خوبصورت جھوٹ
ملکیت سنگھ مچھانا
تعارف:
بٹھنڈا پنجاب سے اردو دوست ملکیت سنگھ مچھانا پنجابی کے مشہور اور اردو کے جانے مانے افسانہ نگار ہیں۔ پنجابی زبان میں آپ کے افسانے اور مختلف نوعیت کے مضامین کثیر تعداد میں شایع ہوچکے ہیں۔ سن 2017 کے بعد اردو افسانہ کی طرف راغب ہوئے اور اب تک کئی افسانے تحریر کر چکے ہیں نیز چند ادبی مضامین بھی آپ کے قلم سے نکلے۔ آپ کی تحریریں اردو کے مشہور اخبارات کے ساتھ ساتھ آج کل، چہار سو پاکستان، زبان و ادب، انشا اور تریاق جیسے موقر رسائل اور جرائد میں بھی شایع ہو چکی ہیں۔ ہر چند کہ موصوف کا سفرِ افسانہ قدر مختصر ہے لیکن اردو سیکھنے کا دورانیہ خاصہ طویل رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ محترم ملکیت سنگھ مچھانا نے اردو کسی استاد سے یا اسکول جا کر نہیں سیکھی، آپ کا استاد ریڈیو ہے۔ موصوف 1970 سے متواتر ریڈیو پر اردو کے پروگرام سن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈیو ہی سے میں نے اردو سیکھی اور یہی میرا بہترین استاد ہے۔ محکمہ بجلی پنجاب میں 35 برس سے زائد خدمات انجام دینے کے بعد پچھلے برس جنوری میں سبکدوش ہو چکے ہیں۔
زیر نظر افسانہ ممکنا طور پر ان کے آنے والے پہلے افسانوی مجموعے میں شامل ہوگا۔
محمد علیم اسماعیل
٭٭٭
قریب قریب دو سال کے بعد آج میں اپنے کھیتوں کا چکرّ لگانے آیا تھا۔ بیساکھی آنے والی تھی۔ موسم ِگرما کی ابتدا ہو چکی تھی۔ گیہوں کی فصل تقریباً تیار تھی۔ اس کی سنہری بالیاں دیکھ کر منحوش ہو رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ انھیں اپنی با ہوں میں لے لوں۔
کھیتوں سے بچھڑنے کا غم مجھے عمر بھر ستاتا رہا۔
آج اکیسویں صدی میں پنجاب پہلے جیسا نہیں رہا۔۔۔آج یہاں کا کسان صبح سویرے نہیں جاگتا۔۔۔نہ ہی کہیں کوئی بیلوں سے کھیتی ہوتی ہے۔۔۔ جیسا کہ پنجابی ادب کے مشہور و معروف شاعر میاں وارث شاہ نے اپنی تخلیق داستانِہیررانجھہ میں ایک جگہ بیان کیا ہے۔۔۔
'چڑی چوکدی نا ل جاتُرے پاندھی، پئیاں دُدھ دے وِچ مدھانیاںنی،
اِک اٹھ کے ہلیں تیار ہوئے، اِک دھونڈ دے فِرن پرانیاں نی۔‘‘
مطلب صبح صادق چڑیا کی چیں چیں کی آواز کے ساتھ ہی مسافر چل پڑے ہیں اور کچھ کسانوں نے ہل جوتنے کی تیاری کر لی ہے اور کچھ ابھی تیاری کر رہے ہیں۔
آج یہاں قدرتی کھیتی نہیں ہوتی۔ ہر فصل کھاد اور کیڑے مار دواؤں سے اٹی پڑی ہے۔ کل کھیتی باڑی یوپی اور بہار سے ہجرت کر کے آنے والے مزدوروں پر انحصار کرتی ہے جن کو یہاں کے لوگ ’بھئیا‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ پنجاب کے نوجوانوں پرتو بیرونی ممالک جا نے کا جنون سوار ہے۔۔۔ اور بیچارے وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔۔۔کوئی اچھا کاروبار یا نوکری وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ افسردہ رہتے ہیں۔۔۔ زمین تو نسل در نسل تقسیم ہونے کے سبب ز یادہ تر کسانوں کا حصہ نام نہاد یا پھر بہت کم رہ گیا ہے۔۔۔ اس لیے اپنے اچھے مستقبل کے لیے وہ بیرون ملک کو پرواز کر رہے ہیں۔
میرا دل ابھی پوری طرح بھرا نہیں تھا۔۔۔ جی چاہتا تھا کہ ابھی کچھ دیر اور ان کھیتوں میں گزاروں پر دوپہرہوگئی تھی اور بھوک بھی خوب چمک اٹھی تھی۔ گھر آیا تو دیکھا جگدیش نے کھا نا تیار کر لیا تھا اور وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ ماں اوردادی ماں کو کھا نا پہلے دے اور مجھے بعد میں۔ ماں جس نے ریڑھ کی ہڈّی پر ضرب آ نے کی وجہ سے، دس روز قبل چار پائی پکڑ لی تھی۔
دادی ماں جو نو دہاکے پورے کر نے جار ہی تھیتقریباًنابینا ہو نے کے سبب پہلے ہی چارپائی پرتھی۔ نوکری بھی کیا دلکش چیز ہے۔۔۔
آدمی کو کہاں سے کہاں لے جا کرپٹخ دیتی ہے۔ دو سال قبل پر موشن ہو نے کے سبب بینک میں میرا تبادلہ گھر سے دور ممبئی میں ہو گیا تھا۔
وہاں کام کی وجہ سے مصروف رہا اور گاؤں لوٹنے کا کوئی موقع ہی میسر نہ ہوا۔ اب ماں کے بیمار ہونے پر میں اکیلا ہی گاؤں آیا تھا۔۔۔
بیوی بچّے پیچھے ممبئی میں ہی تھے۔ چار پانچ دن اسپتال میں رہنا پڑا۔ ڈاکٹر نے ماں کو چھ مہینے کا آرام تجویز کیا تھا اور کوئی بھی کام کر نے سے منع کیا تھا۔۔۔اس لیے میں نے ماں اور دادی ماں دونوں کی خدمت کے لیے گاؤں میں سے ایک جان پہچان والے دلّت خاندان کے جگدیش نام کے ایک لڑ کے کو مامور کر دیا۔ اس نے پہلے کبھی کسی ہوٹل میں کام کیا تھا اس لیے وہ کھانا بہت لذیذ بناتا تھا۔ میں اپنی کھانے کی تھالی لے کر دادی ماں کی پائنتی جا بیٹھا جو مزے لے لے کر کھا نا کھا رہی تھی۔
’’کیوں دادی ماں کھانا کیسا بنا ہے ؟‘‘ میں نے لقمہ مونہہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک دمبڑھیا‘‘ دادی ماں نے کھانے کا لطف لیتے ہوئے جواب دیا۔
’’چلو آپ کو پسند ہے تو مانو سب کو پسند ہے‘‘ میں نے مطمئن ہو تے ہوئے کہا۔
’’پر بیٹا ایک بات تو بتا۔۔۔یہ ر سو ئیا تو نے کہاں سے پکڑا ہے؟‘‘ دادی ماں نے سوال کیا۔
’’ہونہہ۔۔۔پکڑنا کہاں سے ہے دادی ماں۔۔۔ اپنے ہی گاؤں کا ہے ‘‘میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اپنے گاؤں سے ؟دادی ماں کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔
’’جی بالکل۔۔۔ اپنے گاؤں سے‘‘
’’ تو پھر کس خاندان کا لڑکا ہے یہ ؟دادی ماں نے یکا یک سوال کیا۔
لقمہ میرے مونہہ میں اٹک گیا تھا۔ سامنے چار پائی پر بیٹھی میری ماں نے منفی میں انگلی ہلا دی جس کا مطلب تھا کہ دادی ماں کو مت بتا نا کہ یہ لڑکا کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ تیسپینتیس سال قبل کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ تب میں سات آٹھ برس کا تھا۔ ہمارا کھیتی باڑی کا پیشہ تھا۔ اس کام میں دلّت خاندان کے متعدد کارندے ہمارے گھر کام کرتے تھے۔ ان میں سے دو تین تو سالانہ معاہدے پر مامور تھے۔۔۔ باقی کام ز یا دہ ہونے کے سبب بر وقت بلا لیے جاتے تھے۔ ان سب کو دو وقت کا کھانا دینا بھی ہمارے ذمے تھا۔ کھانے کے برتن وہ اپنے گھر سے لے کر آتے تھے اورکھانا لیتے وقت وہ نیچے زمین پر بیٹھتے تھے۔ صبح کے وقت میری ماں یا پھر دادی ماں انھیں روٹی پکڑا تی کیوں کہ میں اسکول چلا جاتا مگر شام کے وقت اکثر و بیشتر اس کام پر میری ڈیوٹی لگتی تھی۔دادی ماں کا حکم ہوتا تھا کہ انھیں روٹی دیتے وقت میں اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ سے اونچا رکھوں۔۔۔ روٹیذرا اوپر سے ہی ان کے ہاتھ پر پھینک دوں۔۔۔ کہیں میرا ہاتھ ان کے ہاتھ سے نہ چھو جائے اور ایسے ہی اپنا دال سبزی والا برتن بھی ان کے لمس سے بچا کے رکھوں اور تھوڑا اوپر سے ہی ان کے برتن میں دال یا سبزی انڈیل دوں۔ علاوہ ازیں ہمیں ان کے گھروں کی طرف جانے کی ممانعت ہوتی تھی۔ ان کے بچوں سے بھی دور رہنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ جب کبھی جانے انجانے میں میرا ہاتھ یا پاؤں ان لوگوں کو چھو لیتا تو دادی ماں بہت غصے ہو تی۔۔۔کبھی کبھی مار بھی پڑتی تھی۔ مجھے’ اچھوت‘۔قرار دیا جاتا۔۔۔ پھر مجھے ’پارس‘ بنا نے کے لیے اچھی طرح مل مل کر نہلا یا جاتا۔ میرے کپڑے تبدیل کیے جا تے۔ اتارے ہوئے کپڑوں کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈالا جا تا۔ ایسا حال ہی میرا برتن ان کے برتن سے چھو نے پر ہو تا تھا۔ پھر دادی ماں اس ’پلید برتن‘ کو پہلے آگ میں ڈالتی پھر لسّی اور خاک سے باری باری اچھی طرح مانجھتی۔ بے شک میں اس وقت بچّہ تھا پر مجھے ان لوگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے پر حیرت ہوتی تھی۔
اس وقت دادی ماں کو کون سمجھاتا کہ یہ اکیسویں صدی ہے اس صدی میں زمانہ یکسر بدل چکا ہے۔ ہندوستانی آئین کی نظر میں سب برابر ہیں۔ یہاں رنگ و نسل اور مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر کسی سے کوئی تعصب نہیں رکھا جا سکتا۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ان دلّت لوگوں کی ہر طرح سے امداد کی جا رہی ہے۔۔۔ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا ملازمت فراہم کرنی ہو۔۔۔ ہر جگہ اِن لوگوں کے لیے سیٹیںریزرو کی جاتی ہیں۔
’’تو نے میری بات کا جواب نہیں دیا کہ وہ لڑکا کس خاندان سے ہے ؟دادیماں نے اپنا سوال دوہرایا تو میں خیالوں کے جہان سے باہر نکل آیا۔
’’اچھا اچھا۔۔۔ یہ لڑ کا۔۔۔ جگہیش؟۔۔۔ یہ تو پنڈتوں کا بیٹا ہے دادی ماں۔۔۔‘‘ میں نے بدلے ہوئے معاشرتی حالات اورگھر کی ضرورت کے پیشِ نظر خوبصورتی سے جھوٹ بول دیا۔
٭٭٭
تبصرہ و تجزیہ
سفید نہیں! خوبصورت جھوٹ۔۔۔!
ریحان کوثر:
کچھ سال پہلے کی بات ہے میں پاس کی مسجد میں وضو کر رہا تھا تبھی پاس بیٹھے بزرگ پر میری نظر گئی۔ میرے وضو کرنے تک وہ نل کو اچھی طرح دھوتے رہے۔ اتنی دیر تک انھوں نے یہی کیا کہ پہلے نل دھوتے، پھر ہاتھ دھوتے۔ ہاتھ دھو کر دوبارہ نل دھوتے اور اس کے بعد پھر ہاتھ۔۔۔!! میرے ٹوکنے پر بولے،
”پتا نہیں کس کس نے ہاتھ لگایا ہوگا۔“
میں نے کہا، ”ہوگا کوئی مسلمان!“ تو کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگے۔ یہ ’ستیہ گھٹنا‘ میں نے کیوں بتائی۔۔۔ بتاتا ہوں!
ملکیت سنگھ مچھانا صاحب کی ملکیت ’خوبصورت جھوٹ‘ زیر نظر ہے اور اب اس ملکیت میں ہم سب حصے دار ہیں۔ اوپر کہیں میں نے پڑھا کسی نے شاید افسانے کا نام خوبصورت جھوٹ کی جگہ سفید جھوٹ لکھ دیا ہے وہ بھی ایک نہیں دو تین مرتبہ! سفید جھوٹ اور خوبصورت جھوٹ میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا کالے ہاتھی اور سفید ہاتھی میں ہوتا ہے۔ اب سفید ہاتھی اور کالے ہاتھی میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ جی! بالکل اتنا جتنا غیر اردو افسانہ نگار اور غیر مسلم افسانہ نگار میں ہوتا ہے۔ اب اتنا کچھ ہوتا ہے تو ہم بھی اکثر ادب میں بے ادبی کرنے لگتے ہیں اور ترکاری میڈیا (سرکاری میڈیا کا اپڈیٹیڈ ورژن) کی طرح مسلم غیر مسلم کرنے لگتے ہیں۔ اب یہاں کوئی حکومتیں تو بن نہیں رہیں اور نہ ہی وزارتیں بانٹیں جا رہی ہے کہ سنگھ صاحب اقلیت میں ہیں تو انھیں مائنورٹی منسٹر ہی بنا دیا جائے۔ سنگھ صاحب کا شمار محبان اردو میں ہوتا ہے تبھی تو آپ اس بزم میں ہیں۔ سنگھ صاحب کی مادری زبان اردو نہیں، جس طرح مہا بھارت میں کسی نے اپنے گرو کا مجسمہ سامنے رکھ کر تیراندازی سیکھی تھی، اس بھارت میں ہمارے ملکیت سنگھ صاحب نے سامنے ریڈیو رکھ کر اردو سیکھی ہے۔ اللہ کا شکر ہے ریڈیو انگوٹھا نہیں مانگتا۔ اب مہا بھارت میں گروجی نے انگوٹھا کیوں مانگا یہ بات بھی اسی افسانے سے تعلق رکھتی ہے۔
اب آتے ہیں کہانی نما اوپر پیش کی گئی میری تمہید پر۔ چھوت چھات ذات پات کے نظام بہت پرانے ہیں۔ یہ بیماری ہم میں نہیں! تم لوگوں میں ہی ہے۔۔۔! دراصل یہ کہنا بھی ایک بیماری ہے! کوئی سماج یا سماج کا ٹکڑا اس بیماری سے اچھوتا نہیں۔ ہاں شکلیں ضرور بدل جاتی ہے مگر ہم سب میں اس کے جرثومے کہیں نہ کہیں اندر تک موجود ہے۔
ملکت سنگھ صاحب نے صدیوں پرانے موضوع کو اٹھایا ہے۔ اصل میں یہ موضوع نہیں شیطان کی آنت ہے۔ پتا نہیں کب تک اسے اٹھانا ہوگا۔ موضوع پرانا ضرور ہے مگر اٹھانا بھی ضروری ہے۔ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ پہلے اچھوت صرف مقامی ہوتے تھے۔ اب بہار اور اتر پردیش وغیرہ سے ’بھیا‘ ایمپورٹ کیے جاتے ہیں جو ڈبل اچھوت ہوتے ہیں۔ موجودہ لاک ڈاؤن میں ان جیسوں پر اپڈیٹیڈ اور نئی ورژن کی زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح صوبہ پنجاب سے ہی نہیں ملک بھر سے مقامی ’پارس‘ امریکہ کینیڈا اور یورپ ایکسپورٹ ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ وہاں جاکر ہائی کوالٹی اچھوت بن رہے ہیں۔
افسانے کی دادی اور جگدیش یہ دونوں طرح کے لوگ ہمارے سامنے اپڈیٹیڈ ورژن میں آتے رہیں گے۔ جیسے دادی زیرو پوائنٹ ٹو، دادی زیرو پوائنٹ تھری وغیرہ وغیرہ۔ اس بیماری کو کم کرنے کے لیے ہمیں راوی کی طرح خوبصورت جھوٹ بولنا ہوگا سفید جھوٹ نہیں! اس افسانے کو ستارے دینا ہو تو پانچ میں سے ڈھائی ستارے دوں گا۔ ایک پنجاب کی سوندھی خوشبو کے لیے ایک بیانیہ اور خوبصورت اردو کے لیے اور آدھا کہانی کے لیے۔
اس افسانے کے لیے ملکیت سنگھ صاحب کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔ امید ہے سنگھ صاحب کی جانب سے پنجابی رنگ میں رنگے مزید اردو افسانے پڑھنے کے لیے ملیں گے۔
٭٭٭
0 Comments