Ticker

6/recent/ticker-posts

غبارے والا (محمد سراج عظیم)

غبارے والا

محمد سراج عظیم

تعارف:
اگر چہ محمد سراج عظیم صاحب کی خاص پہچان ادبِ اطفال ہے لیکن وہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے ادبِ کے فروغ کی خاطر آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے سکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مذکورہ سوسائٹی کے ہی توسط سے انھوں نے ادب اطفال پر نیشنل، انٹر نیشنل سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا ہے۔
ان کے والد محترم پروفیسر حنیف کیفی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صدر شبعہء اردو کے مقام پر فائز تھے اور ایک نقاد و شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ چونکہ سراج عظیم صاحب کا لیدر کا بزنس تھا اس لیے انہیں اسی سلسلے میں گلف اور یورپ کے اسفار کا بھی تجربہ رہا ہے۔
ادب اطفال پر اب تک ان کی چار کتابیں منظرِ عام پر پر آکر داد وصول کر چکی ہیں۔ ان کی مزید کچھ کتابیں مستقبل قریب میں شائع ہونے والی ہیں۔ جن میں افسانوں اور افسانچوں کا مجموعہ ’’ٹرانزیشن(عبور)‘‘ بھی شامل ہے۔ ان کی تصنیف ’’دادا بیتی‘‘ پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی اور دہلی اردو اکیڈمی نے ایوارڈز سے نوازا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی انگریزی کے شعرا کی نظموں پر لکھی گئی بچوں کہانیاں بہت پسند کی گئیں ہیں۔
محمد علیم اسماعیل
٭٭٭

جب میں چار پانچ سال کا تھا تب سے امّی کے ساتھ بازار جایا کرتا تھا۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ گھر میں تین نفوس کے علاوہ کوئی او رنہیں تھا۔ پاپا صبح دفتر جاتے شام میں چھ سات بجے واپس آتے۔ چونکہ گھر میں ان کے علاوہ اور کوئی بڑا نہیں تھا اس لیے گھر باہر کا سارا کام امّی کے سپرد تھا۔ میرے چھوٹے ہونے کی وجہ سے امّی مجھے اکیلا چھوڑ کر جا نہیں سکتی تھیں اس لیے جہاں جاتیں مجھے ساتھ لے کر جاتیں۔
امّی کے ساتھ میں بازار جا تاتو چوراہے سے تھوڑا آگے سڑک کے کنارے پیپل کے پیڑ کے نیچے ایک غبارے والا کھڑاملتا۔ پیپل کے سامنے ہی پنساری کی بڑی سی دکان تھی جہاں ساری اشیائے خوردنی ملتی تھیں۔ امی اکثر اس بڑی سی دکان سے گھر کا سامان خریدنے اس کے اندر چلی جاتیں اور میں باہرآ کر کھڑا ہوجاتا، بازار کا سارا نظارہ کرتارہتا۔
غبارے والا ادھیڑ عمر کا آدی تھا۔ میں نے ہمیشہ اس کو صاف ستھرے کپڑے پہنے دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور اطمینان جھلکتا ہوتا تھا۔ اس کے سامنے بچوں کی بھیڑ رہتی اور اس کے غبارے خوب بکتے۔ وہ منہ میں سیٹی لے کر بڑے دلفریب انداز میں بجاتا اور سریلی آواز میں کہتا 'غبارے والا'۔ اس کی سیٹی اور غبارے والا کی آوازنے اس کو منفرد پہچان دے دی تھی کہ بچے، مردوزن، بوڑھے جوان یک لخت چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوجاتے۔
وہ پیپل کے نیچےغبارے لیے کھڑا رہتا۔ اس نے بانس کا ایک ٹھونٹا لیا ہوا تھا جو قدآور تھا۔ بانس کے اگلے حصے میں گھاس پھونس کی بہت موٹی تہہ کولوہے کے باریک تاروں سے لپیٹا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کوئی موسل ہو جس سے دھان کوٹے جاتے ہیں۔ اس گھاس میں سرکنڈے کی پہلی ڈنڈی سے بندھے رنگ برنگے غبارے ٹھوس دیتا جو ایک خوش رنگ چھتری نما لگتے تھے۔ مجھے چھتری نما غبارے بہت اچھے لگتے۔ غبارے والے کی سریلی آواز اور سیٹی کا مخصوص انداز کانوں کو بڑا بھلا لگتا تھا۔
اس کے علاوہ غبارے والے کی سائیکل جو پیپل کے تنے سے سٹی ہوئی کھڑی ہوتی تھی، اس پر سفید رنگ کا سلینڈر جس میں ٹونٹی لگی تھی، وہ اس سے غباروں میں گیس بھرتا، انہیں ایک لمے دھاگے سے گانٹھ لگا کر ہینڈل سے باندھ دیتا جو ہوا میں ادھر ادھر اڑتے رہتے۔ جب کوئی بھی گیس والا غبار خریدتا تو وہ اس کا دھاگہ اس کی انگلی میں باندھ دیتا اور کوئی بچہ ضد کرتاتو وہ ڈور اس کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ اس میں بھی ایسا ہوتا کہ بچہ بے خیالی میں ڈور چھوڑ دیتا اور غبارہ ہوا میں اڑ جاتا۔ یہ اچانک ہوتا اور بچہ آنکھوں میں آنسو لیے حسرت سے اوپر اڑ جانے والے غبارے کو دیکھتا رہ جاتا۔ مجھے آسمان میں اڑتے ہوئے غبارے بہت اچھے لگتے تھے۔ میں ان کو آسمان میں اڑتے ہوئے اس وقت تک دیکھتا رہتا جب تک وہ آنکھ سے اوجھل نہ ہوجاتے۔
میں نے غبارے والے سے کبھی غبارے خریدے تو نہیں البته دکان سے باہر نکل کر جب میں باہر آجاتا تو غبارے والے اور رنگ برنگے غباروں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ غبارے والا بھی مجھے اکثر و بیشتر مسکرا کر دیکھتا تھا۔ وہ پیپل کے نیچے کھڑے ہوئے مجھے بلاتا:
"لو بابوغبارہ چاہئے۔ آؤ دیکھو کتنے خوبصورت غبارے ہیں۔ آو بابو لو غبارہ لو۔"
میں غبارے والے کے ان باتوں سے شرما جاتا اور بھاگ کر دکان میں امی کے پاس چلا جاتا اور ان کے پیروں میں لپیٹ کر ان کے دامن میں منہ چھپالیتا۔ امی مجھ سے پوچھتیں، "کیا ہوا بیٹا؟" میں کچھ نہ بولتا اور امی کے ساتھ دکان سے باہر آجاتا۔
ایک دن میں امی کے ساتھ سامان خریدنے پنساری کی دکان پر پیدل جا رہا تھا۔ اس دن غبارےوالا بھی اپنے غبارے میچ کر گھر جا رہا تھا۔ اچانک سیٹی کی آواز اور پھر 'غبارے والا' کی سریلی آواز آئی۔ دیکھا تو وہی غبارے والا سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے بھی ہمیں دیکھ لیا۔ وہ ہماری جانب چلا آیا اور امی سے بولا:”بی بی جی، بابو بہت بھولے اور شرمیلے ہیں۔ ہم جب بھی ان کو غبارہ دینے کے لیے بلاتے ہیں یہ آپ کے پاس بھاگ جاتے ہیں۔" امی کو اس دن میرے ان کے پیروں میں لپٹے اور دامن میں منہ چھپانے کے بارے میں معلوم ہوا۔
"اوہ ہو! یہ بات تھی۔ یہ تم سے شرما کر ہمارے پیروں میں لپیٹ جاتے تھے۔" امی نے غبارے والے سے کہا۔
"جی بی بی جی!" اس نے جواب دیا ”بی بی جی، آپ کے بابو کی طرح ہمارا بھی بیٹا ہے اور دو لڑکیاں ہیں۔ ہمارے تینوں بچے انگلش اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بی بی جی ہمارا ایک ہی سپینا ہے۔ ہمارے بچے پڑھ لکھ کر بڑے عہدوں پر پہنچ جائیں بھگوان نے ہمیں ان کے بھاگ سے اچھا دیا ہے۔ اس نے ہمارے غباروں میں خوب برکت دی ہے۔ ہمارے غبارے صبح سے شام تک ڈھیروں بکتے ہیں۔"
غبارے والا پتہ نہیں کیوں امی سے اتنی اپنائیت سے سب کچھ بتا رہا تھا۔ شاید اس کو اپنی کم مائیگی کا احساس تھا اور اس نے اپنے ارادوں کے مطابق جو قدم اٹھائے تھے ان پر فخر بھی تھا۔ یہ اس کی آواز کے مدوجزر سے عیاں تھا۔
میرا بچین کب سے پیچھے چھوٹ گیا، کب لڑکپن کی دہلیز کو پار کرلیا، جوانی کے تلاطم میں کتنی دور نکل گیا۔ وقت تیزی سے ماضی کے آسمان میں غبارے والے کے غباروں کی طرح اڑ گیا کہ اس کے نشان بھی محال ہو گئے۔ رہ گئیں تو ماضی کے آسمان کو گھورتی ہوئی یادوں کی آنکھیں۔
میں نے اپنی پڑھائی مکمل کر لی تھی اور سائنٹسٹ کے طور پر بہت اچھی نوکری بھی مل گئی تھی۔ پاپا ریٹائر ہو گئے تھے۔ ان کے کالے بالوں کی جگہ چمکتی چاندی نے لے لی تھی۔ چہرے پر عمر کے بھاگتے نقوش ابھر آئے تھے۔ میں امی اور پاپا کو اپنے ساتھ لینے کے لیے آیا ہوا تھا۔ امی اور پاپا اپنا شہر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ دونوں اپنے گزرے ہوئے وقت اور ماضی کی باتیں بالکل اس طرح کرتے جیسے کوئی بچہ اپنے رنگین غبارے سے کھیلتا ہو اور اس کی آنکھوں کی چمک اس غبارے کے خوش رنگ ہونے کا پتہ دیتی ہو۔ بڑی مشکل سے امی اور پاپا میرے ساتھ نئے شہر میں رہنے کو تیار ہوئے تھے۔ جانے سے پہلے امی نے پاپا کے دوستوں اور سارے رشتے داروں کی دعوت کی تھی۔ اس کے لیے سامان کی خریداری میں لگی ہوئی تھیں۔
وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ کر بازار پیپل کے پیڑ کے سامنے پنساری کی دکان سے سامان لینے گئیں۔ میں ان کے ساتھ بازار پہنچا تو سب کچھ نئے زمانے کے ساتھ نیا اور چمک دمک والا ہو گیا تھا۔ پنساری کی پرانی دکان نے نئے زمانے کا شوروم کا لباس اختیار کر لیا تھا۔ لالہ جہاں گدی پر بیٹھتا تھا، وہاں شوکیس کے پیچھے ریوالونگ کرسی پر اس کا بیٹا بیٹھا تھا اور سر پر لالہ کی بڑی تصویر جس پر گیندے کا ہار پڑا تھا، وہ آویزاں تھی۔ پیپل کے تنے کے چاروں طرف ایک چبوترہ بن گیا تھا اور پیپل کا تنا سفید چونے سے پتا ہوا تھا۔ امی پنساری کے شوروم میں چلی گئیں اور میں بچین کی عادت کے مطابق باہر کار میں بیٹھا رہا۔
