پتھر کا ابال
✍️ریحان کوثر
وہ بینک کی قطار میں کھڑا کچھ عجیب سی حرکتیں کر رہا تھا! دو چار قدم آگے بڑھ کر اپنے پیچھے کھڑے شخص کو کسی بہانے سے آگے آنے کے لیے کہتا اور پھر خود پیچھے ہو جاتا۔ مجھے شک ہوا کہ شاید کوئی جیب کترا ہے۔ میں لگاتار اسے دیکھتا رہا۔ کچھ وقت گزرنے اور ہم دونوں کے درمیان کھڑے لوگوں کے آگے بڑھ جانے کے بعد آخر کار میں اس کے پیچھے آگیا۔ لائن دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک وہ پیچھے مڑا اور اس کے سیاہ خشک ہونٹوں سے آواز آئی:
"بھائی صاحب آپ آگے آجائیں ،اگر آپ کو جلدی ہو تو۔"
"نہیں مجھے کوئی جلدی نہیں" میں نے کہا اور اپنے موبائل فون کی اسکرین پر دیکھنے لگا ،جیسے کوئی ضروری میسج آیا ہو۔ وہ چھوٹا سا منہ بنا کر مجھے تکتا رہا اور آگے دیکھنے لگا۔
قطار دھیرے دھیرے بینک کے مین گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے نظر آ رہی تھی۔ ہم بالکل مین گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔ میں مسلسل موبائل میں مصروف رہنے کی اداکاری کر رہا تھا لیکن میرے دھیان کی سوئی اس شخص کی جانب مرکوز تھی۔
مین گیٹ کے قریب آجانے سے وہ اور زیادہ بے چین نظر آنے لگا۔ آگے پیچھے دیکھا اور قطار سے الگ ہو کر جلدی جلدی پیچھے کی طرف جانے لگا۔ کچھ دیر بعد قطار سے دور کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھتا رہا اور سب سے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں بینک کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر بعد کیش کاونٹر تک پہنچا۔ بڑی مشکل سے چار ہزار ملے وہ بھی دو دو ہزار کے دو نئے گلابی نوٹ۔
جیسے تیسے بینک سے باہر آیا تو وہ شخص اب قطار میں نہیں تھا۔ میں نے آس پاس نظر ڈالی تو مجھے وہ چائے کی دکان پر بیٹھا نظر آیا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا اور دو چائے کا آرڈر دیا۔ جب چائے آئی تو میں نے ایک پیالی اس جانب بڑھا دی۔ دو پہر کے تین بج چکے تھے اور شاید وہ صبح سے بھوکا بھی تھا اس لیے ایک دو بار منع کرنے کے بعد چائے کی پیالی مجھ سے لے لی۔ چائے ختم کرنے کے بعد پیالی سامنے میز پر رکھتے ہوئے میں نے پوچھا۔
"کیوں کیا ہوا؟ قطار سے الگ کیوں ہو گئے؟ کیا تمہیں نہیں چاہیے روپے؟"
"روپے؟"اسنے چائے کی آخری گھونٹ پینے کے بعد پیالی کے اندر بچی ہوئی چائے پتی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں روپے "میں فورا ً بول اٹھا۔
"بھائی صاحب، روپے کسے نہیں چاہئے؟ سب کو چاہیے۔۔۔! آج کل تو روپے پیسے کی ہی مارا ماری ہے۔ ہر کسی کو چاہیے روپے۔"
"تو پھر یہاں آ کر کیوں بیٹھ گئے؟"
تھک گیا ہوں بھائی صاحب"
" کب سے لگے ہو لائن میں؟"
"صبح سے"
"بڑے عجیب آدمی ہو، صبح سے یہاں اپنا وقت کیوں خراب کر رہے ہو؟ اگر روپے نہیں چاہیے تو گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟"
"بھائی صاحب میں یہاں اپنی بیٹی کا انتظار کر رہا ہوں وہ بس آتی ہی ہو گی۔ یہیں پاس کے اسکول میں پڑھتی ہے۔ وہ میرے ساتھ ہی گھر سے آئی تھی، میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ آج ضرور روپے مل جائیں گے۔"
جاؤ ابھی بھی موقع ہے! لائن میں کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ شاید مل جائے کچھ رقم"
"نہیں بھائی صاحب۔۔۔ مجھے نہیں مل سکتی کوئی رقم۔"
"بڑے عجیب آدمی ہو یار؟ کیوں تمھارا کھاتا تو ہے نا اس بینک میں؟"
"ہاں ہے۔۔۔ اسی بینک میں ہے۔۔۔ میرا کھاتا!"
" تو پھر کیوں نہیں مل سکتا روپیہ ؟ضرور ملے گا۔"
"نہیں بھائی صاحب نہیں ملے گا کیونکہ میرے کھاتے میں کچھ بھی نہیں، ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔"
" سچ میں تم مجھے پاگل معلوم ہوتے ہویار۔۔۔ جاؤ یہاں سے نہیں تو پولیس کو بلاتا ہوں۔"
"رہنے دو صاحب میں جاتا ہوں۔"
اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور جانے لگتا ہے لیکن کچھ سوالوں کے جواب مجھے اب بھی نہ مل سکے۔ میں نے اسے دوبارہ آواز دی۔ وہ پھر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا میں نے پوچھا:
"کتنا پڑھے ہو"
"جی صاحب چار کلاس پاس ہوں۔"
"بینک میں کھاتا کس نے کھلوایا۔"
"جی کچھ لوگ گھر آئے تھے انھوں نے کھلوایا تھا میرا کھاتا ۔ وہ بول رہے تھے کہ سر کار اس میں پیسے ڈالے گی۔"
"کتنے پیسے؟"
"پندرہ لاکھ"
"بے وقوف ایسے مفت میں کوئی پیسے نہیں دیتا ۔ جاؤ کچھ کام دھام کرو۔"
کہاں جاؤں! آج کل تو بھیک بھی نہیں ملتی۔۔ کسی کے پاس چھٹے نہیں۔۔۔!! سب پریشان ہیں صاحب۔"
"ویسے کام کیا کرتے ہو۔"
رنگائی پتائی کا کام کرتا ہوں صاحب۔ دن بھر کے دو سو مل جاتے ہیں لیکن نوٹ بندی کے بعد سے آج دس دن ہوئے کوئی کام نہیں دیتا۔ "
"لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ تم یہاں کر کیا رہے ہو؟"
" بھائی صاحب اب زمانہ بدل گیا ہے اور میں پتھر بھی نہیں ابال سکتا۔"
پتھر بھی نہیں ابال سکتا؟؟؟ اس کا کیا مطلب ہوا بھلا؟"
"صاحب اب نہ تو پہلے جیسے حکمران رہے اور نہ پتھر ابالنے کا زمانہ رہا۔ بچے اب سمجھدار ہو گئے ہیں۔ بچوں کو اب پتھر کے ابال سے بہلایا نہیں جا سکتا۔"
" کیا کہنا چاہ رہے ہو صاف صاف کہو "
بھائی صاحب بچے تو بچے ہیں، وہ کھانا مانگتے ہیں اور گھر میں کچھ بھی نہیں ۔ نہ بھیک ملتی ہے اور نہ ہی کام ملتا ہے۔۔۔ لیکن پیٹ کی آنتوں کو نہیں معلوم کہ نوٹ بندی ہے۔ بس بیوی بچوں کا دل رکھنے کے لیے بینک جانے کا بہانا بناتا ہوں اور یہاں آجاتا ہوں۔
٭٭٭
امتیاز انصاری:
محترم ریحان کوثر صاحب
آپ کا قلم سماج میں یقیناً مثبت تبدیلی کا متلاشی ہے۔ گلی سے دلّی تک کے موضوعات آپ کے یہاں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ آج دل چاہا کہ اسٹیکرس والی مبارکباد سے پرے کچھ لکھا جائے۔ حالیہ دنوں آپ کے اسٹیٹس پر فٹ بال میدان کے چھن جانے کے متعلق پوسٹ بھی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ آپ ایک حسّاس قلم کار ہیں۔ کبھی کشمیر کا موضوع، ابھی نوٹ بندی پر تذکرہ، کبھی "راحت" کی بیباکی پر 100 لفظوں کی کہانی۔۔۔
غرض یہ کہ آپ نے جب بھی کسی موضوع پر بات کی ہے قلم کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے۔عوام نے پسند کیا یے۔ الفاظ کے برتنے کا طرز نہایت دلکش ہے۔ بات مختصر، مواد جاندار، موضوع شاندار یہ آپ کا وتیرہ رہا ہے۔
ہوائے تیرہ شبی لاکھ مخالف ہو مگر
ہمارا کام چراغوں کی لَو بڑھانا ہے
ڈھیروں مبارکباد قبول کیجیے محترم ریحان کوثر صاحب کہ یہ آپ کا حق ہے۔
خان نوید الحق:
بہت خوب جناب عالی۔آپ کا افسانہ مردہ سماجی رویوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک چیخ ہے۔
