Ticker

6/recent/ticker-posts

ترجمہ : قاصد ایک مطالعہ

قاصد

شہر کی جانب آنے والی شاہراہ پر ایک رتھ برق رفتاری سے چلا آرہا تھا۔ رتھ پر سمراٹ کا خصوص نیلا پرچم لہرارہا تھا۔ جس پر بڑے سے راج ہنس کی تصویر بنی ہوئی تھی ۔ دوار پال نے دور سے رتھ کو آتے ہوئے دیکھ لیا اور جلدی سے دروازے کا بڑا سا ارگل ہٹادیا ۔ ارگل کے ہٹاتے ہی شہر پناہ کے اس عظیم الشان دروازے کے دونوں پھانک لوہے کے بھاری پنکھوں کی مانند دھیرے دھیرے پیچھے کی جانب کھلتے چلے گئے ۔ شہر پناہ میں داخل ہوتے ہوئے بھی رتھ کی تیز رفتاری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ گھوڑے ہوا سے باتیں کررہے تھے اورنگی پخت رڑک پر سفید گھوڑوں کے ٹاپوں سے چنگاریاں کی چھوٹ رہی تھیں ۔ سڑک پر چلنے والے لوگ پہلے تو چونکے پھر پلٹ کر رتھ کو دیکھا اور خوف سے دائیں بائیں سمٹ گئے ۔ جوں ہی رتھ آگے بڑھا لوگوں کا ہجوم رتھ کے پیچھے دوڑنے لگا۔ ایک شہر کے وسط میں بڑے چوک پر جب رتھ پہنچا ساتھی نے یک بیک پوری قوت سے لگام لی۔ لگام کھینچتے ہی پارے کی مانند بے قرار کشادہ آنکھوں والے سفید گھوڑے ہنہناتے ہوئے اپنے پچھلے پیروں پر کھڑے ہو گئے ۔ ان کی کشتی ایالوں والی گردنیں سمندر کی بے چین موجوں کی مانندلی بھر کو اوپر اٹھ گئیں۔ برق آسا گھوڑے رک تو گئے مگر ان کی صبا رفتاری کا جوش ہنوز تمام نہیں ہوا تھا۔ پسینے سے شرابور ان کے جسم ابھی تک کانپ رہے 
چوک کے اطراف ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ ہر تھا رتھ سے قاصد کے اترنے کا چین سے انتظار کرنے لگا۔ چوک کی ایک جانب راج کمار کا سات پھٹانگوں والا عظیم الشان ملت داخلے کے بڑے دروازے پر دونوں جانب نہرے الکاروں سے بہتے چوڑے مستوں سواستک کے نشان والے کوہ تنہائی مستی میں ڈول رہے تھے۔ ان کے گلوں میں بندھی گننا ایک خاص نے کے ساتھ ٹنشن تک رہی تھیں۔ چاروں طرف ایسازبردست سناٹا تھا کہ اس بات میں ان گھنٹوں کی آواز کے سوا کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ راج کمار کے ملک سامنے راج پروہت کام تھا جس کا دروازہ اتنا بلند تھا کہ آٹھ آدی ایک دوسرے کے کاندھے پر سوار ہو کر اس سے آسانی کے ساتھ گذر سکتے تھے۔ سفید سنگ مرمر کی سیڑھیوں کا طویل سلسلہ اور یک چلا گیا تھا جہاں منقش ستونوں کے پاس دوکشو گیری رنگ کے لباس میں مورتیوں کی مانند ساکت کھڑے تھے۔ ان کی پشت پر مٹی کا بڑا گول چبوتر اخاموشی میں غرق تھا۔ جس کی چھت کے نے ایک جکشوپے کی مانند آہستہ آہستہ ایک طرف کو جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ شاہی قاصدان معمول کے برخلاف بڑی ہڑ بڑی میں رتھ سے اترا بھی اس کے خادموں نے زور زور سے قرما پھونکنا شروع کردیا۔ اس آواز سے جیسے خفتیل اچانک بیدار ہو گیا اور چاروں طرف سے انسانی شور سنائی دینے لگا۔ اس شور میں ہاتھیوں کی گھنٹوں کی مدھر آواز دب کر رہ گئی۔ کے وسیع و عرض آنگن میں سرخ پوش سپاہی دو رویہ قطاروں میں چاق و چوبند گردن جھکائے کھڑے ہو گئے ۔ راج کمار سنہرے رنگ کے زرق برق لباس میں انتہائی باوقار اور پر تمکنت انداز میں . سیڑھیاں اترنے لگا اورگل کے بڑے دروازے کے پاس آ کر رک گیا ۔ مٹھ میں بھی کیسری رنگ کی چادر میں لپٹے کو اکٹھا ہونے لگے۔ جنہیں دیکھ کر تا تازردرنگ کے پھولوں کی بکھری ہوئی پنکھڑیاں سمٹ کر پھولوں کی ایک مالا میں تبدیل ہورہی ہیں۔ راج پروہٹ و بیزری چادر اوڑھے آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگے۔ ان کی ایک جانب ایک جکشو جس کے سینے پر مقدس یکیہ کے شعلوں کا نشان تھا اپنے ہاتھ میں ایک عصاء لیے چل رہا تھا جس کا اوپری سرا کنول کے چھول سے مشابہ تھا۔ بی عصارانج پروہت کے وسیع اختیارات کی نشاندہی کرتا تھا۔ دوسرا یکنوان کے سر پر ریشی کیسری رنگ کی چھتری کھولے ان سے دو قدم پیچھے ادب سے چل رہا تھا۔ شاہی قاصد کویر دیکھ کر اندر سے فخر کا احساس ہوا کہ وہ اس ہجوم میں ہر خاص و عام کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا جی. ایے. کلکرنی کی کھانیاں ہے۔ اس کے معمر چہرے پر مسرت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ایک شان استغناء کے ساتھ ذرا سا آگے بڑھا اور اس نے راج کمار اور راج پروہت کے سامنے رسما تھوڑا سا جھک کر انہیں پرنام کیا۔ پھر ادب سے بولا”راجن! آج میں سمراٹ دھرم بھوشن کے خصوی اپنی کی حیثیت سے یہاں حاضر ہوا ہوں۔ سمراٹ شکار میں مصروف تھے کہ کنول جھیل کے کنارے سیلینور مندر کے پاس انہیں ایک عجیب و غریب بشارت ہوئی اور انہوں نے بر ملت اس خادم کو روانگی کا حکم دیا ساتھ ہی مجھے خصوصی ہدایت دی گئی ہے کہ مراٹ کا پیغام بنفس نفیس رعایا کے روبرو پیش کروں۔ سمراٹ شکار سے دستبردار ہو کر غور وفکر کی خاطر کسی نامعلوم گوشے میں روپوش ہو گئے ہیں۔ سمراٹ اس قدر عجلت میں تھے کہ انہوں نے شاہی پروانہ لکھنے اور اس پر اپنی مہر ثبت کرنے کی رسی کارروائی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مجھے زبانی پیغام دے کر روانہ کر دیا اور بی خادم متواتر دو روز سے سفر کرتا ہوا بغیر خواب و خور کے حاضر خدمت ہوا ہے۔ سمراٹ کام ہے کہ پیغام براہ راست رعایا کے روبرو پیش کیا جائے۔ ہر باعزت شہری کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ممکن ہو تو اس پیغام کوعملی جامہ پہنانے میں حکومت کی اعانت کرے۔ ملک و قوم کی سلامتی کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ اس شاہی فرمان پر فوری طور پر عمل کیا جانے سمراٹ کا حکم ہے کہ ................. چاروں طرف ایک اذیت ناک خاموشی چھا گئی غیرارادی طور پر راج کمار ایک قدم آگے بڑھا۔ مقدس پروہت نے ایک دوسرے میں اپنی اپنی انگلیوں کو آزاد کیا اور دوبارہ ایک دوسرے میں پھنسادیں۔ ہاتھیوں کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز دوبارہ گونجنے گی۔ دو سپاہیوں نے آن پر ہاتھ رکھ کر انہیں شانت کردیا۔
سمراٹ کا حکم ہے کہ حکم ہے کہ قاصد نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کی مگر یک بیک اس کا گلا رندھ گیا اور الفاظ جیسے اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور وہ بے حس و حرکت سامنے خلا میں گھورتا کھڑارہ گیا۔ کچھ پی اسی طرح گذر گئے۔ رعایا میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور راج کمار کی پیشانی پر اضطراب کی ایک مہین سی سلوٹ گھر کی۔ ریشمی لباس کے اندر پروہت کے ہاتھوں کی انگلیاں غیر ارادی طور پر اضطرابی کیفیت کے ساتھ اوپر نیچے حرکت کرنے لگیں۔ قاصد کے ہونٹ بے مقصد لرز رہے تھے۔ اس کے سر چہرے پر اندرونی کرب اور بے چارگی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ راج جی. اے. کلکرنی کی کھانیان کمار کے قریب کھڑے  منتری نے دبے لہجے میں قاصد کو ہشکارا.... یکا یک راج کمار قاصد کے قریب آیا اور مسکراتا ہوایولا
’’شری پیارا لگتا ہے لگاتارسفر نے آپ کو کافی تھکا دیا ہے۔ پھر فرض کی ادائیگی کی بھاری ذمہ داری نے بھی آپ کے اعصاب کو متاثر کیا ہوگا۔ لیکن آپ تردد نہ کریں۔ میں سمجھ گیا ہوں شاہی پیغام کیا ہو سکتا ہے؟ مہاراج مدت مدید سے ولی عہد کے مسئلے کو لے کر کافی فکر مند تھے۔ عالی انھوں نے اس عظیم ذمہ داری کے لیے مجھے منتخب کیا ہوگا۔“ 
معارج پروہت عصا بردار خادم کے ساتھ دو کشوں کی معیت میں آگے بڑھے۔ ان کے چہرے پر گہرے تفکر کے آثار تھے اور ہونٹ کی سے بنے ہوئے تھے۔ اس لیے ان کا چہرہ معمول سے زیادہ تا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ 
راجن!‘‘وہ راج کمار سے مخاطب ہوئے ممکن ہے آپ کا اندازہ درست ہو۔ مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ مہاراج ایک خداترس انسان ہیں۔ وہ ملک میں ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جونہی اصولوں پر قائم ہو۔ ایک ہفتهبل ہی مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس وقت وہ اسی فکر میں مبتلا تھے۔ میں نے انھیں یقین دلایا تھا کہ اگر ایسا موقع آگیا تو میں دھرم شان کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہوں۔ تب ان کے چہرے پر صرف قبلی اطمینان کی جھلک دکھائی دی بلکہ ان کی آنکھوں سے احسان مندی بھی ظاہر ہورہی تھی۔ لگتا ہے سمراٹ کو دھرم شاسن کی بشارت ہوگئی ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ قاصد کے ذریعے انھوں نے یہی پیغام بھیجا ہوگا ۔“ 
راج کمار نے نہایت ادب سے راج پروہت کی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا۔ 
حراج گرو اس میں شہد کی شہ برابر گنجائش نہیں کہ دھرم شان ایک مقدس اور اہم فریضہ  ہے۔ مگر بی فریضہ اسی وقت قابل عمل ہوسکتا ہے جب ریاست کا ولی عہد بھی منتخب ہو جائے۔ ایک  مضبوط حکومت کے بغیر آپ دھرم شاسن کا تصور کیسے کر سکتے ہیں؟ 
پروہت کے چوڑے ماتھے پختگی کی ایک ہلکی سی شکن تھری اور ڈوب گئی۔ ہونٹ کچھ زیادہ ہی تخت سے ایک دوسرے پر جم گئے مگر دوسرے ہی لیے انھوں نے اپنے اندرونی ابال پر قابو پایا اور نہایت عیاری سے بچے کوملائم بناتے ہوئے بولے جی. اہے. کلکرنی کی کھانیاں 
