ریحان کوثر بحیثیت ڈرامہ نگار
عصمت کوثر انصاری
ریسرچ اسکالر
راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور
ڈرامہ ادب کی مشہورو معروف اور قدیم صنف ہے ۔ جس میں حقائق و واقعات کو عموما ًپیش کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر ڈرامہ صرف پڑھنے کی خاطر نہیں لکھا جاتا بلکہ مقصدیہ ہوتا ہے کہ اسے اسٹیج پر عملی صورت میں پیش کیا جائے ۔ یہی پیش کش اسے دیگر اصناف سے ممتاز بناتی ہے ۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ڈرامے کی روایت بہت قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے لیکن اردو سماج میں ڈرامے کا رواج بہت بعد میں ہوا۔ ڈرامہ نگاری ایسا فن ہے جس میں ڈرامہ نگار اپنی فنکارانہ صلاحیت اور تخلیقی بصیرت سے ڈرامے کو آغاز سے عروج کی جانب لے جاتا ہے ۔
شہر کامٹی کو شروع سے ہی علمی و ادبی مرکز کی اہمیت حاصل ہے۔ کامٹی کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ادب کے ثناخواں سربرآوردہ شخصیتوں کی ایک لمبی فہرست سامنے آتی ہے ۔ اسی فہرت میں ایک نام ریحان کوثر کا ہے ۔ جنہوں نے بہت ہی کم وقت میں اپنی صلاحیتوں کا بخوبی استعمال کیا ہے ۔ 2012 سے 2016 کے درمیان آپ کی مختلف تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ساتھ ہی مختلف اشاعتی منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ ریحان کوثر فی الوقت ربانی آئی ٹی آئی و جونیئر کالج میں پرنسپل کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ کامٹی کے مشہور اردو ماہنامہ الفاظ ہند کی ادارت کا کام بھی بخوبی سنبھال رہے ہیں ۔ ریحان کوثر کو ادبی و سماجی خدمات کے عوض مختلف ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔
ڈراموں کا یہ مجموعہ بچوں کے لیے ایک رنگارنگ تحفہ ہے۔ جو مسرت و معلومات کا خزینہ ثابت ہوں گے۔ یہ ڈرامے دورحاضر کے مسائل پر اپنی گرفت رکھتے ہیں۔ دوسری زبانوں کی کہانیوں سے مرکزی خیال اخذ کرکے بھی ڈرامے لکھے گئے ہیں ۔ مثال کے طورپر پربھودیال شری واستو کے ہندی ڈرامے کو کامیابی کے ساتھ اردو ڈرامے "بستوں کی فریاد" میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ اسی طرح اندھیر نگری کا مرکزی خیال ہندی کہانی "اندھیر نگری چوپٹ راجہ" سے ماخوذ کیا گیا ہے۔
ریحان کوثر نے آسان پلاٹ پر مبنی چھوٹے چھوٹے قصوں کو ڈرامے کی شکل میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کی دلچسپی اور تاثیر میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ یہ تمام ڈرامے بآسانی اسٹیج کئے جا سکیں۔ یہ ڈرامے اخلاقیات کا درس دیتے ہیں اور تفریح بھی مہیا کراتے ہیں۔ آسان زبان اور اسلوب ، چست مکالموں کے سبب یہ تمام ڈرامے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ڈرامہ "آخری جنگ" میں بھگت سنگھ کی پھانسی کے تاریخی واقعہ کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں بھگت سنگھ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مثلاً انقلابی بھگت سنگھ، اتحادی بھگت سنگھ، ناستک بھگت سنگھ وغیرہ ۔ اس میں ڈرامہ نگار نے حب الوطنی کے جذبات سے بچوں کو دلچسپ اور آسان طریقے سے واقف کرایا ہے۔
"بستوں کی فریاد" میں دور حاضر کے اسکولی بچوں کے وزنی بستوں کی فریاد بیان کی گئی ہے ۔ والدین کی خود غرضی (زیادہ دولت کمانے کی لالچ) کی وجہ سے بچوں کو قبل از وقت اسکولوں میں داخل کرا دیا جاتا ہے اور وہ روز وزنی بستوں کو لاد کر اسکول جاتے ہیں جس سے ان کی کمر جھک گئی ہے۔ دراصل ڈرامہ نگار نے بستو ں کی فریاد کے آڑمیں ملک کے تعلیمی نظام پر گہرا طنز کیا ہے۔ بقول مصنف "کسان محنت کرتا ہے، جیبیں تاجروں کی بھرتی ہیں ، محنت مزدور کرتا ہے حویلی سیٹھ کی کھڑی ہوتی ہے۔ بڑے لوگ قانون بناتے ہیں اس پر عمل صرف چھوٹے کرتے ہیں۔ کاریگر کپڑے بنتا ہے صاحب لوگ وضعدار پہنتے ہیں اور وہ کاریگر خستہ حال ہے۔"
" لالچ کا انجام" اس ڈرامے میں لالچ کے لیے دوسروں کو کس طرح بیوقوف بنایا جاسکتا ہے بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایک عورت کی ممتا، اس کی تڑپ، کھوج بینی، سوجھ بوجھ اور معقولیت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ اپنے موضوع 'کہانی' مکالمے اور منظروں کے سبب بچے اور بڑے دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ الغرض سبھی ڈرامے پڑھنے میں پر لطف ہیں اور دعوت فکر دیتے ہیں۔ جابجا چست اور برجستہ مکالموں سے ڈرامے اور بھی موثر اور جاندار ہو گئے ہیں۔ ہر ڈرامہ بآسانی اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔
کامٹی کی سرگرمی ڈرامائی ادب کی مشو و نما کے لیے کبھی اتنی سازگار نہیں رہی جتنی دیگر اصناف ادب سید نصیر عظیمی اور شکیل شاہ جہاں کے بعد ریحان کوثر نے اس سر زمیں پر ڈراموں کی تخلیق کرکے قابل ذکر کام کیا ہے ۔ امید ہے ان کی یہ تصنیف کامٹی کے ادبی منظرنامہ پر ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔
٭٭٭
0 Comments