Ticker

6/recent/ticker-posts

ریحان کوثر کی عید مبارک

ریحان کوثر کی عید مبارک
نسیم سعید
نسیم سعید

ڈرامہ کسی بھی زبان وادب کے ایک اعلیٰ معیار کی بلندی کانام ہے۔ زبان وادب اور عہدادب کی تاریخ کا ایک سنہرہ باب ہے۔ قدیم ترین صنف ہونے کے ساتھ ساتھ اُس عہد کی عکاسی کا ایک بہترین شاہ کار اور نمونہ ادب کا بھی تاج اُس کے سرپر ہے۔ ایک معیاری مکالمے کی تخلیق کے ساتھ ہی کردار کا بحسنِ خوبی ادائیگی کا ذریعہ بھی ہے۔ اپنے ادب کی فنکاری کا ایک اعلیٰ نمونہ اور فنّی صلاحتیوں کو بروئے کار لانے کا ایک موثر اور خوب صورت بہانہ بھی ہے۔ ادب کے معیار کو بامِ عروج پر رسائی کا وسیلہ ہونے کے علاوہ خوبصورت انسانی ادا کاری کو لوگوں کے روبرو لانے کا وہ اسیٹج ہے۔ جہاں فنکاروں کی پوشیدہ صلاحتیں حسبِ منشااور خلافِ توقع اُجاگر ہو کر وقت کی نزاکت کے بہانے اظہار خیالات کو تقویت فراہمی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
چاہے مشرقی ادب کی ادنیٰ و معمولی بات ہو یا مغربی ادب کے عروج کی خماری۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر سمت اس ادب کی اس صنفِ نازک کو عوام پرا پنی دسترس حاصل ہے اور عوام کوا س صنف کے بہانے اپنے خیالات کے اظہار کے توسط سے سماجی، سیاسی اور ثقافتی گرفت حاصلِ دسترس ہے۔ اسے مقبول ترین صنف ہونے کے ساتھ ساتھ آسان ترین صنف ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اس صنف کے توسط سے لافانی شہرہ آفاق کے حامل شیکشپیئرکا نام ہر زمانے میں زبانِ عام پر ہے۔ وہیں اسکولی سطحوں سے لے کر یونیورسیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نصابات میں اُسے اوّلیت حاصل ہے۔ مختلف مشہور زمانہ ڈراموں کی تراجم کے ساتھ ہی اُن پر مختلف زبانوں میں فلمیں بننا اپنے عہد کی شناخت اور روشناسی کا معتبر ذریعہ بھی ہے۔
ہر زمانے کی ہر زبان میں عمدہ اور اعلیٰ معیار کے ڈرامے تخلیق کئے گئے۔ جو اپنے عہد کا ایک لافانی شاہ کار بن گئے۔ بہترین تحریری شکل میں ہونے کے ساتھ ساتھ اسیٹج کی اور فلموں کی زینت بن کر عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نفش ہو گئے۔ ہم اپنی اور سارے جگ کی دُلاری زبان کی بات کریں تو اُرود مکالموں کا بہترین اور روشن خیال مصنف امتیاز علی تاج کا ڈرامہ’’ انا ر کلی‘‘ آج بھی کروڑوں دلوں پر راج کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس پر درجنوں فلمیں بنیں مگر کامیاب ترین فلم ’’مغلِ اعظم ‘‘ ہندوستانی فلموں میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ ذہن میں دوسرا نام آغا حشر کا شمیری کا آتا ہے۔ جن کی خوبصورت تحریری مکالموں کی عکاسی کرتی ہوئی فلم کا نا م ’’یہودی ‘‘ ہے۔
بات ذرا آگے بڑھتی ہے تو ذہن میں ایسے کئی نام گونجتے ہیں، جن کی کاوشوں اور کوششوں سے اُردو ڈرامے میں ایک نئی جان پھونکی گئی۔ اُردو زبان میں کئی ڈرامے بڑوں کے ساتھ ہی بچوں کے لیے بھی تحریر گئے۔ جو کہ اسیٹج پر پیش کرنے پرکامیابی کا زنیہ چڑھتے گئے۔ بعض ڈرامے کتابی شکل میں رہ کر زبردست مقبولیت حاصل کی۔ بعض ڈرامے بچوں کے لیے اسکولی دنوں کی یاد گارکا خوبصورت بہانا بن گئے۔
خیر اُردو زبان وادب میں بچوں کے لیے ڈراموں کا بڑا ذخیرہ موجود ہ ہے۔ ہر عہد کے قلمکاروں اور ڈرامہ نگاروں نے اس پر خوب طبع آزمائی کر کے اپنا نام روشن زمانہ کیا ہے۔ عصر حاضر میں بھی بصورت فنکاروں، ڈرامہ نگاروں اور اُردو زبان وادب سے اپنی بے پناہ، لاثانی انسیت اور لگاؤ رکھنے والوں کا ایک حلقہ اپنے میدان عمل کی سر گرمیوں میں مصروف ہے۔ اُن کی ہمہ جہت کاوشوں، محنتوں اور حوصلہ افزائی کی بدولت کامیاب ترین ڈرامے تخلیق کئے جارہے ہیں۔
عصرِ حاضر کے اردو وادب کے ایسے ہی ایک روشن خیال، فرض شناس، مشکل ترین حالات میں سلیقہ مندی، حوصلہ مندی اور شعور مندی کا چراغ روشن کرنے والے جیالے اور لائحہ عمل کا دوسرا نام ریحان کو ثر ہے۔ کم وقت میں اُردوادب پر اپنی گرفت مضبوط کرلینا یہ اُن کی خود شناسی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اسکولی ایاّم سے ہی موصوف کی کارکردگی اور سرگرمی اُردو زبان وادب سے بے پناہ دلچسپی کا پیمانہ رہی ہے۔ ان سیاسی، سماجی اورثقافتی میدان میں اپنا وجودپختگی کے ساتھ قائم رکھ کر اپنی صلاحتیوں اور خوبیوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ترین انسان رہے ہیں۔ اُن کی اپنی ان ہی شناخت کی بدولت کامیابی کے معیار سے آشنا ہوتے رہے ہیں۔معتبر ادبی، علمی اور تعلیمی شخصیت کے حامل ہو نے کے ساتھ ہی تعلیم کے میدان میں آنے والی ہر رکاوٹوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھ کر ادبی محاذ میں ہر وقت برسر پیکار رہے ہیں۔
ہم صرف بحیثیت ڈرامہ نگار کے زاویہ سے ہی روشنی ڈالیں تو اُن کی کئی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔ جو اُن کے ڈراموں کا مجموعہ ’’ عید مبارک ‘‘ سے عیاں ہے۔ موصوف کی یہ کتاب بچوں کے لیے لکھے گئے ڈراموں کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔ بلکہ بچوں میں زبردست خود اعتمادی کو بیدار کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اُن کی اداکاری کے جلوؤں کو اُجاگر کرنے کے علاوہ اپنے آپ میں درس وتدریس کا موثر پیمانہ بھی ہے۔ اخلاقی قدروں کی پائمالی کو روکنے کا خوبصورت لائحہ عمل بھی ہے۔ زبان وادب پر عبور حاصل کرنے اور تہذ یب و تمدن کو عروج بخشنے کادرس بھی اس میں شامل ہے۔ ان ڈراموں کے ذریعے بچوں کے اخلاق کو بلند کرنے کی باتیں بھی ان ڈراموں میں موجودہیں۔ بزرگوں کا احترام، ماحولیات کا تحفظ، بیماریوں کی روک تھام، طنز ومزاج بھی اس کے ذریعے اطفالِ زمانہ کو فراہم ہوتی ہے۔
یہ کہنا قطعی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ریحان کوثر کو ڈرامے نگاری پر خاصی وسترس حاصل ہے۔ ڈرامہ کے تحریر کے فن پر عبور رکھتے ہیں۔ یہی نہیں اسیٹج پر پیش کرنے کے فن سے بھی پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں۔اس نوجوان فن کا ر کی کتاب ’’ عید مبارک ‘‘ سولہ ڈراموں کا مجموعہ ہے جوکہ ہر اعتبار سے بہترین اور بہت اچھے نمونے کے حامل ہیں۔ ہر ڈرامے کے توسط سے اطفالِ حاضر کو کچھ نہ کچھ نیا سکھانے کے علاوہ کوئی خوبصورت پیغام دینے کی ہر ممکنہ کوشش یقیناََ قابلِ ستائش ہے۔ مکالمہ آسان، سادہ اور سلیس زبان میں ہے۔ مختصر مگر جامع اور پرُ معنی ہے۔ مطالب و معنی کے لحاظ سے معیاری ہیں۔ زیادہ تر کردار بچوں کے اردگر د گھومتے نظر آتے ہیں۔ معیار ی زبان کے استعمال کے ساتھ طنز و مزاح، ہنسی و مزاق اور قہقے کی گنجائش اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ مزاحیہ پن کے ساتھ ہی تفریح کو بھی فروغ حاصل ہے۔ مذہبی اقدار کی نگہبانی و تحفظ کا درس اُس میں پوشیدہ ہے۔ ڈرامہ ’’آخری جنگ‘‘ میں بھگت سنگھ کی پھانسی کا تاریخی واقعہ کرداروں کی ادائیگی میں پیش کر کے اُن کی شخصیت کے اُن چھوئے پہلوؤں کو اُجاگر کرکے جب الوطنی کے جذبات سے سرشار درس پیش کیا ہے تو وہیں ’’بستوں کی فریاد‘‘ میں دور حاضر کے اسکولی بچوں کے وزنی بستوں کی فریاد بڑے موثر اور دلچسپ انداز بیرائے میں بصورت مکالمہ پیش کیا ہے۔ اس کے ذریعے ملکی نظام پر بڑا گہراطنز کیا ہے۔ ریحان کوثر صاحب کہتے ہیں۔ ’’کسان محنت کرتاہے، جیبیں تاجروں کی بھرتی ہیں۔ محنت مزدورکرتا ہے، حویلی سیٹھ کی کھڑی ہوتی ہے۔قانون بڑے لوگ بناتے ہیں، اس پر عمل صرف چھوٹے لوگ کرتے ہیں۔ کاریگر کپڑے بنتا ہے، صاحب لوگ و ضعدار پہنتے ہیں اور وہ کاریگر خستہ حال ہے‘‘۔ یقیناََ اس مکالمے سے ریحانہ کو ثر کے معاشرے کی زبوں حالی پر گہری پکڑرکھنے کا بینّ ثبوت ہی ملتاہے۔
’’لالچ کا انجام‘‘ اس ڈرامے کے ذریعے سے حرص و طمع جیسی بُری صفات کا بخوبی استعمال کرکے دوسرے لوگوں کو کس طرح بے وقوف اور الوّ بنایا جا سکتا ہے،بیان کرکے اپنی معقول سوجھ بوجھ والی صلاحیت کا مظاہر کیا ہے۔ ’’ گوشت خور‘ ‘ نامی عنوان سے موسوم ڈرامہ میں پرانے نظریے کو ہوا دے کر نئے زمانہ میں پیش کرنے کا کامیاب تجربہ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بُری عادت کی روشناسی کے ساتھ ہی چھوڑ دینے کی ترغیب اُس کے پس منظر میں کار فرماہے۔’’سائیکل ‘‘ نامی ڈرامہ یہ احساس دلاتا ہے کہ دوسروں کی مددکرنے کا جذبہ انسانیت کے بہترین اقدار میں سے ایک ہے۔ ہمدردی، احسان مندی، دردمندی، مروت، لحاظ اور محبت کے جذبات کو بیدار کرنے پر توجہ مرکوز کر کے قابل ستائش کام انجام دیاہے۔ ’’ ایک سفر ‘‘ نامی ڈرامہ بچوں کے معیار کے لحاظ سے تفریح کی طبع آزمائی کا فن اُجاگر کرنے کی بہترین مثال ہے۔ ہوشیاری کے جال میں چالاک آدمی بھی پھنس کردہ جا تا ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی مکالمہ کاری کے ذریعے کر کے ڈرامہ نگار نے اپنی فنی صلاحتیوں کو ہی اُجاگر کیا ہے۔ ڈرامہ کے اختتام کا جملہ ہلکی طویل تبسم کے لیے کافی ہے۔ جو کہ مو صوف کی جستجو کی تلاش کا ہی نیتجہ ہے۔
تمام ڈراموں کو پیش کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہی یک بابی اور کیثر بابی کرداری ڈرامے کو اسیٹج پر پیش کرنے کی ہدایت اور جزیات پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈرامے کے جان اُن کے مکالمے ہو تے ہیں۔ یہ معنی خیز مکالمے اداکاروں سے صحیح طریقے سے ادا ہوجائیں، ان کا خیال موصوف نے خوب کیا ہے۔ ڈرامے کی تخلیق یقیناََ یہ ایک مشکل فن ہے۔ کم وقت میں موضوع اور کہانی کو کم جگہ میں انجام دے دینا ہی مصنف کی ذہنی فراست کو عیاں کر تاہے۔ برملا اظہار کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے عصر حاضر کے اُردو ادب میں خصو صا علاقہ و دربھ میں اتنی نفاست پسندی کے ساتھ ڈرامہ تخلیق کرنے کے فن میں مہارت رکھنے والے ریحان کوثر کے سوا دوسرا اور کوئی قلمکار دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ یقیناََ وہ آج کے اُردو ادب کے بہترین ڈرامہ ساز شخصیت کے حامل ہیں۔
اُردو وادب میں ایسا تخلیق کار اور ڈرامہ نگار عرصہ دراز میں یقیناََ ایک تاب ناک، روشن خیال او ربیدا ر ذہن کا حامل ریحان کوثر ہی ہے، جو اپنی بہترین ادبی و فنی صلاحیتوں کے لیے مبارک باد کے تہہ دل سے مستحق ہے۔ آغاز سے انجام تک رسائی کے طویل فاصلے کے صلے میں اُردو وادب کے اُفق پر ایک چمکدار ستارہ بن کر اُبھرنا اُن کا اپنا مقدّر بنے، ایسی ہم سب کی دلی تمنا ہے۔
_____________
ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی –فروری ٢٠١٨ء
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments