Ticker

6/recent/ticker-posts

انگمو (احمد کلیم فیض پوری)

انگمو

احمد کلیم فیض پوری


تعارف:

بھساول، مہاراشٹر سے احمد کلیم فیض پوری کانام افسانہ کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی شناخت اردو ادب میں خاندیش کے افسانے کے چہرے سے ہے۔ موصوف کا شمار 60 کے بعد کے لکھنے والے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے ساٹھ سالا قلمی سفر میں اردو ادب کو صرف ایک ہی افسانوی مجموعہ دیا۔ ہر چند کہ موصوف کا تخلیقی عمل ادب کی دوسری اصناف پر بھی جاری ہے لیکن افسانے کے حوالے سے ان کی پہچان زیادہ مستحکم ہے۔ آپ نے جس صنف میں طبع آزمائی کی وہاں اپنی صلاحیتوں کاسکہ جمایا خواہ طنز ومزاح ہو یا منی کہانیاں، بچوں کا ادب یا پھر نثری نظمیں، غرض کہ ہر طور انھوں نے اپنے قلم کی جولانیوں کو برقرار رکھا۔ آپ کی تخلیقات ہندو پاک کے مشہور ادبی رسالوں کی زینت بنتی رہی ہیں جن میں شمع، روبی، بانو، آج کل، ایوان اردو، مباحثہ، بیسویں صدی وغیرہ قابل ذکر ہے۔ کئی کہانیاں مختلف الیکٹرانک، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے منظر عام پر آئیں، اس حوالے سے ریڈیو آکاشوانی کا ذکر بھی خاص ہے۔ آپ کی چند کہانیاں نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی، کی مختلف سطح کی درسیات میں بطور نصاب شامل ہیں۔ احمد کلیم فیض پوری کا افسانوی مجموعہ "ساگوان کی چھاؤں میں" سن 2012 میں شایع ہوکر خوب دادو تحسین حاصل کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی ایک کتاب "چندا کے دیس میں" جو بچوں کے ادب پر ہے اسے بھی خوب سراہا گیا۔ احمد کلیم فیض پوری پیشے سے اردو کے معلم رہے ہیں اور اب سبکدوش ہو کر شہر بھساول میں مقیم ہیں۔

انعام و اعزاز :

احمد کلیم کو علمی، ادبی اور سماجی خدمات میں کئی گراں قدر انعامات و اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں سبکدوشی پر شہری استقبالیہ، نیز مشہور شاعر راحت اندوری کے ہاتھوں سپاس نامہ اور ایک کل ہند مشاعرہ وغیرہ۔ 

مجموعی خدمات کے لیے مہاراشٹر اردو اکادمی کا ایوارڈ (2010 ) 

زیر نظر افسانہ 'انگمو' ماہنامہ آجکل کے شمارے جولائی 2014 سے اخذ کیا گیا ہے۔

طاہر انجم صدیقی
٭٭٭

اس نے سیڑیاں اترتی ہوئی لڑکی کو دیکھا۔ بے حد خوبصورت، پری سی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، کسا ہوا بدن، عمر بیس کے لک بھگ رہی ہوگی۔ ہاتھ میں پوجا کی تھال لیے جلدی جلدی اتری اور نیچے باغ کے راستے غائب ہوگئی۔

نوجوان کا دل چندلمحوں کے لیے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ اس نے سوچا پریاں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں مگر اس کےپر نہیں تھے۔وہ حیرت زدہ تھا کہ پری کو اس ڈریپنگ وہار کے کنگوروں پر ہونا چاہئے تھا۔ جہاں خوبصورت کبوتر آکر بیٹھے ہیں اور یہ کہ پوری سیڑھیاں نہیں اترتی، پوجا نہیں کرتی۔ پھر بھی تھی وہ پری ہی۔ اس وقت کچھ اور لڑکیاں تیزی سے اس کے پاس سے گزرگئیں۔ یہ بھی اس کی طرح سفید براق سازیوں میں ملبوں تھیں۔ خیالات کی ڈوریکلخت ٹوٹ گئی۔

وہ اپنے شہرلہاسہ سے کبھی کبھار یہاں ڈر یپنگ وہار آیا کرتا تھا۔ پہاڑی کے دامن میں واقع مقدس عبادت گاہ جہاں کا منظر بے حد خوبصورت ہوا کر تھا۔ اس کے اپنے شہر سے کہیں زیادہ حسین اور دلکش۔ یوں تو اس نے یہاں کئی لڑکیوں کو دیکھا تھا۔ بھکشو کنیاؤں کو بھی، جن کے بدن کڑی ریاضت کے سبب ایک مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ لیکن ان میں کوئی پری نہیں تھی، اس جیسی۔ اس کے دل میں مدوجزر سا اٹھنے لگا تھا۔ چنانچہ تہیہ کرلیا تھا کہ روز یہاں آیا کرے گا۔ سات آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ ویسے بھی کچھ زیادہ نہیں تھا۔

نوجوان مذہب بیزار تھا،ناستک۔ اس کا ماننا تھا کہ مذہب انسانی فطرت پر شب خون مارتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ درندہ بن جاتا ہے۔ خون کی ندیاں بہانے للتا ہے۔ پہاڑوں، درختوں اور جھرنوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ کسی کو گزند نہیں پہنچاتے۔ ہر چند کہ اس کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی تھی، لیکن دھرم اسے کبھی متاثر نہیں کر پایا تھا۔ لوگ اس کی بہکی بہکی باتوں کےسبب اسے پاگل سمجھتے ہیں۔ وہار جاتا مگر کسی مذہبی عقیدہ کے ساتھ نہیں بلکہ فطرت کی گود میں کچھ وقت گزارنا اسے پسندتھا۔

اگلی صبح نوجوان و ہار پہنچا، وہی لڑ کی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اس کا روم روم نشاط سے بھر گیا۔ پرشوق نگاه اٹھی تھی کہ اچانک لڑکی کا پیر پھسل گیا، پوجا کی تھالی نیچے آگری اور اس سے پہلے کہ لڑ کی جھکتی، نوجوان نے فوراً تعالی اٹھا کرلڑکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ زندگی میں پہلی بار وہ لمس کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔ بجلی کا کرنٹ سابدن میں دوڑ گیا تھا۔ اسی وقت اس کی سہیلیاں آدھمکیں۔ بے صبری سے پوچھنے لگیں۔ 

"اری انگمو کیا ہوا، تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟" پھروہ اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئیں۔

"تو آپ ہیں انگمو! کیا خوبصورت نام ہے۔" نوجوان نے دل میں کہا اور اس پر وہ کیفیت طاری ہوئی جوتیرہویں صدی عیسوی کے دلائی لامہ پر نیپال کی شادی کو دیکھ کر طاری ہوئی تھی۔پھرایسا ہوا کہ کتنے دنوں کا تک انگمو نہیں آئی۔ وہ روز آتا اور نراش ہوکر چلا جایا کرتا۔ اب اسےصبح کا منظر، و بارکی فصیل پر بیٹھے کبوتر اور قطار در قطار چڑھتی بھکشو کنیائیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں، پھر بھی وہ روز آتا رہا۔ اس یقین کے ساتھ کہ انگمو ضرور آئے گی۔ مذہبی جنون ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

ایک دن وہ آئی۔ آخری سیڑھی پر رکی، تو جوان کو نظر بھر کردیکھنا چاہتی تھی کہ سہیلیوں نے اسے آگھیرا۔ بیزاری سے کہنے لگیں۔ 

"انگمو چل، آخر اسی جگہ تیرے قدم کیوں رک جایا کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے شوخ نظروں سے نوجوان کی طرف دیکھا اور گھسیٹتی ہوئی انگمو کو ایک طرف لے گئیں۔ وہ اسے سمجھاری تھیں۔ 

"دیکھ انگمو!یہاں صرف خداوند گوتم سے محبت کی جاسکتی ہے۔ قدم ڈگمگانے لگیں تو اس جگہ آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ اور اگر سخت گیر لا ماؤں کو بھنک پڑ گئی تو سولی پر لگا دیں گے۔" انگمو اگر چہ کانپ گئی لیکن دل کے اندر لگی چنگاری کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی۔

نوجوان آتا رہا لیکن یہ سیڑھیاں روز ہی اسے گوتم بدھ کے تقدس میں ڈوبی ہوئی ملیں۔ وہ کبیدہ خاطررہنے لگا تھا۔ کبھی سوچتا کیا گو تم پر ایمان لے آنا چاہئے تاکہ بدهم شرنم گچھامی کی لے میں انگمو کا قرب اسے حاصل ہو، مگر اگلے ہی پل وہ اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اب کبھی کبھار ہی وہ و بارآنے لگا تھا۔

اگست کا مہینہ آیا۔ سارے لہاسہ شہر میں یوگریٹ فیسٹول کی دھوم تھی۔ تبت کا سب سے بڑا قومی تہوارگلی کوچوں اور بازاروں میں بڑی چہل پہل تھی۔ مرد، عورتیں اور بچے قومی لباس میں چہار جانب خوش نظر آ رہے تھے۔ 

شام کے وقت نوجوان میلے پہنچا۔ یہ دیکھ کر متحیر ره گیا کہ وہی پری انگمو ایک دکان کے پاس کھڑی تھی۔ قومی لباس میں انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔ نوجوان بے قراری کے ساتھ اس کے پاس پہنچا، اسے دیکھ کر و ٹھٹکی مگر اگلے لمحےاس کے ہونیوں پر تنسم کی روشنی بکھر گئی تھی۔ دو بھیڑ کو چیرتے ہوئے ایک چٹان کی اوٹ میں جا پہنچے۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ وہار کا تقدس اس چنگاری کو دبا دیا کرتا تھا، جو انگمو کے وجود میں اتر چکی تھی۔ جسے بجھا ناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ صدیاں گواہ ہیں کہ یہ آگ کبھی نہ بجھنے کے لیے ہی لگتی ہے۔

"کون ہوتم ؟ انگمو نے جیسے پولیس کے لہجے میں پوچھا۔

"انگدس۔"

"ہم نے تمھارا نام تو نہیں پوچھا۔"

"کیا پوچھنا چاہتی ہوتم ؟ 

"نہیں کہ کیوں ہمارے پیچھے پڑ ے ہو؟“

"حسین شے کے پیچھے کون نہیں پڑتا۔" انگدس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ و ہ لجائی اور دونوں کھلکھلا کر ہنس دیے۔ یہ ہنسی ان کے وجود میں دور تک اتر گئی تھی۔ ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ بیتےدنوں کے ساتھ ان کی محبت پروان چڑھتی گئی۔ کبھی اسی چنان کی اوٹ میں اور کبھی شاداب وادیوں میں حتیٰ کہ درختوں کے پتوں تک پر ان کے نام لکھے دکھائی دینے لگے۔ 

لہاسہ کی پرانی بستی بیجنگ لو جہاں ہوٹل کول یا ک کی خوبصورت عمارت تھی۔ اس کی اگلی گلی کے موڑ پر انگدس کا گھر تھا جب کہ دو چار محلے دور انگمو اپنے | خوبصورت کاٹیج میں رہتی تھی۔ یہی تبت کے اصل باشندے تھے۔ ادھر شہر کی نئی بستیوں میں چین سے لا کر بسائے گئے ہان مزدوروں کے عالیشان مکانات تھے۔ جنہیں دیکھ کر ہر تبتی باشندے کی آنکھوں میں خون اتر آیا کرتا تھا۔ بالکل اسی طرح بھی دنیا میں جبراً ہتھیائی گئی زمین کے بدنصیب باشندوں کی آنکھوں میں اتر آتا ہے۔ 

انگدس ایک ماہر بت تراش تھا۔ جر گوتم بدھ کی مورتیاں بنا کر بیچا کرتا تھا۔ انگمو ایک خوشحال باپ کی اکلوتی اولاد بھی۔ زندگی کا ہر سکھ، ہر نعمت باپ نے اپنی بیٹی پر نچھاور کر رکھا تھا۔ 

انگمو اوراد انگدس اپنی سانسوں کے زیر و بم میں جنسی جذبوں کی آویزش کبھی نہیں ہونے دی گئی۔ ان کا پیار نور بولنگ کا پیلس کی طرح پوتر تھا۔ انگمو کہتی ہمیں اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک آزادی کا سورج وطن کی دھرتی پر اتر نہ آئے۔ لیکن انگدس متفق نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ قوموں کے لیے یہ مرحلہ سخت و دشوار ہوتا ہے۔ سروں کا نذرانہ دیتے دیتے صدیاں بیت جاتی ہیں۔ انگدس کے دل میں اس وقت سے لاوا پک رہا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا تھا کہ حملہ آوروں نے کس طرح مقدس وہاروں کو تہس نہس کر دیا تھا اور گوتم کی مقدس کتابوں کے اوراق بطور ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے لگے تھے۔ اور یہ کہ چواین لائی کی ان اولادوں نے لاکھوں تبتیوں کے سر قلم کر دیے تھے۔ یہی سبب تھا کہ وہ اپنے لیے ایک نیا دنیا بسانا چاہتا تھا۔ 

آخر ایک دن اس نے انگمو کے سامنے اپنا منشا بیان کر ہی دیا۔ چاندنی رات میں وہ اسی چنان کی اوٹ میں ملے تھے۔ انگدس کہ رہا تھا۔ ہمیں اپنے وطن کو خیر باد کہ دینا چاہیے، ہمیشہ کے لیے ایسی جگہ چلا جانا چاہئے جہاں روز روز کی دہشت سے نجات ملے۔ قدم قدم پر بربریت کا سامنا نہ ہو اور احساس غلامی پاؤں کی زنجیر نہ بنتا ہو۔ ہمارے دلائی لامہ نے آخر یہی کیا ہے۔ لیکن انگمو کسی طرح رضامند نہ ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھی، اپنی دھرتی تو پھر اپنی دھرتی ہے۔ جہاں یا تر سرخروئی ملنا ہے یا شہادت۔ ہم اپنی مٹی سے بے وفائی کیوں کریں۔ پھر اسے اپنے شفیق باپ کا خیال تھا۔ کیا وہ برداشت کر پائےگا۔ دم توڑ دے گا۔ اس خیال ہی سے وہ لرز اٹھی تھی۔ اس طرح محبت اور فرض کی اسی ہزاروں سال پرانی داستان کے درمیان نہ جانے کب چاند ڈوب گیا۔

پھر وقت آیا جب رات کے گھپ اندھیرے میں اندھیرے میں انگدس اپنی انگمو کی پیشانی پر جدائی کا گہرانشان چھوڑ گیا۔

دشوار راستوں سے گزرتا ہوا وہ بھارت آیا۔ ایسی بستی میں جہاں اس کے ہم مذہب بڑی تعداد میں آباد تھے۔ یہ لوگ پرگیا، شیل اور کرونا کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ وہ بیزار تھا۔ دل میں کہتا اے گوتم کے بندو! مذہب تو کسی طرح زندہ رہ جائے گا لیکن وطن! اس کی سربلندی کے لیے تمھارے پاس کون سا منتر ہے؟ اس کا جی نہ لگا، وہ یہاں سے نکل کر دور دراز کی ایک پہاڑی بستی میں رہنے لگا۔

یہاں گوتم کی مورتیوں کی مانگ نہیں ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ایسے مجسمے بنائے گا جنہیں دنیا حیرت سے دیکھے گی۔ چنانچہ اس نے جانوروں، پرندوں، تاریخی شخصیتوں اور و دیوی دیوتاؤں کے ایسے مجسمے بنانا شروع کیے جو اچھی قیمت پر فروخت ہونے گئے۔ کارو بارتو چمکا ہی، دور دور تک اس کی شہرت کے ڈنکے بجنے گئے۔ اب وہ سڑک سے اٹھ کر ایک کشادہ شوروم میں منتقل ہو چکا تھا، جو اس کا اپنا گھر بھی تھا۔ 

ایک دن ایک اور لڑکی بے حد حسین، دلکش، جس کے انگ انگ سے شباب مترشح تھا۔ اپنی سہیلیوں کے ساتھ شوروم آدھمکی۔ ادھر ادھر گھوم کر ہر مجسمے کی قیمت معلوم کرتی رہی، لیا کچھ نہیں۔ جاتے جاتے ایک ادا سے کہا۔ کلا کار تیری مورتیاں خوب ہیں، کیا ادھار دو گے؟ پھر فوراً کہنے لگی، جانے دے میں پھر آؤں گی پیسے لے کر اور اگلے لمحے وہ شوروم سے باہری سہیلیوں کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی۔

انگدس سوچتا رہ گیا کہ آخر ی طوفان بدتمیزی کیا ہے۔ دوبارہ آئی تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ کچھ دنوں بعد ہوا کیلی آئی۔ دوپہر کا وقت۔ انگدس خالی الذ ہن سا بیٹھا ہوا تھا۔ آتے ہی کاؤنٹر پر جھکی، جہاں اس کا گداز سینہ شیشے کے اوپر مچل رہا تھا۔ کہنے لگی۔" اے مسڑ! آج بھی پیسےلانا بھول گئی ہوں، کیا وہ ہمیں دے گا؟ ایک مجسمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس قدر قریب آگئی تھی کہ انگدس اس کی سانسوں کی حرارت صاف محسوس کر رہا تھا۔ اسی وقت ایک نوجوان جوڑا داخل ہوا لڑکی کو دیکھتے ہی عورت کہنے گی۔

"اری ساجھی کیا لینے آئی ہو، شریر کہیں کی۔" اور جواب دیے بغیر وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔

ساجھی گاؤں کے مکھیا کی بیٹی تھی جو قبیلے کا سرداربھی تھا۔ گدرائے بدن کی اس حسینہ پر گاؤں کے کئی نوجوان فریفتہ تھے۔ مگر مکھیا کے رعب اور د بد بے کی وجہ سے کوئی ایسی ویسی حرکت کرنے کی جرأت نہیں کر پاتا تھا۔ انگدس ایک جھرجھری لیتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اچھا ہوا اس نے لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت نہیں کی جو اس کے لیے وبال جان بن جانی۔ 

آن انگمو بے حد یاد آ رہی تھی۔ وہ اٹھا اور ایک مجسمہ بنانے میں منہمک ہوگیا۔ چند دنوں بعد ہی اس نے ایساشاہ کا مجسمہ بتایا جسے دیکھ کر وہ خود حیران رہ گیا تھا۔ جانے کیسے شعور کی رو اسے تبت لے گئی تھی۔ انگمو کی خوبصورت شبیہ اس مجسمے میں اتر آئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا کیا قیمت آئے گی اس کی، شاید لاکھوں۔ اس نے فورا اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ ہرگز نہیں، میں اس یاد کو کسی قیمت پر نہیں بیچوں گا۔ پھر دو پہروں اسے دیکھا کرتا۔ اس کے لمس سے عجیب طرح کی لذت محسوس کیا کرتا۔ 

آدھی رات کو دروازے پر دستک ہوئی۔ انگدس حیرت زدہ تھا کہ اتنی رات گئے کون ہوسکتا ہے۔ دروازه کھلا تو گاؤں کا مکھیا اس کے سامنے تھا۔ آتے ہی صوفہ پر بیٹھ گیا اور کہنے گا۔

"گھبراؤ نہیں کلاکار ہم کچھ مانگنے آئے ہیں۔ انگدس خوفزدہ سا ہوا۔ اس نے سوچا مکھیا آخر کیا مانگنے آیا ہے۔ ایک معمولی آدی اسے کیا دے سکتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد مکھیا کی پاٹ دار آواز گونجی۔ 

"ساجھی سے تمھیں شادی کرنی ہوگی۔ ہم اپنی بینی کی ضد کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اپنا وقار، قبیلہ کی آن سب داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامی پر خودکشی کرنے کو تیار ہے۔" مکھیا کا لہجہ اگر چہ نرم تھا لیکن اس میں تحکم صاف جھلک رہا تھا۔ پھر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ اچھی طرح سوچ لو، ہم تمھیں تین دن کا وقت دیتے ہیں۔ 

انگدس سخت پریشان تھا۔ اس گاؤں میں اجنبی تھا، بالکل تنہا۔ اس کی نظروں میں مکھیا ساجھی اور انگمو کے چہرے تیزی سے گردش کرنے لگے تھے۔ پھر اچانک انگموکا چہرہ معدوم ہوتا چلا گیا۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ ڈالی ایک ستارہ ٹوٹ کرنور کی کرن بکھرائے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ 

نہ جانے کب انگدس اور ساتھی کا بیا و ہوا، کسی کو پتہ نہ چلا۔ البتہ انگدس کو یاد ر ہ گیا تھا کہ گھر میں کتنے دنوں تک وہ شب نہیں آئی تھی جسے شب عروسی کہا جاتا ہے۔

آخر زخم بھرتے چلے گئے اور ساجھی کی گود میں ایک چاند چمکے گا۔ 

کئی دنوں کی دل گرفتگی کے بعد آخر انگدس نے اپنا کاروبار سنبھالا۔ وہ معاشی طور پر تہی دست ہونے کا تھا۔ سا جھی اس سے جھگڑنے لگی تھی۔ وو کہتی اس موئے مجسمے کو بیچ کیوں نہیں دیتا جسے دیکھ کر اس کی چھاتی میں اگن ہونےلگتی ہے، منہ مانگے دا م ملیں گے۔ آخر میرے لال کو ڈھنگ کے ماں باپ کی ضرورت ہے کہ نہیں، نکھٹو ہوتا جارہا ہے۔ مورتی کے آگے پاؤں پسارے پڑا رہتا ہے۔

ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا، ساجھی ٹھیک ہی تو کہتی ہے۔ اسے اپنے کا آدرش باپ بھی تو بنتا ہے۔ 

دور شہر میں بین الاقوامی نمائش لگنے والی تھی۔ وہ تیاری میں مصروف ہو گیا۔ دن رات ایک کر دیے تھے۔ اس کی آرزو تھی کہ اسے بیرونی دنیا میں بھی صف اول فن کار گنا جائے۔ چنانچہ اپنی ساری مہارت صرف کر کے ایسے شاہ کار مجسمے بنائے جنھیں دیکھ کر شائقین دم بخودرہ گئے۔ نمائش میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اسے ایک عظیم فنکار تسلیم کر لیا گیا۔ وہ بے حد خوش تھا۔ ایک کثیر دولت سمیٹےوہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ 

ادھر ساجھی الگ خوش تھی۔ انگدس کو دیکھتے ہی بیٹے کو گود سے الگ کیا اور خلاف توقع شوہر کا بڑے پیار استقبال کیا۔ جانے کیوں وہ اس پرواری مجارہی تھی۔ انگدس کو اپنی طرف کھینچ کر بے حد مگن سے کہنے لگی۔

"دیکھ اتنے سارے پیسے، یہ تیرے مجسمے تجھے کیا دیں گے، میں نے لاکھوں میں دو ایک مجسمہ بیچ دیا ہے جو کسی سوتن کی طرح میری کوکھ کادرد بنا ہوا تھا۔ 

انگدس تھوڑی دم کے لیے چکرا گیا تھا۔ اس نے زور کا جھٹکا دے کر حقارت سے سا جھی کو الگ گیا۔ بے قراری کے عالم میں اس جگہ پہنچا، مجسمہ نہ پاکر اسے زبردست شاک لگا۔ سینہ میں شدید درد ہوا اور اس نے اسی وقت و م توڑ دیا۔

٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ 


کچھ سوالات افسانے سے پہلے:
  • تیرہویں صدی عیسوی کے دلائی لامہ پر نیپال کی شہزادی کو دیکھ کر کون سی کیفیت طاری ہوئی تھی؟
  • دلائی لامہ کون اور کیا ہوتے ہیں؟
  • بھکشو کنیاوں کے جسم کس مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں؟ انگدس انھیں دیکھ کر متاثر نہیں ہوتا، کیوں؟
  • انگدس ناستک تھا اور کیا وجہ تھی کہ اس کے شہر والے اسے پاگل سمجھتے تھے؟
  • تبت کا مذہب کیا ہے؟ ملک چین کا کوئی مذہب کیوں نہیں؟
  • چین سے لوگوں کو تبت کے علاقے میں کیوں اور کون بسا رہا تھا؟ بلکہ ایسا کہا جائے کہ بسا رہا ہے۔ 
  • چین اور تبت کے کیا معاملات ہیں؟
  • انگمو تبت کیوں نہیں چھوڑنا چاہتی تھی؟
  • انگدس کیوں تبت چھوڑنا چاہتا تھا؟ وہ دلائی لامہ کا حوالہ کیوں دیتا ہے؟ موجود دلائی لامہ کہاں ہے اور تبت میں کیوں نہیں؟
  • انگدس ہندوستان کیوں آیا؟
  • لاکھوں تبتیوں کا قتل عام کس نے کیا؟ وہاروں اور بدھ کی مورتیوں کو کس نے توڑا، مقدس کتابوں کو ٹائلٹ پیپر کس نے بنایا؟
  • تبت کا معاملہ کشمیر جیسا ہے فلسطین جیسا ہے یا کوئی تیسرا اینگل ہے؟
  • تبت 1912ء سے 1951ءتک ایک الگ ملک تھا،1951ء میں چین نے اس پر قبضہ کرکے اپنے میں شامل کر لیا۔ یہ کہانی 1922ء کے پہلے کی ہے یا 1951ء کے بعد کی؟

مندرجہ بالا سوالات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ احمد کلیم فیض پوری صاحب نے اس کے لیے زبردست تحقیق کی ہے۔ کہانی پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے ہمارے پاس ان سوالات کے جوابات ہونے چاہیے۔


کچھ سوالات افسانے کے بعد :

یہ اتنا سیدھا بھی نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔ یہ صرف رومانی کہانی نہیں جو نظر آرہی ہے۔ انگدس صرف مذہب بیزار نہیں۔ اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ ایک آنچ کی کمی تھی وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ آج کل افسانے پریشر کوکر میں پکائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ افسانہ مٹی کے برتن میں دھیمی آنچ پر بنایا گیا ہے۔ اب کچھ سوالات افسانہ پڑھنے کے بعد خود سے۔
  • انگدس کا مذہب بیزار ہوتے ہوئے مورتیاں بنانا صرف اتفاق ہے؟
  • کیا افسانے میں انگمو کے تبت نہ چھوڑنے کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں؟
  • انگدس بدھ کی مورتیاں بناتا ہے مگر اس کی پوجا کیوں نہیں کرتا؟
  • انگدس کے نزدیک انگمو کا مجسمہ صرف مجسمہ تھا یا کچھ اور
  • ہزاروں بدھ کی مورتیاں توڑی گئی وہار اجاڑے گئے لیکن انگدس کو ان سب سے کوئی مطلب کیوں نہیں تھا؟ کیا واقعی ایسا تھا؟
  • ساجھی کے نزدیک وہ مجسمہ صرف سوتن تھا؟
  • انگدس کے نزدیک وہ مجسمہ معشوقہ تھی یا دیوی؟
میں اس افسانے کے تعلق سے مسکراہٹ کے ساتھ ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کے کیڑوں کے ساتھ ہوں، میرے خیال سے اس افسانے پر تبصرے کے لیے چوبیس گھنٹے کم ہے۔ اچھا ہو آج چاند نظر آ جائے اور ہمیں اس پر سوچنے کے لیے اور زیادہ وقت مل جائے۔ کہانی پڑھتے ہوئے مجھے محبت کا احساس ہوا۔ افسانے میں محبت کی تین قسمیں بتائی گئی ہے۔ احمد کلیم فیض پوری صاحب کو اس خوبصورت، بے انتہا رومانی اور کامیاب افسانے کے لیے مبارکباد۔

٭٭٭

Post a Comment

0 Comments