کس میں جرات ہے کہ آپ کی بات کو رد کرے۔ مگر سمراٹ ابھی برسراقتدار ہیں . ایشور انھیں سلامت رکھے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وراثت کا تصفیہ ہم ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔
قاصد پتھر کی مورت کی طرح بے حرکت کھڑا تھا۔ رفتا اس کے ہونٹ ہلے۔ وہ بھرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا۔ 
”خادم معافی چاہتا ہے۔ میری یادداشت یک لخت منجمد ہوگئی ہے۔ سمراٹ کا پیغام مجھے میکسر بھول گیا ہے۔ مگر میں یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ان کا پیغام ولی عہد سے مشتعل قطعی نہیں تھا۔ اس صورت میں فرمان نامہ شاہی مہر کے ساتھ جاری ہوتا اور سفید سفارتی پرچم پتلوار کا نشان ہوتا“
قاصد کے ان الفاظ کے ساتھ ہی راج کمار کے چہرے پرمردنی چھا گئی اور پروہت کے ہونٹ مزینچ گئے ۔ قاصد آ گے کہہ رہا تھا۔
”اور سمراٹ کا پیغام، دھرم شائن سے متعلق بھی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دھرم شاسن کا پیغام لانے والے سفیر کے پرچم پڑ کنڈل کا نشان ہوتا ہے۔ یہ دونوں سفیر سمراٹ کے ہمرکاب تھے۔ اس کے باوجود سمراٹ نے اس پیغام کے لیے میرا انتخاب کیا تھا۔ 
”راج دوت ممکن ہے اس طویل سفر نے آپ کو ہلکا ن کر دیا ہو تھکن دور ہو جانے پر آپ کی یادداشت روشن ہوجائے گی۔ لہذا ہماری مودبانه التماس ہے کہ آپ ہماری میزبانی قبول فرمائیں اور راج محل میں چل کر قدرے سستالیں ۔ ہم آپ کے شکر گذار ہوں گے۔ 
منتری نے راج کمار کی طرف نگاہ کرتے ہوئے تجویز بھی۔ راج کمار منتری کی اس حاضر دماغی پر دل ہی دل میں عش عش کرنے لگا۔ پھر اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر دو سپاہیوں کو اشارہ کیا اور بولا۔ 
متری بھی کی یہ تجویز انتہائی معقول ہے۔ اس پرفورا عمل کیا جائے۔ مجبور مقدس پروہت کوبھی بولنا پڑا۔ . 
ہم بھی انتہائی انکساری کے ساتھ اس تجویز کی تائید کرتے ہیں ۔ پھر وہ ایک چوڑے سپاٹ چہرے والے جکشو کی طرف مڑے اور بولے جھدران! ہم پربھی کچھ زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تم راج کمار کے شاہی مہمان خانے میں قاصد کے ساتھ جاؤ۔ شب و روز ان کی جی. ایے۔ کلکرنی کی کھانیاں خدمت میں رہ کر شاہی خدمت گاروں کی مدد کرو۔“ . 
بعد راند پروہت کے پہلو سے یوں نکلا جیسے ان کا سایہ ان سے جدا ہور ہا ہو۔ وہ نیے گلے قدم اٹھا تا امپچی کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ راج کمار کا چہرہ پروہت کی اس چال پر غصے اور ر شکست سے سرخ ہو گیا اور اس سے قبل کہ اس کی زبان سے کوئی ای دی بات نکلے منتری نے ہلکے سے اس کا ہاتھ دبا دیا۔ راج کمار کو مجبور پر ضبط کرنا پڑا۔ قاصد اب بھی سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ ایک خدمت گار نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے لیے ہوئے گل کی طرف پڑھا۔ بھدران پر چھائیں کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ 
عمل میں اپنی کو ایک نرم آرام دہ گدی پر بٹھایا گیا۔ بعد ران سامنے ایک گوشے میں اپنی چادر بچھا کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے گل کی دیواروں پر کندہ مورتیوں میں سے ایک مورتی ہو۔ قاصد کے تمام کے لیے معطر گرم پانی تیار کیا گیا غسل کے بعد ایک حسین دوشیزہ نے اس کے لیے ایک ملائم بستر تیار کیا اور دست بستہ اس کی خدمت میں کھڑی ہو گئی۔ پھر قاصد کے سامنے انواع و اقسام کے پرتکلف کھانے چنے گئے۔ راج کمار کے سخت احکامات تھے کہ قاصدکی خاطر مدارات میں کوئی کسرنرہنے پائے مگر ایسا لگ رہا تھا کسی نامعلوم صدمے سے ان کی ساری حیات مردہ ہوگئی ہیں۔ شام ہوئی۔ تاریکی پھیلی۔ جواہرات سے مزین چراغ روشن ہوئے ۔ پھر ان چراغوں کی رونی صبح کے اجالوں میں تحلیل ہوگئی مگر قاصد کی آنکھ تک جھکی۔ بعد رانندبھی برابر جاگ رہا تھا۔ ادھر راج کمارات برای خواب گاہ میں اضطراب کے عالم میں ٹہلتا رہا۔ وقفہ وقفہ سے خدمت گار قاصد کی کیفیت معلوم کرتے اور راج کمار کو پی پی کی خبر دیتے رہے۔ جب تک اپنی کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو راج کمار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بالآخرت کی پہلی کرن کے ساتھ ہی راج کمار اپنے منتری اور خدمت گاروں کے ساتھ قاصد کے سامنے آ وارد ہوا۔ 
اگر چندیوں کے اندر تھے وہ شانی پیام یا نہیں آیا تو میں خود اپنے ہاتھوں سے تیری گردن ماردوں گا۔ راج کمار غصے سے کانپتا ہوا بولا۔ ان الفاظ کے ساتھ ادھر بھدراند منجل کر بیٹھ گیا منتری موقع کی نزاکت کومجھتے ہوئے راج کمار سے مخاطب ہوا۔ 
راجن! برسرعام اپنے غضب کا اظہار کرنا شاہوں کو زیب نہیں دیتا۔ ناچیز کی درخواست ہے کہ ولی عہد سلطنت اپنے روایگل کو ہاتھ سے نہ جانے دیں“
لیکن منتری بیمارال ہے اور یہاں کی ہر شئے پر ہمارا اختیار ہے۔ 
”آپ بجا فرماتے ہیں کل آپ کا ہے مگر موقع کی نزاکت کا لحاظ بھی واجب ہے۔ منتری نے بھدران کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا ’’غالی وہ قول تو آپ کو یادہی ہوگا کہ غیر کے وجود سے خواب گاہ ، طوائف گھر میں بدل جاتی ہے اور اپنی اس زندہ کو مردہ کر دیتا ہے۔ میر تقی مشورہ ہے کہ اب قاصد سے میں بات اگلوانے کے لیے ہمیں کوئی دوسری ترکیب اختیار کرنی پڑے گی۔ جومسلمبر سے مل نہ ہوتا ہو وہ بعض اوقات جبر سے حل ہو جاتا ہے۔ آپ مجھے اپنی ترکیب استعمال کرنے کی اجازت دیکھے ‘‘ است 
راج کمار نے اثبات میں گردن ہلا دی اور منتری نے فورا ایک خدمت گار کو اشارہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سپاہی ایک طویل قامت قوي الشخص کے ساتھل میں داخل ہوا۔ وہ کھسر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں ملبوس تھا اور اس کے ہاتھ میں تین مختلفتم کے چمکدار اوزار تھے۔ سیاہ پوش کی آمد سے اس وسیع وعریض کمرے میں ایک مہیب ساریسا پھیل گیا۔ بعد رانندبھی ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ انا انا  اج دوت ! شانی پیام یقینا ولی عہد کے بارے میں ہے۔ اگر اتفاق سے اس وقت  آپ کی یادداشت آپ کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ 
منتری کا اہم سرد اور سفاک تھا۔ آپ کی کھوئی ہوئی یادداشت کی بازیابی کے لیے بندہ آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس شخص کو یہاں طلب کیا گیا ہے۔ یہ اپنے ہنر میں یکتا ہے۔ یہ انسان کے جسم سے اس کی کھال ایسے اتارتا ہے جیسے موز سے چھلکا اتارا جاتا ہے۔ ہم نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ آپ کو اپنے ہنر کا ادنی سا نمونہ دکھائے‘ 
چاروں طرف خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ لیکن قاصد اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا رہا جیسے ان سارے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو ۔ منتری نے لی بھر توقف کیا کہ شاید قاصدکی جانب سے کوئی ریل ہو پھر سیاہ پوش کی طرف مڑا اور اسے کچھ اشارہ کیا۔ سیاه پوش آہستہ آہستہ چلتا ہوا قاصد کے قریب پہنچا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی پشت پر سے اس کا پیرہن پاک کر دیا۔ قاصد کی پشت بے لباس ہوگئی۔ پھر اس نے ایک تیز اوزار سے اس کی پیٹھ پرایک مہینی خونی لکیرینی۔ راج دوت نے سسکاریی لی۔ پھر دوسرے ہی لیے سیاہ پوش نے چنگی سے پڑھ کر اس کی پیٹھ سے تیلی کے برابر کھال لی۔ قاصد پہلے تو نا قابل برداشت درد سے زی سانپ کی مانند یل کھانے لگا۔ پھر فرش پر گر کر تڑپنے لگا۔ راج کمار کے چہرے پر مایوسی کی جھلک کے ساتھ بری کے آثار بھی تھے تبھی قاصدتڑپ کر دوبارہ اٹھ بیٹھا اور کراہتا ہوا بولا۔ 
”مجھے یوں تڑپا تڑپا کر مارنے کی بجائے میری گردن اڑا دو۔ میں آپ کا احسان مند ہوؤں گا۔ یہی ہے کہ مجھے سمراٹ کا پیغام بھول گیا ہے مگر میں تم کھاتا ہوں کہ وہ پیغام ولی عہد سے تعلق قطعی نہیں تھا۔ 
راج کمار غصے سے بپھر گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر پوری قوت سے قاصد کے ایک ٹھوکر لگائی۔ قاصد دوہرا ہوکر ایک طرف کوڑھک گیا۔ 
اسے گل کے باہر کتوں کے آگے پھنکوا دو‘راج کمار نے طیش میں آکر حکم دیا اور منتری کے ساتھل میں ایک طرف کو چلا گیا۔ 
سیاه پوش نے قاصد کوئی غلیظ کپڑے کی طرح گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور باہر سڑک پر ڈال دیا۔ اس کے دھار دار ہتھیاروں پر قاصد کے خون کے نشانات تھے اس نے قاصد کے کپڑوں سے انہیں صاف کیا اور ایک سمت کو چل دیا۔ بعد راند قاصد کے قریب آیا۔ وہ بے حس وحرکت پڑا تھا مگر ابھی اس کا سانس چل رہا تھا۔ اس نے دو جھکشوؤں کو بلایا۔ انہوں نے قاصد کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور بڑی مشکل سے زینے چڑھتے ہوئے رانج پروہت کے سامنے حاضر ہوئے۔ بعذراندنے شروع سے آخر تک ساری رودادسنادی اور گویا ہوا۔ 
