بون سائی
ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل
تعارف:
ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل عصر حاضر کے ایک کامیاب نثر نگار ہیں۔ آپ کے حیطہ اظہار میں افسانہ کے ساتھ ساتھ تحقیق، طنز و مزاح اور ترجمہ نگاری شامل ہے تاہم بنیادی طور پر آپ افسانہ نگار ہیں۔ آپ کے افسانے اور دیگر نثر پارے ہند و پاک کے موقر ادبی رسائل و جرائد میں شامل اشاعت رہے ہیں، جن میں ذہن جدید، آج کل، شاعر،نیا ورق، ایوان اردو، معارف، چہار سو (پاکستان )، پیش رفت اور شگوفہ اہم ہے۔ آپ کی کل چھے کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں تحقیق پر چار، بچوں کی کہانیوں پر ایک اور ایک افسانوی مجموعہ بہ عنوان 'لیمپ پوسٹ کی حکایت' شامل ہے۔ آپ نے فارسی اور مراٹھی ادب سے کئی افسانوں اور نظموں کو اردو کے قالب ڈھالا ہے۔ نیز خود آپ کی چند کہانیاں بھی انگریزی اور ہندی زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل شریمتی کیشر بائی لاہوٹی مہاودیالیہ، امراوتی (مہاراشٹر) میں بطور اسوسی ایٹ پروفیسر اور صدر شعبہء فارسی اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سنگ میل (ناگپور)، بلٹز (ممبئی) اور ریڈینس (دہلی) وغیرہ کے لیے' کارٹون' بھی بنائے لیکن ملازمت کے بعد کارٹون کشی ترک کردی۔
انعام و اعزاز:
مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی ممبئی کا نیو ٹیلینٹ ایوارڈ براے نثر
زیر نظر افسانہ 'بون سائی' گزشتہ برس معروف ادبی رسالہ 'سب رس' میں شایع ہوا تھا۔
سید اسماعیل گوہر
٭٭٭
مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔پھر بون۔سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون۔سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔
’’پھر بون۔ سائی کہنا چاہیے، بون۔سائی پودا یا درخت نہیں؟‘ ‘
’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔ ‘‘اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔
پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی بیکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔
پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی۔ وہ تنہا تھی۔ عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں تاخیر ہوجاتی تو میں اس کا انتظار کرتا۔ پڑھنے والے مجھے ہمیشہ مرغوب رہے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے اپنی دوستی، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ شام میں بنگلے سے کلاسیکل موسیقی کی بھی آواز آتی۔
اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکاہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔
’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔
’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔
’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘
مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپسآجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔
نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔
’’کمرمیں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔
’’ہوں۔۔۔۔‘‘
’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔
’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘
’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا۔‘‘
سالوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!
’’اچھا پرکاش، بون۔ سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘
’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘
’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون۔سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘
’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔
’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔
رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔
’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘
اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصے سے چاے بھی نہیں پلائی تھی۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ مہمانوں کی آمد سے انھیں خوشی ہوتی تھی۔ بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔
پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون۔سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’بون۔سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘
’’جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاںکاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘
’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘
’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘
’’دو سے تین سال بعد بون۔سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘
’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘
وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون۔سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں۔ Informal Upright میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔ Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون۔ سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘
’’شوق سے…‘‘
میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:
’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر
لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘
وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔
’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعر ہے!‘‘ میں بولا۔
’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘
’’کیا سمجھے؟‘‘
’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔
آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔
پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون۔سائی تحفے میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا۔ میں نے اسےمومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون۔سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔
اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون۔سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون۔سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون۔ سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔
میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘
’’نہیں، تو رو مت۔‘‘
’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔
میں نے اس کے آنسو پونچھے اور بیساختہ بون۔سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون۔سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھانیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔
یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل صاحب کا آبائی وطن ناگپور ہے لیکن ودربھ کے علاقے برار کے شہر امراوتی میں مقیم ہیں۔ میرے اچھے دوست ہیں۔ تعارف میں جس واحد اعزاز کا ذکر کیا گیا ہے اتفاق سے میری پہلی ملاقات مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی کے اسی تقریب میں ہوئی تھی جہاں انھیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ موصوف کا افسانوی مجموعہ بہ عنوان ’لیمپ پوسٹ کی حکایت‘ میں نے پڑھا ہے اس مجموعے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی ساری مشمولات میں صرف اور صرف ’افسانے‘ ہی ہیں۔ یہ کتاب مجھے ڈاکٹر مدحت الاختر صاحب کے توسط سے حاصل ہوئی تھی۔ موصوف کے افسانوں میں علامتیں اکثر کرداروں پر حاوی نظر آتی ہیں اس لیے مجھے ان کے افسانے بے حد پسند ہے۔ اس لیے میں یہاں افسانے کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا ویسے بھی ڈاکٹر شہروز خاور نے اپنے باریک بینی سے کیے گئے تبصرے میں ان کی نشاندھی بخوبی کی ہے اور شہروز بھی میرے اچھے دوست ہیں اور میں ان سے متفق ہوں۔
ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل صاحب کے وہ افسانے جو مجموعے کے بعد آپ نے لکھے، انھیں بھی میں نے پڑھا ہے لیکن بزم افسانہ کا شکریہ کہ یہ افسانہ اسی بزم میں پڑھنا نصیب ہوا۔ ودربھ کا علاقہ سیاسی، معاشی اور ادبی لحاظ سے ہندوستان کی ’بون سائی‘ ریاست ہے، اسے بون سائی بنانے کے لیے کچھ اپنوں نے کچھ غیروں نے محنتیں کیں، اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ دی گئی۔ جڑیں بھی کم کی گئی اور پھر مہاراشٹر کے اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ اس کی غیر ضروری سمجھیں گئی شاخوں اور پتوں کو وقت وقت پر کاٹا گیا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ’ادب‘ نے بھی اس علاقے کو بون سائی بنا رکھا ہے۔ ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل صاحب نے گویا یہاں افسانہ نہیں اتھلے گملے سے نکال کر ’ودربھ‘ کو اس بزم کی زمین میں لگا دیا ہے۔ موصوف نے افسانے میں شہر امراوتی اور ناگپور کا ذکر کر کے میرے جیسے ودربھ واسیوں کو تھوڑا سا سکون اور مسکرانے کی وجہ دے دی ہے۔ 1954 میں کرشن چندر نے افسانہ ’ناگپور‘ لکھا تھا، لیکن وہ افسانہ بھی افسانوں میں بون سائی ثابت ہوا، شاید اس کا عنوان اسے لے ڈوبا۔ زیادہ تر ہندوستانیوں کا گمان یہی ہے کہ ناگپور میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہیڈکوارٹر کے علاؤہ اور کچھ نہیں!
جہاں تک اس افسانے کی عنوان پر بات کی جائے تو یہ عنوان ایکدم سٹیک ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس عنوان سے عنوان پر بے مطلب کی بحث سے ’نجات‘ مل گئی ہے۔ کہانی میں افسانہ ڈھونڈنے والے اور افسانے میں کہانی ڈھونڈنے والے دونوں بھی اس افسانے سے مطمئن ہوں گے۔ موثر بیانیے اور بہتر زبان کی بھی موجودگی ہے۔ کلائمکس اس میں کلائمکس جیسا ہے۔ ہاں آخری پیراگراف مجھے بھی زائد محسوس ہوا، لیکن میرے جیسے کم فہم کے لیے تھوڑی وضاحت میں قباحت نہیں۔
اس افسانے میں تین اہم کردار ہیں۔ راوی، مہتاب اور پرکاش۔ راوی نے اپنے کردار کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ایک افسانہ بزم میں پیش کیا گیا تھا جس میں راوی کی عمر پر انگلیاں اٹھائیس گئی تھی، لیکن یہاں موصوف نے یہ موقع بھی چھین لیا ہے۔ مہتاب کا کردار فطری ہے۔ اس کی ماں پیاری پھوپھی کے اللہ کو پیاری ہو جانے پر اس کے بھائی اور بھابھی بھی شاید بون سائی ہو گئے ہیں۔ لیکن پرکاش کا کردار عمدگی سے تراشا گیا ہے۔ نیم اور نمبولیوں کے ساتھ دو بھائی اور ایک بہن کے کردار بھی آخر میں رونما ہوتے ہیں۔ میرے جیسے قاری کو حیرت تب ہوتی ہے جب بہن یہ دو باتیں بولتی ہیں،
’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘
’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘
اور یہیں سے افسانہ کھلنا شروع ہوتا ہے۔
اسی طرح کہانی کے اس حصے میں جہاں کچھ قارئین کو شاید بوریت محسوس ہوئی ہے، مزید بون سائی کرداروں کو بیان کیا گیا ہے جو ہمارے اطراف موجود ہیں۔ دیکھیں،
’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے،یہ سیدھے تنے والا بون۔سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں۔ Informal Upright میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔ Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون۔ سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
مصنف نے کردار نگاری کے ساتھ ساتھ سماج کے ایک ٹکڑے کو جنگل سے تشبیہ دی ہے۔ ایسے بہت سے جنگل ہمارے آس پاس موجود ہیں اور کچھ جنگلوں میں ہم بھی بون سائی بنے کھڑے ہیں۔
افسانے کے درمیان میں راوی پرکاش سے دو اہم سوال کرتا ہے،
’’بون۔سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘
’’اس کی کھاد اسپیشل ہوتی ہے؟‘‘
ان کے جواب پرکاش نے افسانے میں بخوبی دیا ہے اس جواب سے استفادہ کرنے سے ہم بون سائی بننے سے بچ سکتے ہیں۔ کل ہی کسی نے (بد قسمتی سے میرے پاس ان کا نمبر نام کے ساتھ محفوظ نہیں) کہا تھا،
افسوس ہوتا ہے جب افسانے کو ہم افسانہ تبھی قبول کرنے لگے ہیں جب اس میں ٹریجڈی ہو یا انسانی اور قومی درد، غم و تکالیف کی باتیں ہو، بیماری، دکھ، اضطراب، ذہنی پریشانی اور موت کا ذِکر ہو، غربت اور استحصال کا قصہ ہو۔ خود سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ کیا ہمارے پاس انسانی زندگی میں ان سب کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے؟
کیا ہی اچھا ہو کہ ان میں ہوں بچوں کی کھلکھلاہٹ، ماں کے درد کے ساتھ اس کی خوشی اور مسکراہٹ، باپ کی شفقت، بھائی بہن کے پیار بھرے لڑائی جھگڑے، پیار کرنے والوں کی قُربت، فنکار کے فن کی باتیں، ظالم دشمنوں اور استحصال پر فتح، انسانی ترقی کا ذِکر، غربت سے اُوپر اُٹھنے اور انسانی ترقی کے قصّے۔ یہ کہانیاں ہوں جیت، قُربانی اور دوسروں کی مدد کرنے سے حاصل خوشی اور طمانیت کی۔ ایسا ہو کے پڑھنے کے بعد قاری کُچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر محسوس کرے کے دنیا میں اب بھی کُچھ بگڑا نہیں ہے اور اُمیدیں باقی ہیں۔
میرے خیال میں اب ضرورت ہے اس بزم کو ایک ہلکا سا موڑ دینے کی۔
اس افسانے کو بزم میں پیش کر کے حقیقت میں ایک ہلکا سا موڑ دے دیا گیا ہے۔ اوپر کہی گئیں ساری باتیں تو اس ایک افسانے میں نہیں لیکن اس افسانے میں امیدیں باقی ہیں۔ افسانہ نگار ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل صاحب کو اس کامیاب اور خوبصورت افسانے کے لیے مبارکباد
اور ہاں افسانے کے اخیر میں روایت سے ہٹ کر ایک سر سبز و شاداب درخت کی ایموجی بھی نظر آئی، اس کے لیے ایڈمن پینل کا شکریہ!
٭٭٭
0 Comments