سو لفظوں کی کہانی
✍ریحان کوثر
کچھ فاصلے پر واقع مومن پورہ کے ایک بریانی سینٹر سے دو دوست گفتگو کرتے باہر نکلے،
”یار صادق! آج نئی بات علم میں آئی تو لگا کہ ہماری علمیت کا جنازہ نکل گیا۔“
”مطلب!!“
”دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا، اس میں کُتّے سے مراد کَتا ہے۔ یعنی کپڑے دھونے کا ڈنڈا! اصل لفظ کتکہ تھا جو بگڑ کر کتا بن گیا۔“
تبھی وہاں کھڑا ایک آوارہ کتا ان دونوں پر بھڑک گیا اور دونوں کو بھنبھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔
٭٭٭
تبصرہ و تجزیہ
جمیل ارشد خان، کھامگاؤں:
بہت خوب ریحان بھائی۔ بہتعمدہ طنز۔ ہماری قوم کے ’باعلم' حضرات اسی طرح کی بے معنی بحثیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ باطل طاقتیں ہمارا مثلہ کرنے کی مضبوط منصوبہ بندی کرنے میں لگی ہوئی ہیں! کاش کہ اس مختصر افسانے سے یہ قوم کچھ سبق لے۔ بہترینافسانے کے لیے ہدیۂ تہنیت پیش کرتا ہوں۔
ظفر عابد، مالیگاوں:
بہت خوب! قوماسی میں غرق ہے۔
غیر۔۔۔ منظم طریقے سے سو سال بعد کے منظر میں رنگ بھرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
شیریں دلوی، ممبئی:
واہ کیا بات ہے، کَتا اورکُتا کی بحث کو آپ نے انجام تک پہنچا دیا۔ بین السطور میں موجود طنز لاجواب،
تبھی وہاں کھڑا ایک آوارہ کتا بھڑک گیا اور ان دونوں کو بھنبھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔
محمد سراج عظیم، دہلی:
واہ واہ کیا خوب بھنبھوڑا ہے۔ میرے خیال میں اگلی دو صدی تک دھوبی کے گھاٹ کوئی بھی کتا ڈھونڈنے نہیں جائے گا۔ بہترین طنز!
رحیم رضا، جلگاؤں:
خوب بہت خوب دھوبی کا کتا۔۔۔نہایت عمدہ طریقہ سے اس کہاوت کی وضاحت بھی ہوگئی اور جاندار، شاندار افسانچہ بھی۔ دلی مبارکباد!
0 Comments