ہوسکتا ہے۔ مٹھ کی شان اور پاکیزہ فضا میں اس کی یادداشت واپس لوٹ آئے مگر میرا طریقہ کار جداگانہ ہے میل کا عیش و آرام اس سے جو بات اگلوانہیں سکا بھوک اور فاقہ اس سے گلوا سکتے ہیں۔ 
رانج پروہت کی اجازت پاتے ہی بجھد راند نے قاصد کو بھکشوؤں کی ایک تنگ و تاریک  کوٹری میں قید کردیا اور نزم سپاٹ لہجے میں بولا۔ 
میں سمجھتا ہوں آپ کے حق میں ہی بہتر ہوگا کہ آپ سمراٹ کے پیغام کو یاد کریں اور بتائیں کہ ہمارے ران پروہت کے متعلقی تھا۔ جب تک آپ کو پیغام یا نہیں آتا آپ خوردو نوش سے محروم رہیں گے۔ اگر آپ کی یادداشت بازیاب ہوئی تو آپ کی خدمت میں ایسے ایسے کھانے پیش کئے جائیں گے کہ شاہی دسترخوان بھی اس کے سامنے کچھ نظر آئے گا۔ ذرا در نظر  کیجئے۔ اس نئی کبوتر کے پروں پر دھوپ موجود ہے۔ نچ کنول کا پھول ہے۔ اگر آپ اپنی جان . کی سلامتی چاہتے ہیں تو اس سے قبل کہ دھوپ کنول کی پتیوں کو چھونے لگے سمراٹ کا بینام یادکر  کشوں کی اس تنگ و تاریک کوٹھری میں قاصد کی طرح بے حس و حرکت پڑارہا۔ اب اس کی آنکھوں میں ایسا خالی پن تھا کہ ان میں اس کی پیٹھ کے دہکتے جرم کا احساس تک فنا ہو گیا تھا۔ دھوپ سنگی کبوتر کے پروں پر سے رینگی ہاتھی کے مجھے کو چوستی ہزار پنکھڑیوں والے کنول کے پھول پر اتر آئی۔ کنول کے اپنی جھیل کا پانی لے جبر کو جھلملایا ۔ کنارے کے درختوں کے پتے پی بر کو سنہری ہو گئے اور دوسرے ہی لیے دھندلا گئے ۔ یہ سب ہو اگر قاصد کے چہرے کی بالقلقی جوں کی توں قائم رہی۔ اس کے ہونٹوں سے ایک لفظ تک ادا نہیں ہوا۔ بھدران کے غیر جذباتی چہرے پر بھی اب اضطراب اورغیض کے آثار دکھائی دینے لگے۔ وہ بولا۔ 
اب اسے نئے تہہ خانے میں ایذارسانی والے کمرے میں لے چلو۔“ 
جکشوں نے جب قاصد کو س نگ کوری سے باہر نکالا تب اس کا جسم بے حد لاغر ہو چکا تھا۔ چہرے کی ہڈیاں بھر آئی تھیں۔ وہ اسے مٹھ کے نچلے وسیع تہہ خانے میں لے آئے اور تہہ خانے کے وسط میں ایک چبوترے پر اسے لٹا دیا۔ پھر دونوں جھکشوؤں نے اس چبوترے میں گی زنجیروں سے اس کے ہاتھ پاؤں کس کر باندھ دیئے۔ قاصد نے دینے سے سانس لے کر آنکھیں کھول دیں اور دھیرے دھیرے چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ تیل میں بھیگی مشعلیں جل رہی تھیں جن کی کپکپاتی روشنی میں ایذا رسانی کے عجیب وغریب اوزاروں کی پر چھائیاں کالی چڑیلوں کی مانند قص کر رہی تھیں ۔ چبوترے کے عین اوپر تانے کا ایک رخ ہنڈولا آویزاں تھا۔ ہنڈولے کے گرد ایک دائرہ نما آہنی چکری میں آگ کی تھی منھی زبانیں لپی رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی قاصد اپنی پشت کے رقم کی تکلیف بھی بھول گیا اور ڈوبتے لہجے میں بولا ۔ 
”دھرم گرو! میں نہیں جانتا کہ آپ میرے ساتھ اب کیا سلوک کرنے والے ہیں لیکن میری درخواست ہے کہ میرے لیے ایسی سزا تجویز کریں کہ فی الفور میری موت واقع ہوجائے ۔ اب مزید اذیت جھیلنے کی میرے جسم میں سکت نہیں ہے۔“ 
بھدران خاموش رہا۔ تھوڑی دیر میں وہ چیکشو وا پیں آ گیا ہے کچھ دریبل بعد رانندنے کسی کو بلانے بھیجا تھا۔ جکشو کے چھے پیچھے سیاہ لباس میں ملبوں وہی سیاه پوش چوزے کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ 
”دیکھو! راج دوت کو سب سے پہلے اس درفنی چراغ کے تجربے سے آشنا کرای کبھی بھی سفاکی سے پہنچائی جانے والی شدید ضرب سے زیادہ ہلکی نزم چوٹ زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اس رونی ہنڈولے کو اس وقت تک روشن رکھا جائے جب تک راج دوت کی یادداشت و ایں نہیں آجاتی۔“ 
اس کے اشارے پر سیاہ پوش زینہ چڑھ کر اوپر پہنچا اور اس نے اپنی چکری میں روشن لوؤں کو تیز کر دیا۔ آگ کی لپلپاتی زبانیں بلند ہوئیں اور تانے کے ہنڈولے کو چاٹنے لگیں۔ نیچے ایذا رسانی کے اس دی کمرے میں کیسری چادریں اوڑ ھے جنکو اکٹھا ہونے لگے اور اپنی اپنی سانسیں رو کے اس منظر کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں تانے کا ہنڈولا تپ کرلہورنگ ہوگیا۔ تب سیاہ پوش نے اس ہنڈولے کے پیندے میں نے بار یک سوراخ پر لگے ننھے سے ڈھکن کو ہٹا دیا۔ کھولتے تیل کا ایک گول موٹا سا شفاف قطرہ تیزی سے نیچے چپکا اور قاصد کے ننگے بدن پرگرا۔ جوں ہی قطرہ جلد سے مس ہوا اس کے بدن پراندر سے بلبلے کی مانند ایک موٹا سے آبلہ نمودار ہو گیا اور اردگرد کی جلد گھلس کر سیاہ پڑ گئی ۔ نا قابل بیان درد سے قاصد سر سے پاؤں تک بیٹھ کر رہ گیا اور ایک دلدوز چیخ اس کے پھٹے ہوئے گلے سے برآمد ہوئی 
اسی طرح وقفہ وقفہ سے ایک ایک قطرہ ٹپکاتے رہو۔‘ بھر رانندنے سرد لہجے میں سیاہ وں کو ہدایت دی۔ 
نہیں .... نہیں.... میری گردن مار دو۔ ایشور کے لیے مجھ پر اتنی دیا کرو تاصد وقفہ وقفہ سے مزید دو چارقطرے قاصد کے بدن پر ٹیکے اور وہ ہر قطرے پرزمی سانپ کی طرح بل کھا کر رہ گیا۔
بولو اسمراٹ کا پیغام دھرم گرو کے تعلق ہی تھانا ؟ بھدران نے بے حد ملائم لہجے میں  پوچھا۔ ا ن  ہیں مجھے اس وقت بھی کچھ یاد نہیں آرہا ہے۔ قاصد نے ڈوبتی شکست آواز میں کہا۔ 
گروہ پیغام دھرم شاسن کے بارے میں نہیں تھا۔ 
خودراج پروہت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قریب آکر کھڑے پورا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ 
ان کی آمد کی کسی کوخیرنہیں ہوئی۔ انہوں نے مایوسی سے گردن ہلائی اور بولے۔ 
بھدران! اس غلیظ سور کو شمشان میں پھنکوا دو ورنہ خواگواہ اس کی ہتیا کا پاپ ہمارے سرآئے گا۔“ 
بھدران نے اثبات میں گردن ہلائی۔ راج پروہت واپس لوٹ گئے۔ 
بھدرا نند نے پروہت کی ہدایت کو خاموشی سے مان تو لیا مگر اس کا چہرہ کرخت ہوگیا 
تھا۔ اسے وہ زلیل طوائف یادآئی جسے ری معلوم تھا کہ راج پروہت کا ایک ناجائز بیٹا کہاں پرورش پارہا ہے۔ اس کی بوٹی بوٹی الگ کر دی گئی مگر اس نے اپنی زبان نہیں کھولی تھی۔ اس کے بعد بعد راند کی یہ دوسری بڑی ناکامی تھی۔ اس کے مطابق ابھی ایسی ایذائیں باقی تھیں کہ اس کمینے قاصد کو زبان کھولنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ یہ سیاہ پڑی بڑی صفائی سے گرم سلاخ کو حلق میں کھسیڑنے کا فن جانتا تھا یا پھر ایک ہاتھ کو باندھ کر اس پر خون چوسنے والی جنگیں چھوڑی جاسکتی تھیں۔ میترکیب بعض اوقات بڑی کارآمد ثابت ہوئی تھی۔ یا ضرورت پڑنے پر اس کے جسم کے پر گوشت حصوں میں کھوکھلی میخیں ٹھونک کر ان میں سوزش پیدا کرنے والا ترش زہریلا مادہ بھرا جا سکتا تھا۔ یہ پوچھئے تو اسے اس وقت رانج پروہت کا آنا اور ان کا اس طرح قاصد کو شمشان میں پتنگوانے کا حکم دینا اچھا نہیں لگا تھا۔ اس نے دیکھا کہ راجہ پروہت کی آمد کی خبر د ینے کا کام جس جھکشو کے سپرد تھا وہ خوف کے مارے ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی بعد رانند کے غصے کی انتہا نہ رہی ۔ اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اپنے فرض سے لاپرواہی برتنے کے جرم میں اس جکش کو تین پر سانپ گھر میں قید رکھا جائے اور ساتھ ہی کرخت آواز میں گر جا اور اسے شمشان میں چیک دو‘‘اور غصے سے مڑ کر باہر نکل گیا۔ 
سانپ گھر کا نام سنتے ہی دوسرے کو بے اختیار ہنے لگے کسی نو وارد کشو کو اس کی کسی خطا پر سانپ گھر میں بند کر دیا جاتا تھا۔ سارے سانپ غیر زہریلے ہوتے تھے مگر نو وار بکواس بات سے لاعلم ہوتا اور جب سانپ اس کے جسم پر رینگنے لگتے تو خوف اور دہشت سے اس کی مضحکہ خیز حرکتیں دیکھ دیکھ کر باقی کبکشی سے بے حال ہو جاتے۔ پھر وہ ایک دوسرے کو بتاتے کہ کسی طرح صرف خوف اور دہشت سے دو جھکشوؤں کی موت واقع ہوگئی تھی اور ان کے مرزده جسموں کے نیچے تین سبز رنگ کے بے ضررسانپ چلے گئے تھے۔ 
بھدران کے جاتے ہی وہ سارے بھکشو استہزائیہ انداز میں ہنستے کلکار نے اس خوف زدہ بھکشو کے گرد جمع ہو گئے ۔ دوکشوں نے بڑی بے دردی سے قاصد کو اٹھایا اور اسے شمشان میں لے جا کر پھینک دیا۔ پھر پیچھے پلٹ کر دیکھے بغیرٹھ میں واپس آگئے کہ مبادا سانپ گھر میں ہونے والے دلیپ تماشے سے محروم نہ رہ جائیں۔
قاصدکا جسم تقریباسرد ہو چکا تھا۔ شمشان کے نگفرش کے تخت س کی وجہ سے اس کے ہونٹوں سے ہلکی کراہ نکلی مگر بعد میں وہ دیر تک بے حس و حرکت پڑارہا۔ شمشان کے چاروں طرف گھنے درخت تھے اور پورے شمشان میں میں بھی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شمشان پر گہری خاموشی طاری تھی۔ کبھی بھی کسی کیڑے کی کر کر یا کسی پرندے کی چہکار سے اس گہری خاموشی کی چادر پر جیسے چھینٹے سے پڑ جاتے ۔ تھوڑی دیر بعد قاصد نے آنکھیں کھولیں۔ اسے محسوس ہورہا تھا وہ شکستہ جسم اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ بہت گہرے ہیں دیگا سہاسا بیٹا ہے۔ اس کے ننگے پیروں پر کچھ کیڑے مکوڑے رینگنے لگے۔ مگر اپنے پیروں کو ہلانے تک کی اس میں سکت باقی نہیں تھی ۔ تھوڑی دیر بعدگھاس پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر کوئی اس پر جھکا اسے گردن کے پیچھے سے سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے ہونٹوں سے ایک پیالہ لگا دیا۔ پیالے میں کسی قسم کا گرم مشروب تھا۔ اس گرم مشروب کا ایک گھونٹ حلق سے نیچے اترتے ہی اسے اپنے مردہ بدن میں کچھ جانی پڑتی محسوس ہوئی۔ مگر دوسرے ہی لیے درد کا احساس بھی شدید ہو گیا۔ اس نے ضبط کرتے ہوئے ڈک رک کر کہا۔ 
اب تم مجھے کونی ...از بیت دینا چاہتے ہو؟“ 
اس شخص نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ نہایت احتیاط سے اسے اٹھا کر بٹھا دیا اور اس کے 
زخموں سے پورجسم پر ایک دبیز ملائم چادر ڈال دی۔
میں تمہیں کوئی اذیت دینانہیں چاہتا۔ اس نے شہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ 
اس شمشان کی بغل میں میری کیا ہے۔ میں تمہیں وہیں لے جانے کے لیے آیا ہوں ۔ وہیں تم بے خوف ہوکر آرام کر سکتے ہو۔ وہاں گل اور مٹھ کا سا آرام تو میسر نہیں ہے مگر وہاں روئی کی خاطر کسی کو ازیت بھی جھیلی نہیں پڑتی۔ 
گل اور مٹی کا نام سنتے ہی دوت کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ بولا۔ 
تم کوئی بے حد رم دل انسان معلوم ہوتے ہو مگر اب کافی دیر ہو چکی ہے۔ تمہاری رم دلی اب مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اگر تم مجھے اپنے گھر لے بھی گئے تو تھوڑی دیر بعد دوبارہ ہیں لانا پڑے گا۔ اس لیے کیا میرا نہیں پڑا رہنا مناسب نہیں؟ اب میرا جسم ہلنے ڈلنے سے بھی قاصر ہے۔ میرے جسم کوغور سے دیکھو۔ پشت پر جہاں سے کھال ادھیڑی گئی ہے اگر ہوا کا معمولی جھونکا بھی چھو جاتا ہے تو پورے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھنے گئی ہیں اور ادھر دیکھو جسم پر جو بلے ہیں ان میں تو جیسے انگارے بھرے ہوئے ہیں‘
حراج دوت إمیں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے تمام باتوں کاعلم ہے۔
اس لیے تڑ گئے گنوارخص نے کہا شاید تم نے مجھے پہچان نہیں۔ میں وہی سیاہ پوش ہوں جس نے تمہاری پیٹھ کی کھال ادھیڑی تھی ۔ تمہارے جسم پر کھولتے تیل کے قطرے ٹپکائے تھے۔ میں ڈوم ہوں اور یہ سب میرے فرائض میں شامل ہے۔ مگر اب میں اپنا سیاہ لباس اتار چکا ہوں۔ اب میں آزاد ہوں۔ لہذا مجھ پر اعتماد کرو اور میرے ساتھ چلو اس کے الفاظ سے قاصد کو ایسا لگا جیسے اس پر بجلی گری ہو۔ رگ و پے میں چھائی ہوئی ہے کسی اچانک کھلنے گی اور دل و دماغ پر مسلط غبار چھٹنے لگا بہت اندر ہیں جو زندگی کی ایک ننھی سی رمقی رہ گئی تھی وہ تیز ہونے گی اور یک یک اندر سے جیسے اس کا پورا وجود روشن ہو گیا۔ قاصد نے مضطربانہ انداز میں اس کا ہاتھ تھام لیا اور بے تابی سے بولا۔
’’ڈوم ! سمراٹ کا پیغام اب سورج کی روشنی کی طرح میرے ذہن میں صاف ہو گیا ہے۔ اب اس پیغام کو تیرے سامنے بیان کرنا میرے لیے ناگزیر ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اب میں اپنے چہرے پر موت کی سرد سانسیں محسوس کر رہا ہوں ۔شاید قدرت کو ہی منظور تھا کہ مراٹ کاوہ پیام تیرے سامنے بیان کیا جائے ۔‘
یہ میرے لیے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے۔ تم اطمینان سے مجھے وہ پیغام سنا سکتے ہو‘‘ڈوم نے انکساری سے کہا۔ 
" مجھے نہیں معلوم یہ پیغام تمہارے لیے کتنا خوش کن ہوسکتا ہے مگر اس پیغام کے الفاظ بہت اہم اور ہولناک ہیں۔ میری بات کو دھیان سے سنو!‘‘ 
قاصد کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ اگر تم اس پیغام پر عمل کرنے سے قاصر رہے تو ہیں موت کی سزا دی جاسکتی ہے ۔ سمراٹ اپنے علم غیب سے ہر بات کو جان جاتا ہے۔ اگر یہ سوچ کر کہ کوئی اور اس پیغام سے واقف نہیں تم نے بے توجہی برتی یا اس پیغام میں ایک لفظ کا بھی ردوبدل کیا تو شدید اذیتیں پھیلو گے اگر اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کا حوصلہ ہو تو پیغام سنو۔ ورنہ کی اور کو بلا لا و جے میں یہ پیغام سنا سکوں مگر جو بھی کرنا ہے جلدی کرو۔ میرا آخری وقت نکلاجا رہا ہے۔ 
تم بے فکر رہو۔ میں عظیم کالیکا کی سوگند کھا کر اقرار کرتا ہوں کہ جب تک میری جان میں جان ہے میں سمراٹ کے مقدس پیغام پر لفظ بلفظ مل کروں گا “ ۔ 
و پر غور سے سنو اسمراٹ کا پیغام ایک ڈوم کے بارے میں ہی ہے۔ اس ڈوم کا نام کال مکھ ہے۔ سمراٹ کو شیلشور مندر میں بشارت ہوئی تھی کہ کالے کو تین دن کے اندر اندر موت کی سزا نہ دی گئی تو پورے ملک پر زبردست آفتیں نازل ہوں گی۔ ملک پریم کا حملہ ہو گا۔ 
بے گناہوں کا قتل عام ہو گا اور خون کی ندیاں بہیں گی۔ یہاں تک کہ خود سمراٹ بھی موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں گے۔ سمراٹ نے فی الفور مجھے یہ پیغام دے کر روانہ کیا تھا کہ کالکھ کی کھال کھینچ کر تمام رعایا کے سامنے اسے کھولتے تیل کے کڑھاو میں ڈال دیا جائے۔ آج سورج غروب ہونے سے قبل اس پرعمل ہونا لازم ہے کیوں کہ بشارت کے مطابق آج تیسرا اور آخری دن ہے۔ اب یہ پیغام جوں کا توں رعایا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ یاد رکھو اگر اس میں رتی جبر کوتاہی ہوگی تو خودتمہاری کھال کھینچی جائے گی اور تم کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں ڈبو کر مار ڈالے جاؤ گئے کال مکے کا نام اچھی طرح ذہن نشین کرلو ڈوم ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ وہ آنکھیں پھاڑے قاصد کے لیلی سرد ہوتے جسم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ قاصد اپنی ساری قوت کو آنکھوں میں سمیٹے پوچھ رہا تھا۔ 
”بولو!ال کھ کا نام بھول تو نہیں جاؤگے؟ 
نہیں ....... میں اس نام کو کیسے بھول سکتا ہوں راج دوت! کیوں کہ میں ہی اس بستی کا اکیلا ڑوم ہوں اور میرا نام کال مکھ ہے ۔‘‘ڈوم نے نجرائی ہوئی آواز میں کہا۔ قاصد نے بے یقینی 
سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں بہت گہرے ہیں جگنو سے چھکے۔ لے جھر کو چراغوں کی لویں تھرتھرائیں اور دوسرے ہی لیے اس کی آنکھیں ویران ہو گئیں ۔ چہرہ تاریک ہو گیا۔ اس کی کھوپڑی اور چہرے کی ہڈیاں دھیرے دھیرے اس طرح نمایاں ہونے لگیں جیسے زمین سے آہستہ آہستہ کوئی کونپل پھوٹ رہی ہو۔ 


ترجمہ : قاصد ایک مطالعہ
کتھا کار : جی اے کلکرنی سر
مترجم : سلام بن رزاق
گفتگو: ریحان کوثر

بچوں کی دنیا کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا۔ ادارے نے خصوصی طور پر ملک کے چند معروف اور مقبول قلم کاروں سے بچوں کی نفسیات کے مطابق کہانیاں منگوائی۔ اس شمارے میں سلام صاحب کی ایک کہانی بھی شامل تھی۔ پھوپھی، بھتیجے اور ایک خوبصورت اور دلکش کاجل کی ڈبی کی یہ کہانی میرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی ہے۔ اسی لیے میں جب بھی بچوں کے لیے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں اس کہانی اور اس کی بنت اور اس کے بیانیے کو یاد کرتا ہوں۔ اکثر ادب عالیہ اور ادب اطفال کی بحث میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ادب اطفال بھی ادب عالیہ ہی ہے۔ میرے خیال سے اول الذکر وہ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی ایک مکمل اور معیاری افسانہ ہی تھا۔ یعنی ادب عالیہ والوں کے لیے افسانہ اور ادب اطفال والوں کے لیے بچوں کے لیے خوبصورت کہانی۔ اساتذہ کا یہی تو کمال ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سکھاتے ہیں۔ سلام صاحب کا یہ ترجمہ یہاں پیش کیا جانا بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ مترجم ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ترجمہ نگاری کے تمام تر خصوصیات کے لحاظ رکھتے ہوئے اسے پیش کیا جائے۔ورنہ کچھ لوگ اصل افسانہ نگار کے کاندھوں پر جھول کر بیتال کی طرح کہانی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
پہلی بات تو میں ایک ادنیٰ، عام اور بالکل معمولی سا قاری ہوں۔ دوسری بات میرے لیے تنقید و تبصرے تو بہت دور کی بات تھی اور اب یہ افسانوی ترجمہ سامنے ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس پر کس طرح اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن مجھے اتنا تو احساس ہے کہ ہمارے سامنے جو ترجمہ کیا گیا افسانہ ہے اس پر ہی بات کی جانی چاہیے۔ میرے خیال سے ہم یہاں اس بات کا مشاہدہ کرنے تو ہرگز نہیں بیٹھے ہیں کہ مترجم نے ٹھیک سے ترجمہ کیا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ اگر ہمارا مقصد یہ ہے تو ہمیں مراٹھی زبان کا اصل افسانہ بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ یعنی ہمیں مراٹھی اور اردو کی یکساں طور پر مہارت چاہیے ہوگی۔ ٹھیک ہے پیش نظر افسانے پر ہم یہ اٹھا پٹک کر لیں لیکن کیا ایسے ہی ہر زبان سے ترجمہ شدہ افسانے کو دیکھا یا پرکھا جائے گا؟ کیا یہ ٹھیک طریقہ ہے؟ بالکل نہیں! اس تحریر کے مطالعے کا میرا صاف اور سیدھا مقصد یہ ہے کہ میں کچھ سیکھ سکوں۔ مترجم صرف ترجمہ نہیں کرتا بلکہ وہ مصنف کی شخصیت، اس کے نظریات و افکار اور اسلوب سے خود کو پوری طرح جوڑ کر اپنے الفاظ اور جملوں کو پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔“
میں اس نظریے کا قائل ہوں اور صرف اس دریچے کے ارد گرد ہی اپنی بات رکھنے کی کوشش کروں گا۔

Post a Comment

0 Comments