اچانک میرے کانوں میں ایک سیٹی کی آواز گونجی اس کے بعد'غبارے والا' کی پر ارتعاش آواز آئی اور میں تیزی سے وقت کی دراز میں لانگھتا ہوا بچین میں پہنچ گیا۔ سامنے سے غبارے والا آرہا تھا۔ اس کی چال میں لنگ اور پژمردگی تھی۔ چہرے پرگزرے وقت کی مہیب پرچھائیں تھی۔ آنکھوں میں گم گشتہ منزل کی مایوس سیاہی دکھ رہی تھی۔ وہ میری کارکے آگے سے نکل گیا۔ میرے دل میں یکلخت ہمدردی کے جذبات ابھرے۔ میں کار سے اتر کر اس کے پیچھے چل دیا۔ میں نے اس کو آواز دی 'بابا؟' وہ ٹھٹھک کر رک گیا اور پیچھے مڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔
”بابا، مجھے پہچانانہیں؟ میں وہ چھوٹا بایوجو پنساری کی دکان پر اپنی امی کے ساتھ آتا تھا۔" میں نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں بابو جی، ظالم وقت نے سب کچھ بھلا دیا۔ اب تو زندگی کو دھکیل رہے ہیں۔" اس نے آنکھوں سے خلا کی وسعتوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد اس کی کہانی بہت دردناک تھی۔ جس غبارے والے نے دنیا کو خوش رنگ غبارے اس لیے بانٹے تھے کہ ایک دن اس کے رنگ اس کی زندگی کو رنگین کر دیں گے و گیس کے غبارے کی طرح چھلا وہ ثابت ہوئے جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر آسمان کی اونچائیوں میں مدغم ہو گئے۔ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اور ان بچوں نے اپنے اسٹیٹس کی چمک میں ایک حقیر غبارے والے کو غبارہ کی طرح وقت کے تھپیڑوں میں ڈولنے کے لیے چھوڑ دیا۔ میں نے اپنی جیب سے ایک سو کا نوٹ نکالا اور اس کے بے جان ہاتھوں میں تھما دیا۔ وہ مٹھی میں نوٹ دبائے خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ میں اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ شاید وہ اپنے وقت کو دھکہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کی سائیکل تھی نہ اس بانس کے ٹھونٹھ میں چھتری نما غبارے۔ سب تتر بتر تھے۔ وہ سائیکل کے بیڈل سے بندھا وہ غبارہ تھا جو ناکام کوششوں میں آسمان کی وسعتوں پر پہنچنے کے لیے زور لگا رہا تھا۔
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ

ریحان کوثر:
نہ یہ بزم سپریم کورٹ ہے نہ ہی یہ افسانہ ایودھیا رام جنم بھومی بابری مسجد کا کوئی مسئلہ! اور رنجن گوگوئی تو میں بالکل بھی نہیں۔۔۔ نہ مجھے راجیہ سبھا جانا ہے کہ میں کسی ’اور‘ کے سکھائے، سمجھائے اور متاثر کن فیصلے کو پڑھوں! ویسے بھی تجزیہ اور تبصرہ میرے نزدیک فیصلہ سنانا نہیں ہے۔ میں یک سطری تجزیے اور تبصرے کے مخالفین میں سے بھی نہیں بشرطیکہ وہ سطر ’فیصلہ‘ نہیں ہونا چاہیے۔۔!
