Ticker

6/recent/ticker-posts

’پھولوں کی زبان

’پھولوں کی زبان‘

وکیل نجیب
وکیل نجیب

برسوں پہلے ایک کتاب بزم غالب کی جانب سے شائع ہوئی تھی کانٹوں کی زبان اس کا نام تھا۔ ظ۔انصاری صاحب جب انقلاب کے مدیر تھے اس وقت ان کے اداریے حالات حاضرہ، سیاست، سماجی معلومات اور ادبی موضوعات پر ہوا کرتے تھے وہ انقلاب کی بڑی خاص چیز ہوا کرتے تھے بیشتر ادبی لوگ ان اداریوں کو پڑھنے کے لیے انقلاب خریدا کرتے تھے۔ بزم غالب کے روح رواں جناب ایس کیو زماں صاحب اس کے دست و بازو تھے۔ مدحت الاختر صاحب، حفظ الرحمٰن صاحب، ڈاکٹر نظیر رشیدی صاحب اور ماسٹر وقار احمد ان کے رفقاء ان لوگوں کی رائے سے ان اداریوں کو جمع کیا گیا اور کانٹوں کی زبان کے نام سے کتاب شائع کی گئی یقینی طور پر یہ عمل مدحت الاختر صاحب کے ذہن کی اختراع رہی ہوگی اور آج جس کتاب کے اجرا میں ہم جمع ہوئے ہیں یہ عنوان بھی مدحت الاختر صاحب کا تلاشا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے پوتے ریحان کوثر دوران گفتگو دو چار بار اپنے دادا مدحت الاختر کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ بہرحال کانٹوں کی زبان کی اشاعت میں مندرجہ بالا بیان کی ہوئی شخصیات کا عمل دخل تھا اور اس میں روح دوڑانے کا کام جناب ایس کیو زماں صاحب نے کیا تھا۔ لیکن آج اس کتاب 'پھلوں کی زبان' پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ایک خوبصورت نوجوان، ہماری آنکھوں کے سامنے نمودار ہوتا ہے جسے لوگ ریاض امروہی کے نام سے جانتے ہیں۔
آپ سب حاضرین اچھی طرح واقف ہیں کہ ریحان کوثر صاحب ماہنامہ الفاظ ہند کے مدیر ہیں۔ مدیر کا سب سے اہم کام ہوتا ہے رسالہ کو ترتیب دینا اور اشاعت کے مرحلوں سے گزارنا لیکن اسےسے بھی اہم کام ہوتا ہے رسالہ کے لیے اداریہ لکھنا۔ اب ریحان کوثر صاحب بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ایک صلاحیت ان میں یہ بھی ہے کہ ہر مہینے حالات حاضرہ کے burning topic پر اداریہ لکھنا اور شمارہ کے ابتدائی صفحہ یا صفحات پر شائع کرنا سو وہ یہ فریضہ نہایت دیانت داری سے انجام دے رہے ہیں یہ کتاب 'پھولوں کی زبان' دراصل انہیں اداریوں کا مجموعہ ہے اس کے ساتھ ہی ریحان کوثر کے دیگر مطبوعہ مضامین اور ریحان کوثر کی شخصیت اور فن پر لکھے ہوئے دیگر ادباء کے مضامین بھی شامل کر لیے گئے ہیں اس طرح ریحان کوثر کی کتاب پھولوں کی زبان بن کر ہمارے سامنے آئی ہے اس کے لیے تو ریاض احمد امروہی صاحب کو مبارک باد دوں گا کہ انھوں نے دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
جہاں تک پھولوں کی زبان کے مضامین کا تعلق ہے یہ مختلف موضوعات پر مختلف موقعوں پر لکھے ہوئے مختصر مضامین ہیں جو دنیا بھر کی معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ ان میں زیادہ مضامین ہمیں دنیا بھر کے واقعات حادثات جنرل نالج اور تجربات کی باتیں بتاتے ہیں ساتھ ہی شخصیات پر لکھے ہوئے کچھ مضامین ہیں۔ اس طرح یہ کل 44 مضامین ہیں جو بعد میں 8 مطبوعہ غزلیں اور ایک آزاد نظم بعنوان خاموشی ہے اس کے بعد دیگر ادباء و شعراء نے ریحان کوثر کے متعلق جو مضامین، خطوط اور آرا لکھی ہیں وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں اس طرح دلکش خوشبو بکھیرتی ہوئی یہ پھولوں کی زبان ہمارے پیش نظر ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ریحان کوثر کی نگاہیں ہر سمت دوڑتی رہتی ہیں اور جو چیز بھی ان کے احساس کے دائرے میں آتی ہے اسے جلدی سے مضمون کے پیکر میں ڈھال لیتے ہیں۔ ان مضامین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پھولوں کی زبان کا قلم کار حساس ہے زبان و بیان پر اسے قدرت حاصل ہے کس مضمون کو کس انداز سے لکھا جائے اس پر انہیں ملکہ حاصل ہے۔ کہانی لکھنے کا ڈھنگ اور ڈرامہ نگاری کا فن تو انھیں اچھی طرح آتا ہی ہے لیکن جہان کوثر نے جو شخصی مضامین لکھے ہیں سوانح حیات نہیں ہے بلکہ شخصیات ہوں علمی سماجی اور تعلیمی کار گذاریوں کو نہایت خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ یہ شخصی مضامین ایسے ہیں کہ جن پر یہ مضامین لکھے گئے وہ انھیں پڑھیں انھیں محسوس ہوگا کہ پھول اپنی زبان سے اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کررہا ہے۔ اس سلسلے میں لکھے ہوئے چار ایسے مضامین شامل ہیں جن سے ریحان کوثر کی ملاقاتیں رہی ہیں۔ گفتگو رہی ہے اور ان کے تعلق سے معلومات بھی فراہم ہوتی رہی ہیں۔ ان چار شخصیتوں میں ایک تو ہیں کامٹی کی نہایت مشہور و معروف ادبی و سماجی شخصیت جناب مظفر سعید افروز، دوسری شخصیت ہیں محترمہ فرحانہ صدیقی صاحبہ، تیسری شہر کامٹی کے نہایت رنگین اور تیزی سے رنگ بدلتی ہوئی دیدہ زیب شخصیت ہیں جناب عادل ودروہی صاحب اور چوتھی نہایت معتبر ادبی و علمی شخصیت ہیں جناب عارف جمالی صاحب۔ان چاروں شخصیتوں کے متعلق اپنی معلومات، گفتگو اور ملاقاتوں سے جو کچھ گیان انھیں حاصل ہوا ہے وہ بڑی دلپذیر زبان میں ریحان کوثر نے بیان کیا ہے۔ جس سے ان افراد کی مکمل شخصیت آنکھوں کے سامنے آن موجود ہوتی ہے خاص طور سے مظفر سعید افروز صاحب پر لکھا ہوا مضمون میری طرح بہت سے لوگوں کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے گا اور موصوف کی ہشت پہلو شخصیت سے لوگ روشناس ہوں گے۔
خاص طور سے مجھے یہ جان کر خاصا تعجب ہوا کہ ریڈیو سیلون میں تقرر ہونے کے بعد بھی گھر کے لوگوں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے موصوف نے سری لنکا جانے سے انکار کردیا یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ ریڈیو سیلون سے امین سیانی کی آواز کا جادو جاگا ہوا تھا۔ ہر نوجوان بدھ کے روز رات آٹھ بجے ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھ جاتا تھا۔ ان دنوں ریڈیو بھی ایک تعیش کی چیز ہوا کرتا تھا اس لیے صرف مالدار لوگوں کے گھروں میں یہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ نوجوان اپنے رشتے داروں کے گھروں میں اس ایک گھنٹے کے پروگرام کو سننے کے لیے جمع ہو جایا کرتے تھے۔ اگر مظفر صاحب امین سیانی کو جوائن کر لیتے تو آج نہ صرف ان کا جغرافیہ بدلا ہوا ہوتا بلکہ تاریخ بھی بدلی ہوئی نظر آتی بہرحال ایک فعال آدمی جہاں بھی رہتا ہے اپنے لیے اونچا مقام بنا ہی لیتا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماجی، سیاسی، ادبی اور صحافتی فیلڈ میں موصوف نے قابل ذکر مقام بنا لیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا مضمون حالانکہ مظفر سعید افروز صاحب کی کلی کاگذاریوں کو بیان نہیں کر پایا ہے پھر بھی نئی نسل کو جانکاری پہنچانے میں کامیاب ہے اسی طرح فرحانہ صدیقی، عادل ودروہی اور عارف جمالی پر شخصی مضامین بھی کافی معلومات افزا ہیں۔
اسی کتاب میں ایک مضمون کامٹی شہر کے متعلق ہے جس کا نام ہے 'کامٹی میری جان' مضمون نگار نے اس مضمون کو بڑے ہی سلیقے اور مدبرانہ انداز سے لکھا ہے کہ کامٹی کی وجہ تسمیہ، آباد ہونے کی تاریخ ساتھ ہی کامٹی کی شہرت، کنٹونمنٹ کا قیام، پیشوں کا حال، تعلیمی سلسلے کا آغاز، مساجد، آبادی، بازار اور کاروبار غرض ہر چھوٹی بڑی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ صرف ایک بڑا کاروبار ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ بیڑی بنانے کا کاروبار۔ اس کاروبار سے ہزاروں لوگ جڑے ہوئے تھے اور ہاکی بیڑی اور تلوار چھاپ بیڑی نے پورے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور بہار میں دھوم مچا رکھی تھی۔ ان کی نقل میں کچھ اور بیڑیوں کے کارخانے کامٹی میں کھلے اور بند ہو گئے۔ لیکن ہاکی بیڑی اور تلوار بیڑی کے مالکان کا کامٹی کے رئیسوں میں شمار ہونے لگا تھا۔
اس مضمون کے مطالعہ سے مضمون نگار کی معلومات اور حسن بیان کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب کے آٹھ صفحات پر محیط اس مضمون کو پڑھنے سے معلومات کے ساتھ ہی طنز کے نشتر بھی چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ مصنف نے ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "سنا ہے کہ یہاں ایک بنکر کالونی اور بھی ہے مگر بہت ڈھونڈنے پر بھی ہمیں تو نظر نہیں آئی۔" اسی کے ساتھ یہاں کے علاقوں کے ناموں کا ذکر انتہائی مزاحیہ انداز میں کیا گیا ہے۔ غرض یہ کے کامٹی کے متعلق یہ ایک مختصر اور جامع مضمون ہے۔
ایک قلم کار کی کبھی کبھی یہ بھی مجبوری ہوتی ہے کہ کسی کی خوشنودی کے لیے بھی اسے کچھ لکھنا پڑتا ہے ایسا ہی ایک مضمون کتاب میں شامل ہے جس کا عنوان ہے "قوم کی فکر اور نسیم سعید" تین صفحے کے اس مضمون کو میں نے ایک سے زائد بار پڑھا لیکن مضمون نگار نے ایسی دانشمندی سے طویل کر دیا ہے کہ نہ تو آپ کو نسیم سعید کی کچھ جانکاری حاصل ہوتی ہے اور نہ موصوف کی کتاب ”یہ ہماری قوم“ کی کسی خصوصیت کا علم ہونا ہے کتاب کے موضوع و مواد کے متعلق جو اس کتاب کے متعلق سے قاری کو معلومات میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
اس کتاب کے آخر میں ریحان کوثر کی جو غزلیں اور واحد نظم شامل ہے ان کے متعلق صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ہر مہینے جو ہزاروں غزلیں اور نظمیں کہی جارہی ہیں یہ ان میں ایک اضافہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بالکل آخر میں ریحان کوثر کی شخصیت اور فن پر لکھے ہوئے مشہور قلم کاروں مثلاً محمد رفیق اے۔ایس، نقی جعفری، محمد ایوب، ڈاکٹر اظہر ابرار، محمد اسرار، عصمت کوثر کوثر انصاری وغیرہ وغیرہ کی آرا و مضامین شامل ہیں جو تقریباً سارے ہی ستائشی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں۔
غرض یہ کہ 'پھولوں کی زبان' ریحان کوثر کی ادبی کار گذاریوں کی ایک دستاویز ہے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے چند برسوں میں ایسی کتابیں منظر عام پر آکر ریحان کوثر کو اجالنے کا سبب بنیں گی۔ اس کتاب کے تعلق سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کامٹی میں شائع شدہ یہ کتاب کسی بھی بڑے شہر سے شائع ہونے والی وقیع کتابوں کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے کہ اس کی حسن ترتیب، کاغذ، کمپوزنگ، سرورق کی تصویر، جلدسازی ہر چیز ورلڈ کلاس ہے۔ اس کے لیے انوار الحق پٹیل، ریاض احمد امروہی اور ریحان کوثر اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
___________________
ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی- دسمبر ٢٠١٧ء
٭٭٭

x

Post a Comment

0 Comments