آپ کا یہ افسانہ بھلے ہی آسائشوں میں زندگی گزارنے والے انسانوں کی دلچسپی کا باعث نہیں بن سکتا کیوں کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اینٹیں ڈھونے والے مزدور کی تھکن کا احساس ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن آپ کا یہ افسانہ حساس دل انسان کی روح تک کو جھنجھوڑنے کا کام کرتا ہے۔
آپ کا یہ افسانہ دیہاڑی پر ملازمت کرنے والی معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھتی ہوئی زندگی کا المیہ بیان کرتا ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ ان مزدوروں کے لیے جینا تقریباً ناممکن سا ہوکر رہ گیا ہے۔
آپ کا یہ افسانہ سماجی سانحوں کا عکاس ہے جو صرف راستہ ہی نہیں دکھاتا بلکہ روشنی کی کرن بن کر مردہ سماج کے اندھیروں کو للکارتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی نوید لاتا محسوس ہوتا ہے۔
"انسان کے سماجی ، معاشی اور معاشرتی وجود کو کھل کر سامنے لانے کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، معاشرے میں زندہ انسانوں کے ساتھ بیتے المیوں اور ان المیوں کے نتیجے میں بدلتے احساسات و جذبات کو سامنے لانے کے لیے ایک تخلیق کار بننا لازم ہے۔" اور یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں ریحان کوثر صاحب۔
"بدلتے سماجی حالات، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں کے بدلنے سے شاید فنون اور ادبی تخلیقات کا ایک خاص انداز سے ہٹ کر ہونا فطری ہے۔ موجودہ دَور میں اگرچہ ادب انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے اس لیے معیاری ادبی تخلیقات یا تو سرمایہ داری کے تقاضے کو پورا نہ کرنے کے باعث چَھپائی تک نہیں پہنچ پاتی. اور جو چَھپائی کے مرحلے کے بعد قارئین تک پہنچتی ہیں وہ اپنےادبی محاسن پر تنقید کی نذر ہو کر تخلیق کار کو مزید تخلیق کے لیے تیار نہیں کر پاتی۔
مختصر افسانہ یا کہانی اس لیے نہیں لکھی جاتی کہ ادب کی تخلیق کی جائے اور افسانوں کا تخلیق کار تخلیق کے جوہر دکھاتے ہوئے کہانیوں کی لڑی پروئے رکھے، افسانوں کی تخلیق خارجی طور پر موجود مظاہر کے محسوسات کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے سماجی رویوں اور حل طلب مسائل پر سوال اٹھانا ہے اور قاری کو سیاسی یا سماجی طور پر بیدار کرتے ہوئے اسے اُس عمل پر اکسانا ہے کہ اس میں سوال کرنے کی ہمت پیدا ہوسکے ۔ اور اس امر سے آپ بخوبی واقف ہیں ریحان کوثر صاحب۔
مختصر افسانہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں محض عام فہم اور مختصر پیرائے میں خاص بات کی جاسکتی ہے. اور یہ خاص باتیں آپ پیش کرتے ہیں ریحان کوثر صاحب۔
اردو افسانوں میں ایک مخصوص دور کے بعد سماج سے سوال کرتا ہوا افسانہ مفقود ہوتا ہوا نظر آتا ہے یا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عہد میں لکھنا، چھاپنا اور تحریر کو قارئین تک پہنچانا مشکل عمل نظر آتا ہے۔
لیکن ریحان کوثر صاحب آپ کی فعالیت اس شکایت کا ازالہ کرنے کی مکمل کوشش کرتی نظر آتی ہے۔
سرمایہ دارانہ عہد میں جہاں بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور چند بنیادی ضروریات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے صرف زندہ رہنے کی ضروریات کے لیے تگ و دو میں مصروف عمل ہے، وہاں کتاب جیسی نعمت کو خریدنا بھلا کیسے ممکن ہے، لیکن ابھی بھی عددی لحاظ سے کم ہی سہی مگر ایسے قارئین موجود ہیں جو ادب برائے زندگی پر یقین رکھنے والی تصانیف کے منتظر ہوتے ہیں اور سنجیدہ ادب پڑھنے کے خواہاں بھی ہیں. اور ریحان کوثر صاحب آپ کی تحریریں اس انتظار کی تسکین کا سامان فراہم کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔
مندرجہ بالا تحریر ریحان کوثر صاحب آپ کی تخلیقات پر صادق آتی ہیں۔ بہت بہت مبارک ہو جناب! طبیعت کی خرابی کے باعث بروقت اظہار خیال نہ کر سکا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
معاشرے کو اس کی غلطی سے روکنے ٹوکنے اور اصلاح کرنے کا نہایت قدیم ترین انداز یہ ہے کہ کہانی کہانی میں ہی اس کی غلطی سے آگاہ کیا جائے اور کہانی کے کرداروں کے ذریعے ہی اس کی اصلاح کی جائے۔اور یہ کام ریحان کوثر صاحب آپ اپنی سو لفظوں کی کہانیوں، مختصر افسانوں اور ادب اطفال کے ذریعے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم کو مزید توانائی عطا فرمائے. آمین ثم آمین
آپ کی کہانیوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کہانیاں نہ زیادہ طویل ہیں نہ ہی بہت مختصر۔(سو لفظوں کی کہانیوں کے علاوہ) ایک کہانی کو آرام سے ایک نشست میں مکمل کیا جاسکتا ہے اور کہانیاں پڑھنے کے شوقین ایک ہی نشست میں مکمل کہانی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
ان دنوں یعنی ’مابعد کورونا‘ ریحان کوثر اپنے افسانوں/کہانیوں میں زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع بنارہے ہیں اور موجودہ عہد کی سماجی زندگی کے آشوب کو حقیقت پسندانہ ’عزائم‘ کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔
ان کی کہانیوں کی یہی خوبی جہاں انھیں موجودہ دور کے دیگر افسانہ نگاروں سے جدا کرتی ہے، وہیں اس بات کی ضامن بھی ٹھہرتی ہے کہ اس ڈگر پر وہ نہ صرف خاص و عام قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہریں گے بلکہ اس انداز کے باعث ان کے افسانے تادیر یاد بھی رکھے جائیں گے۔
سید اسد تابش:
ریحان کوثر صاحب۔۔۔، سچ کہوں تو اس افسانچے کو میں تین بار پڑھ چکا ہوں،مگر اس پر لکھنے سے معذور رہا۔۔۔ آج محترم نوید الحق صاحب کے تبصرے پڑھا تو مزہ دو آتشہ ہوگیا۔۔۔
آپ کی کہانی سادہ سلیس اور دل پر اثر کرنے والی ہے۔۔۔سماجی اور معاشی کسمپرسی کی بد حالی جہاں بیان کر رہی ہے وہیں نفسیاتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کر رہی ہے۔
جیسے مصنف کا موبائل سے اداکارانہ شغل۔۔۔
اور
قطار میں کھڑے آدمی کا چائے کے کپ میں بچی ہوئی پتی کو نادیدے پن سے دیکھنا۔۔۔
پتھر کے ابالنے سے آج کل بچوں کا نہ بہلنا۔۔۔
آپ کے کردار بھی آس پاس کے نظر آتے ہیں جیسے ریشی کیش مکھرجی کے فلموں کے کردار۔۔۔
ہدیہُ تبریک و تحسین قبول کیجیے گا محترم
1 Comments
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ReplyDelete