سراج عظیم صاحب کا افسانہ غبارے والا مجھے پسند آیا۔ اس میں مختلف طبقات کے تین خاندان کے جنریشن گیپ کی نشاندھی کی گئی ہے۔ ایک راوی، دوسرا پنساری کی دکان کے لالہ جی اور تیسرے غبارے والے، ان تینوں گھرانوں کی دو نسلوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ راوی ماں سے لپٹ کر اس دامن میں منہ چھپاتا ہے اور جب بڑا ہو کر ایک سائنس دان بن جاتا ہے تب بھی اسے اپنے والدین کے پیروں اور ماں کے دامن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ضد کرتا ہے۔ لالہ جی کا بیٹا اپنے باپ کے کاروبار کو نئے رنگ و روپ میں آگئے بڑھاتا ہے۔ لیکن اس کہانی کے مرکزی کردار غبارے والے کے خواب کے دھاگے ہاتھ سے چھوٹ چکے ہیں اور غباروں کی طرح آسمان کی بلندیاں پا کر آسمان میں ہی کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ تبدیلیاں زندگی کی فطرت میں شامل ہیں لیکن یہ مختلف، منفی اور مثبت پہلوؤں کے حامل بھی ہوتی ہیں یہ بھی بتایا گیا ہے۔
افسانے میں غباروں کو بڑے ہی سلیقے سے استعمال کر کے مختلف جذبات کو ابھارا گیا ہے۔ راوی کو چھتری نما غبارے جو دراصل بہت سارے غباروں کا اجتماع ہوتا ہے وہ پسند ہے، شاید اس طرح کی چھتری سبھی کو کم و بیش پسند ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح بے خیالی میں بچوں کے ہاتھوں سے غبارے کا دھاگا چھوٹ جانے پر وہ بچہ رونے لگتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو غباروں کی بلندیاں دکھائی دیتی ہیں۔ راوی کو ایسے غبارے دیکھنا پسند ہے یعنی دھاگے کے چھوٹنے کا درد اور آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی خوشیاں دونوں مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا ہے۔ افسانہ اس جملے پر ختم کیا گیا ہے،
”سائیکل کے ہینڈل سے بندھا وہ غبارہ تھا جو ناکام کوششوں میں آسمان کی وسعتوں پر پہنچنے کے لیے زور لگا رہا تھا۔“
سیدھے سادے اسلوب اور ویسے ہی پلاٹ پر یہ کہانی بنی گئی ہے جس میں ایک غریب باپ کے ہاتھوں سے اسی کے بچوں کے دھاگے چھوٹ گئے اور بلندیاں حاصل کرنے کے بعد وہ بے درد سماج میں گم ہوگئے۔ کسی نے کہا ہے کہ
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
کمینے جب عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
جہاں تک غبارے والے کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، یعنی تین بچے تھے، تینوں نے منہ موڑ لیا کچھ لوگوں کو یہ غیر فطری نظر آ سکتا ہے لیکن موجودہ صورت حال میں تقریباً روز ایسی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ کچھ روز قبل یہ سنا کہ ایک غیر مسلم کی میت کو کورونا کے ڈر کے سبب بستی کے کسی ہندؤں نے کاندھا نہیں دیا تب کچھ مسلم نوجوانوں نے اس کے بیٹے کے ساتھ آخری رسم ادا کی لیکن کل کی ہی خبر ہے کہ بیٹے بیٹیوں سمیت گھر کے تمام لوگوں نے میت کے قریب آنا تک گوارہ نہ کیا۔ اس میت کی آخری رسم بھی کچھ مسلم نوجوانوں نے ہی ادا کی۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقت اتنی دردناک ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمیں غیر فطری نظر آتی ہے۔ یہ بھی غیر فطری ہے کہ بچوں کے ادیب کی ہر تخلیق بچکانہ ہی ہو، دراصل ایسی سوچ ہی بچکانہ ہے۔ محمد سراج عظیم کو اس صاف ستھرے افسانے کے لیے مبارکباد۔ یہ افسانہ میری نظر میں مکمل اور کامیاب ہے۔

آخری بات!
سراج عظیم صاحب کا گناہ عظیم یہ ہے کہ ان کے افسانے میں بچوں اور بچپن کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے انھیں بار بار یاد دلایا جا رہا ہے کہ 'محترم آپ بچوں کے ادیب ہو!‘ویسے اگر خدانخواستہ میں کبھی راجیہ سبھا پہنچ گیا تو عصمت چغتائی کا افسانہ ’لحاف‘ ادب اطفال میں شامل کروانے کا پرائیویٹ بل پیش ضرور کروں گا۔۔۔!!
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments