افسانہ : جذبات کے دائرے
افسانہ نگار : نورالامینس
تعارف:
مہاراشٹر کے ایک اہم ادبی شہر پربھنی سے نورالامین اردو کے جانے مانے افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں کے ساتھ ساتھ آپ کی دلچسپی ڈراما اور تنقید نگاری میں بھی ہے نیز آپ نے مراٹھی اور انگریزی کی کئی اہم تخلیقی و غیر تخلیقی تحریروں کو اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ کی تحریریں اردو کے معیاری رسالوں میں شایع ہوتی ہیں جن میں شاعر، سب رس، بے باک، اسباق، قومی محاذ، منشا (پاکستان ) اور روشنی (لندن ) قابل ذکر ہے۔ اسی طرح آپ کے کئی افسانے آل ریڈیو آکاشوانی کے مختلف اسٹیشنوں سے نشر ہوئے۔ موصوف نے معروف فلم رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر کی شخصیت اور فن پر پی ایچ پی کا مقالہ لکھا ہے۔ آپ کی کل 11 کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں جن میں افسانوی مجموعہ "بند آنکھوں کے سپنے اسی طرح تحقیق و تنقید پر" بہت مشکل ہوتا ہے شجاع ہونا" اور" اردو ڈراما ایک مطالعہ " قابل ذکر ہے۔
آپ پیشہ معلمی سے وابستہ ہیں اور شاردا مہا ودیالیہ، پربھنی کے شعبہ اردو میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر برسرِ کار ہیں۔
انعام و اعزاز:
راہی معصوم رضا ایوارڈ (حرف زار اردو لٹریری سوسائٹی، علی گڑھ )
افتخار اسالیب (حرف زار اردو لٹریری سوسائٹی، علی گڑھ )
پیش کردہ افسانہ 'جذبات کے دائرے ' موصوف کے افسانوی مجموعے 'بند آنکھوں کے سپنے' سے ماخوذ ہے۔
وسیم عقیل شاہ
افسانہ: جذبات کے دائرے
افسانہ نگار: نورالامین
مبصر: ریحان کوثر
ڈاکٹر نورالامین کا زیر نظر افسانہ ’جذبات کے دائرے‘ ایک مطبوعہ افسانہ ہے جو ڈی ٹی پی، پروف ریڈنگ کے بعد طباعت و اشاعت کے مرحلے سے گزر کر ان کے افسانوی مجموعے ’بند آنکھوں کے سپنے‘ کی زینت بن چکا ہے۔ موصوف نے ہی اگر یہ افسانہ منتظمین کو دیا ہے تو ضرور یہ ان کا بہترین افسانہ ہوگا۔۔۔ خیر! تعارف سے پتہ چلا کہ ان کا بھی تعلق ہمارے ہی صوبے مہاراشٹر سے ہے۔
افسانے میں سمیر کا تعلق کس مذہب سے ہے یہ صاف صاف نہیں بتایا گیا ہے۔۔۔! خیر! یہ دونوں میاں بیوی کس شہر یا گاؤں کے ہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے۔۔۔ خیر! یہ ہندوستان کے کسی علاقے میں تو ضرور رہتے ہیں جہاں شوہر کا معلوم نہیں ایسا کیا کام یہ کہ اسے منریگا مزدوروں سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے اور شوہر کے اوپر بے انتہا ذمہ داری ہے۔ سمیر کی بیوی کی زندگی کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے مگر انھیں اولاد کسی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ پھر ایک دن سمیر فیمیلی پلانگ کا آپریشن کروا کر گھر جلدی آجاتا ہے تو بیوی سمیر کے لیے مایوس تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سمیر کے فیصلے کو درست تسلیم کرتی ہے اور اپنے نہیں ہونے والی اولاد کے لیے خوش ہو جاتی ہے بلکہ گدگدا جاتی ہیں۔ نہیں ہونے والی اولاد کے لیے اتنی فکر و نظر دیکھ کر اچھے اچھے والدین شرما کر پانی پانی ہو جائے۔ اور یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو جائے کہ کیا سچ میں یہ دنیا اتنی خراب ہے؟؟؟
مطلب اگر سمیر کی بیوی کو اولاد ہو بھی جائے اور اگر اس کے دل و دماغ میں یہ ڈر بیٹھ جائے کہ بچہ گھر سے باہر نکلا کہ حادثے میں اس کا مرنا لازمی ہے۔ تو شاید وہ اسے پیدا تو کر لے لیکن سڑک پر ہرگز نہیں جانے دے گی۔۔۔ آپ ایسے خدشات سوچتے جائیں اور یہ بھی سوچتے جائیں کہ سمیر کی بیوی کیا کیا کرے گی اور کیا کیا نہیں کرے گی۔۔۔ خیر!
افسانے کے ایک ہزار مقاصد میں سے ایک مقصد پیغام بھی ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ قاری کو اس سے کیا پیغام ملا؟ بٹوین دا لائن کو ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو میرے خیال سے سمیر مسلم ہو یا غیر مسلم قاری اس پیغام کو قبول کر لے تو یہ افسانے کی کامیابی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دونوں کرداروں کی کردار نگاری درست ہے؟ سمیر کی بیوی کی انگریزی آمیز فلسفیانہ اور عالمانہ گفتگو سے احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت پڑھی لکھی ہیں۔ یہ کسی پی ایچ ڈی اسکالر کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ سمیر کا کردار بھی ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ اور اس افسانے میں سب سے کم کام راوی کا نظر آیا کیوں سارے افسانے پر سمیر کی بیوی کی انگریزی آمیز فلسفیانہ گفتگو چھائی ہوئی تھی۔۔۔ خیر! ڈاکٹر شہروز خاور، بھائی عمران جمیل اور انور مرزا صاحباں کی تقریباً تمام باتوں سے متفق ہوں اور دہرانا مناسب نہیں۔ ہو سکتا ہے اس افسانے میں between the lines بہت سی باتیں اور راز پوشیدہ ہوں جو مجھ جیسے کم فہم کو سمجھ نہ آئی ہو!!! خیر!
بزم افسانہ میں اس افسانے کی پیش کش پر افسانہ نگار ڈاکٹر نورالامین صاحب کو مبارکباد۔
✍ ریحان کوثر
0 Comments