Ticker

6/recent/ticker-posts

آواز کا جسم (پروفیسر اسلم جمشید پوری)

آواز کا جسم

پروفیسر اسلم جمشید پوری


تعارف:
معاصر اردو افسانہ کی توانا آواز اور پریم چند کی روایتوں کے پاسدار پروفیسر اسلم جمشید پوری کا تعلق دھنورا، بلند شہر سے ہے، مگر ان کی تعلیم و تربیت جمشید پور میں ہوئی۔ سردست آپ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ میں بہ طور صدر شعبہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ افسانہ کے ساتھ ساتھ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے تحقیق و تنقید میں بھی اپنے قلم کے جادو جگائے ہیں۔ مجموعی طور پر موصوف کی 25 کے قریب کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں چار افسانوی مجموعے "افق کی مسکراہٹ "، "لینڈرا"، "کہانی محل" اور "عید گاہ سے واپسی " اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی طرح تین ہندی کے افسانوی مجموعے اور افسانچوں کا ایک مجموعہ بہ نام 'کولاژ' بھی ہندی زبان میں شایع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔
انعام و اعزاز :
شان میرٹھ
کملیشور ایوارڈ
مجیدیہ سلور جوبلی ایوارڈ
لن ترانی ایوارڈ
اردو فکشن ایوارڈ (مالیر کوٹلہ )
یو پی اکیڈمی انعام
مولانا آزاد ایوارڈ (مراد آباد )
ماکھن لال چترویدی ایوارڈ (میرٹھ )
مغربی بنگال اردو اکیڈمی انعام
بہار اردو اکیڈمی انعام
دہلی اردو اکیڈمی انعام
ڈاکٹر انجم جمالی ایوارڈ (میرٹھ )
سٹی زن آف ولڈ ایوارڈ
جیسے دو درجن سے زائد انعامات و اعزازات سے آپ کو سرفراز کیا جا چکا ہے۔
(زیر نظر افسانہ غیر مطبوعہ ہے، جس لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔)
محمد علیم اسماعیل
٭٭٭

’’کیا یہ گلوب پبلشنگ کمپنی ہے۔۔۔اور میں مسڑمنوج چوہان سے بات کررہی ہوں ‘‘
’’جی! یہ گلوب کمپنی ہے اور میں منوج بول رہا ہوں۔۔۔آپ کون۔۔۔؟‘‘ آواز بہت مدھم اور مدھر تھی، جیسے جھرنا گر رہا ہو منوج مبہوت سے رہ گئے۔
’’سر میں لتا۔۔۔ پُشپ لتا۔۔۔ اسسٹینٹ ایڈیڑکے لیے۔۔۔ ٹرائی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’جی کیوں نہیں۔۔۔ آپ کو ضرور ٹرائی کرنا چاہئیے۔‘‘ آواز کا جادو چل رہا تھا۔منوج آواز پر فدا ہو گئے تھے۔ اتنی مترنم اور ملائم سی آواز، جیسے کوئی جل پری بول رہی ہو۔ ایسا لگ رہا تھا گویا کوئی آہستہ آہستہ گنگنا رہا ہے۔ ہر طرف آواز کی لہر یں رقص کررہی تھیں۔
’’لتا جی۔۔۔ آپ نے اشتہار غور سے دیکھ لیاہے نا۔؟ ہمیں کم از کم گریجویٹ، پی جی ہو تو زیادہ اچھا ہو۔۔۔ اور کچھ تجربہ۔‘‘منوج نے متر نم آواز مزید سننے کے لیے یوں ہی بات نکالی تھی۔
’’جی سر ! میں ڈاکٹر یٹ ہوں اور ایک پرکا شن کمپنی میں کام کرچکی ہوں۔‘‘
’’اوہ ! پھر تو سمجھئے ہمیں ہماری پسند مل گئی ہے۔ آپ کی آواز میں ایک جادو ہے، جو۔۔۔‘‘
منوج نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ لتا گھبراسی گئی۔
’’سر ایڈ ٹینگ میں آواز کا معاملہ کہا ں آگیا۔۔۔ میں کچھ سمجھی نہیں سر!‘‘
’’آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کل شام ۶ ؍ بجے آفس تشریف لائیں۔‘‘
’’ او کے سر !۔۔۔ ‘‘
لتا نے اطمینان کی سانس لی۔ اتنی سی گفتگو میں ہی اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ منوج چوہان، کس قسم کے انسان ہیں۔ انھیں کیا پسند ہے۔ شام ۶؍ بجے آفس بلانے پر بھی وہ چونکی تھی۔ مگر پھر یہ سوچ کر چپ رہی کہ ہو سکتا ہے آفس دو شفٹوں میں چلتا ہو۔ ورنہ زیادہ تر آفس شام پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں اور پانچ بجے کے بعد آفس کے بہت ضروری کام، بہت قریبی لوگ کرتے ہیں۔ عام طور پر حساب کتاب، لین دین، نقد وغیرہ کا ملان کیا جاتا ہے،اور دوشفٹ ہونے سے پہلی شفٹ دس سے پانچ تو دوسری دن دو بجے سے رات دس، بجے تک چلتی ہے۔
گلوب پبلشنگ کمپنی نے، پچھلے پندرہ بیس برسوں میں پبلشنگ کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے تھے۔ بچوں کے بستے کا بوجھ کم کرنے کی سرکاری اسکیم کو گلوب کمپنی نے سچ کردکھایاتھا۔ ایک ہی کتاب میں سارے مضامین کے اہم ابواب شامل کرکے، شائع کیا۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد گلوب کمپنی کی منھ مانگی مراد پوری ہو گئی تھی۔ دن ہولی اور رات دیوالی کی طرح کا روبار میں زبردست اُچھال آیا تھا۔ اس کی تو چاندی ہی چاندی تھی۔ میرٹھ ہی نہیں پورے صوبے بلکہ پورے ملک سے آنے والے آرڈر ز نے منوج چوہان کی بلّے بلّے کر دی تھی۔ پیسے کے ساتھ ساتھ، کمپنی کا نام بھی دور دور تک جا پہنچا تھا۔ پہلے سے کمپنی میں ڈیڑھ سو لوگ کام کرتے تھے، اب ان کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ کرنا پڑا تھا۔ کمپنی نے ابھی گذشتہ دنوں ایک اشتہار شائع کرایاتھا۔ معلومات کرنے کے لیے، لوگوں کی فون کالز آرہی تھیں۔زیادہ تر فون، میناکشی اُٹھا یا کرتی تھی۔ چھٹی ہونے کی وجہ سے آفس میں کوئی نہیں تھا، اور منوج چوہان ایک ضروری کام کے سلسلے میں آفس آئے تھے کہ ڈاکٹر پشپ لتا کا فون آگیا۔ویسے ان کے فون پر آفس کے سبھی فون کی باتیں سنی جاسکتی تھیں۔ منوج کئی بار فون اُٹھا لیا کرتے تھے۔ کبھی خاموش باتیں سنتے، کبھی فوراً رکھ دیتے۔ کبھی آپریٹر کال دیتی توبات کر لیتے۔
پشپ لتا، قبول صورت، ایک ایسی لڑکی تھی۔ جس نے ہندی میں پی ایچ۔ ڈی کی تھی۔ اُسے ابھی تک کوئی مناسب ملازمت نہیں ملی تھی۔ جبکہ وہ بہت سے پرائیویٹ اداروں میں قسمت آزماچکی تھی۔ عمر کے 35پڑاؤ پار کرچکی تھی۔ گھر کے حالات کچھ اس قسم کے تھے کہ جب اچھے رشتے آتے تھے، اس وقت لڑکی پڑھ رہی تھی اور اب جب رشتوں کی سخت ضرورت تھی تو جیسے قسمت روٹھ گئی تھی۔ وہ اور اس کی دو بہنیں اسی انتظار میں عمر کے زینے چڑھتی رہیں۔34اور35زینوں کے بعد ان کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔ اس سے بڑی بہن 37سال کی تھی اور چھوٹی یہی کوئی دو ڈھائی سال چھوٹی۔ایک بھائی تھاجوان سب سے چھوٹا تھا۔ والد، سیاست میں ایک بہت پرانی پارٹی کے ورکر تھے اور چالیس سال بعد بھی ورکر ہی رہے۔ جوتھوڑی بہت زمین جائیداد تھی، وہ سیاست کی نذر ہو چکی تھی۔انھوں نے ایک بار کاؤنسلر کا الیکشن لڑا، جس میں پندرہ ووٹ سے ہارگئے۔ دراصل وہ پندرہ ووٹوں سے نہیں ہارے تھے بلکہ وہ اپنی زندگی کا جوا، ہار گئے تھے۔ جو دو بیگہ زمین تھی، وہ سب ہار کے ساتھ چلی گئی تھی۔ تینوں بہنیں ٹیوشن سے بیوٹیشن کے درمیان کچھ کمالیتیں اور کسی طرح خود کو زندوں میں شمار کر رہی تھیں۔چھوٹے بھائی نے انجینئرنگ کے دوران ہی اپنی گرل فرینڈ سے خفیہ شادی کرلی تھی۔ جاب ملتے ہی وہ دونوں الگ شہر میں اعلانیہ میاں بیوی کی طرح رہ رہے تھے۔ گھر سے ناطہ تقریباً ختم سا تھا۔
پُشپ لتا تینوں بہنوں میں اچھی تھی۔ اس کا رنگ تو بہت صاف نہیں تھا لیکن نین نقش بہتر تھے۔ لیکن یہ بہتر نین نقش بھی حالات کی ستم ظر یفی کی ہتھوڑی اور چھینی سے کچھ آڑے ترچھے ہو گئے تھے۔ اس کی آواز میں بلا کی کشش تھی۔ ٹیلیفون پر بات کرتی تو محسوس ہی نہیں ہوتا کوئی 35 سالہ لڑکی بول رہی ہے۔ بلکہ اکثر لوگ بیس سال کی کوئی دو شیزہ ہی سمجھتے۔ یہ بات کبھی، کسی زمانے میں جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے، بہت اچھی لگتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جسم کی ساخت اور چہرے کا کساؤ ڈھیلا پڑنے لگا تھا لیکن آواز کے تارآج بھی ٹنا ٹن تھے۔ آواز او ر شکل صورت کایہ امتیاز بڑھتا گیا اور پشپ لتا کے لیے بہت سے مسائل پیداہونے لگے۔وہ جب فون پر بات کرتی تو لوگ بڑی خوش دلی سے بات کرتے اور ملنے کی بات کہتے۔ لیکن ملا قات ہونے ٍپر کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر پلّہ جھاڑ لیتے،اور اس کے مقابلے کسی کم عمر لڑکی کو ملا زمت دے دیتے۔ ایک آدھ کمپنی کے دل پھینک مینیجرنے عمرکے پاٹوں میں پس جانے کے بعد بھی، بچے کھچے ملبے کو ہی مالِ غنیمت سمجھ کر ہاتھ صاف کرنا چاہا مگر پشپ لتااب ایسا بھی پھول نہیں تھی، جس کی حفاظت وہ بازؤں کی لتا سے نہ کرسکے۔ وہ مینجر کے منھ پر تھوک کر کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
گلوب پبلشنگ کمپنی کے مالک منوج چوہان کی باتوں سے اُس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ بھی اس کی آواز کے سحر میں گرفتار ہو گیا ہے اور شام ۶ ؍بجے آفس میں بلانے کا مقصد بھی اُسے سمجھ آگیا تھا کہ وہ چاول کے دو چاردانے دیکھ کر پوری ہنڈیا کا حال جاننا چاہتا ہے۔ گھرکے حالات غیر نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی غیر وقت، آفس نہ جاتی۔اس کا یہ بھی مطلب نہیں تھا کہ وہ خود سے سمجھوتہ کر چکی تھی۔ نہیں۔۔۔،وہ تو اپنی قسمت آزمانا چاہتی تھی کہ شاید، گلوب کمپنی اُسے گلوبل بنادے۔ کسی کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اوپروالا کب گدھے کو پہلوان اور فقیر کو بادشاہ بنا دے۔
وہ احتیاطاً، قدرے زیادہ توجہ سے، خود کو سجا سنوار کے آفس کے لیے نکلی تھی۔اس نے گولڈن بارڈر والی گہرے نیلے رنگ کی ساڑی اور ہلکا نیلا بلاؤز، زیب تن کیا تھا۔ وہائٹ واش سے کم ازکم دیواریں اور چھت بارونق ضرور ہو جاتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ تیز بارش کے جھونکوں سے چونے کی کئی کئی پرتیں بھی جلد رفوچکر ہوجاتی ہیں اور اصل معاملہ، دانت نکالے سامنے ہوتا ہے۔ میک اپ کے لیے، گرمی اور بہت سخت گرمی ایسی ہی ہے جیسے جونک لیے نمک۔ بس کے لمبے سفر نے چہرے کے میک اپ پر بارش جیسا ہی اثر کیا۔ بس سے اُتر نے کے بعد آفس چند قدم پرہی تھا۔ اس نے پرس سے چھوٹا آئینہ اور کریم نکالی۔ سڑک کنارے ہی اس نے میک اپ کی ادھڑی بخیہ رفوکی۔ لیکن’ پہلے میک اپ‘ جیسی بات نہیں بن پائی۔ آفس پہنچتے پہنچتے سو اچھ بج گئے تھے۔ اس نے فرنٹ ڈیسک پر بیٹھی کم عمر لڑکی سے اپنی بات بتائی۔ اُس نے بُراسا منھ بناکر سامنے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور خود انٹر کام سے باس کو مطلع کیا۔ منوج چوہان تو اسی انتظار میں تھے۔آفس کے زیادہ تر لوگ جاچکے تھے۔ اکا دکا ملازم نظر آرہے تھے۔ منوج خود ساٹھ کے لپیٹے میں تھے۔ لیکن خود کو چست درست رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی دوراندیشی، محنت اور کاروباری دانشمندی کے بل پر کمپنی کو شہر کی بڑی کمپنی کے طور پر مقام دلایاتھا۔
’’اندر بھیج دو۔ میناکشی‘‘
’’ جی سر !۔۔۔‘‘ استقبالیہ پرتعینا ت لڑکی نے کہا۔
’’جائیے سر اندر آفس میں بُلا رہے ہیں۔‘‘
وہ پشپ لتا سے مخاطب تھی۔اس کی نظروں میں ایک چمک اور چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ پُشپ لتا آواز پر اپنا بیگ ٹھیک کر کے کھڑی ہوگئی تھی۔اس کا دل، بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔ دل کی دھڑکنیں اتنی تیز تھیں کہ ان کی لرزش پورے بدن میں لرزہ پیدا کر رہی تھیں۔ حلق خشک ہو چلا تھا۔وہ استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی کی بات کا جواب بھی نہیں دے پائی تھی۔ بڑی مشکل سے اُس نے خود پر قا بو پانے کی کوشش کی۔
’’آفس ہے وہ کھا تو نہیں جائے گا۔‘‘
’’وہ انہونی ہونے پر چیخ چیخ کر ہنگامہ کھڑا کر سکتی ہے۔‘‘
’’دو چار ملازمین تو اِدھر اُدھر نظر آہی رہے ہیں۔‘‘
اُس نے ایک ہاتھ میں فائل کو لیا، جس میں اس کی زندگی بھر کی محنتیں، کاغذکی شکل میں بند تھیں۔ وہ انھیں اتنی بار اتنے سارے آفسز لے جاچکی تھی کہ اب تو ان کا غذوںنے فائل سے باہر سر نکالنا بھی شروع کر دیا تھا۔ فائل کے اندرکا غذات، شفاف پلاسٹک کے باریک کور میں بند تھے۔انھیں ایسا لباس پہنایا گیا تھا کہ وہ ملبوس بھی تھے اور عریاں بھی۔ملازمت کی بھاگ دوڑ اور انٹر ویوز کی بھرمار نے کاغذات کے لباس، پر آڑی ترچھی لکیریں اُبھار دی تھیں۔ کہیں کہیں سے پلاسٹک پھٹنے لگی تھی۔ اندر سے کاغذات کا جسم جھانکنے لگا تھا۔ انھیں دیکھ کر کبھی کبھی اُسے لگتا گویا اس کا لباس جگہ جگہ سے پھٹ رہا ہے اور ڈھلتا چاند، پھیکا اور زرد چاند باہر جھانک رہا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ خود کا لباس درست کیا کرتی۔ اس نے آفس میں داخل ہونے سے قبل چہرے پر ہلکا رومال پھیرا ایک ہاتھ کی کنگھی سے اپنے بال پیچھے کی طرف کئے۔ بائیں کندھے کے پر بیگ کو درست کیا اور دائیں ہاتھ میں مضبوطی سے فائل پکڑی۔ چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ بکھیری اور دروازے پر ناک کیا۔
’’یس۔۔۔ کم ان۔۔۔ ‘‘منوج چوہان کی بارعب آواز نے اُسے پھر لرزہ براندام کردیاتھا۔ کسی طرح وہ اندر داخل ہوئی۔
’’جی۔۔۔ پدھاریں۔۔۔ ‘‘ آواز کا رعب جاری تھا۔ اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔ گھبراہٹ چہرے پرعیاں تھی۔
’’میں۔۔ میں۔۔ پُشپ۔۔ لتا۔۔۔ ‘‘الفاط اس کے حلق میں اٹک رہے تھے۔
’’جی۔۔۔ بیٹھیں۔۔۔ ‘‘ منوج چوہان نے اس پر اُوپر سے نیچے تک ایک سرسری نطر ڈالی۔ اُسے عمارت کا کھو کھلا پن، جلد نظر آگیا۔ وہ بہت تجربہ کار تھے۔ ایک نظر میں جان جاتے تھے۔ عمر کیا ہے۔ ؟ میک اپ کتنا ہے۔؟رسیوں میں بل کتنا ہے۔؟وہ کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔
’’آپ ہی پُشپ لتا ہیں۔ آپ کی آواز تو۔۔۔ ‘‘جملہ ادھورا رہ گیا تھا۔ گویا کہا جارہا یہ کہ آپ کی آواز توبہت خوب ہے لیکن آپ میں کچھ نہیں ہے۔ اُسے اپنی بے عزتی سی محسوس ہورہی تھی۔ ضرورت اور بھوک، انسان کو صبر سکھا تی ہے۔ غصے سے باز رکھتی ہے۔ اس نے اپنی فائل منوج چوہان کے ٹیبل پر رکھ دی۔ منوج چوہان نے جو اُسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنے کاغذات میں گم ہو گئے تھے اس کی فائل کو غور سے دیکھنے لگے۔ کافی دیر تک وہ فائل پر ہی نظر یں جمائے بیٹھے رہے۔ جبکہ پشپ لتا کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ اس کی نظریں، منوج کی طرف تھیں۔ نجانے کب ان کی نظریں فائل سے اُٹھ کر اس پر آٹکیں۔اس نے آج خوبصورت نیلی ساڑی زیب تن کی تھی۔ ساری طنابیں بھی مضبوط کسی تھیں۔ ساڑی سے میچنگ لپ اسٹک اور ہینڈ بیگ بھی تھا۔نیہا ہر بل مہندی سے اپنے بالوں کو بھی چمک دار اورسیاہ بنا لیاتھا۔اس کی تیاریوں نے عمر کو کم کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس کی کوشش تھی کسی طرح ملازمت مل جائے۔ جب بہت دیر تک منوج نے فائل سے سر نہیں اُٹھایا تو اسے عجیب خیال نے گھیر لیا۔ کیا فائل، مجھ سے زیادہ پر کشش ہے۔ یاایسا کر کے مسٹر منوج میری تضحیک کررہے ہیں۔ مجھے خود منع کرنے کے بجائے چاہتے ہیں کہ میں خودہی چلی جاؤں۔ اتنی دیر ہوگئی۔۔۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو وہ ہمت کرکے بول پڑی۔
’’سر میں پُشپ لتا۔۔۔ ‘‘ لیکن لفظ تو زبان تک آکر راستہ ہی بھول گئے تھے۔ منوج چوہان کا چہرہ اچانک بلند ہوا
’’دیکھئے ڈاکٹر پشپ لتا۔۔۔ آپ کی قابلیت تو بہت زیادہ ہے لیکن۔۔۔ سوری ہم آپ کو ایڈ جسٹ نہیں کر پائیں گے۔ہمیں بیس، بائیس سال کے گروپ کے ینگس کی ضرورت ہے۔ جو اپنی چستی بھرتی اور خون کی گرمی سے کمپنی کو ہر دم تازہ رکھ سکیں۔۔۔سوری۔۔۔‘‘پشپ لتا کے خون کی گرمی پر ٹھنڈے پانی کی چھینٹ کی مانند پڑنے والے منوج کے جملوں نے اسے حیرانی کے ساتھ طیش میں لا دیا تھا۔
آہستہ آہستہ اس کے اندرون کی گرمی بڑھنے سے باہر کا پارابھی چڑھنے لگا۔ وہ بھول گئی کہ منوج چوہان نے کیا کیا کہا۔وہ آپے سے باہر ہو کر منوج سے الجھ پڑی اور نجانے کیا کیا کہتی چلی گئی۔ اس کی سماعت پر منوج کے جملے اولوں کی طرح گررہے تھے۔
’’اور کوئی زیادہ عمر میں بھی نوجوانوں سے زیادہ کام کرے تب۔؟‘‘
’’ایسا ہوتانھیں ہے۔۔۔اور پھر ہمارے پاس ٹیسٹ کرنے کا نہ وقت ہے نہ ضرورت‘‘
اس کے اندر کا لاوا اُبل پڑا۔
’’مسٹر منوج آپ کے یہاں کام کرنے والی کوئی لڑکی، مجھ سے زیادہ قابل نہیں، مجھ سے تیز گام بھی نہیں۔ میرا چیلینج ہے۔ میرے پاس ان کی عمر کے برابر تجربہ ہے۔ہاں یہ ضرور درست ہے کہ آپ کو ایڈیٹر نہیں، جوان لڑکی چاہئیے۔ کم عمر خوبصورت لڑکیاں۔ جو ہر وقت آپ کے آس پاس منڈلائیں اور کمپنی نہیں آپ کی رگوںکے خون کی گرمی بڑ ھاتی رہیں۔۔۔ یہی نا۔۔۔ہاں۔۔۔ یہ کام میں نہیں کرسکتی۔۔۔ آپ بڑے سے بڑا آفر بھی دیں تب بھی نہیں۔ میں آپ کی باتوں کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھ گئی تھی۔ ’سوری‘ کے پیچھے چھپے خوشامد پسند طبیعت کو میں سمجھ گئی تھی۔ آپ نے سمجھا ہوگا کہ آپ منع کریں گے۔ میں اپنی مجبوری بتاؤں گی۔ آپ پھر منع کریں گے، میں گڑ گڑاؤں گی تو آپ اپنی شرط پر مجھے ایک آدھ ماہ کی ملازمت پر رکھ لیں گے اور۔۔۔اور۔۔۔ لیکن کان کھول کر سن لو مسڑ منوج۔۔۔ اگر میں ایسی ہوتی تو آج کسی بڑے عہدے پر ہوتی۔ میرے آگے پیچھے پیسہ گھومتا۔۔۔اور آج آپ کے آگے پیچھے جو پیسہ گھوم رہا ہے وہ اسی لیے ہے کہ آپ نے وہی کام کیے ہیں۔ آپ نے مجبور وبے کس، معصوم لڑکیوں سے کمپنی کی رگوں میں دوڑتے خون کو گرم کیا ہے۔۔۔آ پ ذلیل ہو۔۔۔ ‘ ‘جوش وجنون میں وہ نجانے کیاکیا بکتی چلی گئی تھی اور پھر اس کا سر چکرانے لگا۔اس سے قبل کہ وہ لڑکھڑاکر گرتی لکشمی نے آفس میں گھستے ہوئے اُسے سنبھال لیاتھا۔
’’لکشمی۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔ ڈاکٹرپشپ لتاکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ انھیں فرسٹ ایڈ، دیں اور ملازمت کے کاغذ تیار کریں ہمیں ایسے تجربہ کار پرسنل کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘
٭٭٭
نرسنگ ہوم میں پُشپ لتا بستر پر لیٹی ہے۔مس لکشمی اندر داخل ہوتی ہے۔
’’میڈم مبارک۔۔۔آپ کی جاب پکی۔۔۔آپ جلدٹھیک ہو جائیں اور کمپنی جوائن کریں۔۔۔‘‘
’’مگر ایسا کیسے ہوا۔؟ انھوں نے تو مجھے ریجکٹ کر دیاتھا۔‘‘پشپ لتا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ مسٹر منوج نے آپ کو رجیکٹ نہیں کیا تھا۔وہ آپ کو سائکلوجیکل ٹیسٹ کر رہے تھے۔ ‘‘
’’میڈم وہ تو آپ کی آواز کے فین ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ ہماری کمپنی کو کمپیننگ کے لیے ایک اچھی آواز کی سخت ضرورت تھی۔‘‘
آواز کے جسم نے گرمئی خون کا جواز پیدا کرلیا تھا۔
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ

ریحان کوثر:
کہانی کا اہم کردار یا صاف لفظ میں کہا جائے کہ کہانی کی ہیروئن پشپ لتا مبارک باد کی مستحق ہیں کہ وہ ایک ایسا خوش نصیب کردار ہے جسے ایک مکمل اور بھرپور افسانے میں تخلیق کیا گیا ہے۔ ہر خاص و عام قاری کے لیے یہ سکون اور اطمینان کی بات ہے کہ تخلیق کار نے اس افسانے کی ہیروئن کے مشکل کردار کو حقیقی، مجازی اور قدرتی رنگوں سے پینٹ کیا ہے۔ ایسا ضروری نہیں کہ ہر کہانی میں مونالیزا ہی اہم کردار میں نظر آئے۔ کیا کسی ہیروئن کی آواز مونالیزا کی مسکان سے بھی خوبصورت نہیں ہوسکتی؟ ہو سکتی ہے یہ افسانہ اس کا ثبوت ہے۔ پشپ لتا اُس کہانی کی ہیروئن ہیں جس کا عنوان آواز کا جسم ہے اور اس افسانے کا جسم آواز ہے۔ پشپ لتا ایک ایسے افسانے کا کردار ہے جس کا عنوان اس کی کہانی کی گنگوتری کی مانند ہے، جہاں سے نکل کر کہانی کسی ندی کی طرح کل کل کرتی ہوئی بہتی چلی جاتی ہے۔
اب تک جتنے بھی افسانے میری نظر سے گزرے ہیں ان افسانوں میں جل پری کے سنہری بالوں اور سنہری جلد کے ساتھ ساتھ اس کی خوبصورت آنکھوں سے مشابہت دی گئی ہے لیکن اس افسانے میں اس کی آواز کا بھی موازنہ کیا گیا ہے۔ بے شک جل پریاں افسانوی کردار ہے اور شاید پہلی مرتبہ اس کی آواز سے مشابہت میرے سامنے آئی ہے۔ خوشیاں اور مسرتوں کے لیے ہولی کے دن اور دیوالی کی راتیں بطور علامت استعمال کی جاتی رہی ہیں، لیکن اس افسانے میں ترقی کے طور پر شاید پہلی مرتبہ ہولی کے دنوں اور دیوالی کی راتوں کا استعمال نظر سے گزرا ہے۔ اب یہ دونوں تشبیہات کہاں تک درست ہے یہ تو زبان و بیان کے ماہرین اور اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں۔
کسی نے دھیان دیا یا نہیں! منوج کے علاوہ اس میں ایک اہم کردار پشپ لتا کی فائل کا بھی ہے جسے بے انتہا خوبصورتی سے اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔ انٹرویو کے دوران لتا کا خود کا موازنہ اپنی ہی فائل سے کرنا اس افسانے کی ہائی لائٹ ہے۔ ہر کڑوی چیز زہر نہیں ہوتی وہ نیم بھی ہو سکتا ہے۔ منوج کے کردار نے اس بات کی گواہی دے دی ہے۔ منوج کا کردار بھی مکمل اور صاف گوئی سے پیش کیا گیا ہے۔
پشپ لتا اور اس کی بہنوں کی عمروں کا موازنہ زینوں سے کرنا اور ان کی سانسوں کا پھولنا بھی اس افسانے کی ہائی لائٹ میں شمار کیا جانا چاہیے۔
اس طرح پشپ لتا، پشپ لتا کی آواز اور پشپ لتا کی فائل کے ساتھ ساتھ منوج کو بھی مبارک باد کہ انھیں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے تخلیق کیا اور انھیں انصاف کے ساتھ ساتھ آفاقی قدریں بھی بخشیں۔ بزم افسانہ کے لیے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب نے اپنے نمائندہ افسانوں کی جگہ یہ غیر مطبوعہ افسانہ دیا ہے، اس کے لیے وہ شکریے کے مستحق ہیں۔
ایک عمدہ کہانی، خوبصورت بیانیہ اور شاندار کردار نگاری کے لیے پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب کو مبارکباد۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments