوں جیسے درختوں کی اندھا دھند کٹائی، فیکٹریوں سے نکلتا دھواں، گاڑیوں کی تعداد میں ہوتا اضافہ وغیرہ ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور وہ بیمار ہورہی ہے۔ اس کے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پہاڑوں کی برف پگھل رہی ہے۔ ساحلی علاقے ڈوب رہے ہیں، بارش کی روایت بدل رہی ہے، فصلیں تباہ و برباد ہورہی ہے۔
نیلو کا معصوم ذہن زمین کے بخارکو اتارنے کے لیے مچل اٹھتا ہے۔ وہ چاہتی ہے جس طرح انسانوں کا بخار علاج سے ٹھیک ہوجاتا ہے اسی طرح زمین کا بخار بھی جلد از جلد ٹھیک ہوجائے۔زمین کو ٹھیک کرنے کے لیے ڈرامہ نگار نے نیلو او رٹیچر کے درمیان گفتگو کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
نیلو: میم زمین کو کس طرح ٹھیک کیا جاسکتا ہے، کون سی دوا پینے سے زمین ٹھیک ہوسکتی ہے، تا کہ ہم بھی بیمار ہونے سے بچ سکیں؟
ٹیچر: نیلو، تم نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ لیکن نیلو زمین کا بخار اتارنا آسان نہیں ہے۔ اس کا بخار کئی سالوں کی ہماری بدکاریوں کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم اپنی 
عادات تبدیل کریں اور ایسے کام کریں جن سے زمین کو آرام ملے۔
نیلو: وہ کون سے کام ہیں؟
ٹیچر: تم میں سے ہر بچہ تمام اشیاء کو سنبھال کر استعمال کرے۔ بجلی کا، پانی کا، کھانے کا، کاغذ کا، کپڑے کا، ان میں سے کسی کا بھی ضیاع نہ کرے۔ یہ سب زمین سے چیزیں نکال کر بنائی جاتی ہیں۔ یوں سمجھ لو کہ زمین کے سینے پھاڑ کر۔ اگر ہم کم چیزوں سے کام چلائیں تو زمین کو کم چوٹ پہنچے گی اچھا بتاؤ، چوٹ لگنے پر ہم کیا کرتے ہیں؟
بچّے: چوٹ پر مرہم لگاتے ہیں۔
ٹیچر: اچھا کیا ! اچھا بتا سکتے ہو،زمین کے لیے سب سے اچھا مرہم کیا ہے ؟ نہیں معلوم ؟ ٹھیک ہے، میں ہی بتا دیتی ہوں۔ وہ ہے درخت او رپودے۔ اگر زمین کا جسم درخت، پودوں سے ڈھکا رہے تو اسے چوٹ نہیں لگتی اور اس کے زخم بھر جاتے ہیں۔ تم سب کو اپنے گھر کے پاس کم از کم ایک درخت تو لگانا ہی چاہیے اور صرف لگانا ہی نہیں ہے اس کی دیکھ بھال تب تک کرنی چاہیے جب تک وہ بڑا نہ ہوجائے۔
انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے برے نتائج اور اس کی روک تھام پر قلم اٹھا کر ڈرامہ نگار نے سماجی شعور اور گردوپیش کے حالات و ماحول پر ان کی کڑی نظر کا ثبوت دیا ہے۔ ڈرامہ کی زبان صاف، سادہ اور رواں ہے۔ برجستہ اور برمحل مکالمے آغاز سے اختتام تک فطری انداز میں بڑھتے ہیں۔

)۳ ( ڈرامہ ’’عید مبارک‘‘:
ڈرامہ ’’ عید مبارک‘‘ معاشرے میں دوہری زندگی بسر کرنے والے انسان نما شیطانوں کی داستان ہے جوسکون قلب کے لیے دوسروں کی تحقیر کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ ڈرامہ دوسروں کی تحقیر کرنے سے روکنے کا پیغام دیتا ہے۔ اس کے کرداروں میں مرزا (ریٹائرڈ سرکاری ملازم)، بیگم (مرزا کی بیوی)، منی(مرزا کی چھوٹی بیٹی)، گڈی (مرزا کی بڑی بیٹی)، ترنم (مرزا کی بہو)،رضوان (مرزا کا بیٹا جو دوبئی میں ملازمت کرتا ہے) اور اسٹار باجی (پڑوسن جسے ٹی وی سیریل دیکھنے کا اتنا شوق ہے کہ لوگ اسے اسٹار باجی کہتے ہیں ) شامل ہیں۔ بیگم اور اسٹار باجی کا کردار ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے مقام سے فائدہ اٹھا کر کمزور عورت کے استحصال کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ترنم کا کردار ایسی معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کے درد کو بیان کرتا ہے جو جہیز نہ لانے او ربے اولاد ہونے کی سزا بھگت رہی ہیں۔ اس کا موثر علاج انداز فکر کی تبدیلی ہے جو اصلاحی تحریکوں کے بغیر ممکن نہیں۔ گڈی کا ایک ایسا ہی اصلاحی قدم کیسے عید کی خوشیوں کو دوبالا کردیتا ہے بہت ہی خوبصورت انداز میں ڈرامہ میں بیان کیا گیا ہے۔
عید کے دن مرزا کی بیگم اپنی بہو ترنم کو جہیز نہ لانے او ربے اولاد ہونے کے سبب گھر سے نکل جانے کو کہتی ہے تب مرزا آگے بڑھ کر اپنی بیگم کو جن الفاظ میں سمجھاتے ہیں وہ الفاظ ڈرامہ نگار کے جذبات و احساسات کی صداقت اور خلوص کے آئینہ دار ہیں جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہے۔
’’ بیٹی کی غلطی بہت چھوٹی لگتی ہے اور بہو کی غلطی بہت بڑی نظر آرہی ہے؟۔ یہ سب اس لیے کہ بیگم آپ کی نظر میں کھوٹ ہے کھوٹ!! جس گھر میں ساس سسر اپنی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی نہ سمجھیں یا بہو اپنے ساس سسر کو اپنے حقیقی والدین کا درجہ نہ دے تو پھر اسی طرح کے سوالات و شکایات جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح ساس سسر بھی اپنی بہو پر اپنی حقیقی بیٹی کی طرح شفقت کریں، اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں، تو گھر کا ماحول بھی خوشگوار ہوگا اور کسی ایک کو دوسرے سے شکایت بھی نہیں ہوگی۔‘‘
ڈرامہ ’’عید مبارک‘‘ ایک کامیاب اصلاحی کوشش ہے۔ جس میں سادہ اور عام فہم مکالمات، جذبات و احساسات، منظر نگاری اور کردار نگاری شروع سے آخر تک ڈرامے کو باندھے رکھتے ہیں۔

)۴ ( ڈرامہ ’’سائیکل کی قیمت‘‘:
’’سائیکل کی قیمت‘‘ ڈرامہ کی کہانی بہ یک وقت تاریک او رتابناک ہے۔ ڈرامہ میں عامر 
اور طاہر دو متضاد کرداروں کو نیکی اوربدی کی جنگ لڑتے دکھایا گیا ہے۔ عامر ایک شر پسند لڑکا ہے جسے دوسروں کو پریشان کرنے میں مزہ آتا ہے جب کہ طاہر کے کردار میں در گذر اور دوسروں کی مدد کرنے جیسی صفات موجود ہیں۔ یہ صفات اس کے کردار کا روشن حصہ ہے۔ طاہر کی ہمدردی، احسان مندی، مروت اور درگذر کس طرح سے عامر کی تاریک زندگی میں روشنی کا پیغام لاتی ہے اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قاری داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
طاہر، عامر اور سلیم ہم جماعت او رپڑوسی ہیں۔طاہر اور سلیم گہرے دوست ہیں۔ چھٹی کے دن وہ سارا دن کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں مگر پڑوسی اشرف انکل کی کار میدان میں ہی کھڑی ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرنہیں پاتے ہیں۔ ظہر کی نماز بعد جب وہ گھر کی طرف آتے ہیں تو انھیں گلی کے نکڑ پر شور سنائی دیتا ہے۔ آگے جا کر انھیں پتہ چلتا ہے کہ کسی نے اشرف انکل کی کار کے شیشے کو توڑ ڈالا ہے چونکہ صبح سے طاہر، سلیم وغیرہ ہی میدان میں کرکٹ کھیل رہے تھے لہٰذا براہِ راست انہی پر شک کیا جاتا ہے۔ اشرف انکل ان سے کار کا شیشہ بدلوانے یا جرمانہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ اسی دوران طاہر مجرم کا پتہ لگا لیتا ہے اور وہ اشرف انکل اور مجمع کے ساتھ مجرم کے گھر کی جانب بڑھتا ہے مگر اچانک اس کے اندر ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات ابھر کر سامنے آتے ہیں اور وہ مجرم کے گھر نہ جاتے ہوئے ٹوٹے شیشہ کا خرچ سائیکل کی قیمت (نئی سائیکل خریدنے کے لیے اس نے جو رقم اکٹھا کی تھی) سے ادا کرتا ہے۔ اشرف انکل او رباقی لوگوں کو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ شیشہ انہی لوگوں نے توڑا تھا اس لیے شکایت کے ڈر سے خرچہ ادا کردیا۔
ڈرامے کے دوسرے حصے میں ڈرامہ نگار نے اپنے کرداروں کے ذریعے در گذر اور دوسروں کی مدد کرنے کا ایسا درس دیا ہے کہ ذہین ترین قاری بھی اس اختتام کی امید نہیں کرتا۔ اس کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
طاہر: سلیم اب بس بھی کرو یار! مان جاؤ اور غصہ تھوک دو۔ پلیز!
سلیم: جاؤ یار تم اپنا کام کرو مجھے بھی جانے دو۔
طاہر: ہمارے نئی ﷺ نے تین دن سے زیادہ ناراض ہونے سے منع فرمایا ہے۔
سلیم: جاؤ میں کوئی ناراض نہیں؟
سلیم: میں تمھاری جانب ہاتھ بڑھاؤں گا مگرایک شرط پر کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ الزام اپنے سر کیوں لیا؟حالانکہ تم بے قصور تھے۔
طاہر: مجھے معلوم تھا اس کے علاوہ تم میری جان بخشی نہیں کروگے لیکن تم بھی یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے حتیٰ کہ عامر کو بھی۔۔۔۔۔۔اب تم بھی وعدہ کرو۔
سلیم: وعدہ کرتا ہوں۔ اب بتاؤ بھی کیا بات ہے؟
طاہر: تمھیں تو معلوم ہے عامر کے والد کتنے سخت مزاج ہیں،انھیں اگر عامر کی اس حرکت کا پتہ چلتا تو وہ اس کی ہڈی پسلی ایک کردیتے۔ دوسری بات اچانک اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ عامر کے والد ایک مزدور ہیں، وہ چھ ہزار بھلا کہاں سے لائیں گے!مہینے کی آخری تاریخوں میں ان کے گھر میں خود فاقے چلتے ہیں اور حقیقت تو یہ ے کہ اس کی ماں بھی نہیں ہے اور تم سے زیادہ ماں کی اہمیت کا اندازہ کسے نہیں ہوگا۔
سلیم: )بھیگی ہوئی آنکھوں سے کہتا ہے ) میرے دوست تم واقعی عظیم ہو۔
)ص۔ 97-98 (
ڈرامے کے آخری حصے میں احساس ندامت اور اخلاص ومحبت دکھایا گیا ہے۔ ڈرامہ کا اختتام خوشگوار احساس اور درگذر کے پیغام پر ہوتا ہے۔ ڈرامہ ’’ سائیکل کی قیمت‘‘ اپنے کردار وں کی وجہ سے اثر انگیز ہے۔ ڈرامہ نگارنے بے حد عمدہ پیرائے میں ایسا پلاٹ پیش کیا ہے جو افسانہ بھی ہے اور حقیقت بھی اور معاشرتی اصلاح کا ایک دلکش نمونہ بھی۔
’’عید مبارک‘‘ ڈراموں کا مجموعہ اردو کے ڈرامائی سرمائے میں ایک قابل قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تخلیق ایسی سرزمین پر ہوئی ہے جو ڈرامائی ادب کی نشو ونما کے لیے کبھی سازگار نہیں رہی۔ ان ڈراموں کی زبان صاف، سادہ،شگفتہ اور رواں ہے۔ برمحل اور برجستہ مکالموں سے قصے نقطۂ آغاز سے عروج کی جانب فطری انداز میں بڑھتے ہیں۔ کہیں کہیں انداز بیان کے لیے ایسی زبان استعمال کی گئی ہے جو عوام کی گفتگو کا خاصہ ہیں جس سے مصنف کی حقیقت نگاری کی شعوری کوشش سامنے آتی ہے۔
٭ ٭ ٭

Post a Comment

0 Comments